“لا الہ الا اللہ”کے فائدہ مند ہونے کی شرائط
ہر عمل کے کچھ آداب و شرائط ہوتے ہیں، جب تک ان کو ملحوظ نہ رکھا جائے ، وہ عمل نتیجہ خیز اور ثمر آور نہیں ہوتا۔اسی طرح “لا الہ الا اللہ” کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن دنیا و آخرت میں اس کے فائدہ مند ہونے کے لیے بھی کچھ شرطیں ہیں۔جب تک وہ شرطیں بھی پوری نہیں ہوں گی اس کے وہ فضائل و فوائد بھی حاصل نہیں ہوں گے جو قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔یہ شرائط حسب ذیل ہیں:
1)اس کا جو مطلب و معنی ہے اور اس کا جو مثبت اور منفی مفہوم ہے ، پڑھنے والے کو اس کا علم ہو تاکہ وہ اس کے تقاضوں پر عمل کر سکے۔
2)پڑھنے والے کو یقین ہو، وہ شک میں مبتلا نہ ہو۔
3)وہ مخلص ہو، یعنی اس کو پڑھنے والا ہر کام اللہ ہی کی رضا کے لیے کرے ، اس میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔
4)اس کے اقرار و اعتراف میں وہ سچا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے والا ہو۔منافقین کی طرح محض زبان سے اظہار ہو نہ جہالت کی وجہ سے اس کے تقاضوں سے انحراف ہو۔
“لا الہ الا اللہ”کے ثمرات و برکات
جب “لا الہ الا اللہ”کے سب قائلین اس کے معنی و مفہوم کو پورے طور پر سمجھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو برائے کار لائیں گے ، تو وہ سب ایک ہی معبود کے پرستار اور ایک ہی مطاع کے اطاعت گزار ہوں گے۔عقیدہ و عمل کی یہ وحدانیت، توحید کا سب سے بڑا ثمرہ اور فائدہ ہے۔اس سے سب مسلمان ایک کلمے پر مجتمع، تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے اور دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے دست و بازو اور معاون ہوں گے۔جیسے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾
ترجمہ: : اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران، آیت 103)
عقیدہ توحید کو اپنائے بغیر قرآن کے اس حکم پر عمل ممکن نہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس عقیدے کو صحیح معنوں میں اپنایا تو وہ ایک ہو گئے ، جب کہ پہلے وہ جدا جدا تھے ، وہ بھائی بھائی بن گئے جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ، وہ ایک دوسرے پر رحم و کرم کرنے والے بن گئے ، جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اس باہمی الفت و محبت کے بارے میں فرمایا:
وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ( ﴿63﴾
ترجمہ: : اور ان کے دلو ں میں الفت ڈال دی جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن الله نے ان میں الفت ڈال دی بے شک الله غالب حکمت والا ہے (سورہ الانفال، آیت 63)
اللہ نے یہ الفت کس طرح ڈالی ؟اس عقیدہ توحید کے ذریعے سے۔اس نے انہیں اس عقیدے کو اپنانے کی توفیق دیاور یہ کلمہ توحید ان کی وحدت اور باہمی الفت کا ذریعہ بن گیا۔قرآن کریم میں اللہ نے اپنے اس احسان اور حقیقت کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [/ARB]﴿103﴾
ترجمہ: : اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران، آیت 103)
اللہ نے ایک اور مقام پر ان کی باہمی الفت اور رحم دلی کی گواہی یوں دی:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿29﴾
ترجمہ: : محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہو گئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہو گئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اور نیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے (سورہ الفتح، آیت 29)
آج مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کیوں نہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ “لا الہ الا اللہ”کے مقتضیات سے انحراف اور وحدت عقیدہ کا فقدان ہے۔حالانکہ اللہ نے اس تفریق کی سختی سے مذمت بیان فرمائی تھی۔اللہ نے اپنے پیغمبر سے خطاب کر کے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿159﴾
ترجمہ: : جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے ) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا (سورہ الانعام، آیت 159)
ایسے تفریق بازوں کے لیے اللہ نے فرمایا:
فَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًۭا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿53﴾
ترجمہ: : پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پو جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں (سورہ المومنون، آیت 53)
یہ تفریق دین یا تفریق کلمہ، الہ واحد کی ربوبیت و الوہیت سے انحراف ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔چنانچہ اس آیت سے پہلے اللہ نے فرمایا:
وَإِنَّ هَٰذِهِۦ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿52﴾
ترجمہ: : اور بے شک یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو (سورہ المومنون، آیت 52)
معلوم ہوا کہ وحدت امت کی بنیاد وحدت عقیدہ یعنی رب واحد ہی سے ڈرنا اور اسی کی عبادت و اطاعت کرنا ہے۔جب سب ایک ہی رب کے پجاری اور ایک ہی رب کے فرمانبردار ہوں گے تو عقیدے کی اس وحدت سے زندگی کے ہر شعبے میں وحدت کی جلوہ گری ہو گی۔ان کی عبادت کا طریقہ ایک ہو گا، ان کا اخلاق و کردار ایک ہو گا، ان کے حلال و حرام کے پیمانے ایک ہوں گے ، ان کا دشمن ایک ہو گا یعنی صرف وہ جو الہ واحد کی عبادت و اطاعت سے انکار کرنے والا اور دوسرے معبودوں کا پرستار ہو گا۔اس طرح عقیدہ توحید سے انسانی معاشرہ امن اخوت کی عطر بیز ہواؤں سے معمور اور باہم ظلم و عدوان سے مامون(پاک )ہو گا۔اس باہم اتفاق و اتحاد ہی سے دشمن بھی لرزاں و ترساں ہو گا اور یہ اجتماعی قوت ہی، جس کے ساتھ اللہ کی تائید اور نصرت بھی ہو، دنیا میں عزت و سرفرازی کی اور اختیار و اقتدار سے سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا:
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًۭا ۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى شَيْا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ ﴿٥٥﴾
ترجمہ: : الله نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جواس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے (سورہ النور، آیت 55)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ اسلام کے قرون اولیٰ میں پورا فرمایا۔کیونکہ اس دور کے مسلمانوں نے اس شرط کو پورا کر دکھایا، انہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی بھی اختیار کی اور صرف الہ واحد کی عبادت کا اہتمام بھی کیا، شرک کے تمام مظاہر کو انہوں نے اکھاڑ پھینکا۔اللہ نے ان کو اس کے بدلے میں دنیا و آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔آج مسلمان اپنے عہد رفتہ کی سی عظمت و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہی نسخہ کیمیاء ہے جو صحابہ و تابعین نے استعمال کیا تھا۔ایمان اور عمل والی زندگی اور بے غبار عقیدہ توحید اور اس کے مقتضیات پر عمل۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازے۔
توحید اور شرک کی حقیقت ۔۔۔ صلاح الدین یوسف
ربط