• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آب ِ زم زم میں سے کرنٹ کبھی نہیں گزر سکتا

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
آب ِ زم زم میں سے کرنٹ کبھی نہیں گزر سکتا
9 مارچ 2017



لاہور: کائنات کے حقائق میں ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عام پانی سے بجلی کا کرنٹ آسانی سے گزر جاتا ہے
لیکن آب زم زم میں سے کرنٹ کبھی نہیں گزر سکتا۔
دو الگ الگ بوتلوں میں عام پانی اور آب زم زم ڈال کر تجربہ کیا گیا۔



برقی تار کے سرے سے بلب لگا کر دونوں سروں کو پہلے چیک کرتے ہوئے بلب روشن ہو گیا۔
ان تاروں کو جب آبِ زم زم میں ڈالا تو بجلی نہ گزر سکی اور بلب روشن نہ ہوا
لیکن جب عام پانی میں تاروں کے سروں کو ڈبویا گیا تو بلب فوراً روشن ہو گیا۔

اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی یہ آب زم زم کوئی عام پانی نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی خاص قدرت کا مظہر ہے۔


ح
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

معلومات عامہ کے لیے:

خالص پانی اچھا غیر موصل ہوتا ہے یعنی اس میں سے کرنٹ نہیں گزرتا.
اور سادہ پانی اچھا موصل ہوتا ہے یعنی اس میں سے بآسانی کرنٹ گزر جاتا ہے.

خالص پانی سے مراد وہ پانی ہوتا ہے جس میں منرلز یعنی مختلف معدنیات شامل نہ ہوں یا نکال لی گئی ہوں..

اور سادے پانی سے مراد وہ پانی ہے جو ہمارے نلکوں میں آتا ہے یا کنوؤں وغیرہ میں ہوتا ہے..اس میں معدنیات شامل ہوتی ہیں.

سادے پانی کو خالص پانی میں
اور
خالص پانی کو سادے پانی میں
بآسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے..
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم بھائی @محمد نعیم یونس صاحب سے درخواست ہے کہ ذیل کے مضمون کو ملاحظہ فرما کر اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں
یہ مضمون (اردو محفل فورم ) سے لیا گیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ایک خود نوشت، از طارق حسین

ہم عمرے کے لیے ایک بار پھر یہاں آئے ہیں اور مجھے بے اختیار زم زم کے عجائبات یاد آگیے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے شروع ہوا، یہ بتانے کے لیے میں ماضی میں واپس جانا چاہوں گا۔ 1971ء میں ایک مصری ڈاکٹر کا ایک خط مصری اخبارا ت میں شائع ہوا، جس میں بتایاگیا تھا کہ آبِ زم زم پینے کے لیے موزوں نہیں رہا۔ مجھے فورا ً خیال آیا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کی ایک شکل ہے کیوں کہ اس بیان کی بنیاد اس مفروضے پر تھی کہ چوں کہ خانۂ کعبہ ایک نشیبی مقام پر (سطح سمند سے بھی نیچے) واقع ہے لہٰذا شہر مکہ کا استعمال شدہ پانی بھی اپنے فضلے سمیت، نالیوں سے گزر کر زم زم کے کنویں میں گررہا ہوگا۔ خوش قسمتی سے یہ خبر شاہ فیصل کے کانوں تک بھی پہنچ گئی جسے سن کر انہیں شدید غصہ آگیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مصری ڈاکٹر کے اس اشتعال انگیز دعوے کو غلط ثابت کیا جائے۔"

انہوں نے فوری طور پر وزارتِ زراعت و آبی وسائل کو حکم دیا کہ اس معاملے کی چھان بین کی جائے اور آبِ زم زم کے نمونے یورپی تجربہ گاہوں کو بھیجے جائیں تاکہ پینے کے حوالے سے اس کی جانچ ہوسکے۔ اس حکم کی روشنی میں وزارت نے جدہ میں بجلی اور نمک ربائی ( ڈی سیلی نیشن) کے مرکز کو ہدایت کی کہ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالے۔ میں اسی پلانٹ پر نمک رُبائی کا انجنیئر ( یعنی سمندر کے کھارے پانی سے پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لیے مامور کیمیائی انجینئر) تھا۔ اس کام کے لیے میرا انتخاب کیا گیا۔ مجھے یاد ہےکہ اس موقع پر مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ پانی کا کنواں کیسا دکھائی دیتا ہے۔"
میں وہاں سے مکہ پہنچا اور کعبے میں تعینات سرکاری عہدیداروں سے مل کر انہیں اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کہا۔

انہوں نے ہر ممکنہ مدد کے لیے ایک شخص کو میرے ساتھ کردیا۔ جب ہم کنویں پر پہنچے تو میرے لیے یہ تعین کرنا بہت مشکل تھا کہ 18 فٹ لمبے اور 14 فٹ چوڑے تالاب کی طرف دکھائی دینے والا، پانی کا بظاہر مختصر سایہ ذخیرہ وہی کنواں ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں جاری ہوا تھا اور اب تک ہر سال حاجیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہیں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھ آئے ہوئے شخص سے کہا کہ وہ مجھے کنویں کی گہرائی دکھائے۔ پہلے اس نے غسل کیا اور پھر پانی میں اتر گیا۔ پھر وہ پانی میں سیدھا کھڑا ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ پانی کی سطح اس کے کندھے سے ذرا سی اوپر تک تھی جب کہ اس کا اپنا قد تقریبا پانچ فٹ آٹھ انچ تھا۔ پھر اس نے خود کو سیدھا رکتے ہوئے، کنویں کی دیواریں ٹٹولتے ہوئے ایک سے دوسرے کنارے کی طرف چلنا شروع کیا، تاکہ دیوار میں موجود کسی پائپ یا نالی کا سراغ لگالے اور یہ پتا چلا لے کہ کنویں میں کہاں سے پانی آرہا ہے۔( اسے اجازت نہیں تھی کہ وہ پانی میں سر ڈالے۔ ) تاہم ، اس آدمی کو کنویں میں آنے والی کسی نالی یا پائپ کا سراغ نہیں مل سکا۔"
مجھے ایک اور خیال سوجھا۔ چاہِ زم زم سے بڑی بڑی ذخیرہ جاتی ٹنکیاں بھرنے کے لیے طاقتور پمپ وہاں نصب تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر کنویں کا پانی تیزی کے ساتھ اس پمپ کے ذریعے کھینچا جائے تو یقینا وقتی طور پرپانی کی سطح گرے گی اور یوں ہم نالی یا پائپ کو براہِ راست دیکھ سکیں گے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پمپنگ کے دوران بھی ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ مگر میں جانتا تھا کہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی کنویں میں پانی داخل ہونے کے راستے کا پتا چلاسکتے ہیں۔ لہٰذا میں نے یہ عمل ایک بار پھر دہرانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس مرتبہ میں نے اس آدمی کو ہدایت کردی کہ وہ ایک جگہ ساکن کھڑا رہے اور کنویں میں ہونے والی کسی بھی غیر معمولی بات کا احتیاط سے مشاہدہ کرے۔ کچھ دیر بعد ہی وہ چلایا" الحمد للہ! مجھے پتا چل گیا۔ میرے پیروں تلے ریت میں حرکت ہورہی ہے۔ پانی اسی راستے میں داخل ہورہا ہے۔" پھر اس نے پورے کنویں کا ایک چکر لگا یا اور مجھے بتایا کہ پورے کنویں میں یہی کیفیت ہر جگہ ہے۔ دراصل کنویں میں آنے والا پانی، تہہ کے ہر مقام سےیکساں طور پر داخل ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی سطح اپنی جگہ پر رہتی ہے۔ یہ مشاہدات مکمل کرنے کے بعد میں نے یورپی تجربہ گاہوں کے لیے آبِ زم زم کے نمونے لیے۔ واپسی سے پہلے میں نے کعبہ کے عہدیداروں سے مکہ کے دیگر کنوؤں کے بارے میں دریافت کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ دوسرے کنویں اکثر اوقات خشک رہتے ہیں۔"
جب میں جدہ میں اپنے دفتر واپس پہنچا اور اپنے افسر کو اس دریافت کے بارے میں بتا یا تو وہ بہت متاثر ہوا۔ مگر اس نے انتہائی غیر معقول توجیح بیان کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ زم زم کا کنواں اندرونی طور پر بحیرۂ احمر سے متصل ہوسکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا جب کہ شہرِ مکہ سمندر سے تقریبا 75 کلو میٹر دور ہے اور شہر کے آس پاس کے بیشتر کنویں اکثر خشک رہتے ہیں؟ آبِ زم زم کے نمونوں کے تجزئیے کے بعد یورپی تجربہ گاہوںنے جو نتائج دئیے تھے، ہمارے تجزیاتی نتائج بھی تقریبا وہی تھے۔ زم زم کے پانی اور شہر کے دوسرے مقامات سے حاصل شدہ پانی میں کیلشیم اور میگنیشیم نمکیا ت کی حل شدہ مقداروں کا فرق تھا۔ آبِ زم زم میں ان نمکیات کی مقدار تھوڑی سی زیادہ پائی گئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ پانی پی کر تھکے ہوئے حاجیوں کو تازگی کا احساس ہوتا ہے۔"
مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آبِ زم زم میں قدرتی طور پر فلورائیڈ مرکبات بھی موجود ہیں جو اہم جراثیم کُش خصوصیات رکھتے ہیں۔ یورپی تجربہ گاہوں نے اس پانی پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پینے کے لیے اس سے بہتر پانی کوئی اور نہیں۔ اس طرح مصری ڈاکٹر کا بیان غلط ثابت ہوگیا۔ جب شاہ فیصل کو اس کی اطلاع دی گئی تو بہت خوش ہوئے اورا نہوں نے حکم دیا کہ مصری ڈاکٹر کے دعوے کو غلط ثابت کرنے والی یہ خبر یورپی اخبارات کو جاری کردی جائے۔"
یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی تھی کہ آبِ زم زم کے تجزیاتی مطالعے کے بعد اس کی کیمیائی ترکیب منظر عام پر لائی گئی۔ درحقیقت آپ جتنا کھوجتے چلے جائیں گے، اتنے ہی زیادہ عجائبات آپ کے سامنے آئیںگے اور آپ اس پانی( آبِ زم زم ) میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات پر ایمان لاتے جائیں گے۔۔۔"


اب میں آبِ زم زم کی کچھ امتیازی خصوصیات مختصراً بیان کرنا چاہوں گا:
٭ یہ کنواں (از خود) کبھی خشک نہیں ہوا بلکہ، اس کے برعکس، اس نے پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات ہمیشہ پوری کی ہیں۔
٭ اس کا ذائقہ اور اس میں موجود نمکیات کی مقدار، چاہِ زم زم وجود میں آنے سے لے کر آج تک جوں کی توں ہے۔
٭ اس کی نوشیدگی( یعنی پینے کے لیے موزونیت) بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عازمینِ حج یا عمرہ میں سے کوئی آبِ زم زم پینے کی وجہ سے بیمار پڑا ہو۔ اس کے برعکس اسے پینے والوں نے ہمیشہ خود کو تازہ دم اور چاق و چوبند ہی پایا ہے۔
٭ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی کنویں کے پانی کا ذائقہ تبدیل ہوجاتا ہے اور اسے کیمیائی طور پر صاف کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آبِ زم زم کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
بیشتر کنوؤں میں کھدائی کے کچھ عرصے بعد دیواروں پر نامیاتی اجسام اور خودرو نباتات وغیرہ پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ چند سال ہی میں ان کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے جو کنویں کے پانی کو بد ذائقہ اور بدبودار کرکے پینے کے لیے ناموزوں بنا دیتا ہے۔ چاہِ زم زم کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس میں ایسی کسی نامیاتی افزائش کے آثار نہیں پائے گیے ہیں۔"


کیمیائی ترکیب
پاکستانی کیمیکل انجینئر، طارق حسین کی آبِ زم زم کے بارے میں خود نوشت آپ نے ملاحظہ کی۔ یہ آبِ زم زم کا اوّلین کیمیائی تجزیہ تھا۔ بعد ازاں وقتاً فوقتاً آبِ زم زم کاکیمیائی تجزیہ ہوتا رہا ہے اور ہر بار اسے صحت بخش خصوصیات سے مالا مال پایا گیا ہے۔
1400 ہجری(بمطابق 1980ء) میں شاہ خالد السعودی مرحوم کی زندگی میں چاہِ زم زم کی صفائی اور کنویں کے چاروں طرف جمع ہونے والے پانی کی نکاسی کا انتظام بہتر بنانے کے بعد ، آبِ زم زم کے کچھ تازہ نمونے امریکی تجاہوں (تجربہ گاہوں )میں تجزئیے کے لیے روانہ کیے گیے۔ علاوہ ازیں، اسی دوران سعودی عرب کے مغربی صوبے میں واقع پانی کی فراہمی اور آلودہ پانی کی صفائی پر مامور سرکاری شعبے کی ایک تجربہ گاہ میں بھی کچھ نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔
بعض مقامات پر ڈاکٹر احمد عبدالقادر المہندسی کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ آبِ زم زم کی "پی ایچ ویلیو"(pH value) یعنی ہائیڈروجن آئنوں کی تناسبی مقدار 5.7 ہے۔یعنی اس میں معمولی سے الکلی خواص ہیں۔
امریکی تجربہ گاہوں کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ آبِ زم زم میں معلوم شدہ عناصر کے علاہ مزید تیس عناصر کی انتہائی معمولی مقداریں (trace amounts) بھی موجود ہیں ان میں سے بعض کی شرح 01.0 حصے فی دس لاکھ (01.0پی پی ایم ) سے بھی کم ہے۔
متعدد کیمیائی تجزیات کے بعد آج یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ سعودی عرب کے گرم اور خشک موسم میں ہونے والی زیادہ تبخیر کی وجہ سے آبِ زم زم میں نمکیات کی شرح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے جو اسے انسانی جسم کے لیے مفید بناتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت نے پانی کی نوشیدنی کے بارے میں خاصی تفصیلات جاری کی ہیں جن کے تحت کسی بھی مقام پر دستیاب پانی میں پینے کے لحاظ سے موزونیت کا تعین کر کے درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔ جب آبِ زم زم کا تجزیہ ان معیارات کے مطابق کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ یہ پانی نہ صرف پینے کے لیے بہت موزوں ہے بلکہ عمومی صحت پر بھی اس کے انتہائی مثبت اور غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

آبِ زم زم میں موجود اہم معدنیات کا خلاصہ یہ ہے:
معدن ۔۔۔۔ تناسبی مقدار (پی پی ایم)
کیلشیم ۔۔۔۔ 198
میگنیشیم ۔۔۔۔ 7.43
کلورائیڈ ۔۔۔ ۔ 335
گندھک ۔۔۔۔ 370
فولاد ۔۔۔۔ 15.0
مینگنیز ۔۔۔۔ 15.0
تانبا (کاپر) ۔۔۔۔ 12.0


ارضیاتی حقائق
جناب عبدالمطلب کے زمانے میں چاہِ زم زم کی کھدائی کے بعد سے لے کر اب تک اس کنویں کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔ یعنی یہ آج تک 18 فٹ لمبا، 14 فٹ چوڑا اور تقریباً 5فٹ گہرا ہے۔
مکہ کا شہر جس وادی میں ہے وہ چاروں طرف سے گرینائٹ چٹانوں والے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ حرم شریف ( مسجد الحرام) وادی میں سب سے نچلے مقام پر ہے۔ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام سمیت پورا شہر مکہ، ریت اور گاد کی تہ ( sand and silt formation) پر واقع ہے۔ جس کی گہرائی 50 سے 100 فٹ تک ہے اور جس کے نیچے آتشی چٹانوں کی ایک تہہ پھیلی ہوئی ہے۔ چاہِ زم زم بھی ریت / گاد کی اسی تہہ پر واقع ہے اور اس میں پانی کی سطح ، اطراف کی زمین سے 40 تا 50 فٹ کی گہرائی پر ہے۔

یہ انکشاف یقیناً دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ چاہِ زم زم میں پانی پہنچانے کا کام نفوذ پذیر ریت پر مشتمل ایک تہہ سے ہوتا ہے جسے ریت سے بھری ہوئی ایک لمبی سرنگ کی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ آب اندوخت(aquifer) کسی ڈھلوان سطح کی مانند، ابوالقبیس پہاڑ کی سخت چٹانون کے نیچے سے گزرتی ہوئی ، کچھ او پر کو اُٹھتی ہوئی طائف کی پہاڑیوں تک چلی گئی ہے۔ اس کا انکشاف جون 1982ء میں اس وقت اتفاقیہ طور پر ہوا جب حرم شریف میں صفا کی جانب ایک سرنگ کھودی جارہی تھی۔ سرنگ کی چھت کھودتے کھودتے اچانک ہی وہاں سے پانی اُبل پڑا۔ ذراسی دیر میں وہاں جل تھل ہوگیا اور سرنگ میں اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ وہاں کا م کرنے والے مزدوروں کی زندگیاں بھی خطرے میں نظر آنے لگیں۔ عین اس لمحے چاہِ زم زم میں پانی کا بہاؤ متاثر ہوا اور شاید تاریخ میں پہلا موقع آیا جب یہ کنواں (اس واقعے کے سبب ) تقریباً خشک ہوگیا۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اس واقعے کی فوری چھان بین کے لیے ایک ہنگامی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی میں شاہ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم اینڈ منرلز سے وابستہ، ارضی طبیعیات کے پاکستانی پروفیسر، ڈاکٹر عدنان نیازی بھی شامل تھے۔

پانی کے تجزئیے سے معلوم ہوا کہ سرنگ میں بھر نےوالا پانی اورچاہِ زم زم کا پانی بالکل ایک جیسے تھے۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ سرنگ میں کھدائی کے کام نے کنویں تک پانی پہنچانے والی آب اندوخت میں شگاف ڈال کر اس فراہمی کو بُری طرح متاثر کیا تھا۔ جون 1982ء میں جن لوگوں کو اُس سرنگ میں جانے کا موقع ملا تھا، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے (سرنگ کی ) ٹوٹی ہوئی چھت میں سے پانی کا سیلاب سا اُبلتے ہوئے دیکھا تھا۔ بہر کیف ! فوری مرمت کے بعد یہ شگاف بند کردیا گیا اور یوں چاہِ زم زم کو پانی کی فراہمی دوبارہ بحال ہوگئی۔

کنوؤں کی اقسام اور آبیات کے قوانین

اس سے پہلے کہ ابِ زم زم کے حوالے سے اس بحث کو مزید آگے بڑھایا جائے ، قارئین کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ زیرِ زمین پانی کا نظریہ(گراؤنڈ واٹر تھیوری ) کیا کہتی ہے اور اس کی مساواتوں کے تحت کسی کنویں میں پانی کے بہاؤ کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ جاننے کے بعد قارئین اس قابل ہوں گے کہ وہ چاہِ زم زم کی آبیات( Hydraulics) اور زیرِ زمین پانی کے مروجہ نظریات کا آپس میں موازنہ کر سکیں۔
کنوؤں کی دو اقسام ہیں جنہیں بالترتیب" کھلے کنویں " (Open wells) اور "گہرے کنویں"( Deep wells) کہا جاتا ہے۔ گہرے کنوؤں کے لیے عام طور پر "ٹیوب ویل" کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جو یقیناً بہت سے قارئین کے لیے نیا نہیں ہوگا۔
ایسے مقامات جہاں زیرِ زمین پانی کی گہرائی زیادہ نہ ہو، وہاں کدال اور پھاؤڑے وغیرہ کی مدد سے کھلے کنویں کھودے جاتے ہیں جن کا قطردس سے پندرہ فٹ تک ہوسکتا ہے۔ کسی کھلے کنویں کی عمومی گہرائی 100 فٹ سےکم ہوتی ہے اور اگر اس کے کناروں پر پتھر نہ ہوں تو ان میں مٹی گرنے سے روکنے کے لیے پتھروں یا اینٹوں سے چار دیواری بنادی جاتی ہے۔ کنویں کے اندر بنائی گئی یہ چار دیوار کچھ ایسی رکھی جاتی ہے کہ پتھروں یا اینٹوں کے درمیان سے پانی رِ س رِ س کر کنویں میں پہنچتا رہے ۔ کنویں کے فرش پر بجری کی موٹی تہہ بچھادی جاتی ہے تاکہ اگر کبھی کنویں میں پانی ا بہاؤ زیادہ ہو یا فرش سے پانی کی زیادہ مقدار اُبل پڑے تو مٹی / ریت اوپر نہ آسکے۔ ایسے کسی کنویں کا منفی پہلو ا س میں پانی کی کم شرح اخراج(discharge rate) ہے، جو 1.0 مکعب فٹ فی سیکنڈ (یعنی 45 گیلن فی منٹ ) یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔کنویں سے زیادہ پانی کھینچنے یا زیادہ آبی اخراج کی وجہ سے فرش کی مٹی بھی پانی میں شامل ہوکر اسے گدلاسکتی ہے اور آخر کار اس کا نتیجہ کنویں کی دیواریں گرنے اور اس کے بند ہوجانے کی شکل میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔
گہرے کنویں (ٹیوب ویل) خاصی گہرائی تک کھودے جاتے ہیں اور یہ کام مشینوں سے لیا جاتا ہے۔ اگر انہیں سخت چٹانوں میں کھودا جائے تو ان سے پانی نکالنے کے لیے عموماً کسی چھلنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم اگر انہیں باریک ریت یا ایلوویئم (مٹی اور گارے کی تہہ) میں کھودا جائے تو فرش کی تہہ تھامے رکھنے کے لیے چھلنی لگائی جاتی ہے۔ ایسے کنوؤں کا قطر12 سے 15 انچ تک ہوتا ہے اورا نہیں پانی کی بلند شرح اخراج--یعنی تین مکعب فٹ فی سیکنڈ(1326 گیلن فی منٹ) تک -- کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔

عشرہ 1950ء کے ابتدائی برسوں سے پہلے تک چاہِ زم زم سے پانی نکالنے کے لیے دستی نظام استعمال ہوتاتھا۔اُن دنوں اس کنویں میں پانی کا اخراج اتنا ہوتا تھا کہ حج کے دنوں میں پانی کی اضافی ضرورت بہ آسانی پوری ہوجاتی -- جبکہ اس زمانے میں حاجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
آج ہر سال یہاں تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ افراد فریضۂ حج ادا کرنے آتے ہیں۔ علاوہ ازیں چاہِ زم زم سے مسجد نبوی کو مدینہ منورہ میں بھی پانی فراہم کیا جاتا ہے جس کے لیے مکہ سے مدینہ تک 450 کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ آج چاہِ زم زم پر نصب برقی پمپ کی استعدادِ کار تین مکعب فٹ فی سیکنڈ سے کچھ زیادہ(1350گیلن فی منٹ)ہے۔
آبِ زم زم کا یہ کنواں گزشتہ 1450سال سے مسلسل استعمال میں ہے۔ آج سے نصف صدی قبل، یعنی برقی پمپ کی تنصیب سے پہلے تک، یہاںسے پانی کا اخراج کبھی 05.0مکعب فٹ فی سیکنڈ(تقریباً 5.22 گیلن فی منٹ) سے زیادہ نہیں ہوا تھا۔ تاہم اُس وقت سے لے کر آج تک اس کنویں سے پانی کے اخراج میں حاجیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ آج یہ تین مکعب فٹ فی سیکنڈ(1346گیلن فی منٹ ) شرح پر پہنچ چکا ہے۔ اس سے روزانہ کئی کئی گھنٹے تک مسلسل پانی کھینچا جاتا ہے، جب کہ بعض اوقات رُکے بغیر کئی دن تک پانی کھینچنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اس موقع پر بیان دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ 1968ء میں ایامِ حج کے دوران شدید طوفان کی وجہ سے بیت اللہ شریف میں بھی سیلاب آگیا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب پانی، خانہ کعبہ کے دروازے تک آگیا، جو زمین سے تقریباً سات فٹ کی اونچائی پر ہے حرم شریف کی نچلی منزلیں مکمل طور پر زیرِ آب آگئی تھیں اور تقریباً 30 حاجی ڈوب کر جاں بحق ہوگیے۔ اس واقع کے بعد سعودی حکام کو یہ خیال آیا کہ بارش اور سیلاب کا پانی چاہ زم زم تک بھی یقیناً جا پہنچا ہوگا لہٰذا اسے صاف کرنا چاہیے۔ اس طرح پہلے مطاف(خانۂ کعبہ کے گرد طواف کی جگہ) سے پانی نکالا گیا۔ اس مقصد کے لیے طاقتور پمپ نصب کیے گیے تھے جو 4 مکعب فٹ فی سیکنڈ (تقریبا 1800گیلن فی منٹ ) کی رفتار سے پانی کھینچ سکتے تھے۔ بعد ازاں انہی پمپوں کو چاہِ زم زم میں سے پانی کھینچنے اور صفائی کے لیے استعمال کیا گیا۔ منصوبہ کچھ یہ تھا کہ پہلے ان پمپوں کے ذریعے پورا کنواں مکمل طور پر خشک کردیا جائے۔ پھر اس میں بتدریج خالص آبِ زم زم ازسرِ نو جمع ہونے دیاجائے۔

یہ بات آج بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ 4 مکعب فٹ فی سیکنڈ کی زبردست طاقت رکھنے والے یہ پمپ بڑی دیر تک چلتے رہے مگر چاہِ زم زم میں پانی کی سطح کم نہ ہوئی ۔ جب کنواں خشک ہونے کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو چند گھنٹوں بعد یہ کوششیں ترک کردی گئیں۔
دنیا کا کوئی بھی کھلا کنواں لے لیجیے، اس کا استعمال شروع ہونے کے کچھ سال بعد ہی الجی (کائی ) پیدا ہوجانے کی وجہ سے اس کے پانی میں بدبو کا مسئلہ آجاتا ہےاور وہ پینے کے قابل نہیں رہتا ۔
اس کے برعکس چاہِ زم زم چودہ سو سال سے استعمال میں ہے لیکن وہاں اب تک ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ چند سال پہلے تک یہ پانی کسی ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارے بغیر فراہم کیا جاتا تھا، تاہم کچھ عرصے سے سعودی حکام نے اس کی کلوری نیشن (یعنی پانی سے کلورین گزارنے) کا عمل ضرور شروع کردیاہے۔
چاہِ زم زم پر آکر زیرِ زمین پانی کے بہاؤ اور آبیات (ہائیڈرولوجی) کے تمام معلومہ قوانین دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایک واضح معجزے سے کم نہیں۔ رہا سوال اُن لوگوں کا جنہوں نے اس آنکھوں دیکھی سچائی کو نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہے، تو انہیں راہِ راست پر لانے کا ذمہ تو اللہ تعالیٰ نے بھی نہیں لیا۔ بھلا پھر ہماری اور آپ کی باتیں ان پر کیا اثر کریں گی۔
لنک
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حجاج کرام کیلئے آب زمزم کی پیکنگ اور فراہمی

اگست 13, 2016

مکۃ المکرمہ(یونیوزرپورٹ) آب زم زم بہت ہی متبرک پانی ہے، حج وعمرہ کیلئے جانیوالے غیرملکی مسلمانوں کو خاص طور پر آب زم زم بطور تحفہ دیا جاتاہے۔
آب زم زم زخیرہ کرنے اور اس کی پیکنگ کا ذمہ دارکارخانہ10ہزار مربع میٹر پربنایا گیا ہے جہاں چوبیس گھنٹے آب زم زم پیک کرنے اوراسے مختلف مقامات تک پہنچانے کا عمل جاری رہتا ہے۔
آب زم زم پیکنگ کے ذمہ دار ادارے کے ترجمان امیر بن فیصل عبید نے بتایاکہ حج کے ایام کے قریب آتے ہی حجاج کرام کیلئے آب زم زم کی پیکنگ کاعمل تیزکردیا گیاہے،تمام حجاج کرام کوآب زم زم انکی رہائش گاہوں تک پہنچایا جائیگا،آب زم زم کی پیکنگ اوراس کی تقسیم کار میں سرگرم ادارے،کمیٹیاں اور رضاکار زم زم کی پکینگ میں مصروف ہیں۔
حج کے ایام کے قریب آتے ہی مکہ مکرمہ میں آب زم زم ذخیرہ کرنیوالے ادارے نے فی گھنٹہ2000پلاسٹک کی گیلن تیارکرنی شروع کردی ہیں اورہرگلین میں20لیٹر آب زم زم پیک کیاجارہا ہے۔
آب زم زم کا کنواں 18/14فٹ چوڑا جبکہ 13میٹرگہرا ہے جوکہ 4ہزار سال پرانا ہے اور اس میں سے مسلسل پانی نکلتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود پانی میں ذرا برابر کی کمی نہیں آئی۔ کنویں سے 24گھنٹے پانی نکالنے کاعمل جاری رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آب زم زم کی جو خصوصیات ہمیں شریعت بتاتی ہے..ہم الحمد للہ بلا تحقیق اُس پر ایمان لاتے ہیں.
اور جو خصوصیات یا خامیاں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو کر یا کرنے کے لیے بتاتے ہیں اُس پر تحقیق کرنے کا ہمارا حق ہے..جیسا کہ شیخ اسحاق سلفی حفظہ اللہ کا پیش کردہ مضمون بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے..اور اگر یہ تحقیق صحیح ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آب زم زم میں بھی معدنیات پائی جاتی ییں..اس لیے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت اس میں سے برقی رو یعنی کرنٹ بھی گزرنا چاہیئے.. اسی لیے اوپر اپنی پوسٹ میں اس اہم نکتہ کی طرف اشارہ دیا تھا تا کہ جو اپنے طور پر تجربہ و تحقیق کرنا چاہے کر لے کہ یہ قانون برقیات کے میدان میں معروف و مشہور بھی ہے.
اور چونکہ برقیات کسی قدر میرا پسندیدہ مضمون بھی ہے اور میرا میدان بھی..اس لیے بھی اپنے علم کو بیان کر دیا..اور بالفرض اگر شریعت سے ثابت ہوتا کہ آب زم زم سے کرنٹ نہیں گزر سکتا تو واللہ اس کے مخالف کوئی تحقیق کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا اور نہ ہی کوئی نکتہ پیش کر کے لوگوں کو گمراہ..
مزید عرض ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اُس شخص نے اپنے تجربے میں خالص پانی استعمال کیا ہو..کہ بعض لوگ دین اسلام کی مسلمہ حقانیت کو بذریعہ جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ایسی باتوں کا مشاہدہ تو اب معمول بن گیا ہے..
محترم شیخ @خضر حیات حفظہ اللہ سے درخواست ہے کہ کبھی وقت و موقع ملے تو اپنی نگرانی میں خالص آب زم زم سے مذکورہ تجربہ کروا کر اس کے نتائج سے آگاہ فرمائیں تا کہ معاملہ واضح ہو جائے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم شیخ @خضر حیات حفظہ اللہ سے درخواست ہے کہ کبھی وقت و موقع ملے تو اپنی نگرانی میں خالص آب زم زم سے مذکورہ تجربہ کروا کر اس کے نتائج سے آگاہ فرمائیں تا کہ معاملہ واضح ہو جائے.
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اب کی بار آپ کے پاس زم زم لے کر حاضر ہو جاؤں گا ، تجربہ خود کرلیجیے گا ۔ :)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ زم زم کی یہ خصوصیت کسی حدیث میں بیان نہیں ہوئی!
بجلی مکہ میں بھی کافی عرصہ سے ہے، اب تک تو ایسی کوئی بات سامنے نہ آئی تھی، اور اب اس کا سامنے آنا !
خیر مجھے اس تجربہ کی شفافیت پر اعتماد نہیں!
 
Last edited:
Top