عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق بالکل صحیح ہے جمہور محدثین کی یہی تحقیق ہے ، بلکہ بعض محدثین نے تو اس طریق کے دفاع میں رسالے بھی تالیف کئے ہیں۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
رأيت احمد بن حنبل وعلي بن المديني وإسحاق بن راهويه والحميدي وأبا عبيد، وعامة أصحابنا يحتجون بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، ما تركه أحد من المسلمين [تهذيب التهذيب لابن حجر: 24/ 49 وانظرالتاريخ الكبير للبخاري : 6/ 343]۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
وَأَمَّا أَئِمَّةُ الْإِسْلَامِ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ إذَا صَحَّ النَّقْلُ إلَيْهِ[مجموع الفتاوى: 18/ 8]۔
امام مزي رحمه الله (المتوفى742)نے کہا:
فدل ذلك على أن حديث عَمْرو بن شعيب عَن أبيه ، عن جده صحيح متصل إذا صح الاسناد إليه ، وأن من ادعى فيه خلاف ذلك ، فدعواه مردودة[تهذيب الكمال للمزي: 12/ 536]۔
امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
وَأَكْثَرُ النَّاسِ يَحْتَجُّ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ إذَا كَانَ الرَّاوِي عَنْهُ ثِقَةٌ [نصب الراية للزيلعي: 1/ 58]۔
امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى:804)نے کہا:
وَلَكِن الْجُمْهُور وَالْأَكْثَرُونَ عَلَى الِاحْتِجَاج بِهِ ، كَمَا قَالَه الشَّيْخ تَقِيّ الدَّين بن الصّلاح فِي كَلَامه عَلَى الْمُهَذّب ، وَهُوَ كَمَا قَالَ ، فقد قَالَ البُخَارِيّ : رَأَيْت أَحْمد بن حَنْبَل وَعلي بن الْمَدِينِيّ وَإِسْحَاق بن رَاهَوَيْه يحتجون بِحَدِيث عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده . قَالَ البُخَارِيّ : مَن النَّاس بعدهمْ ؟ .[البدر المنير لابن الملقن: 2/ 148]۔
معلوم ہواکہ جمہورمحدثین کے نزدیک یہ طریق بالکل صحیح ہے۔
رہی تعویذ والی مذکورہ روایت تو یہ ضعیف ہی ہے کیونکہ
عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کے طریق سے نیچے ہی علت موجود ہے ،سب سے پہلے یہ روایت مع سند ومتن ملاحظہ ہو:
امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ ". فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ.[سنن الترمذي 5/ 542 رقم 3528 ].
عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔
ساری کتابوں میں یہ روایت ایک ہی سند سے نقل کی گئی ہے اوراس میں محمدبن اسحاق راوی ہے جس نے عن سے روایت کیا ہے اوریہ مدلس ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
امام عقیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
حَدَّثَنِي الْخَضِرُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ؟ قَالَ: هُوَ كَثِيرُ التَّدْلِيسِ جِدًّا[الضعفاء الكبير للعقيلي 4/ 28 وسندہ صحیح، و الحضربن داود عندی ثقۃ]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يدلس على الضعفاء فوقع المناكير في روايته من قبل أولئك [الثقات لابن حبان 7/ 383]۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
ويدلس في حديثه [تاريخ بغداد 2/ 21]۔
امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
محمد بن إسحاق وهو مدلس[مجمع الزوائد:10/ 27]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے طبقات المدلسین کے چوتھے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم وصفه بذلك أحمد والدارقطني وغيرهما[تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ص: 51]
مذکورہ بالا تمام اقوال کاخلاصہ یہ کہ محمدبن اسحاق معروف مشہورمدلس راوی ہیں اوراصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ معروف مدلس کا عنعنہ مردود ہوتاہے، یعنی وہ جس روایت کو عن سے روایت کرے وہ روایت ضعیف ونامقبول ہوتی ہے۔
اورمذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں محمدبن اسحاق کے سماع کی تصریح نہیں ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
اورجہاں تک تعلق ہے ’’تعویذ اوردم ‘‘ کے مولف کی مذکورہ تحریرکا تو ہمیں ان کی پوری پڑھ کرقطعا یہ نہیں لگتا کہ مؤلف نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے بلکہ مؤلف نے عمرو بن شعيب سے متعلق محض بعض کی جرح نقل کی ہے اور یہ بتلانا چاہا ہے کہ بعض کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے۔
اسی طرح آگے چل کر مؤلف نے ابن اسحاق کے حوالہ سے بھی کہا کہ ان پر حنفیہ کہ جرح مشہور ہے اس سے مؤلف کا مقصود یہ ہے کہ احناف کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے ۔
الغرض مؤلف کی عبارت سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس روایت کی صحت کا اختلاف بتلارہے یعنی یہ کہہ رہے کہ کہ بعض کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہوگی لیکن مولف خود اپنی یہ تحقیق نہیں پیش کررہے ہیں کہ ان کی نظر میں یہ روایت ثابت نہیں یا
عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده کا طریق ان کی تحقیق میں ضعیف ہے۔
پھر اختلاف کی طرف اشارہ کرکے آگے کہتے ہیں کہ اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کا یہ جواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔الخ
اورپھر صفحہ نمبر ١١ پر لکھتے ہیں:
اورکم ازکم صحابی مذکور کے عمل سے اتنا تو معلوم ہوا کہ تعویذ معصوم بچوں کو پہنایا جاسکتا ہے ، بڈھے طوطوں کو نہیں ، گو حدیث کی روشنی میں بندہ اس کا بھی قائل نہیں [تعویذ اوردم قران وسنت کی روشنی میں :ص 13].
ان تمام باتوں کو پڑھ یہ مستفاد ہوتا ہے کہ مولف نے اس روایت کے درجہ پر اپنی کوئی تحقیق پیش نہیں کی ہے ۔
اورفرض کرلیں کہ انہوں نے اپنی کوئی تحقیق پیش کی ہے اوردوسرے نے ان سے الگ تحقیق پیش کی ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ مسلک پرستی میں متضاد موقف اپنایا جارہا ہے ، کیونکہ دنوں تحریریں الگ الگ عالم کی ہیں نہ کہ ایک ہی شخص کی ۔
اگرایک ہی شخص ایک مقام پر کچھ کہے اوردوسرے مقام پر اس کے بالکل برعکس کہے اوردونوں جگہوں پر اپنا مسلک ثابت کرنا مقصود ہو تو اس شبہہ کی گنجائش ہے لیکن جب اختلاف دو الگ الگ عالموں میں ہو تو یہاں بھی تضاد دکھلا کر مسلک پر ستی ثابت کرنا بالکل مضحکہ خیزہے۔