- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,590
- پوائنٹ
- 791
ماہِ رمضان کا آخری عشرہ
ویسے تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اوربرکتوں سے لبریز ہے۔ لیکن اس کے آخری دس دن تو بہت ہی زیادہ فضیلت کے حامل ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں عبادت کے لیے کمر کس لیتے تھے۔چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
کان النبي ﷺ إذا دخل العشر شدَّ مئزرہ وأحیا لیله وأیقظ أھله
''جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اور ان راتوں میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کوبھی جگایا کرتے تھے۔'' (صحیح بخاری، کتاب لیلة القدر، رقم:2024 )
اور سیدہ عائشہؓ ہی سے مروی ہے کہ :
کان رسول اﷲ! یجتهد في العشر الأواخر ما لا یجتهد في غیرہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت میں ) اتنی محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔'' (صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف، رقم:2275 )
اور امام محمد بن نصر المروزیؒ قیام اللیل میں روایت لائے ہیں کہ :
سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بقي من الشهر عشرة أيام لم يذر أحدا من أهله يطيق القيام إلا أقامه.
(مختصر قیام اللیل ص 247)
زینب بنت ام سلمہؓ کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔
ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے مشہور عربی عالم مفتی محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
وقوله: "وجد" أي: زيادة عن العادة، واجتهد فيما لا يجتهد في غيرها من ليالي الشهر، "وأحيا ليله" أي: بالصلاة، والذكر، وتلاوة القرآن، "وأيقظ أهله" أي: لا يترك أحداً منهم غافلاً، وإنما في عبادة يسهرون لإحياء الليل(مختصر قیام اللیل ص 247)
زینب بنت ام سلمہؓ کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔
ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے مشہور عربی عالم مفتی محمد صالح المنجد فرماتے ہیں :
کہ ساری ساری رات بیدار رہ کر ذکر و تلاوت ،اور نماز پڑھتے تھے ، اور گھر کا کوئی فرد غفلت کی نیند نہیں سوتا تھا بلکہ سب ہی بیدار رہ عبادت میں مشغول رہتے ،
ان نفلی عبادات کو انفرادی طور اور اختیاری طور پر ادا کیا جاتا تھا ، سوائے نماز تراویح کی جماعت کے ،
یعنی ہر کوئی حسب توفیق ذکر االہی ، تلاوت قرآن ، دعاء و استغفار کرتا ،اور جس کو جہاں میسر آتا وہیں رات کی عبادت ادا کرتا
مسجد ہو یا گھر ۔۔۔ سوائے اعتکاف کے کہ وہ صرف مسجد میں ہوسکتا ہے ،
تراویح کی جماعت کے علاوہ کوئی عبادت اجتماعی صورت میں منقول نہیں ،
لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ضمن میں آخری عشرے کے دوران ہمارے ہاں ان نفلی عبادات کو انفرادی طور اور اختیاری طور پر ادا کیا جاتا تھا ، سوائے نماز تراویح کی جماعت کے ،
یعنی ہر کوئی حسب توفیق ذکر االہی ، تلاوت قرآن ، دعاء و استغفار کرتا ،اور جس کو جہاں میسر آتا وہیں رات کی عبادت ادا کرتا
مسجد ہو یا گھر ۔۔۔ سوائے اعتکاف کے کہ وہ صرف مسجد میں ہوسکتا ہے ،
تراویح کی جماعت کے علاوہ کوئی عبادت اجتماعی صورت میں منقول نہیں ،
کچھ نئے کام شروع ہوچکے ہیں ،یعنی اجتماعی اعتکاف کےلئے درخواستیں وصول کی جاتی ہیں اور طاق راتوں میں وعظ و نصیحت کی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور با جماعت تراویح کے وقفہ میں نوافل کی ترغیب دی جاتی ہے ،
حالانکہ ان اضافی نوافل اور اجتماعی مجالس کے اہتمام کا شرعاً ثبوت نہیں ،
اسی لئے ان کاموں کا اہتمام کرنے والے دفاع میں وہی بدعتی گروہ والا حربہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں کہ :
ان اعمال یا اعمال کی اس کیفیت کے منع ہونے پر کوئی دلیل دکھاؤ ،
حالانکہ جس عبادت۔۔۔ یا عبادت کی جس کیفیت و انداز کا شرعی ثبوت نہ ہو
وہ عبادت یا عبادت کی کیفیت یقیناً غلط ہے ۔
نامور مفتی شیخ عبدالستارالحماد ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اعتکاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی عبادت کےلئے رمضان کے آخری دس دن عباد ت میں گزارے اور یہ دن اللہ کے ذکر کےلئے مختص کردے۔ رسول اللہ ﷺ ہر سال ماہ رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ فوت ہوئے اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ (صحیح بخاری ،الصوم، الاعتکاف:۲۰۴۴)
احادیث میں اعتکاف کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘جو شخص اللہ کے رضاجوئی کےلئے صرف ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے ،ا للہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو حائل کردیں گے۔ا یک خندق کے دونوں کناروں کا فاصلہ مشرق سے مغرب تک ہوگا۔’’ (قیام رمضان بحوالہ طبرانی باسناد حسن )
رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں بحالت اعتکاف عباد ت کے لئے اتنی محنت اور مشقت اٹھاتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی کوشش نہ کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ،الاعتکاف:۱۱۷۵)
روایت میں اس کوشش کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کےلئے کمر بستہ ہوجاتے۔ رات کو عبادت کرکے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل عیال کوعبادت کے لئے بیدار کرتے۔(صحیح بخاری ،الصوم :۲۰۲۴)
حضرت زینب بنت ام سلمہؓ کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف اور طاق راتوں کا قیام ایک انفرادی عبادت ہے۔ صرف نماز تراویح کو ادا کرنے میں اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی گنجائش ہے،اس کے علاوہ کسی مقام پر اجتماعیت نظر نہیں آتی ، اس لئے ہمیں ان قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو اجتماعی اعتکاف اور اجتماعی مجالس کی نذر نہیں کردینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ ‘‘ جو شخص ہمارے دین میں کسی نئی چیز کو رواج دیتا ہے جس کا تعلق دین سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔ ’’ (صحیح بخاری ،الصلح :۲۲۹۷)
اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ ‘‘ جو شخص نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ رد کردینے کے قابل ہے۔’’(صحیح بخاری ،باب نمبر :۶۰)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ ایسے اعمال و افعال سے اجتناب کیا جائے، جن کا کتاب وسنت سے ثبوت نہیں ملتا ، کیونکہ بدعات کے ارتکا ب سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ کا اندیشہ ہے ۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص414
محدث فتویٰ