• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آج کے مسلمانوں سے ایک اہم سوال .............؟؟؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

اگر کلمہ طیبہ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کو صرف زبان سے پڑھنا ہی کافی ہوتا تو ابو جہل اور ابو لہب بھی اس کلمہ کو پڑھنے میں کوئی آر اور مشکل محسوس نہ کرتے - لیکن معذرت کے ساتھ کہ وہ اس کے معنی آج کل کے نام نہاد مسلمانوں سے کہیں بہتر جانتے تھے - وہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے اس کلمہ کو پڑھ لیا تو اس کا حق ادا کرنا پڑ جائے گا - اپنے تمام باطل معبودوں اور حاجت رواؤں سے ہاتھ دھونے پڑجائیں گے -اسی لئے اس پاک کلمہ کو پڑھنے سے گریز کیا اور انکار کردیا-

کیا آج کا مسلمان اس پاک کلمہ کو پڑھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے اس کا حق ادا کردیا ؟؟؟ اپنے نام نہاد معبودوں ، پیروں، عالموں، آئمہ، اور وہ سب کہ جن کی خاطر وہ اپنا وقت ،تن، من دھن قربان کرنے کو تیار ہے- کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد ان سب پر اس نے صرف الله اور اس کے رسول کا احکمات کو ترجیح دے دی ہے ؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
“لا الہ الا اللہ”کے فائدہ مند ہونے کی شرائط


ہر عمل کے کچھ آداب و شرائط ہوتے ہیں، جب تک ان کو ملحوظ نہ رکھا جائے ، وہ عمل نتیجہ خیز اور ثمر آور نہیں ہوتا۔اسی طرح “لا الہ الا اللہ” کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن دنیا و آخرت میں اس کے فائدہ مند ہونے کے لیے بھی کچھ شرطیں ہیں۔جب تک وہ شرطیں بھی پوری نہیں ہوں گی اس کے وہ فضائل و فوائد بھی حاصل نہیں ہوں گے جو قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔یہ شرائط حسب ذیل ہیں:



1)اس کا جو مطلب و معنی ہے اور اس کا جو مثبت اور منفی مفہوم ہے ، پڑھنے والے کو اس کا علم ہو تاکہ وہ اس کے تقاضوں پر عمل کر سکے۔

2)پڑھنے والے کو یقین ہو، وہ شک میں مبتلا نہ ہو۔

3)وہ مخلص ہو، یعنی اس کو پڑھنے والا ہر کام اللہ ہی کی رضا کے لیے کرے ، اس میں کسی اور کو شریک نہ کرے۔

4)اس کے اقرار و اعتراف میں وہ سچا اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے والا ہو۔منافقین کی طرح محض زبان سے اظہار ہو نہ جہالت کی وجہ سے اس کے تقاضوں سے انحراف ہو۔



“لا الہ الا اللہ”کے ثمرات و برکات


جب “لا الہ الا اللہ”کے سب قائلین اس کے معنی و مفہوم کو پورے طور پر سمجھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو برائے کار لائیں گے ، تو وہ سب ایک ہی معبود کے پرستار اور ایک ہی مطاع کے اطاعت گزار ہوں گے۔عقیدہ و عمل کی یہ وحدانیت، توحید کا سب سے بڑا ثمرہ اور فائدہ ہے۔اس سے سب مسلمان ایک کلمے پر مجتمع، تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے اور دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کے دست و بازو اور معاون ہوں گے۔جیسے قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے :

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿103﴾

ترجمہ: : اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران، آیت 103)

عقیدہ توحید کو اپنائے بغیر قرآن کے اس حکم پر عمل ممکن نہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس عقیدے کو صحیح معنوں میں اپنایا تو وہ ایک ہو گئے ، جب کہ پہلے وہ جدا جدا تھے ، وہ بھائی بھائی بن گئے جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ، وہ ایک دوسرے پر رحم و کرم کرنے والے بن گئے ، جب کہ پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی اس باہمی الفت و محبت کے بارے میں فرمایا:

وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ( ﴿63﴾

ترجمہ: : اور ان کے دلو ں میں الفت ڈال دی جو کچھ زمین میں ہے اگر سارا تو خرچ کر دیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتا لیکن الله نے ان میں الفت ڈال دی بے شک الله غالب حکمت والا ہے (سورہ الانفال، آیت 63)

اللہ نے یہ الفت کس طرح ڈالی ؟اس عقیدہ توحید کے ذریعے سے۔اس نے انہیں اس عقیدے کو اپنانے کی توفیق دیاور یہ کلمہ توحید ان کی وحدت اور باہمی الفت کا ذریعہ بن گیا۔قرآن کریم میں اللہ نے اپنے اس احسان اور حقیقت کا ذکر دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [/ARB]﴿103﴾

ترجمہ: : اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (سورہ آل عمران، آیت 103)

اللہ نے ایک اور مقام پر ان کی باہمی الفت اور رحم دلی کی گواہی یوں دی:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿29﴾

ترجمہ: : محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہو گئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہو گئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اور نیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے (سورہ الفتح، آیت 29)

آج مسلمانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کیوں نہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ “لا الہ الا اللہ”کے مقتضیات سے انحراف اور وحدت عقیدہ کا فقدان ہے۔حالانکہ اللہ نے اس تفریق کی سختی سے مذمت بیان فرمائی تھی۔اللہ نے اپنے پیغمبر سے خطاب کر کے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿159﴾

ترجمہ: : جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے ) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا (سورہ الانعام، آیت 159)

ایسے تفریق بازوں کے لیے اللہ نے فرمایا:

فَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًۭا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿53﴾

ترجمہ: : پھر انہوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر ایک جماعت اس ٹکڑے پو جو ان کے پاس ہے خوش ہونے والے ہیں (سورہ المومنون، آیت 53)

یہ تفریق دین یا تفریق کلمہ، الہ واحد کی ربوبیت و الوہیت سے انحراف ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔چنانچہ اس آیت سے پہلے اللہ نے فرمایا:

وَإِنَّ هَٰذِهِۦ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿52﴾

ترجمہ: : اور بے شک یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو (سورہ المومنون، آیت 52)

معلوم ہوا کہ وحدت امت کی بنیاد وحدت عقیدہ یعنی رب واحد ہی سے ڈرنا اور اسی کی عبادت و اطاعت کرنا ہے۔جب سب ایک ہی رب کے پجاری اور ایک ہی رب کے فرمانبردار ہوں گے تو عقیدے کی اس وحدت سے زندگی کے ہر شعبے میں وحدت کی جلوہ گری ہو گی۔ان کی عبادت کا طریقہ ایک ہو گا، ان کا اخلاق و کردار ایک ہو گا، ان کے حلال و حرام کے پیمانے ایک ہوں گے ، ان کا دشمن ایک ہو گا یعنی صرف وہ جو الہ واحد کی عبادت و اطاعت سے انکار کرنے والا اور دوسرے معبودوں کا پرستار ہو گا۔اس طرح عقیدہ توحید سے انسانی معاشرہ امن اخوت کی عطر بیز ہواؤں سے معمور اور باہم ظلم و عدوان سے مامون(پاک )ہو گا۔اس باہم اتفاق و اتحاد ہی سے دشمن بھی لرزاں و ترساں ہو گا اور یہ اجتماعی قوت ہی، جس کے ساتھ اللہ کی تائید اور نصرت بھی ہو، دنیا میں عزت و سرفرازی کی اور اختیار و اقتدار سے سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد ہے۔جیسے اللہ نے فرمایا:

وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًۭا ۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى شَيْا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَٰسِقُونَ ﴿٥٥﴾

ترجمہ: : الله نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جواس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے (سورہ النور، آیت 55)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ اسلام کے قرون اولیٰ میں پورا فرمایا۔کیونکہ اس دور کے مسلمانوں نے اس شرط کو پورا کر دکھایا، انہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی بھی اختیار کی اور صرف الہ واحد کی عبادت کا اہتمام بھی کیا، شرک کے تمام مظاہر کو انہوں نے اکھاڑ پھینکا۔اللہ نے ان کو اس کے بدلے میں دنیا و آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔آج مسلمان اپنے عہد رفتہ کی سی عظمت و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہی نسخہ کیمیاء ہے جو صحابہ و تابعین نے استعمال کیا تھا۔ایمان اور عمل والی زندگی اور بے غبار عقیدہ توحید اور اس کے مقتضیات پر عمل۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازے۔
توحید اور شرک کی حقیقت ۔۔۔ صلاح الدین یوسف
ربط
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محض زبان سے کلمہ پڑھنا کافی نہیں، اس کے تقاضوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے




گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ محض زبان سے “لا الہ الا اللہ”کہہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔جب تک کہنے والا اس کے معنی و مفہوم کو نہیں سمجھتا اور اس کے تقاضوں کو بروئے کار نہیں لاتا۔اس وقت تک اس کا فائدہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے نہ آخرت ہی میں اس کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔لیکن بعض لوگوں کو بعض احادیث کے ظاہری الفاظ سے یہ مغالطہ لگتا ہے کہ زبان سے “لا الہ الا اللہ” پڑھ لینا ہی کافی ہے ، اس کے مقتضیات پر عمل ضروری نہیں۔جیسے پہلے ایک حدیث گزری ہے جس کا مفہوم ہے کہ “ایک شخص کی حد نگاہ تک اس کی برائیوں کے رجسٹر ہی رجسٹر ہوں گے اور اس کے مقابلے میں ایک پرچی “لا الہ الا اللہ” کی گواہی کی ہو گی۔تو یہ پرچی تمام رجسٹروں پر بھاری رہے گی۔اس طرح بعض روایات میں ہے کہ “لا الہ الا اللہ”پڑھنے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔یہ روایات اپنی جگہ صحیح ہیں، لیکن یہ روایات صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خلوص دل سے کفر و شرک سے تائب ہو جائیں، لیکن توبہ کے ساتھ ہی انہیں موت آ جائے ، عمل کا انہیں موقع ہی نہ ملے۔مگر چونکہ ان کی توبہ خالص تھی اللہ کی وحدانیت کو انہوں نے دل کی گہرائیوں سے قبول کرلیا تھا، اللہ کی محبت سے ان کا دل لبریز اور کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانیوں سے ان کا دل سخت متنفر ہو گیا تھا، تو ان کا یہ کمال یقین و اخلاص، محبت الہی اور ترک معصیت کا عزم بالجزم، عمل کے قائم مقام ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کلمہ طیبہ کی بدولت جنت میں داخل فرما دے گا۔تاہم جن کو یہ کلمہ پڑھنے کے بعد یہ موقع ملے کہ وہ اپنے عمل کے ذریعے سے اس سچائی کو واضح اور ثابت کریں، لیکن وہ اس کے مقتضیات پر عمل کر کے اپنی سچائی کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے ، تو ایسے لوگوں کا محض زبان سے “لا الہ الا اللہ”کہہ دینا عند اللہ کافی نہیں ہو گا۔چنانچہ دوسری روایات سے یہ بات بھی ثابت ہے۔جیسے حدیث میں ہے کہ ایک مرحلے پر جہنم سے ” لا الہ الا اللہ” کہنے والوں کو نکالا جائے گا۔اسی طرح یہ بھی حدیث میں ہے کہ “ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے سجدے والی جگہوں پر جہنم کی آگ حرام فرما دے گا “گویا ان کا سارا جسم جہنم میں جلے اور سڑے گا لیکن اعضائے سجود محفوظ رہیں گے۔اسی طرح دونوں قسم کی روایات میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے اور ان کے مابین منافات نہیں رہتی اور عقل بھی مذکورہ دونوں قسم کے افراد کے درمیان فرق کو تسلیم کرتی ہے۔گویا عقل اور نقل دونوں اعتبار سے یہ موقف صحیح ہے۔جس کی صراحت مذکورہ سطور میں کی گئی ہے۔



ایک اور شبہ اور اس کا ازالہ


ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر جہاد کے لیے بھیجا، وہاں فتح یابی کے بعد ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ شکست خوردہ کافر قبیلے کا ایک شخص ان کو ملا، اس نے “لا الہ الا اللہ” پڑھا، لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ شخص جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے چنانچہ انہوں نے اس کا اعتبار نہیں کیا اور اسے قتل کر دیا۔جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور اسامہ سے فرمایا:”(اقتلتہ بعد ما قال لا الہ الا اللہ)”تو نے اسے ” لا الہ الا اللہ” پڑھنے کے بعد قتل کر دیا؟حضرت اسامہ نے کہا:اللہ کے رسول !اس نے جان بچانے کے لیے ہی کلمہ پڑھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم قالھا ام لا)”تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تجھے معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دلی یقین کے ساتھ)کلمہ پڑھا ہے یا نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے۔(صحیح مسلم)

اس کے پیش کرنے سے ان کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ زبانی اقرار کی بھی بڑی اہمیت ہے اور جو شخص زبان سے “لا الہ الا اللہ”پڑھتا ہو، چاہے وہ اس کے مقتضیات پر عمل کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکتی، نہ اس کی تکفیر ہی کی جا سکتی ہے۔لیکن اس واقعے اور حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص اسلام کا اظہار کرتا ہے اور کلمہ پڑھتا ہے تواس کے خلاف فوری کاروائی نہ کی جائے۔اس کلمے کے پڑھنے سے اس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا ہے۔اس اکا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اس طرح کا اظہار کرنے والے اپنے عمل سے مسلسل اس کے خلاف ثبوت پیش کر رہے ہیں تب بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔یا ان کا عقیدہ و عمل “لا الہ الا اللہ” کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کے خلاف ہو، تب بھی ان کی تکفیر جائز نہ ہو۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا کہ:کیا تو نے اسے “لا الہ الا اللہ”کہنے کے بعد قتل کر دیا؟اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

“مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگ جب تک “لا الہ الا اللہ”کا اقرار نہ کریں، میں ان سے قتال کروں۔”(صحیح بخاری)

اس کا مطلب یہ ہے کہ “لا الہ الا اللہ” کا اقرار کر لینے کے بعد کوئی کاروائی کرنی جائز نہیں۔لیکن دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کی بابت فرمایا کہ یہ ایک گروہ پیدا ہو گا، جو قرآن اور نماز پڑھے گا، ایمان کا اظہار کر گا، لیکن یہ تینوں چیزیں ان کے گلوں سے نہیں اتریں گی، وہ بڑے عبادت گزار ہوں گے ، ان کی نمازوں روزوں اور قرأت کے مقابلے میں تمہیں اپنی نمازیں، تلاوت وغیرہ حقیر معلوم ہوں گے۔لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بابت فرمایا :

“جہاں بھی تم انہیں ملو، انہیں قتل کر دو۔(سنن ابی داؤد)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

“اللہ کی قسم!اگر میں نے انہیں پا لیا تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔”

چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بعد میں اس پر عمل کیا اور ان سے قتال کیا۔

یہاں دیکھ لیجئے !خوارج کو “لا الہ الا اللہ”کہنے کا کوئی فائدہ حاصل ہوا نہ کثرت عبادت کا۔کیوں؟اس لئے کہ انہوں نے زبان سے تو “لا الہ الا اللہ”کہہ دیا، لیکن ان کا عمل اس کے خلاف تھا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے بھی اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، باقی اسلام پر وہ عمل کر رہے تھے۔لیکن اس کے باوجود خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کرنے کے عزم کا اظہار فرمایا، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا اور کہا آپ ان سے قتال کریں گے جو “لا الہ الا اللہ” کا اقرار کرتے ہیں؟جبکہ ایسے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“اللہ کی قسم میں ان سے قتال ضرور کروں گاجو نماز زاور زکوٰۃ کے درمیان فرق کر رہے ہیں۔اس لیے کہ (جیسے نماز اللہ کا حق ہے اسی طرح)زکوٰۃ مال کا حق ہے (جو اللہ نے بندوں کے مال میں رکھا ہے )اللہ کی قسم!اگر وہ ایک بکری کا بچہ بھی مجھے دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکوٰۃ میں)ادا کرتے تھے تو میں اس کے بھی روک لینے پران سے لڑوں گا۔”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

اللہ کی قسم!(جب میں نے ابوبکر کے موقف پر غور کیا تو)میں نے یہی دیکھا کہ اللہ نے ان لوگوں سے قتال کے لیے ابوبکر کا سینہ کھول دیا ہے اور میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔(صحیح بخاری)

اس سے معلوم ہوا کہ پہلے صحابہ کرام نے یہی سمجھا کہ جو زبان سے “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتا ہے ، تو مجرد اقرار ہی اس کے لیے کافی ہے کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے ، اس لیے انہوں نے مانعین زکوٰۃ سے قتال میں توقف کیا۔لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں۔محض زبان سے اقرار کر لینا کافی نہیں، بلکہ اس کلمے کے حقوق اور اس کے مقتضیات کی ادائیگی بھی ضروری ہے ، جب تک ایسا نہیں ہو گا مجرد اقرار سے کچھ نہیں ہو گا اور وہ قتال میں مانع نہیں۔ہمارے دور میں اس کی مثال مرزائی حضرات ہیں۔یہ لوگ بھی “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار کرتے ہیں۔لیکن چونکہ ان کا عقیدہ و عمل اس کلمے کے مقتضیات کے خلاف ہے۔اس لیے علمائے امت نے ان کے اس اقرار کو کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں بالاتفاق کافر و مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔

بالکل اسی طرح جو شخص “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس کا عقیدہ و عمل اس کے مقتضیات کے خلاف ہے یعنی مشرکانہ ہے یا اس کی عقیدت و محبت اور اطاعت کا محور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مسلمان کس طرح رہ سکتا ہے۔حضرت حسن بصری سے کہا گیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں، جس نے “لا الہ الا للہ” پڑھ لیا وہ جنتی ہے۔حضرت حسن بصری نے فرمایا:

“جس نے “لا الہ الا للہ” کہا پھر اس نے اس کا حق اور فرض بھی ادا کیا، تو وہ جنتی ہے۔”

حضرت وہب بن منبہ(تلمیذ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ)سے بھی کسی نے سوال کیا:

کیا “لا الہ الا اللہ” جنت کی چابی نہیں ہے ؟

تو انہوں نے فرمایا:

“کیوں نہیں۔(یقیناً یہ جنت کی چابی ہے )لیکن کوئی چابی دندانوں کے بغیر نہیں ہوتی، اگر تو دندانوں والی چابی لے کر آئے گا، تو تیرے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا، بصورت دیگر یہ دروازہ تیرے لیے نہیں کھولا جائے گا۔(محاضرات فی العقیدۃوالدعوۃ للشیخ صالح بن فوزان)
ماخوذ از :
توحید اور شرک کی حقیقت ۔۔۔ صلاح الدین یوسف
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مشرکین اور توحید ربوبیت


گزشتہ تفصیل سے توحید ربوبیت کا مفہوم تو واضح ہو چکا ہے کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔توحید کی یہ قسم تمام مشرکین بھی مانتے ہیں اور مانتے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾

ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں (سورہ الزخرف، آیت87)

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾

ترجمہ: کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے (سورہ یونس، آیت31)

یہ ہے توحید ربوبیت، لیکن صرف یہ اقرار کرنے والا کہ ہر چیز کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ ہے۔ضروری نہیں کہ وہ توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کو بھی مانتا ہو۔اس لیے کہ انسانوں کی اکثریت توحید ربوبیت کو تسلیم کرتی ہے ، لیکن اس کے باوجود وہ اس کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتی ہے۔



توحید الوہیت


اس کا مطلب ہے ، یہ عقیدہ رکھا جائے کہ معبود بھی صرف وہی اللہ ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے ساتھ خاص ہیں۔عبادت کے لغوی معنی ہیں، سرفگندگی، ذلت و عاجزی اور خشوع وخضوع۔اور بعض علماء نے معنی کیے ہیں، کمال خضوع کے ساتھ کمال محبت۔اس اعتبار سے توحید الوہیت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہو گی کہ عبادت میں اخلاص کامل ہو، یعنی اس کا کوئی حصہ بھی غیراللہ کے لیے نہ ہو۔پس ایک مومن اللہ کی عبادت کرتا ہے اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا، اس کی محبت بھی صرف اللہ کے ساتھ ہوتی ہے ، اس کے دل میں خوف بھی صرف اللہ کا ہوتا ہے ، اس کی امیدیں بھی اسی سے وابستہ ہوتی ہیں، اس کا اعتماد و توکل بھی اسی پر ہوتا ہے ، دعا و فریاد بھی اسی سے کرتا ہے ار اطاعت و فرمانبرداری بھی اسی کی۔نذر و نیاز بھی اسی کے نام کی دیتا ہے کسی اور کے نام پر نہیں، اپنی جبیں نیاز بھی اسی کے سامنے جھکاتا اور عاجزی و ذلت کا اظہار بھی اسی کے سامنے کرتا ہے ، غرض عبادت کی جتنی بھی شکلیں اور صورتیں ہیںوہ صرف اور صرف اللہ واحد کے لیے بجا لاتا ہے اس میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔توحید کی یہ قسم، توحید کی دوسری قسموں کو بھی اپے دامن میں سمیٹ لیتی ہے ، اس میں توحید ربوبیت بھی آ جاتی ہے اور توحید اسماء و صفات بھی، لیکن صرف توحید ربوبیت میں توحید کی دوسری قسمیں نہیں آتیں۔اس لیے کہ اللہ کو واحد رب ماننے والا ضروری نہیں کہ اس کو الوہیت میں بھی واحد مانے ، وہ اللہ کو رب مانتا ہے ، لیکن اللہ کی عبادت و اطاعت نہیں کرتا، یا صرف اسی ایک کی عبادت و اطاعت نہیں کرتا۔اسی طرح توحید اسماء و صفات بھی، توحید کی دوسری انواع کو اپنے اندر شامل نہیں کرتی۔لیکن توحید الوہیت کو ماننے والا جو یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی مستحق عبادت ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کامستحق نہیں، وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ رب العالمین بھی وہی ہے ، علاوہ ازیں اس کے اسماء و حسنی اور صفات کاملہ ہیں، اس لیے اخلاص فی العبادات اسی کے لیے ہو سکتا ہے جو رب ہو نہ کہ کسی اور کے لیے بھی۔ اسی طرح وہ ہر عیب اور نقص سے پاک بھی ہو، نہ کہ اس کے لیے بھی جس میں نقص ہو۔اس کی عبادت کس طرح جائز ہو سکتی ہے جو کسی چیز کا خالق ہو نہ مدبر، بلکہ مخلوق ہو اور مدبر، اسی طرھ وہ بھی معبود نہیں ہو سکتا جو سوتا یا بیمار ہوتا اور موت سے ہمکنار ہوتا ہے ، کیونکہ یہ سب صفات نقص ہیں۔اور اللہ رب العالمین ان تمام نقائص سے پاک ہے۔

مسلمانوں کا کلمہ توحید شہادت “لا الہ الا اللہ”(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)توحید کی تین قسموں کو حاوی ہے اسی لیے اس کلمے کو ادا کرنے والامسلمان قرار پاتا ہے ، ورنہ توحید ربوبیت تو مشرکین بھی مانتے ہیں مگر وہ مسلمان نہیں۔دائرہ اسلام میں وہی داخل سمجھا جائے گا جو توحید کی تینوں قسموں پر ایمان رکھے گا، کیونکہ “لا الہ الا اللہ” میں تینوں قسمیں شامل ہیں۔اسی توحید الوہیت کے لیے اللہ نے انسانوں اور جنوں کو پیدا فرمایا ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿56﴾

ترجمہ: اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے (سورۃ الذاریات، آیت56)

تمام انبیاء کی بعثت بھی اسی توحید الوہیت ہی کے لیے ہوئی۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ ﴿36﴾

ترجمہ: اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا (سورۃ النحل، آیت36)

“طاغوت” کیا ہے ؟ہر وہ چیز جس کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جائے ، “طاغوت”ہے۔

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ ﴿25﴾

ترجمہ: اور ہم نے تم سے پہلے ایسا کوئی رسول نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سومیری ہی عبادت کرو (سورۃ الانبیاء، آیت25)

اور یہی کلمہ اسلام کے پانچ بنیادہ رکن بلکہ رکن اول ہے۔اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ حضرت نوح علیہ السلام، ھود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، ان تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو یہی دعوت دی۔

وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًۭا ۗ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿65﴾

ترجمہ: اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں سو کیا تم ڈرتے نہیں (سورۃ الاعراف، آیت65)

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَٰلِحًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌۭ مُّجِيبٌۭ ﴿61﴾

ترجمہ: اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اسی نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں اس میں آباد کیا پس اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب نزدیک ہے قبول کرنے والا (سورۃ ھود، آیت61)

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِۦ فَقَالَ يَٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿23﴾

ترجمہ: اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس بھیجا پھر اس نے کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں پھر تم کیوں نہیں ڈرتے (سورۃ المومنون، آیت23)

صرف ایک اللہ کی عبادت کے اقرار سے دوسرے معبودوں کی عبادت کی از خود نفی ہو جاتی ہے اور ایک الہ کے عقیدے سے دوسرے تمام معبود باطل قرار پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو “لا الہ الا اللہ”(اللہ کے سواکوئی الہ نہیں)کی دعوت دی، تو انہوں نے کہا:

أَجَعَلَ ٱلْءَالِهَةَ إِلَٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ ﴿5﴾

ترجمہ: کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنایا ہے بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے (سورۃ ص، آیت5)

اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ جس نے کلمہ “لا الہ الا اللہ” کا اقرار کر لیا، تو اس کا مطلب ہر ماسوی اللہ کی عبادت کی نفی اور تمام معبودوں کا بطلان ہے ، کیونکہ الہ کے معنی ہی معبو د کے ہیں۔یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جائے اور عبادت کیا ہے ؟عبادت کا مطلب ہے صرف اسی ذات کی رضا کے لیے اس کے سامنے عجز و تذلل کا اظہار کرتے ہوئے ہر وہ کام کیا جائے جسے وہ پسند کرتا ہے۔مشرکین مکہ کو یہی پسند نہیں تھا کہ وہ صرف آسمان والے اللہ کو، جسے وہ رب تو تسلیم کرتے تھے ، اپنے تمام کاموں کا مقصود و منتہا بھی صرف اسی کو مان لیں، نماز پڑھیں تو اسی کے لئے پڑھیں، روزے رکھیں تو صرف اسی کے لیے رکھیں، نذر و نیاز دیں تو صرف اسی کے نام کی دیں، استغاثہ و استمداد کریں تو صرف اسی سے کریں اور ان تمام معبودوں کو نظر انداز کر دیں جن کو وہ اللہ کے ساتھ ساتھ مذکورہ کاموں میں شریک رکھتے تھے۔توحید الوہیت کے اسی تقاضے کو وہ سمجھتے تھے جسے آج کا مسلمان نہیں سمجھتا۔اسی لیے ضروری ہے کہ توحید الوہیت کے تقاضوں اور لوازم کو بھی سمجھا جائے۔
ماخوذ از :
توحید اور شرک کی حقیقت ۔۔۔ صلاح الدین یوسف
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
“اللہ کی قسم میں ان سے قتال ضرور کروں گاجو نماز زاور زکوٰۃ کے درمیان فرق کر رہے ہیں۔اس لیے کہ (جیسے نماز اللہ کا حق ہے اسی طرح)زکوٰۃ مال کا حق ہے (جو اللہ نے بندوں کے مال میں رکھا ہے )اللہ کی قسم!اگر وہ ایک بکری کا بچہ بھی مجھے دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (زکوٰۃ میں)ادا کرتے تھے تو میں اس کے بھی روک لینے پران سے لڑوں گا۔”
تصیح فرما لیں-

عن أبی هريرة (رضی اللّٰه عنه) قال لما توفی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم واستخلف أبوبکر (رضی اﷲ عنه) بعده وکفر من کفر من العرب، قال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه) لأبی بکر (رضی اﷲ عنه): کيف نقاتل الناس وقد قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی يقولوا: لا إلٰه إلا اﷲ فمن قال لا إلٰه إلا اﷲ فقد عصم منی ماله ونفسه إلا بحقه وحسابه علی اﷲ؟ فقال أبو بکر (رضی اﷲ عنه): واﷲ، لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال. واﷲ لو منعونی عقالاً کانوا يؤدونه إلی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم لقاتلتهم علی منعه. فقال عمر بن الخطاب (رضی اﷲ عنه): فواﷲ ما هو إلا أن رأيت اﷲ عزوجل قد شرح صدر أبی بکر (رضی اﷲ عنه) للقتال. فعرفت أنه الحق. (مسلم، رقم ٢٠)

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور انھوں نے کفر اختیار کیا جنھوں نے کفر اختیار کیا تھا تو عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: ہم ان لوگوں سے کیسے قتال کریں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر چکے ہیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں، جب تک یہ لا الٰه الا الله نہ کہہ دیں۔ چنانچہ جس نے لا الٰه الا الله کہہ دیا، اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی، الاّ یہ کہ اس پر کوئی حق قائم ہوجائے، اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: بخدا، میں ان سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم، اگر انھوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں اس روکنے پر ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے کہا: بخدا، یہ ایسے شخص ہیں جن کا سینہ اللہ نے قتال کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔ ''
 
Top