میرے پیارے بھائی عامر ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔<br>ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے ممالک میں کفار نے مسلمانوں پر بہت ظلم کیے ہوئے ہیں ۔ ان کے دینی ، معاشرتی ،سماجی حقوق وغیرہ بھی معطل کیے ہوئے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان کفار نے وہ حقوق جو کہ خود انہوں نے اپنے خوساختہ آئین میں مسلمانوں کو دئیے ہوئے ہیں وہ بھی ظالمانہ طور پر معطل کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن میرے پیارے بھائی کل اگر کفار اس حدیث کو (<span style="font-family: Traditional Arabic;">قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ارموا بني إسماعيل فإن أباكم كان راميا۔۔۔۔</span> (بخارى) تیر اندازی کرو بنی اسماعیل، بے شک تمہارے والدتیر انداز تھے : کفّار پر جہادی نشانہ بازی) کو ہی دشت گردی کا منبع قرار دے دیں جس طرح وہ قرآن مجید کو دہشت گردی کا منبع قرار دیتے ہیں ۔ تو کیا آپ ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلوگے ۔ نہیں میرے بھائی ہرگز نہیں!! اور آپ تو ایسی سرزمین میں ہو جہاں پر غیرت وعزت کے پیکر مجاہد شہید سلطان ٹیپو رحمہ اللہ جیسے ابطال اسلام کا مولد ہے ، جہاں مجاہد دکن سید قاسم رضوی رحمہ اللہ جیسے مجاہد کا مسکن ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بوسنیا اور کوسوو کے مسلمان بھی ہر چیز سے کنارہ کش تھے ۔ لیکن کیا ہوا ان کے ساتھ ۔ وہ آپ کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ سربوں نے محض ان کے مسلمان ہونے کی بناء پر ان کے جان و مال اور عزتوں کو برباد کرکے رکھ دیا ۔ کس چیز نے ان کے جان ومال اور عزتوں کا تحفظ کیا وہ ہے “جہاد فی سبیل اللہ “ اور مجاہدین اسلام کی قربانیاں اسی وجہ سے آج کوسوو اور بوسنیا کے لوگوں کو امن نصیب ہے ۔ آپ تو ٹیپو سلطان رحمہ اللہ ، سراج الدولہ رحمہ اللہ ، سید اسماعیل شہید رحمہ اللہ ، مجاہد دکن سید قاسم رضوی کی اولاد ہو ۔ آپ ایسی باتیں نہ کرو۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب مجاہدین کے قدم دہلی کی سرزمین کو روند رہے ہوں گے اور انڈیا کے مسلمان اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اور انڈیا کی سرزمین دوبارہ اسلامی شریعت سے منور ہوجائے گی ان شاء اللہ
وعلیکم السلام،
بھائی میں آپ کو پیر کے دن انشاء الله جواب دونگا. ابھی وقت مجھے روک رہا ہے.
الله حافظ
وعلیکم السلام،
بھائی میں آپ کو پیر کے دن انشاء الله جواب دونگا. ابھی وقت مجھے روک رہا ہے.
الله حافظ