اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
![](http://sphotos-e.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-ash3/941876_308510712616135_707765756_n.jpg)
(محمد حسین میمن)
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ Č﴾ (الحجرات: ۶)
ترجمہ: (اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔)
مفسرین نے اس آیت کے تحت سیدنا ولید بن عقبہ کا واقعہ ذکر فرمایا ہے، جس سے کئی طعنہ دینے والوں نے یہ الزام ٹھہرایا ہے کہ سیدنا ولید بن عقبہ کو قرآن نے فاسق کہا ہے۔ (العیاذ باللہ) ہم اس روایت پر اصولی اور نتیجہ خیز گفتگو سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر چند سطریں روشنی ڈالیں گے پھر اس کے بعد اس روایت کی تحقیق اور اس سے صحیح نتیجہ کو قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔
صحابی کی تعریف:
شیخ الاسلام نے امام احمد بن حنبل کا قول نقل فرمایا کہ:
﴿من صحب النبی ﷺ او شھرا او یوما او ساعة اوراہ مؤمنا بہ فھو من اصحابہ لہ من الصحبة علی قدر ما صحبہ وھذا قول جماھیر العلماء من الفقھاء واھل الکلام وغیرھم﴾
ترجمہ: ( جس شخص کو بھی حالت ایمان میں نبی کریم ﷺ کی صحت حاصل ہوئی خواہ وہ صحبت ایک سال ہو ای ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی ہو وہ اپنی صحت کے لحاظ سے آپ کا صحابی ہے۔ جمہور علماء فقھاء اور متکلیمن وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔
(منھاج السنة، ج۴، ص۲۴۳)
امام ابن الصلاح نے صحابی کی کچھ یوں تعریف فرمائی:
﴿ان کل مسلم رای رسول اللہ ﷺ فھو من الصحابة﴾ (علوم الحدیث ،ص ۳۹۴)
ترجمہ: ( جس مسلمان نے (ایمان کی حالت میں) رسول اللہ ﷺ کو دیکھا پس وہ صحابی ہے۔ )
حافظ ابن حجر نے مزید وضاحت کے ساتھ صحابی کی کچھ اس طرح سے تعریف فرمائی:
﴿ان الصحابی: من لقی النبی ﷺ مومناً بہ، ومات علی الاسلام فیدخل فیہ من لقیہ من طالت مجالستہ لہ اٴو قصر تومن روی عنہ اولم یرو، ومن غزامعہ اولم یغز ومن راہ رؤیة ولو لم یجالسہ ومن لم یرہ لعارض کالعمی﴾
ترجمہ: (صحابہ وہ ہے جس نے نبی کریم ﷺ پر ایمان لاتے ہوئے آپ سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی اس کی وفات ہوئی ہو۔ اس تعریف میں وہ شخص بھی داخل ہے جس نے آپ سے ملاقات کی اور صحبت اگرچہ کم ملی ہو یا زیادہ۔ اور وہ شخص جس نے آپ سے کچھ بیان کیا یا نہ کیا اور وہ جس نے آپ کے ساتھ غزوہ کیا یا نہ کیا اور جس نے آپ کو صرف ایک بار ہی دیکھا ہو اگرچہ اسے آپ کے ساتھ بیٹھنے کا شرف نہ بھی ملا ہو۔ اسی طرح صحابی کی تعریف میں وہ بھی شخص داخل ہے جو کسی عارضے کی وجہ سے آپ کو نہ دیکھس کا ہو، جیسے کہ نا بینا ہو۔ ) (مقدمة الاصابة الفصل الاول فی تعاریف الصحابی ۹/۱)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ جن سے اللہ راضی:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18ۙ﴾
ترجمہ: (یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ ﷺ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اللہ نے اسے معلوم کر لیا پس ان پر سکونت نازل کر دی اور انہیں بدلے میں ایک قریبی فتح عطا فرمائی۔)
مندرجہ بالا آیت نے ایمان والوں سے راضی ہونے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ ایمان والے کون تھے؟ بلاشبہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہی تھے جن کے بارے میں رضاء الہٰی کا اعلان ہوا یہ وہ آسمان کے چمکتے ہوئے ستارے اور مشعلہ راہ ہیں جو اللہ کو راضی کر چکے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا۔
امت کے سب سے بہترین اور برگزیدہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
﴿خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم یجیء اقوام تسبق شھادة اٴحدھم یمینہ ویمینہ شھادة ﴾ (صحیح بخاری کتاب الشھادات، رقم ۶۲۵۶)
ترجمہ: (جب تم کسی آدمی کو اصحاب رسول میں سے کسی ایک کے مقام و مرتبہ میں کمی کرتا ہوا دیکھو تو جان لو وہ پکا زندیق ہے۔ )
سیدنا ولید بن عقبہ بن ابی معیط:
اہل علم نے الولید بن عقبہ کا نسب کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے:
﴿الولید بن عقبة بن ابی معیط اٴبان بن ابی عمرو ذکوان بن اٴمیة بن عبد شمس بن عبد مناف الاموی﴾
سیدنا ولید بن عقبہ اور ان کے بھائی عمارة ’’الفتح‘‘ کے دن ایمان لائے۔
(الاصابة لابن حجر رقم ۹۴۵۸، الاستیعاب لابن عبدالبر رقم ۲۷۵۹، اسد الغابة لابن اثیر رقم ۵۴۷۵)
ولید بن عقبہ کا وہ واقعہ جن کے سبب بعض مطعون نے انہیں فاسق قرار دیا:
امام احمد بن حنبل نے اس واقعہ کو تفصیلاً اپنی مسند میں ذکر فرمایا ہے:
سیدنا حارث بن فرار فزاعی فرماتے ہیں؛
﴿قال: قدمت علی رسول اللہ ﷺ فدعانی الی الاسلام ، فدخلت فیہ، واٴقررت بہ۔۔۔﴾ (مسند احمد بن حنبل ،ج ۳۰، ص ۴۰۳، رقم الحدیث ۸۴۵۹)
ترجمہ: (میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہوگیا۔ پھر آپ نے زکوة کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم کے پاس جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوة ادا کریں میں ان کی زکوة جمع کرتا ہوں۔ اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیں میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوة آپ کی خدمت میں بھجوادوں گا۔ سیدنا حارث نے واپس آکر یہی مال زکوة جمع کیا جب وقت مقررہ گزر چکا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو نا ممکن ہے کہ اللہ کے رسول اپنے وعدے کے مطابق اپنا آدمی نہ بھیجیں ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ہم سے ناراض نہ ہوگئے ہوں؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوة لینے کے لیے نہ بھیجا ہو، اگر آپ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ منورہ چلیں اور آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہ تجویز طے پاگئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوة لے کر چل کھڑے ہوئے۔ ادھر سے رسول اللہ ﷺ ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے۔ لیکن یہ حجرات راستے میں ہی ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہہ دیا کہ حارث نے زکوة بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہوئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ ناراض ہوئے اور کچھ آدمی حارث کی تنبیہ کے لیے روانہ فرما دیے۔ مدینے کے قریب راستے میں ہی اس مختصر سے لشکر نے حضرت حارث کو پالیا۔ سیدنا حارث نے پوچھا آخر کیا بات ہے؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو؟ انہوں نے آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد ولید کو زکوة نہ دی بلکہ انہیں قتل کر نا چاہا۔ حارث نے فرمایا قسم ہے اس رب کی جس نے محمد ﷺ کو سچا بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا، چلو میں تو خود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہاں جو آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تم نے زکوة بھی روک لی اور میرے آدمی کو قتل کرنا چاہا۔ آپ نے جواب دیا ہر گز نہیں یا رسول اللہﷺ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انہیں دیکھا ہے اور نہ ہی وہ میرے پاس آئے، بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا۔۔۔۔۔۔ Č﴾
(الحجرات: ۶)
اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔۔۔۔ حکیم تک نازل ہوئی۔
مندرجہ بالا حدیث سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ قرآن مجید میں جو ’’فاسق ‘‘ کہا گیا ہے وہ ولید بن عقبہ کو کہا گیا ہے۔ ۔۔ یہ بات کئی وجوہات کی بناء پر غلط ہے۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعہ مسند احمد کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے ، اس کی سند کمزور ہے جس کی دو وجوہات ہیں:
سند میں محمد بن سابق ہے جو ضعیف ہے۔
دینار کے والد عیسٰی مجھول ہے۔
محمد بن سابق التمیمی:
قال یحییٰ بن معین : ضعیف۔
قال ابو حاتم لا یحتیج بہ۔
وقال یعقوب بن شیبة : ولیس ممن یوصف بالضبط للحدیث۔
(تھذیب التھذیب ،ج۷، ص۱۶۳، تھذیب الکمال للمزی،ج۲۵،ص۶۳۳، تاریخ الکبیرللبخاری الترجمة ۳۱۲، الجرح والتعدیلالترجمة ۱۵۲۸)
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ محمد بن سابق متکلم ہیں۔
دینار الکوفی والد عیسٰی مولی عمرو بن الحارث بن ضرار:
عیسٰی کے والد دینا الکوفی مجہول ہیں ان کے حالات محدثین رحمہم اللہ نے ذکر نہیں کیے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
﴿مجمول: تفرد بالروایة عنہ ابنہ عیسٰی بن دینار، ولم یوثقہ سوی ابن حبان، لذالک ذکرہ الذھبی فی المیزان﴾ (تحریر تقریب التھذیب، ج۱، ص۳۸۶)
یعنی عیسٰی کے باب دینار مجھول ہیں، سوائے ابن حبان کے کسی نے ان کی توثیق نہیں کی، اسی لیے ذھبی نے انہیں میزان میں ذکر فرمایا ہے اور نام کے ذکر کے بعد کچھ نہ لکھا جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ دینار امام ذھبی کے نزدیک بھی مجھول ہیں اور جہاں تک تعلق ہے امام ابن حبان کی تو انہوں نے بسا اوقات تساھل سے کام لیا ہے جس کو اہل علم بخوبی جانتے ہیں، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابن حبان نے صرف وہاں ان کے نام کو ذکر فرمایا ہے فقط۔
(الثقات لابن حبان رقم ۲۵۸۹)
لہٰذا دینار الکوفی مجھول ہیں، شعیب ارنووط نے بھی انہیں مجھول کہا ہے اور مزید فرماتے ہیں ’’قال ابن المدینی لا اعرف‘‘۔ (حاشیة مسند احمد ،ج۳۰،ص۴۰۵)
بالکل اسی طرح ایک اور روایت امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر میں ذکر فرمائی ، لیکن اس کی سند میں محمد بن سابق ہیں اور عیسٰی بن دینار جن پر کلام گزر چکا ہے۔
(معجم الکبیر للطبرانی، ج۳، رقم الحدیث ۳۳۹۵)
ایک اور روایت معجم الکبیر میں موجود ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔سند میں یعقوب بن حمید بن کاسب ہے، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:
﴿رواہ الطبرانی باسنادین فی احدھما یعقوب بن حمید بن کاسب وثقة ابن حبان وضعہ الجمہور وبقیة رجالہ ثقات﴾ (مجمع الزوائد،ج ۷، ص۱۱۰)
ترجمہ: (اس روایت کو امام طبرانی نے دو اسناد کے ساتھ ذکر فرمائی ہیں ان میں ایک یعقوب بن حمید کی روایت ہے جسے ابن حبان نے ثقہ اور جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔)
یعقوب بن حمید کے بارے میں امام حاتم فرماتے ہیں’’ضعیف الحدیث‘‘۔
امام نسائی فرماتے ہیں ’’لیس بشئ ، لیس بثقة‘‘۔
﴿وقال الدوری عن ابن معین: لیس بشئ لیس بثقة﴾
(تھذیب التھذیب ،ج۹، ص۴۰۷)
لہٰذا یعقوب بن حمید کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کے علاوہ امام البیھقی نے بھی اس روایت کو ’’السنن الکبری ‘‘ میں ذکر فرمایا ہے، مگر اس کی سند میں الحسین بن حسن بن عطیہ العوفی ہیں۔ ان کے باپ دادا ضعیف ہیں۔ لہٰذا اکثر روایات میں ضعف موجود ہے۔ بالفرض اگر یہ روایت حسن درجے تک بھی پہنچ جائے تب بھی اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آیت ’’ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ ‘‘ سیدنا ولید کے لیے نازل ہوئی یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ آیت مبارکہ میں ولید کا نام نہیں لیا گیا کہ انہیں فاسق قرار دیا جائے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ امام الرازی فرماتے ہیں:
﴿ان اللہ تعالیٰ لم یقل انی انزلتھا لکزا، والنبی ﷺ لم ینقل عنہ انہ بین ان الایة وردت لبیان ذالک فحسب ۔۔۔﴾ (التفسیر الکبیر، ج۲۷، ص۱۰۲)
ترجمہ: (یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ( یہ آیت ’’يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ ۔۔۔الآیة‘‘) ولید بن عقبہ کے لیے نازل کی ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ سے یہ منقول ہے۔)
اگر غور کیا جائے اور اس ماحول کی طرف دیکھا جائے تو بغور مطالعہ اور دقیق نظر رکھنے والے کو یہ بات واضح معلوم ہو جائے گی کہ ولید کے علاوہ دوسرے صحابہ کو بھی تحقیق کے احکامات کی طرف توجہ دلانا مقصود تھی۔ کیونکہ عین ممکن ہوتا کہ مسلمانوں کو یا مسلمانوں کے قاصد کو کوئی بھاری نقصان پہنچتا یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ نئے جو مسلمان ہو رہے تھے ان کے لیے کسی زبردست شر کا کوئی پہلو سامنے آتا۔ بالغرض آیت مبارکہ عام ہے۔ لہٰذا اس نے تمام شر اور نقصانات کے پہلو کے دروازے بند کر دیے۔۔۔۔ اب مندرجہ بالا آیت کو صرف صحابی رسول ولید پر چسپاں کرنا ظلم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ صحابہ سارے کے سارے ہدایت یافتہ ہیں اور فاسق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ Č﴾ (المنافقون: ۶)
ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔)
غور طلب بات ہے کہ فاسق گمراہ ہوتا ہے، اور صحابی رسول ہدایت یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی شخص کو قرآن نے ہدایت والا بھی کہا اور اسی کو فاسق بھی؟؟؟ اسی لیے امام الرازی فرماتے ہیں: ’’ولید پر فسق کا بہتان لگانا وھم، خطا اور بدگمانی کا نتیجہ ہے۔ (التفسیر الکبیر، ج۲۸،ص۱۰۳)
اس واقعہ پر غور کرنے سے ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا ولید بن عقبہ نے غلط بیانی سے ہرگز کام نہیں لیا، بلکہ ان کو اجتھاد میں غلطی ہوگئی۔
ابن عادل الحنبلی فرماتے ہیں:
﴿کان بینہ وبینھم عداوة فی الجاھلیة فلما سمع بہ القول تلقوہ تعظیما لامر رسول اللہ ﷺ فحثہ الشیطان انھم یریرون قتلہ۔۔۔﴾ (اللباب، ج۱۷،ص۵۳۰)
سیدنا ولید بن عقبہ اور اس قبیلہ والوں کے درمیان (جن سے ولید کو زکوٰة وصول کرنے کا حکم دیا گیا ) جاہلیت میں عداوت تھی، جب انہوں نے ولید سے ملاقات کرنی چاہی نبی ﷺ کے حکم کی تعظیم میں تو شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ لوگ ولید کو قتل کر دیں گے۔۔۔۔۔
لہٰذا یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے صحابی کو اجتہاد میں غلطی ہوئی، حالانکہ ان لوگوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ان کا استقبال کرنا چاہا۔ مگر انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ لوگ ان کے قتل کے درپے ہیں۔ جب یہ لوگ (بنی مصطلق )نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم! ہم ہر گز ان کے قتل کے درپے نہ تھے۔ (احکام القرآن للقرطبی ،ج۸،ص۲۲۴)
اس تمام گفتگو اور دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ اولین ان روایات میں ضعف ہے۔۔۔ نمبر ۲ ۔ اگر کچھ محدثین نے تصریح کی ہے صحت کی تب بھی طعن کرنے والوں کا مقصد حل نہیں ہوتا۔ کیونکہ سیدنا ولید بن عقبہ نے جو اجتہاد کیا تھا اس میں غلطی واقع ہوئی اور اجتہاد کی غلطی سے آدمی فاسق ہر گز نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے اجتہاد میں اجر کا مستحق قرار دیا جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿اذا احکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران، اذا حکم فاجتھد ثم اٴخطاٴ فلہ اجر۔﴾ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام، رقم الحدیث ۷۳۵۲)
ترجمہ: (جب حاکم اجتہاد کرے اگر صحیح اجتہاد ہوگا تو دو گنا اجر ہوگا اگر خطا ہوگی تو ایک اجر ہوگا۔ )
لہٰذا یہ ولید بن عقبہ کا اجتہاد تھا اور وہ ایک اجر عنداللہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ ہر صاحب ایمان کو صحابہ کرام سے محبت رکھنی چاہیے اور اپنے گمان کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف رکھنا چاہیے۔ یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔
ولید بن عقبہ کے بارے میں ایک روایت کا جائزہ:
﴿۔۔۔ عن ابن موسی ، عن الولید عقبة: لما فتح النبی ﷺ مکة جعل اھلہ مکة یجسیئونہ بصیانھم فیمسح رودسھم ولم یمسح راسی ولم یمنعہ الا اٴن امی خلقتنی بخلوق ما ادری کیف ھو؟﴾ (التاریخ الاوسط للبخاری، ج۱، ص۶۰۵)
ترجمہ: (ولید بن عقبہ فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو اھل مکہ اپنے بچوں کو نبی کریم ﷺ کے پاس لاتے اور آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اور آپ نے میرے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا۔۔۔۔)
اس روایت سے بعض مطعون لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بچپن میں بھی ولید بھی عقبہ پر شفقت کا ہاتھ نہیں پھیرا۔
یہ روایت بھی پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ سند میں ابو مسی الھمدانی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عبداللہ الھمدانی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ ابو موسیٰ الھمدانی ہے اور وہ مجھول ہے۔ لہٰذا یہ روایت بھی منکر اور مضطرب ہے۔
(تفصیل کے لیے: الضعفاء الصغیر للبخاری، رقم ۱۹۹، الضعفاء للعقیلی ۳۱۹/۷، الجرح والتعدیل رقم ۲۱۹۹)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سیدنا ولید بن عقبہ ان الزامات اور اتہامات سے بری ہیں، جو زبردستی ان کی چمکتی پیشانی پر لگائے گئے ہیں۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام صحابہ کی عزت اور توقیر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین