حافظ محمد سرور
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 11، 2012
- پیغامات
- 7
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 10
محترم رفقاء کرام! السلام علیکم
کچھ دن قبل میں نے "آبروئے شیوۂ اہل قلم گئی" کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا.یہ دراصل حسن نثار کے ایک کالم کے جواب میں لکھا گیا تھا.ارادہ تھا کہ اسے روزنامہ جنگ اور ایک معروف ہفت روزہ جریدے میں شائع کروادوں گا."جنگ والوں سے تو اس "کار خیر" کی توقع ھی عبث تھی.لیکن ہفت روزہ جریدے نے بھی بعض ناگزیر انتظامی وجوہات کی بناء پر معذرت کر لی.اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد ایک ماہنامہ رسالے سے اسے شائع کرنے کی استدعا کی.تاہم ان کا جواب تھا "آپ کا لب و لہجہ تلخ ہے" اگر وہ صاف الفاظ میں شائع کرنے سے انکار کر دیتے تو بات سمجھ میں آنے والی تھی.لیکن انکار کے لیے جو وجہ ان کی طرف سے پیش کی گئی،اسے کم ازکم میں نہیں سمجھ پایا.
بہر حال یہ تشنۂ اشاعت مضمون اب آپ کے حضور پیش خدمت ہے.اور مجھے آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا.اگر آپ اپنے دل میں حسن نثار کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں تب بھی میں آپ سے منصفانہ اور بے لاگ تبصرے کی توقع رکھتا ہوں.بالخصوص اس حوالے سے کہ کیا واقعی اس تحریر کا لب ولہجہ اتنا تلخ ہے کہ یہ ناقابل اشاعت قرار پائے؟؟
لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ رائے دینے سے پہلے حسن نثار کے مذکورہ کالمز کا لب ولہجہ ایک نظر ضرور دیکھ لیجیے گا...
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ور اب ملاحظہ فرمائیے "ناقابل اشاعت مضمون"
آبروئے شیوہ اہل قلم گئی ,,,,
مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے کالم افکاروحوادث میں نیاز فتحپوری کے الحاد کا تعاقب شروع کیا تو اس سلسلے کے پہلے کالم میں لکھا:
"یہ شخص ادب سے جاہل،سیاست سے جاہل،تاریخ سے جاہل،مذہب سے جاہل،الغرض اس کی جہالت اتنی ہمہ پہلو واقع ہوئی ہے کہ بے اختیار ابو جہل کہنے کو جی چاہتا ہے"
کچھ عرصے تک مولانا کا تعاقب جاری رہا جس کے نتیجے میں آخرکار نیازصاحب اپنی تمام دشنام نویسیوں سے تائب ہوکر افسانہ نگاری کے گوشۂ عافیت میں پناه گزین ہوگئے.
حسن نثار کو نیازفتحپوری کا معری ایڈیشن کہنا چاہیے.اس لیے کہ نیازصاحب اپنے تمام تر الحاد کے باوصف علم وادب سے بالکل بے بہرہ نہیں تھے اور مخاطب پر برستے وقت اپنے تندوتیز خیالات کو ادب کے خوشنما پیکر میں ملفوف کر لیتے تھے جس سے حریف پیچ وتاب تو کھاتا لیکن بدمزه نہیں ہوتا تھا.اور یہ انداز ادنی ترین ہی سہی،بہرحال اخلاق و شائستگی کا ایک درجہ ضرور ہے.یہ بے چاره تو اس ڈھنگ سے بھی ناواقف ہے اور خنجر بکف ہوکر اپنے خیالات اگلتا ہے تو اخلاقی قدریں سر پیٹتی اور قلم وزبان کی نزہتیں ماتم کرتی ره جاتی ہیں.چند دن پہلے اس کا ایک کالم بنام "ہوش میں آؤ" بالاقساط شائع ہوا.اس کی تمام اقساط بالخصوص پہلا حصہ اٹھا کر پڑھ لیجیے اور پھر اندازه کیجیے که زبان کے بگاڑ سے دہن کے بگاڑ تک کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟مقام حیرت ہے کہ اس رنگ کی بازاری زبان اگر کسی دینی جریدے کے ایڈیٹر کی ہوتی تو اول تو اسے اخلاقیات کے محاسن و فضائل پرلیکچر دیے جاتے، بھانت بھانت کی بولیوں کا صدرنگ تماشہ سجتا اور ملا ،شیخ اور واعظ پر کہے گئے اردو اور فارسی کے تمام اشعار یکجا ہوکر ایک اعلی ادبی شہ پارے کی حیثیت اختیار کر لیتے اوربالآخر کم نصیب ایڈیٹر کے ہاتھ سے قلم چھین کر اسے "دین ملا فی سبیل الله فساد" پڑھتے ھوئے گردن زدنی قرار دیا جاتا.
یه بات بھی کچھ کم باعث تعجب نہیں که اگر گوروکفن کی چیر پھاڑ مقصود ہو تو اس شخص کی لسانی دست درازیوں سے علامه اقبال کا کفن بھی محفوظ نھیں رہتا.بقول شاعر
ناوک نے ترے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اور اگر علماء کرام کی مخالفت منظور ہو تو اسی اقبال کے ملا کی مذمت میں کہے گئے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے .حالانکه اقبالیات کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے که اقبال کے نزدیک "ملا " جن اوصاف و خصائص کی بناء پر معتوب ہے وه کسی مولوی میں ہوں یا نہ ہوں اس ذات شریف میں بتمام وکمال موجود ہیں.ورنہ جہاں تک علامہ اقبال کے علماء کرام کے متعلق نظریات کا تعلق ھے تو کون نہیں جانتا کہ وه اہل علم کے قدردان تھے اور قاضی سلیمان منصورپوری، سید سلیمان ندوی، مولانا انور شاه کاشمیری اور پیر مہر علی شاه جیسے ارباب فضل وکمال سے نہ صرف نیازمندانہ مراسم رکھتے تھے بلکہ گاہے بگاہے ان سے مختلف دینی وعلمی امور میں رہنمائی بھی لیا کرتے تھے.
مذکوره کالم میں اردو ادب کے دامن کو کئی نادرونایاب گالیوں سے مالامال کرتے ہوئے جو بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اسے پڑھ کر دین کی مبادیات کا علم رکھنے والا آدمی بھی حسن نثار کی عقل پر ماتم کیے بغیر نھیں ره سکتا.لطف یہ کہ اس ضمن میں موصوف نے تین پشتوں تک اپنا نسب نامہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا جس کی اس کے قارئین کو چنداں ضرورت نہ تھی.یہودیت کی پس پرده مذموم کارروائیوں کی کیا یه وہی داستان نہیں ہے جو اس سے بدرجہا بہتر اور جامع انداز میں قرآن مجید کی مختلف آیات میں پھیلی ہوئی ہے؟کیا عام آدمی صرف اس بناء پر طعن وتشنیع اور سب وشتم کا مستحق ہے که اس کی دسترس ان جزئیات تک کیوں نہیں ہوسکی جو ایک روسی پروفیسر کی معرفت آنجناب تک پہنچیں؟کیا اسی کو کالم نگاری کا منتہاء کمال سمجھا جاتا ہے؟تف ہے ایسی فہم وفراست پر.
اورپھر یہ بھی اس شخص کی محض خام خیالی ہے که اہل علم صہیونیت کے متعلق ان جزئیات سے ناواقف ہیں. دینی رسائل وجرائد کا مطالعہ کرنے والا عام قاری بھی شاید اس بلند بانگ دعوے پر قہقہہ لگائے بغیر نہ ره سکے.اور نہیں تو کم ازکم اسے اپنے معتوب عارف لاہوری کے اس مصرع پر ہی غوروفکر کی توفیق نصیب ہوئی ہوتی جو انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں دیار غرب سے واپسی پر کہا تھا:
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور دنیا پر ان کے مسلط کرده استحصالی نظام کی طرف اشاره کرتے ہوئے فرمایا:
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینۂ آدم ربود
(یه بنکوں کا سارا نظام یہود کے مکار ذہن کی پیداوار ہے.جنہوں نے آدمی کے سینہ سے انسانی ہمدردی کا نور چھین کر اسے درنده بنا دیا ہے)
بتائیے! اس شخص نے کون سی نئی آسمانی حقیقت کا انکشاف کیا ہے جس سے ہم بے خبر تھے؟جہل مرکب اگر یہ نہیں تو اور کس بلا کا نام ہے؟
اردو صحافت کے میدان میں اگر ہم اپنے ماضی پر نگاه دوڑائیں تو ہمیں اس میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، ظفر علی خان، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام دکھائی دیتے ہیں جن سے قلم وزبان کی رفعتیں قائم تھیں.ان لوگوں نے آج کی بہ نسبت کہیں زیاده کٹھن حالات میں بھی زبان وبیان کے وقار کو بٹہ نہ لگنے دیا اور صحافت کو پہلوانوں کا اکھاڑا تصور کرتے ہوئے کبھی بھی محض پگڑیاں اچھالنے کو اپنا شعار نہ سمجھا.اگر کہیں ناگزیر حالات میں کسی پر وار بھی کیا تو اس خوبی کے ساتھ کہ حریف نے داد پہلے دی، پانی بعد میں مانگا.اب اسی قطار میں جب حسن نثار جیسے خنجر بردار علم ودانش کے باطل پندار کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں تو حالات کی خانہ ویرانی اندوہناک ہوجاتی ہے اور ایک سنجیده طبع آدمی غالب کا یہ شعر دہرائے بغیر نہیں ره سکتا:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
سوال یہ ہے کہ اس انداز کی قلمکاری اگر نہیں ہوگی تو ادب کی کون سی صنف کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے؟کیا اس کے نہ ہونے سے صحافت کی وادی ویران ہو جائے گی؟کیا معاصر قلم کاروں نے صرف اس بناء پر اس طعن وتشنیع اور سب وشتم کو روا رکھا ہوا ہے که اپنے قبیلے کا آدمی ہے اور اپنے خاندان کے کسی آدمی پر انگلی اٹھانا تقاضائے مصلحت نہیں.بقول غالب
ہم پیشہ و ہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہوں اچھا مرے آگے
پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پیشہ شخص اگر کسی خفیہ ویڈیو میں صحافت کے وقار کو اپنی زبان اور کردار سے بٹہ لگاتا دکھائی دے تو وہ شعبۂ صحافت کی کالی بھیڑ قرار پاتا اور گروہ نامراداں کا حصہ ٹھہرتا ہے لیکن اگر علی الاعلان چیخ چیخ کر سب وشتم کرے، انسانی گوشت نوچے اور بنام قلم رندا استعمال کرے تو یہ سب روا ہے؟ آخر اس دو رخی کی کوئی حد ہے؟
ببیں تفاوت رہ از کجا ست تابکجا
کاش! آج عبدالمجید سالک کا سا رنگین بیان نہ سہی، آغا شورش جیسا سنگین بیان ہی ہوتا اور اسے طنز ،ہجو، بذلہ گوئی، پھکڑپن اور دشنام کا فرق سمجھاتا.بہر حال اس کے مداح اگر سمجھتے ہیں کہ اس کے ہزارشیوہ قلم سے علم وادب کی بے شمار وادیاں سیراب ہو رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکایت نہیں. یہ اخبار کے صفحات پر الفاظ کے ساتھ شوق سے گلی ڈنڈا کھیلتا رہے.ھم فقط یہ چاہتے ہیں کہ اخبار نویس کے قلم اور کندۂ قصاب میں کچھ فرق ہونا چاہیے کہ مقصود تخریب نہیں، تعمیر ھے.قبروں کی مٹی پھانکنے اور دوسروں کے کفن نوچ کر اپنے لیے کفن بنانے سے موجودہ صحافت آخر کس اعتبار سے اپنے قد کاٹھ میں کیا اضافہ کرنا چاہتی ہے؟
دوسرے،ہم دست بستہ اس کی خدمت میں ملتجی ہیں کہ اگر خوف خدا بالکلیہ مفقود نہیں ہو گیا اور دل کے کسی کونے میں عاقبت کا ذرا سا بھی کھٹکا موجود ہے تو مذہب کو اپنے دست ستم سے محفوظ ہی رکھیے.جس شخص کی یہودیت کے متعلق ساری معلومات کا مدار چند غیر مسلم مفکر ھوں اور اس بات کی مطلق خبر نہ ہو کہ ازلی وابدی صداقتوں کی ترجمان کتاب ان کے کیا اوصاف بیان کرتی اور ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ برتنے کی تلقین کرتی ہے اسے فتوی بازی کا آخر کیا حق حاصل ہے؟آخر میں آغا شورش مرحوم کے ان اشعار کو میرے احساسات کا تتمہ سمجھ لیجیےایک دو کلمات کی ترمیم کے ساتھ)
زباں بگڑی قلم بگڑا روش بگڑی چلن بگڑا
خود اپنے ہاتھ سے کافر گروں کا پیرہن بگڑا
حیا مفقود، غیرت سر نگوں، خوف خدا غائب
کچھ اس انداز سے صحافت فروشوں کا چلن بگڑا
میں اکثر سوچتا ہوں کس طرح سے ان کو سمجھاؤں
یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے نظم انجمن بگڑا
یہی وہ گفتگو ہے ناز ہے جس کی بلاغت بر
یہی وہ ہمہمہ ہے جس سے اسلوب سخن بگڑا
خدا کے نیک بندوں کو کہاں تک گالیاں دو گے
کرو گے کیا؟ اگر اس پر خدائے ذوالمنن بگڑا
"لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا"
(حافظ محمد سرور فاضل مرکز التربیۃ فیصل آباد')
کچھ دن قبل میں نے "آبروئے شیوۂ اہل قلم گئی" کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا.یہ دراصل حسن نثار کے ایک کالم کے جواب میں لکھا گیا تھا.ارادہ تھا کہ اسے روزنامہ جنگ اور ایک معروف ہفت روزہ جریدے میں شائع کروادوں گا."جنگ والوں سے تو اس "کار خیر" کی توقع ھی عبث تھی.لیکن ہفت روزہ جریدے نے بھی بعض ناگزیر انتظامی وجوہات کی بناء پر معذرت کر لی.اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد ایک ماہنامہ رسالے سے اسے شائع کرنے کی استدعا کی.تاہم ان کا جواب تھا "آپ کا لب و لہجہ تلخ ہے" اگر وہ صاف الفاظ میں شائع کرنے سے انکار کر دیتے تو بات سمجھ میں آنے والی تھی.لیکن انکار کے لیے جو وجہ ان کی طرف سے پیش کی گئی،اسے کم ازکم میں نہیں سمجھ پایا.
بہر حال یہ تشنۂ اشاعت مضمون اب آپ کے حضور پیش خدمت ہے.اور مجھے آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا.اگر آپ اپنے دل میں حسن نثار کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں تب بھی میں آپ سے منصفانہ اور بے لاگ تبصرے کی توقع رکھتا ہوں.بالخصوص اس حوالے سے کہ کیا واقعی اس تحریر کا لب ولہجہ اتنا تلخ ہے کہ یہ ناقابل اشاعت قرار پائے؟؟
لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ رائے دینے سے پہلے حسن نثار کے مذکورہ کالمز کا لب ولہجہ ایک نظر ضرور دیکھ لیجیے گا...
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ور اب ملاحظہ فرمائیے "ناقابل اشاعت مضمون"
آبروئے شیوہ اہل قلم گئی ,,,,
مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے کالم افکاروحوادث میں نیاز فتحپوری کے الحاد کا تعاقب شروع کیا تو اس سلسلے کے پہلے کالم میں لکھا:
"یہ شخص ادب سے جاہل،سیاست سے جاہل،تاریخ سے جاہل،مذہب سے جاہل،الغرض اس کی جہالت اتنی ہمہ پہلو واقع ہوئی ہے کہ بے اختیار ابو جہل کہنے کو جی چاہتا ہے"
کچھ عرصے تک مولانا کا تعاقب جاری رہا جس کے نتیجے میں آخرکار نیازصاحب اپنی تمام دشنام نویسیوں سے تائب ہوکر افسانہ نگاری کے گوشۂ عافیت میں پناه گزین ہوگئے.
حسن نثار کو نیازفتحپوری کا معری ایڈیشن کہنا چاہیے.اس لیے کہ نیازصاحب اپنے تمام تر الحاد کے باوصف علم وادب سے بالکل بے بہرہ نہیں تھے اور مخاطب پر برستے وقت اپنے تندوتیز خیالات کو ادب کے خوشنما پیکر میں ملفوف کر لیتے تھے جس سے حریف پیچ وتاب تو کھاتا لیکن بدمزه نہیں ہوتا تھا.اور یہ انداز ادنی ترین ہی سہی،بہرحال اخلاق و شائستگی کا ایک درجہ ضرور ہے.یہ بے چاره تو اس ڈھنگ سے بھی ناواقف ہے اور خنجر بکف ہوکر اپنے خیالات اگلتا ہے تو اخلاقی قدریں سر پیٹتی اور قلم وزبان کی نزہتیں ماتم کرتی ره جاتی ہیں.چند دن پہلے اس کا ایک کالم بنام "ہوش میں آؤ" بالاقساط شائع ہوا.اس کی تمام اقساط بالخصوص پہلا حصہ اٹھا کر پڑھ لیجیے اور پھر اندازه کیجیے که زبان کے بگاڑ سے دہن کے بگاڑ تک کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟مقام حیرت ہے کہ اس رنگ کی بازاری زبان اگر کسی دینی جریدے کے ایڈیٹر کی ہوتی تو اول تو اسے اخلاقیات کے محاسن و فضائل پرلیکچر دیے جاتے، بھانت بھانت کی بولیوں کا صدرنگ تماشہ سجتا اور ملا ،شیخ اور واعظ پر کہے گئے اردو اور فارسی کے تمام اشعار یکجا ہوکر ایک اعلی ادبی شہ پارے کی حیثیت اختیار کر لیتے اوربالآخر کم نصیب ایڈیٹر کے ہاتھ سے قلم چھین کر اسے "دین ملا فی سبیل الله فساد" پڑھتے ھوئے گردن زدنی قرار دیا جاتا.
یه بات بھی کچھ کم باعث تعجب نہیں که اگر گوروکفن کی چیر پھاڑ مقصود ہو تو اس شخص کی لسانی دست درازیوں سے علامه اقبال کا کفن بھی محفوظ نھیں رہتا.بقول شاعر
ناوک نے ترے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اور اگر علماء کرام کی مخالفت منظور ہو تو اسی اقبال کے ملا کی مذمت میں کہے گئے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے .حالانکه اقبالیات کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے که اقبال کے نزدیک "ملا " جن اوصاف و خصائص کی بناء پر معتوب ہے وه کسی مولوی میں ہوں یا نہ ہوں اس ذات شریف میں بتمام وکمال موجود ہیں.ورنہ جہاں تک علامہ اقبال کے علماء کرام کے متعلق نظریات کا تعلق ھے تو کون نہیں جانتا کہ وه اہل علم کے قدردان تھے اور قاضی سلیمان منصورپوری، سید سلیمان ندوی، مولانا انور شاه کاشمیری اور پیر مہر علی شاه جیسے ارباب فضل وکمال سے نہ صرف نیازمندانہ مراسم رکھتے تھے بلکہ گاہے بگاہے ان سے مختلف دینی وعلمی امور میں رہنمائی بھی لیا کرتے تھے.
مذکوره کالم میں اردو ادب کے دامن کو کئی نادرونایاب گالیوں سے مالامال کرتے ہوئے جو بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اسے پڑھ کر دین کی مبادیات کا علم رکھنے والا آدمی بھی حسن نثار کی عقل پر ماتم کیے بغیر نھیں ره سکتا.لطف یہ کہ اس ضمن میں موصوف نے تین پشتوں تک اپنا نسب نامہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا جس کی اس کے قارئین کو چنداں ضرورت نہ تھی.یہودیت کی پس پرده مذموم کارروائیوں کی کیا یه وہی داستان نہیں ہے جو اس سے بدرجہا بہتر اور جامع انداز میں قرآن مجید کی مختلف آیات میں پھیلی ہوئی ہے؟کیا عام آدمی صرف اس بناء پر طعن وتشنیع اور سب وشتم کا مستحق ہے که اس کی دسترس ان جزئیات تک کیوں نہیں ہوسکی جو ایک روسی پروفیسر کی معرفت آنجناب تک پہنچیں؟کیا اسی کو کالم نگاری کا منتہاء کمال سمجھا جاتا ہے؟تف ہے ایسی فہم وفراست پر.
اورپھر یہ بھی اس شخص کی محض خام خیالی ہے که اہل علم صہیونیت کے متعلق ان جزئیات سے ناواقف ہیں. دینی رسائل وجرائد کا مطالعہ کرنے والا عام قاری بھی شاید اس بلند بانگ دعوے پر قہقہہ لگائے بغیر نہ ره سکے.اور نہیں تو کم ازکم اسے اپنے معتوب عارف لاہوری کے اس مصرع پر ہی غوروفکر کی توفیق نصیب ہوئی ہوتی جو انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں دیار غرب سے واپسی پر کہا تھا:
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے
اور دنیا پر ان کے مسلط کرده استحصالی نظام کی طرف اشاره کرتے ہوئے فرمایا:
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینۂ آدم ربود
(یه بنکوں کا سارا نظام یہود کے مکار ذہن کی پیداوار ہے.جنہوں نے آدمی کے سینہ سے انسانی ہمدردی کا نور چھین کر اسے درنده بنا دیا ہے)
بتائیے! اس شخص نے کون سی نئی آسمانی حقیقت کا انکشاف کیا ہے جس سے ہم بے خبر تھے؟جہل مرکب اگر یہ نہیں تو اور کس بلا کا نام ہے؟
اردو صحافت کے میدان میں اگر ہم اپنے ماضی پر نگاه دوڑائیں تو ہمیں اس میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، ظفر علی خان، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام دکھائی دیتے ہیں جن سے قلم وزبان کی رفعتیں قائم تھیں.ان لوگوں نے آج کی بہ نسبت کہیں زیاده کٹھن حالات میں بھی زبان وبیان کے وقار کو بٹہ نہ لگنے دیا اور صحافت کو پہلوانوں کا اکھاڑا تصور کرتے ہوئے کبھی بھی محض پگڑیاں اچھالنے کو اپنا شعار نہ سمجھا.اگر کہیں ناگزیر حالات میں کسی پر وار بھی کیا تو اس خوبی کے ساتھ کہ حریف نے داد پہلے دی، پانی بعد میں مانگا.اب اسی قطار میں جب حسن نثار جیسے خنجر بردار علم ودانش کے باطل پندار کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں تو حالات کی خانہ ویرانی اندوہناک ہوجاتی ہے اور ایک سنجیده طبع آدمی غالب کا یہ شعر دہرائے بغیر نہیں ره سکتا:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
سوال یہ ہے کہ اس انداز کی قلمکاری اگر نہیں ہوگی تو ادب کی کون سی صنف کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے؟کیا اس کے نہ ہونے سے صحافت کی وادی ویران ہو جائے گی؟کیا معاصر قلم کاروں نے صرف اس بناء پر اس طعن وتشنیع اور سب وشتم کو روا رکھا ہوا ہے که اپنے قبیلے کا آدمی ہے اور اپنے خاندان کے کسی آدمی پر انگلی اٹھانا تقاضائے مصلحت نہیں.بقول غالب
ہم پیشہ و ہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہوں اچھا مرے آگے
پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پیشہ شخص اگر کسی خفیہ ویڈیو میں صحافت کے وقار کو اپنی زبان اور کردار سے بٹہ لگاتا دکھائی دے تو وہ شعبۂ صحافت کی کالی بھیڑ قرار پاتا اور گروہ نامراداں کا حصہ ٹھہرتا ہے لیکن اگر علی الاعلان چیخ چیخ کر سب وشتم کرے، انسانی گوشت نوچے اور بنام قلم رندا استعمال کرے تو یہ سب روا ہے؟ آخر اس دو رخی کی کوئی حد ہے؟
ببیں تفاوت رہ از کجا ست تابکجا
کاش! آج عبدالمجید سالک کا سا رنگین بیان نہ سہی، آغا شورش جیسا سنگین بیان ہی ہوتا اور اسے طنز ،ہجو، بذلہ گوئی، پھکڑپن اور دشنام کا فرق سمجھاتا.بہر حال اس کے مداح اگر سمجھتے ہیں کہ اس کے ہزارشیوہ قلم سے علم وادب کی بے شمار وادیاں سیراب ہو رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکایت نہیں. یہ اخبار کے صفحات پر الفاظ کے ساتھ شوق سے گلی ڈنڈا کھیلتا رہے.ھم فقط یہ چاہتے ہیں کہ اخبار نویس کے قلم اور کندۂ قصاب میں کچھ فرق ہونا چاہیے کہ مقصود تخریب نہیں، تعمیر ھے.قبروں کی مٹی پھانکنے اور دوسروں کے کفن نوچ کر اپنے لیے کفن بنانے سے موجودہ صحافت آخر کس اعتبار سے اپنے قد کاٹھ میں کیا اضافہ کرنا چاہتی ہے؟
دوسرے،ہم دست بستہ اس کی خدمت میں ملتجی ہیں کہ اگر خوف خدا بالکلیہ مفقود نہیں ہو گیا اور دل کے کسی کونے میں عاقبت کا ذرا سا بھی کھٹکا موجود ہے تو مذہب کو اپنے دست ستم سے محفوظ ہی رکھیے.جس شخص کی یہودیت کے متعلق ساری معلومات کا مدار چند غیر مسلم مفکر ھوں اور اس بات کی مطلق خبر نہ ہو کہ ازلی وابدی صداقتوں کی ترجمان کتاب ان کے کیا اوصاف بیان کرتی اور ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ برتنے کی تلقین کرتی ہے اسے فتوی بازی کا آخر کیا حق حاصل ہے؟آخر میں آغا شورش مرحوم کے ان اشعار کو میرے احساسات کا تتمہ سمجھ لیجیےایک دو کلمات کی ترمیم کے ساتھ)
زباں بگڑی قلم بگڑا روش بگڑی چلن بگڑا
خود اپنے ہاتھ سے کافر گروں کا پیرہن بگڑا
حیا مفقود، غیرت سر نگوں، خوف خدا غائب
کچھ اس انداز سے صحافت فروشوں کا چلن بگڑا
میں اکثر سوچتا ہوں کس طرح سے ان کو سمجھاؤں
یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے نظم انجمن بگڑا
یہی وہ گفتگو ہے ناز ہے جس کی بلاغت بر
یہی وہ ہمہمہ ہے جس سے اسلوب سخن بگڑا
خدا کے نیک بندوں کو کہاں تک گالیاں دو گے
کرو گے کیا؟ اگر اس پر خدائے ذوالمنن بگڑا
"لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا"
(حافظ محمد سرور فاضل مرکز التربیۃ فیصل آباد')