• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آبروئے شیوہ اہل قلم گئی

شمولیت
اکتوبر 11، 2012
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
10
محترم رفقاء کرام! السلام علیکم
کچھ دن قبل میں نے "آبروئے شیوۂ اہل قلم گئی" کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا.یہ دراصل حسن نثار کے ایک کالم کے جواب میں لکھا گیا تھا.ارادہ تھا کہ اسے روزنامہ جنگ اور ایک معروف ہفت روزہ جریدے میں شائع کروادوں گا."جنگ والوں سے تو اس "کار خیر" کی توقع ھی عبث تھی.لیکن ہفت روزہ جریدے نے بھی بعض ناگزیر انتظامی وجوہات کی بناء پر معذرت کر لی.اس طرف سے مایوس ہونے کے بعد ایک ماہنامہ رسالے سے اسے شائع کرنے کی استدعا کی.تاہم ان کا جواب تھا "آپ کا لب و لہجہ تلخ ہے" اگر وہ صاف الفاظ میں شائع کرنے سے انکار کر دیتے تو بات سمجھ میں آنے والی تھی.لیکن انکار کے لیے جو وجہ ان کی طرف سے پیش کی گئی،اسے کم ازکم میں نہیں سمجھ پایا.
بہر حال یہ تشنۂ اشاعت مضمون اب آپ کے حضور پیش خدمت ہے.اور مجھے آپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا.اگر آپ اپنے دل میں حسن نثار کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھتے بھی ہیں تب بھی میں آپ سے منصفانہ اور بے لاگ تبصرے کی توقع رکھتا ہوں.بالخصوص اس حوالے سے کہ کیا واقعی اس تحریر کا لب ولہجہ اتنا تلخ ہے کہ یہ ناقابل اشاعت قرار پائے؟؟
لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ رائے دینے سے پہلے حسن نثار کے مذکورہ کالمز کا لب ولہجہ ایک نظر ضرور دیکھ لیجیے گا...
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ور اب ملاحظہ فرمائیے "ناقابل اشاعت مضمون"

آبروئے شیوہ اہل قلم گئی ,,,,
مولانا عبدالمجید سالک نے اپنے کالم افکاروحوادث میں نیاز فتحپوری کے الحاد کا تعاقب شروع کیا تو اس سلسلے کے پہلے کالم میں لکھا:
"یہ شخص ادب سے جاہل،سیاست سے جاہل،تاریخ سے جاہل،مذہب سے جاہل،الغرض اس کی جہالت اتنی ہمہ پہلو واقع ہوئی ہے کہ بے اختیار ابو جہل کہنے کو جی چاہتا ہے"
کچھ عرصے تک مولانا کا تعاقب جاری رہا جس کے نتیجے میں آخرکار نیازصاحب اپنی تمام دشنام نویسیوں سے تائب ہوکر افسانہ نگاری کے گوشۂ عافیت میں پناه گزین ہوگئے.

حسن نثار کو نیازفتحپوری کا معری ایڈیشن کہنا چاہیے.اس لیے کہ نیازصاحب اپنے تمام تر الحاد کے باوصف علم وادب سے بالکل بے بہرہ نہیں تھے اور مخاطب پر برستے وقت اپنے تندوتیز خیالات کو ادب کے خوشنما پیکر میں ملفوف کر لیتے تھے جس سے حریف پیچ وتاب تو کھاتا لیکن بدمزه نہیں ہوتا تھا.اور یہ انداز ادنی ترین ہی سہی،بہرحال اخلاق و شائستگی کا ایک درجہ ضرور ہے.یہ بے چاره تو اس ڈھنگ سے بھی ناواقف ہے اور خنجر بکف ہوکر اپنے خیالات اگلتا ہے تو اخلاقی قدریں سر پیٹتی اور قلم وزبان کی نزہتیں ماتم کرتی ره جاتی ہیں.چند دن پہلے اس کا ایک کالم بنام "ہوش میں آؤ" بالاقساط شائع ہوا.اس کی تمام اقساط بالخصوص پہلا حصہ اٹھا کر پڑھ لیجیے اور پھر اندازه کیجیے که زبان کے بگاڑ سے دہن کے بگاڑ تک کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟مقام حیرت ہے کہ اس رنگ کی بازاری زبان اگر کسی دینی جریدے کے ایڈیٹر کی ہوتی تو اول تو اسے اخلاقیات کے محاسن و فضائل پرلیکچر دیے جاتے، بھانت بھانت کی بولیوں کا صدرنگ تماشہ سجتا اور ملا ،شیخ اور واعظ پر کہے گئے اردو اور فارسی کے تمام اشعار یکجا ہوکر ایک اعلی ادبی شہ پارے کی حیثیت اختیار کر لیتے اوربالآخر کم نصیب ایڈیٹر کے ہاتھ سے قلم چھین کر اسے "دین ملا فی سبیل الله فساد" پڑھتے ھوئے گردن زدنی قرار دیا جاتا.

یه بات بھی کچھ کم باعث تعجب نہیں که اگر گوروکفن کی چیر پھاڑ مقصود ہو تو اس شخص کی لسانی دست درازیوں سے علامه اقبال کا کفن بھی محفوظ نھیں رہتا.بقول شاعر
ناوک نے ترے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اور اگر علماء کرام کی مخالفت منظور ہو تو اسی اقبال کے ملا کی مذمت میں کہے گئے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے .حالانکه اقبالیات کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے که اقبال کے نزدیک "ملا " جن اوصاف و خصائص کی بناء پر معتوب ہے وه کسی مولوی میں ہوں یا نہ ہوں اس ذات شریف میں بتمام وکمال موجود ہیں.ورنہ جہاں تک علامہ اقبال کے علماء کرام کے متعلق نظریات کا تعلق ھے تو کون نہیں جانتا کہ وه اہل علم کے قدردان تھے اور قاضی سلیمان منصورپوری، سید سلیمان ندوی، مولانا انور شاه کاشمیری اور پیر مہر علی شاه جیسے ارباب فضل وکمال سے نہ صرف نیازمندانہ مراسم رکھتے تھے بلکہ گاہے بگاہے ان سے مختلف دینی وعلمی امور میں رہنمائی بھی لیا کرتے تھے.
مذکوره کالم میں اردو ادب کے دامن کو کئی نادرونایاب گالیوں سے مالامال کرتے ہوئے جو بات ہم تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اسے پڑھ کر دین کی مبادیات کا علم رکھنے والا آدمی بھی حسن نثار کی عقل پر ماتم کیے بغیر نھیں ره سکتا.لطف یہ کہ اس ضمن میں موصوف نے تین پشتوں تک اپنا نسب نامہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا جس کی اس کے قارئین کو چنداں ضرورت نہ تھی.یہودیت کی پس پرده مذموم کارروائیوں کی کیا یه وہی داستان نہیں ہے جو اس سے بدرجہا بہتر اور جامع انداز میں قرآن مجید کی مختلف آیات میں پھیلی ہوئی ہے؟کیا عام آدمی صرف اس بناء پر طعن وتشنیع اور سب وشتم کا مستحق ہے که اس کی دسترس ان جزئیات تک کیوں نہیں ہوسکی جو ایک روسی پروفیسر کی معرفت آنجناب تک پہنچیں؟کیا اسی کو کالم نگاری کا منتہاء کمال سمجھا جاتا ہے؟تف ہے ایسی فہم وفراست پر.
اورپھر یہ بھی اس شخص کی محض خام خیالی ہے که اہل علم صہیونیت کے متعلق ان جزئیات سے ناواقف ہیں. دینی رسائل وجرائد کا مطالعہ کرنے والا عام قاری بھی شاید اس بلند بانگ دعوے پر قہقہہ لگائے بغیر نہ ره سکے.اور نہیں تو کم ازکم اسے اپنے معتوب عارف لاہوری کے اس مصرع پر ہی غوروفکر کی توفیق نصیب ہوئی ہوتی جو انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں دیار غرب سے واپسی پر کہا تھا:
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

اور دنیا پر ان کے مسلط کرده استحصالی نظام کی طرف اشاره کرتے ہوئے فرمایا:
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینۂ آدم ربود

(یه بنکوں کا سارا نظام یہود کے مکار ذہن کی پیداوار ہے.جنہوں نے آدمی کے سینہ سے انسانی ہمدردی کا نور چھین کر اسے درنده بنا دیا ہے)
بتائیے! اس شخص نے کون سی نئی آسمانی حقیقت کا انکشاف کیا ہے جس سے ہم بے خبر تھے؟جہل مرکب اگر یہ نہیں تو اور کس بلا کا نام ہے؟
اردو صحافت کے میدان میں اگر ہم اپنے ماضی پر نگاه دوڑائیں تو ہمیں اس میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، ظفر علی خان، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت اور آغا شورش کاشمیری مرحوم کے نام دکھائی دیتے ہیں جن سے قلم وزبان کی رفعتیں قائم تھیں.ان لوگوں نے آج کی بہ نسبت کہیں زیاده کٹھن حالات میں بھی زبان وبیان کے وقار کو بٹہ نہ لگنے دیا اور صحافت کو پہلوانوں کا اکھاڑا تصور کرتے ہوئے کبھی بھی محض پگڑیاں اچھالنے کو اپنا شعار نہ سمجھا.اگر کہیں ناگزیر حالات میں کسی پر وار بھی کیا تو اس خوبی کے ساتھ کہ حریف نے داد پہلے دی، پانی بعد میں مانگا.اب اسی قطار میں جب حسن نثار جیسے خنجر بردار علم ودانش کے باطل پندار کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں تو حالات کی خانہ ویرانی اندوہناک ہوجاتی ہے اور ایک سنجیده طبع آدمی غالب کا یہ شعر دہرائے بغیر نہیں ره سکتا:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
سوال یہ ہے کہ اس انداز کی قلمکاری اگر نہیں ہوگی تو ادب کی کون سی صنف کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے؟کیا اس کے نہ ہونے سے صحافت کی وادی ویران ہو جائے گی؟کیا معاصر قلم کاروں نے صرف اس بناء پر اس طعن وتشنیع اور سب وشتم کو روا رکھا ہوا ہے که اپنے قبیلے کا آدمی ہے اور اپنے خاندان کے کسی آدمی پر انگلی اٹھانا تقاضائے مصلحت نہیں.بقول غالب
ہم پیشہ و ہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہوں اچھا مرے آگے

پھر کیا وجہ ہے کہ ہم پیشہ شخص اگر کسی خفیہ ویڈیو میں صحافت کے وقار کو اپنی زبان اور کردار سے بٹہ لگاتا دکھائی دے تو وہ شعبۂ صحافت کی کالی بھیڑ قرار پاتا اور گروہ نامراداں کا حصہ ٹھہرتا ہے لیکن اگر علی الاعلان چیخ چیخ کر سب وشتم کرے، انسانی گوشت نوچے اور بنام قلم رندا استعمال کرے تو یہ سب روا ہے؟ آخر اس دو رخی کی کوئی حد ہے؟
ببیں تفاوت رہ از کجا ست تابکجا

کاش! آج عبدالمجید سالک کا سا رنگین بیان نہ سہی، آغا شورش جیسا سنگین بیان ہی ہوتا اور اسے طنز ،ہجو، بذلہ گوئی، پھکڑپن اور دشنام کا فرق سمجھاتا.بہر حال اس کے مداح اگر سمجھتے ہیں کہ اس کے ہزارشیوہ قلم سے علم وادب کی بے شمار وادیاں سیراب ہو رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکایت نہیں. یہ اخبار کے صفحات پر الفاظ کے ساتھ شوق سے گلی ڈنڈا کھیلتا رہے.ھم فقط یہ چاہتے ہیں کہ اخبار نویس کے قلم اور کندۂ قصاب میں کچھ فرق ہونا چاہیے کہ مقصود تخریب نہیں، تعمیر ھے.قبروں کی مٹی پھانکنے اور دوسروں کے کفن نوچ کر اپنے لیے کفن بنانے سے موجودہ صحافت آخر کس اعتبار سے اپنے قد کاٹھ میں کیا اضافہ کرنا چاہتی ہے؟
دوسرے،ہم دست بستہ اس کی خدمت میں ملتجی ہیں کہ اگر خوف خدا بالکلیہ مفقود نہیں ہو گیا اور دل کے کسی کونے میں عاقبت کا ذرا سا بھی کھٹکا موجود ہے تو مذہب کو اپنے دست ستم سے محفوظ ہی رکھیے.جس شخص کی یہودیت کے متعلق ساری معلومات کا مدار چند غیر مسلم مفکر ھوں اور اس بات کی مطلق خبر نہ ہو کہ ازلی وابدی صداقتوں کی ترجمان کتاب ان کے کیا اوصاف بیان کرتی اور ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ برتنے کی تلقین کرتی ہے اسے فتوی بازی کا آخر کیا حق حاصل ہے؟آخر میں آغا شورش مرحوم کے ان اشعار کو میرے احساسات کا تتمہ سمجھ لیجیےایک دو کلمات کی ترمیم کے ساتھ)

زباں بگڑی قلم بگڑا روش بگڑی چلن بگڑا
خود اپنے ہاتھ سے کافر گروں کا پیرہن بگڑا
حیا مفقود، غیرت سر نگوں، خوف خدا غائب
کچھ اس انداز سے صحافت فروشوں کا چلن بگڑا
میں اکثر سوچتا ہوں کس طرح سے ان کو سمجھاؤں
یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے نظم انجمن بگڑا
یہی وہ گفتگو ہے ناز ہے جس کی بلاغت بر
یہی وہ ہمہمہ ہے جس سے اسلوب سخن بگڑا
خدا کے نیک بندوں کو کہاں تک گالیاں دو گے
کرو گے کیا؟ اگر اس پر خدائے ذوالمنن بگڑا
"لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا"

(حافظ محمد سرور فاضل مرکز التربیۃ فیصل آباد')
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام محمد سرور بھائی ! اللہ آپ کے علم میں برکت دے اور زور قلم میں اضافہ فرمائے ۔
یہ حسن نثار کے بچے کی میں نے بہت سی بد تمیزیاں سنی تھیں لیکن باوجود تلاش کے اس کےجواب میں جب کچھ نہ مل سکا تو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف اس کے تحقیرانہ لب و لہجہ سے لگی ہوئی آگ مزید شعلے اگلنے لگی ۔
آپ کی تحریر دھکتے انگاروں پر بارش کے قطرے ثابت ہوئی ہے اور دل اطمینان وسکون محسوس کر رہا ہے ۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں جو حسن نثار کے اہل اسلام کے متعلق کسی ایک کالم کو بھی پڑھ لے گا یا اس کے کسی ایک ٹی وی شو کو دیکھ لے گا آپ کے لب و لہجے میں بالکل بھی سختی محسوس نہیں کرے گا ۔
اس یہودیوں کے چیلے اور ہندوں کی دم کی اساطین علم و ادبِ اسلام کے متعلق معلومات اور وسعت مطالعہ کا عالم یہ ہے کہ اگر اس سے سیرت النبی کے متعلق کسی کتاب کا نام پوچھا جائے تو دو جملوں میں یہ شبلی کو نِعمانی (بکسر النون ) اور سید سلیمان کو نِدوی بول کر ہندؤں کے پر کاشوں کی کتابوں کی تعریف مین زمیں و آسمان کے قلابے ملادیتا ہے ۔
ایک پروگرام میں بڑے کبر و نخوت سے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئےکہتا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے کیاکیا ہے سارا کچھ تو انگریز نے آکر کیا ہے حتی کہ جب انگریز ہندوستان میں داخل ہوا تو مسلمانوں کے پاس آگ جلانے کے لیے ماچس نہیں ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ غالب نے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کس طرح جیب میں آگ لیے پھر تے ہیں ۔
اس دنیا کےپجاری کی سو میں سے ایک سو ایک فیصد سوچ مادہ پرست ہے کبھی کہتا ہے کہ پیمپر سے لیکر جہاز تک انگریز نے دیا ہے ۔ حالانکہ اس جاہل کو یہ نہیں پتہ کہ ہوا میں اڑنے کا تجربہ سب سے پہلے مسلمان سائنسدان نے ہی پیش کیا تھا ۔
( محمد سرور بھائی کا یہ مضمون میں نے اردو مجلس میں پڑھاتھا سوچاکہ اس کو محدث فورم پر لگاتا ہوں لیکن تلاش کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں پہلے لگ چکا ہے ۔۔۔ بس ایک کمی ہے کہ اس کو اچھی تنسیق و ترتیب کے ساتھ صرف مضمون کو ایک مستقل عنوان کے تحت ہونا چاہیے ۔ حسن نثار کے قبح دلفگار کا ستایا ہوا ضرور کوئی نہ کوئی یہ کام کرے گا ۔ إن شاء اللہ )
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ!

حافظ محمد سرور بھائی میری ناقص رائے میں آپکے طرز اور انداز میں کوئی ایسی غیر معمولی سختی اور درشتگی نہیں ہے۔ چونکہ خود میرا نداز تحریر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس لئے میرے خیال سے باطل پر رد کرتے ہوئے کوئی رعایت روا نہیں رکھنی چاہیے۔

لیکن اس تحریر کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ اس میں سوائے شخصی تنقید کے کچھ نہیں اگر آپ تھوڑی شخصی تنقید کے ساتھ حسن نثار صاحب کے باطل افکار و نظریات بیان کرکے اس کا رد بھی فرما دیتے تو یقینا اس مضمون کی قدر و قیمت بہت بڑھ جاتی کیونکہ عام طور پر لوگ صرف شخصی تنقید پڑھنا اور سننا پسند نہیں کرتے جب تک اس میں کوئی مفید اضافہ(جیسے باطل نظریات کا بادلائل رد) نہ ہو۔

بہت سارے لوگ ان گمراہ دانشوروں کا رد لکھتے ہیں جو اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے ہیں لیکن انکا انداز ایسا نہیں ہوتا جیسا آپ نے اختیار کیا یعنی شخصیت پر خالص تنقید۔

مجھے جو صحیح لگا دیانتداری سے کہہ دیا۔ اگر آپ ناگوار گزرا ہو تو معذرت خواہ ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 11، 2012
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
10
ان تمام احباب واخوان کا ممنون ہوں جنہوں نے مضمون کو پسند کیا۔بالخصوص برادران خضر حیات اور شاہد نذیر کے لیے دل سراپا تشکر وامتنان ہے جنہوں نے مضمون پر پسندیدگی کی مہر ثبت فرمانے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی تامل کے اپنی رائے سے بھی آگاہ کیا۔گردنم زیر بار منت آنھا است
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لیکن اس تحریر کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ اس میں سوائے شخصی تنقید کے کچھ نہیں اگر آپ تھوڑی شخصی تنقید کے ساتھ حسن نثار صاحب کے باطل افکار و نظریات بیان کرکے اس کا رد بھی فرما دیتے تو یقینا اس مضمون کی قدر و قیمت بہت بڑھ جاتی کیونکہ عام طور پر لوگ صرف شخصی تنقید پڑھنا اور سننا پسند نہیں کرتے جب تک اس میں کوئی مفید اضافہ(جیسے باطل نظریات کا بادلائل رد) نہ ہو۔
متفق ۔
امید ہے محمد سرور بھائی توجہ فرمائیں گے اور مزید مضامین سے نوازیں گے ۔
اللہ ان کے اوقات اور علم و عمل میں اضافہ فرمائے ۔
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
آپ کا کالم پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ کالم بالکل حقائق پر مبنی ہے۔ حسن نثار صاحب ایسے صاحب قلم ہیں جو دین سے وابستہ افراد کو لتاڑنے اور بے وجہ رگیدنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اور اساسیات دین پر حملہ آور ہونے سے بھی نہیں چوکتے۔ موصوف کے لادینی افکار اور مخصوص انداز بیان کی وجہ سے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں کافی پذیرائی ملتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر تو جناب ہر وقت براجمان نظر آتے ہیں اور ایک مخصوص حلقے میں کافی پسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جناب رات کو شراب پی کر مست ہو جاتے ہیں۔ یوٹیوب پر ایک ویڈیو موجود ہے جس میں ان کے انداز اور باتوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نشے میں دھت ہیں۔
آپ نے بہت اچھے پیرائے میں تنقید کی ہے۔ لیکن چونکہ براہِ راست شخصیت کا نام لے کر تنقید کی گئی ہے اس لیے شاید اخبارات کے لیے اس کالم کا شائع ہونا مشکل ہو۔ کالموں میں جو تنقید کی جاتی ہے ان میں عام طور پر شخصیت کا نام نہیں لیا جاتا۔ جیسے اوریا مقبول جان، حسن نثار ایسے مفکرین پر اکثر نقد کرتے ہیں لیکن وہ کسی کا نام نہیں لیتے۔
البتہ دینی رسائل و جرائد میں آپ کے کالم کو ضرور جگہ ملنی چاہیے تھے۔
آپ کی کاوش بہت اچھی اور قابل داد ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت دے۔ آمین
 
شمولیت
اکتوبر 11، 2012
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
10
آپ کا کالم پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ کالم بالکل حقائق پر مبنی ہے۔ حسن نثار صاحب ایسے صاحب قلم ہیں جو دین سے وابستہ افراد کو لتاڑنے اور بے وجہ رگیدنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اور اساسیات دین پر حملہ آور ہونے سے بھی نہیں چوکتے۔ موصوف کے لادینی افکار اور مخصوص انداز بیان کی وجہ سے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا میں کافی پذیرائی ملتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر تو جناب ہر وقت براجمان نظر آتے ہیں اور ایک مخصوص حلقے میں کافی پسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جناب رات کو شراب پی کر مست ہو جاتے ہیں۔ یوٹیوب پر ایک ویڈیو موجود ہے جس میں ان کے انداز اور باتوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نشے میں دھت ہیں۔
آپ نے بہت اچھے پیرائے میں تنقید کی ہے۔ لیکن چونکہ براہِ راست شخصیت کا نام لے کر تنقید کی گئی ہے اس لیے شاید اخبارات کے لیے اس کالم کا شائع ہونا مشکل ہو۔ کالموں میں جو تنقید کی جاتی ہے ان میں عام طور پر شخصیت کا نام نہیں لیا جاتا۔ جیسے اوریا مقبول جان، حسن نثار ایسے مفکرین پر اکثر نقد کرتے ہیں لیکن وہ کسی کا نام نہیں لیتے۔
البتہ دینی رسائل و جرائد میں آپ کے کالم کو ضرور جگہ ملنی چاہیے تھے۔
آپ کی کاوش بہت اچھی اور قابل داد ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت دے۔ آمین
وادعو لک بالمثل یا اخی۔
 
Top