یہ شاید بہ راہ راست عقیدے کے سوالات نہیں لیکن اس لحاظ سے میرے لئے اہم
ہیں کہ عصر حاضر میں سلف کا عقیدہ اور اکثر مسائل غالبا شیخ الاسلام ابن
تیمیۃ رحمۃ اللہ علیہ سے ہی ماخوذ ہیں۔ یہ میری باتیں یا ذاتی رائے نہیں
الحمد للہ لیکن مخالفین کہ وہ شبہات ہیں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔
مسئلہ اصل عقیدہ کا نہیں ہے الحمد للہ۔ مسئلہ مخالفین کی پھیلائی ہوئی ان
باتوں کا ہے کہ:
1- امام ابن تیمیۃ رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے تفردات ہیں جن کو امت کے اول
سے لے کر آخر تک کسی نے بھی نہیں کہا۔ اور اس میں عقیدے کے بھی بہت سے
مسائل ہیں۔
اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان سے پہلے کسی نے دین کو صحیح
نہ سمجھا ہو۔
تفردات کے سلسلے میں بہت سے فقھی مسائل بھی آتے ہیں جو شاید شیخ الاسلام
رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نہیں لیکن سلفی علماء کی طرف ضرور منسوب ہیں، مثال
کے طور پر
ا) عورت اور مرد کی نماز کے طریقے میں فرق نہ ہونا
ب) تراویح اور قیام رمضان کا ایک ہی ہونا اور آٹھ رکعت ہونا
ج)عام موزوں پر مسح کا صحیح ہونا
د) ایک مجلس کی تین طلاقوں کا ایک ہونا
اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔
یہاں پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ان تمام مسائل میں یہ لوگ
بالکل متفرد ہیں? اور اگر ہیں تو کیا پھر بھی یہ صحیح ہو سکتے ہیں?
2- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر بہت بڑے بڑے علماء نے تنقید کی ہے جن میں
محدثین بھی شامل ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے?
3۔ اہل الحدیث سے مراد (طائفہ منصورہ والی حدیث میں) دادا جان کے مطابق
حدیث کی روایت کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے تو خیر اہل الحدیث کی اصطلاح
اور اس کے موجودہ مفہوم پر بھی طنز کیا ہے۔ اللہ انہیں معاف فرمائیں۔
اور ایک بات یہ کہ ابن حجر اور نووی رحمہما اللہ بھی تو اصحاب حدیث میں
سے تھے، لیکن ان کا عقیدہ بھی غالبا صحیح نہیں تھا?اور انہوں نے خود نہ
صرف اس حدیث کی روایت کی ہے بلکہ تشریح بھی کی ہے۔ اور وہ یقینا اپنے آپ
کو اس جماعت یا طائفہ منصورہ سے خارج نہیں سمجھتے ہوں گے?
4۔ یہ اعتراض ہوں تو زمانہء حال کے ظاہریوں کا ہے لیکن ابو جان کہتے ہیں
کہ اسی قسم کے اعتراضات سلفی خود دیگر لوگوں پر کیا کرتے ہیں سو ان سے یہ
الزامی سوال بھی کیا جا سکتا ہے:
کہ "القرآن کلام اللہ غیر مخلوق" کہنا بدعت ہے کیونکہ یہ لفظ صحابہ کرام
نے استعمال نہیں کیا سو قرآن کو غیر مخلوق کہنا بھی ویسی ہی بدعت ہے جیسا
کہ اس کو مخلوق کہنا، بلکہ وہ صرف کلام اللہ ہے اور اس کے آگے سکوت کیا
جائے چونکہ صحابہ نے سکوت کیا ہے۔
ابو جان کہتے ہیں کہ جس طرح یہ عبارت "القرآن کلام اللہ غیر مخلوق"
گمراہوں کا جواب دینے کے لئے کہی گئی ہے اسی طرح علم الکلام کی مصطلحات
بھی گمراہوں کو جواب دینے کے لئے وضع کی گئیں۔
5۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ پہ بھی اس زمانے کے اکثر علماء
نے یہاں تک کہ ان کے بھائی اور والد نے بھی ان سے خبردار کیا تھا۔
ہیں کہ عصر حاضر میں سلف کا عقیدہ اور اکثر مسائل غالبا شیخ الاسلام ابن
تیمیۃ رحمۃ اللہ علیہ سے ہی ماخوذ ہیں۔ یہ میری باتیں یا ذاتی رائے نہیں
الحمد للہ لیکن مخالفین کہ وہ شبہات ہیں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔
مسئلہ اصل عقیدہ کا نہیں ہے الحمد للہ۔ مسئلہ مخالفین کی پھیلائی ہوئی ان
باتوں کا ہے کہ:
1- امام ابن تیمیۃ رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے تفردات ہیں جن کو امت کے اول
سے لے کر آخر تک کسی نے بھی نہیں کہا۔ اور اس میں عقیدے کے بھی بہت سے
مسائل ہیں۔
اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان سے پہلے کسی نے دین کو صحیح
نہ سمجھا ہو۔
تفردات کے سلسلے میں بہت سے فقھی مسائل بھی آتے ہیں جو شاید شیخ الاسلام
رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نہیں لیکن سلفی علماء کی طرف ضرور منسوب ہیں، مثال
کے طور پر
ا) عورت اور مرد کی نماز کے طریقے میں فرق نہ ہونا
ب) تراویح اور قیام رمضان کا ایک ہی ہونا اور آٹھ رکعت ہونا
ج)عام موزوں پر مسح کا صحیح ہونا
د) ایک مجلس کی تین طلاقوں کا ایک ہونا
اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل ہیں۔
یہاں پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ ان تمام مسائل میں یہ لوگ
بالکل متفرد ہیں? اور اگر ہیں تو کیا پھر بھی یہ صحیح ہو سکتے ہیں?
2- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر بہت بڑے بڑے علماء نے تنقید کی ہے جن میں
محدثین بھی شامل ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے?
3۔ اہل الحدیث سے مراد (طائفہ منصورہ والی حدیث میں) دادا جان کے مطابق
حدیث کی روایت کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے تو خیر اہل الحدیث کی اصطلاح
اور اس کے موجودہ مفہوم پر بھی طنز کیا ہے۔ اللہ انہیں معاف فرمائیں۔
اور ایک بات یہ کہ ابن حجر اور نووی رحمہما اللہ بھی تو اصحاب حدیث میں
سے تھے، لیکن ان کا عقیدہ بھی غالبا صحیح نہیں تھا?اور انہوں نے خود نہ
صرف اس حدیث کی روایت کی ہے بلکہ تشریح بھی کی ہے۔ اور وہ یقینا اپنے آپ
کو اس جماعت یا طائفہ منصورہ سے خارج نہیں سمجھتے ہوں گے?
4۔ یہ اعتراض ہوں تو زمانہء حال کے ظاہریوں کا ہے لیکن ابو جان کہتے ہیں
کہ اسی قسم کے اعتراضات سلفی خود دیگر لوگوں پر کیا کرتے ہیں سو ان سے یہ
الزامی سوال بھی کیا جا سکتا ہے:
کہ "القرآن کلام اللہ غیر مخلوق" کہنا بدعت ہے کیونکہ یہ لفظ صحابہ کرام
نے استعمال نہیں کیا سو قرآن کو غیر مخلوق کہنا بھی ویسی ہی بدعت ہے جیسا
کہ اس کو مخلوق کہنا، بلکہ وہ صرف کلام اللہ ہے اور اس کے آگے سکوت کیا
جائے چونکہ صحابہ نے سکوت کیا ہے۔
ابو جان کہتے ہیں کہ جس طرح یہ عبارت "القرآن کلام اللہ غیر مخلوق"
گمراہوں کا جواب دینے کے لئے کہی گئی ہے اسی طرح علم الکلام کی مصطلحات
بھی گمراہوں کو جواب دینے کے لئے وضع کی گئیں۔
5۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ پہ بھی اس زمانے کے اکثر علماء
نے یہاں تک کہ ان کے بھائی اور والد نے بھی ان سے خبردار کیا تھا۔