• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آبادی کا ٹائم بم۔۔۔زمرّد نقوی

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
آبادی کا ٹائم بم
زمرد نقوی پير 12 مئ 2014

اقوام متحدہ نے ایک سروے کیا ہے جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ 2050ء میں آبادی کا تناسب کیا ہو گا اور ہر ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہو گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے لیے مہیب خطرات لا رہی ہے۔ یہ آبادی کا بڑھتا ہوا ٹائم بم ہے۔ یہ خطرہ ہر خطرے سے بڑا ہے لیکن ہم بے خبر ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2050ء تک آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اس وقت سب سے آگے ہے۔ چینی حکومت نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی یعنی فی جوڑا ایک بچہ جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ آبادی2050ء میں ایک ارب 50 کروڑ ہو جائے گی۔ جب کہ دنیا کی آبادی اس سال جولائی میں ساڑھے چھ ارب تک پہنچ جائے گی۔
دنیا کی آبادی اقوام متحدہ کے تخمینے کے تحت 1970ء میں چار ارب سے تھوڑی زائد تھی۔ صرف 44 سال میں اس ڈھائی ارب نفوس کا اضافہ ہو گیا۔ ایک ماہر آبادی کے مطابق اگر کسی ملک کی آبادی میں ایک فیصد سالانہ اضافہ ہوتا ہے تو اس ملک کی آبادی دوگنی ہونے کے لیے تقریباً 70 سال کا عرصہ لگے گا۔ اگر آبادی کی شرح دو فیصد اضافہ ہو تو آبادی 35 سال میں دوگنی ہو جائے گی۔ اگر یہ اضافہ تین فیصد ہو تو 23 سال اور چار فیصد سالانہ ہو تو صرف 17 سال میں اس ملک کی آبادی دوگنی ہو جائے گی۔ پاکستان نے آبادی کے اضافے میں براعظم افریقہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کی تمام حکومتی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
بھارت ہو یا چین دنیا کا ہر ملک بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان و خوفزدہ ہے۔ ہم کیونکہ ہر معاملے میں بھارت کی برابری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی ہم بھارت کو پچھاڑنے کے چکر میں ہیں۔ اگر آبادی میں اضافہ ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد ہو تو یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملک اپنی آبادی میں کمی کے بجائے اس میں زیادہ اضافہ کرتے۔ آبادی میں اضافہ کی بنیاد پر آپ دنیا کو فتح نہیں کر سکتے سوائے اس کہ سستی لیبر ترقی یافتہ ملکوں کو مہیا کر کے ان کے منافع میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔
وہ اس طرح کہ ترقی یافتہ ملک اپنی صنعتیں ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں پولیو ورکرز کو اس لیے مارا جا رہا ہے کہ ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے خیال میں پولیو قطرے تولیدی صلاحیت میں کمی کرتے ہیں۔ آج کی دنیا پر غلبہ آپ اپنی تعداد کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔ ماضی میں تو یہ فارمولا کارآمد تھا۔ آبادی بے شک کم ہو لیکن سائنس و ٹیکنالوجی سے مسلح ہو تو ایسی قومیں ہی دنیا پر غلبہ حاصل کر سکتی ہیں۔ اب تو ایران میں بھی خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے حالانکہ وہاں علماء کی حکومت ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ بے روزگاری' غربت محرومی کی شکل میں نکلتا ہے اور یہ عوامل آخر کار انتہا پسندی جنونیت دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ کسی قوم کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی ہر طرح کی پسماندگی کا سبب بنتی ہے۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس کا بنیادی سبب بھوک افلاس ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق دو سو روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب ہے۔ ہمارے ہاں تو کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو وہاں پر شدت پسندی جنونیت دہشت گردی پیدا نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔
یہ آبادی کا دبائو ہی ہے جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی کثیر تعداد ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہونا چاہتی ہے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں میں وسائل کی کمی ہے۔ پچھلے 50 سالوں میں ترقی پذیر ممالک کی آبادی امریکا یورپ و دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہونے کے قریب ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنی کم آبادی پر زیادہ وسائل خرچ کر کے سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر دنیا پر بالادستی حاصل کر لی ہے ۔
جن ترقی یافتہ ملکوں کو ہم دن رات کوستے ہیں ان کی ایجادات کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاہیے یہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہوں یا عام زندگی کی سہولیات۔ ایک سیل فون کو ہی لے لیں انگلی کی ایک پور کی جنبش سے پوری دنیا کھل جاتی ہے۔ ہے نا کھل جا سم سم کی عملی تفسیر۔ یہ سب چیزیں سیکولر ملکوں کے علمی اداروں میں ایجاد ہوئیں۔ یہ سب معاشرے لبرل سیکولر ہیں جس پر ہم دن رات تبرا بھیجتے ہیں۔ سیکولر کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی نظر میں سب مذاہب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ بہرحال ہم لوگ تو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہی پڑھتے رہ گئے مگر غیر مسلموں نے اسے حقیقت بنا دیا۔ پچھلے تین چار سو سال میں مسلم دنیا میں ایجاد کا خانہ خالی ہے۔ ہاں یاد آیا ہم نے ایک چیز ایجاد کی ہے وہ ہے خودکش بمبار۔
بات ہو رہی تھی بڑھتی آبادی کی۔ ہماری زمین جب ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی۔ اس پر انسانی زندگی کی ابتدا چالیس لاکھ سال پہلے ہوئی۔ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زائد نہیں تھی۔ اب دنیا کی آبادی 35 سال بعد دو گنا ہو جاتی ہے۔ آبادی کی اس تیز رفتار بڑھوتری کی وجہ سے 3000ء میں سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی۔ سطح زمین اور برفانی علاقے سمیت زمین کے ''ہر مربع کلو میٹر'' پر دو ہزار افراد ہوں گے۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں آبادی کا ٹائم بم۔۔۔ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے دوست ہیں یا دشمن، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
آبادی کا ٹائم بم ،آبادی کا بھوت ،آبادی کا آسیب ۔۔۔۔نہ جانے اس وقت کیوں یاد نہیں آتا جب خود پیدا ہو تے ہیں یا اپنی اولاپیدا ہوتی ہے۔۔
چند دن قبل کالج سٹاف میں بھی یہی گفتگو جاری تھی جب عاتکہ نے یہ کہہ کر حیران کر دیا " میں چاہتی ہوں کہ اگلی نسل تیس سال کی عمر سے قبل شادی نہ کرے اور میری تو خواہش ہے کہ آئندہ دس سال تک پاکستان میں کوئی بچہ پیدا نہ ہو۔۔" اور وجہ وہی بڑھتی ہوئی آبادی اور کم وسائل ۔۔۔۔ اسلامی احکام سب معلوم ہیں، میں مانتی ہوں کہ رزق اللہ کے ذمے ہے لیکن (اور اس لیکن پر ڈاکٹر فضل الٰہی حفظہ اللہ کی بات یاد آ جاتی ہے کہ حکم اللہ تو ہے مگر ۔۔۔۔۔چونکہ،چنانچہ )ہمیں کچھ کرنا ہے ،وسائل کم ہیں ،آبادی زیادہ ہے، خرچے بڑھ گئے زمین کم ہوتی جارہی ہے ،ہم آئندہ نسلوں کے لئے کیا کر رہے ہیں ،ہم ان کے دشمن بن گئے ہیں ،اپنا نہیں نیکسٹ جنریشن کا خیال کریں " اور ساتھ ہی۔۔۔"دیکھیں جب زمین رہائش کے لیئے کم پڑتی ہے تو اللہ تعالٰی بھی "زلزلے ،سیلاب بھیج کر بستیوں کی بستیاں ختم کر دیتے ہیں "۔۔"
دوسروں کی زبان بولتے ہوئے ہم اپنے خالق پر بھی اعتراض کر جاتے ہیں نعوذ باللہ

اس وقت اپنی بساط کے مطابق کچھ ان سے مغز کھپائی کی کہ جس روح کو دنیا میں آنا ہوتا ہے لاکھ جتن کرو آ کر رہتی ہے اور بہت سے واقعات نظر میں بھی ہیں جو خالق سے مقابلہ کر کے ہار گئے ۔۔ویسے بھی کئی سال قبل دو جڑواں بچوں کی پیدائش باعثِ تعجب ہوتی تھی لیکن اب چار ،پا نچ جڑواں بچوں کی پیدائش عام سی بات ہے تو اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ ہر سال آٹھ آٹھ بچے دینے لگے تو پھر گلہ دبا کر مار دیں گے۔۔۔۔؟
لیکن کئی سالوں کا بڑھتی آبادی کا بھوت اتنی جلدی اترنا ناممکن تھا جبکہ پیپرز کی بھاگ دوڑ الگ تھی ایک بات منہ میں تھی تو دوسری کوریڈور میں تیسری کمرہ امتحان میں اور واپسی پر موضوع کیں کا کہیں چلا گیا ہوتا ۔۔۔اور نتیجہ صفر
اگلے ہی دن" خواتین میگزین" میں " رضی الدین سید " کا کالم نظر آگیا "" آبادی منصوبہ بند، آبادی پیدا کرنے والے کی جانب سے" باقی سب تو پہلے بھی نظر سے گزرتا رہتا ہے لیکن ایک بہت زبردست با ت جو لکھی تھی:
"ان دانشوروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے شہر کے ایک دن مین پیدا ہو نے والے بچوں کو دنیا میں آنے سے اس لئے روک دینا چاہتے ہیں کہ آبادی میں اس باعث کچھ کمی واقع رونما ہو سکے ،تاہم اگر ان سے جوابا عرض کیا جائے کہ اسی فارمولے کے تحت اگر خود آپ جیسے دس بارہ مفکرین کو تہہ زمین سلا دیا جائے ،( آپ خود ہی اپنی ہی زندگی ہمارے اسلحوں کے حوالے کر دیں )، تو مسئلہ اس طرح بھی آسانی سے حل ہو سکتاہے ،تو دونوں ہاتھ پاؤں جوڑ کر وہ فورا اپنے زندہ رہنے کی بھیک مانگنے اور گڑگڑا کر جاں بخشی کی منتیں کرنے لگیں گے ۔بلکہ خطرہ کچھ زیادہ ہی محسوس کر کے جب وہ اپنے محبوب نظریوں سے بھی دست برداری اختیار کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔بات بہت سیدھی سی ہے یا تو آنے والے بچوں کی پیدائش کم کر دی جائےیا پھر زندہ موجود ان دانشوروں کو ہٹا دیا جائے ۔دراصل صاحبانِ دانش و بصیرت کا معاملہ مولانا مودودی کے اس تبصرے کا سا ہے کہ "یہ لوگ خود تو ٹرین کے ڈبے میں کسی نہ کسی طرح گھس کے اندر آ گئے ہیں لیکن اب دوسرے مسافروں کو اس میں داخل نہیں ہونے دینا چاہتے "۔

میں تودو سو دو فیصد رضی الدین سید کی دوسری بات سے متفق ہوں کہ ان " دانش مروں " کا اس دنیا سے رخصت ہونا ہی بہتر ہے ان کی پیدائش کا حق کسی نے ان سے نہیں چھینا تو ان کو کس نے اختیار دیا کہ دوسروں کا حق غصب کریں ؟؟؟
سیدھا سا معاملہ ہے انہوں نے دنیا دیکھ لی دستورِ دنیا کے مطابق آنے والوں کے لئے راستہ صاف کردیں ۔
ویسے ایجاد تو بڑی زبردست ذکر کی ہے"خود کش بمبار"۔۔ابتسامہ
اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟؟؟ "خود کش" بمبار بھی تو آبادی میں کمی کا باعث بنتا ہے اپنے "ہم سفر، ہم مشن" کی تعریف ہی کردیتے۔
ایک طرف کفار مسلمانوں کی جان کے در پے ہیں وہ کم ،آبادی کم کر رہے ہیں( جوہمیں خود سے ضرورت پیش آگئی ہے) دوسری طرف بڑھتی آبادی کا خوف دلا کر مسلمانوں کو اپنی ہی نسل کشی پر مجبور کیا جا رہا ہے (ہسپتالوں میں کیسسز عام ہیں میرا نہیں خیال کہ کوئی اس سے واقف نہ ہو)
اور ایک جانب کم آبادی والے کفار ممالک سہولتیں مہیا کرکر کے اپنی آبادی بڑھانے پر زور دے رہے ہیں ، نہ جانے مسلمانوں نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے یا کفار سلیمانی عینک لگا کر اپنے معاملات کرتے ہیں ۔۔

بہت پہلے ایک بات یہ بھی پڑھی تھی کہ درندوں کے ہاں افزائشِ نسل بہت کم ہوتی ہے ا س کے مقابلے میں نقصان نہ پہنچانے والے جانور کے ہاں شرحِ پیدائش زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔صاحبِ بصیرت کے لئے اشار ہ ہی کافی ہے۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بھارت ہو یا چین دنیا کا ہر ملک بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان و خوفزدہ ہے۔ ہم کیونکہ ہر معاملے میں بھارت کی برابری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی ہم بھارت کو پچھاڑنے کے چکر میں ہیں۔ اگر آبادی میں اضافہ ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد ہو تو یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملک اپنی آبادی میں کمی کے بجائے اس میں زیادہ اضافہ کرتے۔ آبادی میں اضافہ کی بنیاد پر آپ دنیا کو فتح نہیں کر سکتے سوائے اس کہ سستی لیبر ترقی یافتہ ملکوں کو مہیا کر کے ان کے منافع میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔

وہ اس طرح کہ ترقی یافتہ ملک اپنی صنعتیں ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں پولیو ورکرز کو اس لیے مارا جا رہا ہے کہ ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے خیال میں پولیو قطرے تولیدی صلاحیت میں کمی کرتے ہیں۔ آج کی دنیا پر غلبہ آپ اپنی تعداد کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔ ماضی میں تو یہ فارمولا کارآمد تھا۔ آبادی بے شک کم ہو لیکن سائنس و ٹیکنالوجی سے مسلح ہو تو ایسی قومیں ہی دنیا پر غلبہ حاصل کر سکتی ہیں۔ اب تو ایران میں بھی خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے حالانکہ وہاں علماء کی حکومت ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ بے روزگاری' غربت محرومی کی شکل میں نکلتا ہے اور یہ عوامل آخر کار انتہا پسندی جنونیت دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ کسی قوم کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی ہر طرح کی پسماندگی کا سبب بنتی ہے۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس کا بنیادی سبب بھوک افلاس ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق دو سو روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب ہے۔ ہمارے ہاں تو کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو وہاں پر شدت پسندی جنونیت دہشت گردی پیدا نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔
جن ترقی یافتہ ملکوں کو ہم دن رات کوستے ہیں ان کی ایجادات کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاہیے یہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہوں یا عام زندگی کی سہولیات۔ ایک سیل فون کو ہی لے لیں انگلی کی ایک پور کی جنبش سے پوری دنیا کھل جاتی ہے۔ ہے نا کھل جا سم سم کی عملی تفسیر۔ یہ سب چیزیں سیکولر ملکوں کے علمی اداروں میں ایجاد ہوئیں۔ یہ سب معاشرے لبرل سیکولر ہیں جس پر ہم دن رات تبرا بھیجتے ہیں۔ سیکولر کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی نظر میں سب مذاہب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ بہرحال ہم لوگ تو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہی پڑھتے رہ گئے مگر غیر مسلموں نے اسے حقیقت بنا دیا۔ پچھلے تین چار سو سال میں مسلم دنیا میں ایجاد کا خانہ خالی ہے۔ ہاں یاد آیا ہم نے ایک چیز ایجاد کی ہے وہ ہے خودکش بمبار۔
بات ہو رہی تھی بڑھتی آبادی کی۔ ہماری زمین جب ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی۔ اس پر انسانی زندگی کی ابتدا چالیس لاکھ سال پہلے ہوئی۔ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زائد نہیں تھی۔ اب دنیا کی آبادی 35 سال بعد دو گنا ہو جاتی ہے۔ آبادی کی اس تیز رفتار بڑھوتری کی وجہ سے 3000ء میں سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی۔ سطح زمین اور برفانی علاقے سمیت زمین کے ''ہر مربع کلو میٹر'' پر دو ہزار افراد ہوں گے۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں آبادی کا ٹائم بم۔۔۔ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے دوست ہیں یا دشمن، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم


اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ۣ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ 19؀

اللہ کے نزدیک دین صرف الاسلام ہے۔ اس دینِ اسلام سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے (یعنی یہودیت اور عیسائیت )جنہیں کتاب دی گئی تھی ، اُن کے اس طرز ِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے ، اللہ کو اُس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔(19)
سورۃ آل عمران

اور یہ فرمان کہ

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّةً ۠وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٢٠٨؁ سورۃ البقرہ

اے ایمان لانے والو ! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(208)
اللہ تعالی کے ان واضح احکامات کی روشنی میں ’’ زندگی میں اسلام کا مقصد ‘‘ سمجھ آ جاتا ہے۔نیز روگردانی کی صورت میں اللہ عزوجل کے عتاب اور حساب بھی بعید نہیں۔چناچہ بطور مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام پسندیدہ مذہب ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر دور میں قابل عمل بھی ہے۔مضمون آبادی کے ٹائم بم زمرد نقوی صاحب کی ذہنی اختراع ہے ، کیونکہ وہ زندگی کے مقصد ’’ نام نہاد ترقی ‘‘ کو سمجھتے ہیں ، اور بقول ان کے اس نظریئے میں رکاوٹ کا سبب ’’ آبادی سے پیدا ہونے والی ‘‘ غربت ہے۔بصد احترام میری آپ سے گزارش ہے کہ ان ’’ غیر اسلامی افکار و نظریات ‘‘پر نہ صرف غور فرمائیں ، بلکہ حتی الامکان ان کی ترویج سے بھی دور رہیں۔کیونکہ آبادی کنٹرول کے یہ رجحانات ہمیں یورپ ، امریکا اور ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے!
اس صورت میں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک بالکل واضح ہے۔
تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔


(سنن ابی داود : 2050 السلسلة الصحيحة: 5/498)

یہاں پر فخر کا باعث ’’ کثرت امت ‘‘ ہے نہ کہ نام نہاد ترقی۔
دوسرا شبہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے ، کہ آبادی غربت ، بے روزگاری اور محرومی پیدا کرتی ہے۔اس سلسلے میں اللہ تعالی کے فرمان پر بھی غور فرمالیں۔


قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ۔۔۔الخ
سورۃ الانعام
اے نبی ﷺ ، ان سے کہو کہ آئو میں تمہیں سنائوں تمہارے ربّ نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔

نیز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ


حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنِ ابْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُو خِمَاصًا، وَتَرُوحُ بِطَانًا "۔
ابن ماجہ ،* تخريج (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰، ۵۲) (صحیح)


عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :''اگر تم اللہ تعالی پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گاجیسے پر ندوں کو دیتا ہے ،وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں''۔

سوال یہ ہے کہ کیا توکل الی اللہ کا حکم بھی ترقی روک دیتا ہے!!!

افسوس صد افسوس کہ ’’ آبادی ‘‘ کے لیے فکر رکھنے والوں نے کوئی اصلاحی کام سرانجام کیوں نہ دے لیا ، کہ خالق اپنی مخلوق کے حال سے بخوبی واقف ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کا ’’ ٹائم بم ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مہیب خطرہ تو بن نہ سکا ، کہ جو ہم سے زیادہ آزمائشوں سے گزرے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو باربار فرماتے سنا ہے:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا ''اور ان دنوں آپ ﷺ کی نو بیویاں تھیں۔


ابن ماجہ ، * تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴۷۱)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۱۴ (۲۰۶۹)، ت/البیوع ۷ (۱۲۱۵)، حم (۳/۱۳۳، ۱۸۰،۲۰۸، ۲۱۱، ۲۳۲) (صحیح)

نیز مسلم امہ اور غریب کو غیر ترقی یافتہ کا خطاب دینے سے پہلے ترقی کے ’’معیار ‘‘ پر سوچنا ہو گا، اگر ترقی کا مطلب اللہ کی حدود اور احکامات سے تجاوز کرنا ہے ، تو پھر یہ ہرگز ترقی نہیں ہے۔ترقی کے لیے ،
ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو زکوۃ ، صدقات ، فطر ، سادگی اور عاجزی کے مفہوم سے آشنا کرنا ہو گا ، تاکہ ’’غربت ‘‘ کو طعنہ نہ بننے دیا جائے ، کہ غریب کے بھی درجات ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الأَغْنِيَاءِ بِنِصْفِ يَوْمٍ، خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۰۱)، وقد أخرجہ: ت/الزہد ۳۷ (۲۳۵۴) (حسن صحیح)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مومنوں میں سے محتاج اورغریب لوگ
مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آخرت کا آدھا دن (دنیا کے )پانچ سوسال کے برابر ہے ''۔


علاوہ ازیں اصلاح نیت کے جذبے سے میری زمرد نقوی صاحب سے بصد احترام گزارش ہے کہ دہشت گردی ،
اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے ، لہذا اسے ’’امت مسلماں ‘‘ سے جوڑنا بغض کے سوا کچھ نہیں۔
اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔آمین
 

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
جب کہ دنیا کی آبادی اس سال جولائی میں ساڑھے چھ ارب تک پہنچ جائے گی۔
یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہے جبکہ اکتوبر 2011 میں ہی دنیا کی آبادی 7 ارب ہو گئی تھی-

http://urdu.samaa.tv/international/31-Oct-2011/7618

http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/10/111024_world_population_fz.shtml

جبکہ ہندوستان کی آبادی 2028 تک سب سے زیادہ ہو جائيگی-

http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/06/130614_india_population_zis.shtml

والله اعلم
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اہلِ یورپ و امریکہ نسلِ انسانی نہیں بلکہ صرف اور صرف مسلمان نسلِ انسانی سے خوفزدہ ہے۔ باقی ممالک تو محض بہانہ ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ انسانوں کا خالق ہے، اللہ تمام انسانوں کی ارواح کو تخلیق فرما چکا ہے، اور یہ تمام ارواح باری باری اس فانی دنیا سے گذر کے اُخروی ابدی زندگی (جنت یا جہنم) کی طرف رواں دواں ہیں۔ لہذا ساری دنیا مل کر بھی تمام ارواح کی اس دنیا میں آمد کو روک نہیں سکتے۔ البتہ انسانوں کو یہ محدود اختیار ضرور دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف اگر چاہے تو اپنے گھر میں بچوں کی پیدائش کو روک سکتا ہے یا محدود کرسکتا ہے۔ لیکن پھر اسے روز حشر اس عمل کا حساب کتاب بھی دینا ہوگا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا تھا اور کیا اسے اس بات کی اجازت تھی یا نہ تھی۔

اس دنیا کو اگر پلیٹ فارم پر کھڑی ایک ٹرین سے تشبیہ دی جائے اور پلیٹ فارم پر موجود تمام لوگوں کو اسی واحد ٹرین کا مسافر قرار دیا جائے، جنہوں نے ہر حال میں اسی ٹرین سے سفر کرنا ہے تو دو صورتیں بنتی ہیں۔ ایک تو وہ صورت ہے، جو آج کل مروج ہے کہ اقتدار اور دولت کی قوت کے بل بوتے پر کچھ لوگ بیشتر بوگیوں پر ”قبضہ“ کر کے اس کے دروازے بند کردیں۔ پھر جسمانی طور پر طاقتور لوگ بقیہ بوگیوں کی سیٹوں اور برتھوں پر بزور قوت براجمان ہوجائیں۔ اس کے بعد کمزور مردوں، بچوں اور خواتین کا جو جم غفیر بچے، وہ چند کھلے رہ جانے والے ڈبوں میں باتھ رومز تک پھنس پھنس کر ”پیک“ ہوجائیں۔ کچھ پائیدانوں پر لٹک جائیں اور مزید بچ جانے والے بوگیوں کی چھتوں پر کھڑے ہوجائیں۔

دوسری عدل کی صورت یہ ہے کہ کوئی بھی مسافر کسی بھی ڈبے کو ”بُک“ کرکے بند نہ کرے اور سارے کے سارے مسافر یکساں انداز میں ہر ڈبے میں سوار ہوجائیں تو نہ تو کوئی ڈبہ ”اوور پیک“ ہوگا نہ کسی کو پائیدان یا چھتوں پر چڑھنا پڑے گا۔

یہی حال اس دنیا کا ہے۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک نے اپنے اپنے ملکوں میں انسانوں کی پیدائش کے کنٹرول بلکہ خاصی حد تک روک دیا ہے۔ جس سے بچوں کی پیدائش کا سارا بوجھ غریب ممالک پر پڑ گیا ہے۔ اسی طرح ایک ہی ملک کے امیر ترین لوگ کم سے کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ ”نتیجتاً “ اسی ملک کے غریب غربا کے گھرانوں میں بچوں کی ریل پیل نظر آتی ہے۔ اگر خوشحال ممالک میں یا دیگر ممالک کے خوشحال لوگ ایک سے زائد شادیاں کریں، زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں، یا کم از کم بچوں کی پیدائش میں مصنوعی رکاوٹ نہ ڈالیں، پڑھی لکھی اور خوشحال خواتین، اپنے شوہروں کی دوسری شادیاں کروائیں، بچوں کی پیدائش کو بوجھ نہ سمجھیں تو پھر اس دنیا میں آبادی کا تناسب ”غیر متوازن“ نہیں ہوگا۔ غریب ممالک اور گھرانوں میں بچوں کی یلغار اور امراء کے ممالک و محلات انسانوں سے خالی نظر نہیں آئیں گے۔ دنیا کی مجموعی آبادی پھر بھی وہی رہے گی کیوں کہ جس نفس نے دنیا میں آنا ہے، اسے یہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا (ایک حدیث کا مفہوم)
واللہ اعلم بالصواب
 
Top