محمد یعقوب
رکن
- شمولیت
- اپریل 06، 2013
- پیغامات
- 138
- ری ایکشن اسکور
- 346
- پوائنٹ
- 90
اس پر فتن زمانے میں ہر کوئی انانیت میں گھرا ہوا نظر آتا ہے اور ہر شخص ہی اپنی رائے کو راہ راست اور دوسروں کو غلط بتانے پر تلا ہوا ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا ہر شخص اپنی رائے کو حرف آخر سمجھ نے لگے گا جبکہ دوسری حدیث کا مفہوم کچھ اسطرح ہیکہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک نا خلف اپنے اسلاف کو گالی دیتے ہوئے نظر نہ آجائیں۔
اور بلکل یہی حالت آج ہمارے زمانے میں ہر شخص کی نظر آتی ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے پر تیار ہی نہیں ہر کوئی دوسرے کو مارنے اور کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔
اور تو اور بات یہاں تک پہونچ چکی ہیکہ سلف صالحین کو برے الفاظ میں یاد کیا جارہا ہے اور کوئی انہیں روکنے والا بھی نہیں۔
عام طور پر بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہے کہ علماء جرح وتعدیل بھی تو لوگوں کی برائیاں بیان کرگئے مگر آپکو یہ حقیقت جان کر بہت حیرت ہوگی وہ لوگوں کی صحیح حقیقت بیان کرنے کے بعد بھی ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے تھے اور انہیں یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں کسی کیخلاف ایسی بات نہ نکل جائے جس میں بہتان کا ذرا سا شبہ بھی ہو۔
چنانچہ حضرت ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ کا قصہ ہیکہ وہ ایک دفعہ اپنی شاندار تالیف الجرح والتعدیل کا درس دے رہے تھے کہ کسی عالم نے انہیں حضرت یحی بن معین رحمہ اللہ کا مقولہ سنادیا کہ ہم بعض دفعہ ان لوگوں پر بھی طعن کردیتے ہیں جو دوسو سال پہلے سے ہی جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں راوی کا بیان ہیکہ حضرت ابن ابی حاتم رازی یہ مقولہ سن کر رو پڑے اور راوی سے بار بار یہ تاکید کرنے لگے مجھے یہ مقولہ پھر سناؤ۔
یہ قصہ پڑھ کر آپ حضرات نے یہ اندازہ لگا ہی لیا ہوگا کہ انکی جرح کا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ تو انکو جنتی بھی سمجھتے تھے اسی نیک نیتی کی بنیاد پر اللہ تعالي نے انھیں وہ مقام عطا فرمایا تھا جسکی وجہ سے وہ لوگ آج تک سچے مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
آئے ہم بھی اسی جذبہ کی بنیاد پر ائمہ سلف رحمہم اللہ اجمعین کے ساتھ ادب کو ملحوظ رکھنا سیکھیں۔
اللہ تعالي ہم سب کو خیر کی توفیق اور شر اور بد زبانی بد کلامی سے محفوظ فرمائے۔
نوٹ
بعض حضرات لفظ بد کلامی اور بد زبانی کا اقتباس کرکے اسے ہماری طرف اچھال نے کی کوشش کرینگے امید ہیکہ ایسا شخص پہلے اپنے گریبان میں ضروری جھانک لے۔
اور بلکل یہی حالت آج ہمارے زمانے میں ہر شخص کی نظر آتی ہے کوئی کسی کو برداشت کرنے پر تیار ہی نہیں ہر کوئی دوسرے کو مارنے اور کاٹنے پر تلا ہوا ہے۔
اور تو اور بات یہاں تک پہونچ چکی ہیکہ سلف صالحین کو برے الفاظ میں یاد کیا جارہا ہے اور کوئی انہیں روکنے والا بھی نہیں۔
عام طور پر بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہے کہ علماء جرح وتعدیل بھی تو لوگوں کی برائیاں بیان کرگئے مگر آپکو یہ حقیقت جان کر بہت حیرت ہوگی وہ لوگوں کی صحیح حقیقت بیان کرنے کے بعد بھی ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے تھے اور انہیں یہی ڈر رہتا تھا کہ کہیں کسی کیخلاف ایسی بات نہ نکل جائے جس میں بہتان کا ذرا سا شبہ بھی ہو۔
چنانچہ حضرت ابن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ کا قصہ ہیکہ وہ ایک دفعہ اپنی شاندار تالیف الجرح والتعدیل کا درس دے رہے تھے کہ کسی عالم نے انہیں حضرت یحی بن معین رحمہ اللہ کا مقولہ سنادیا کہ ہم بعض دفعہ ان لوگوں پر بھی طعن کردیتے ہیں جو دوسو سال پہلے سے ہی جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں راوی کا بیان ہیکہ حضرت ابن ابی حاتم رازی یہ مقولہ سن کر رو پڑے اور راوی سے بار بار یہ تاکید کرنے لگے مجھے یہ مقولہ پھر سناؤ۔
یہ قصہ پڑھ کر آپ حضرات نے یہ اندازہ لگا ہی لیا ہوگا کہ انکی جرح کا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ تو انکو جنتی بھی سمجھتے تھے اسی نیک نیتی کی بنیاد پر اللہ تعالي نے انھیں وہ مقام عطا فرمایا تھا جسکی وجہ سے وہ لوگ آج تک سچے مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
آئے ہم بھی اسی جذبہ کی بنیاد پر ائمہ سلف رحمہم اللہ اجمعین کے ساتھ ادب کو ملحوظ رکھنا سیکھیں۔
اللہ تعالي ہم سب کو خیر کی توفیق اور شر اور بد زبانی بد کلامی سے محفوظ فرمائے۔
نوٹ
بعض حضرات لفظ بد کلامی اور بد زبانی کا اقتباس کرکے اسے ہماری طرف اچھال نے کی کوشش کرینگے امید ہیکہ ایسا شخص پہلے اپنے گریبان میں ضروری جھانک لے۔