• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخر صنفی امتیاز/ تعصب کیوں؟

شمولیت
نومبر 05، 2020
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5


آخر صنفی امیتاز/تعصب کیوں؟

از قلم : ا ٌمّ ِمحمد


میں نے اپنے ارد گرد حالات کی تلخیوں کو جھیلتی بہت سی لڑکیوں کو دیکھا جو ناچار صنفی امتیاز کا شکار معلوم ہوتی تھیں۔ مخالف جنس کے لیے ان کے دلوں میں اتنی کڑواہٹ اور اتنی نفرت دیکھ کے مجھے خیال گزرا کہ اس پہ ضرور سوچوں گی ۔ اس کی وجوہات تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔ جتنا اور جیسے ہو سکا لکھوں گی۔ آتش نمرود اگرچہ چڑیا کی کوشش سے نہ بجھ سکی تھی مگر اس نے اپنی بساط بھر حصہ ڈال دیا تھا۔

میں نے ایسا موضوع لکھنے کے لیے چنا جس کا اگر ایک سرا ہاتھ آتا تو دوسرا چھوٹتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگا میں نہیں لکھ سکتی مگر اللہ کا کرم ہوا آخر قلم چل ہی پڑا۔ اگرچہ میں کافی عرصے کی تگ و دو کے بعد لکھنے کے قابل ہوئی۔ جس بات نے مجھے زیادہ اکسایا وہ چھوٹی بہن کی بات تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور کہتی کہ بھائی اور بھابھی اپنی بیٹی کے رونے پہ اسے ڈانٹ کے چپ کرواتے ہیں یا کسی چیز کی فرمائش کرے تو اسے ویسے ٹرخا دیتے ہیں لیکن اس کا چھو ٹا بھائی اگر مانگے تو اسے فوراً پورا کر دیتے ہیں آپی ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ بیٹیوں سے ویسا سلوک کیوں نہیں کرتے جیسا بیٹوں سے کرتے ہیں؟ مرد و زن میں تعصب کی سرد جنگ ہے۔ کہ ابن آدم موجودہ معاشرے کی اخلاقی غلطیوں کو بنت حوا کی ناکام تربیت کا کہہ کر خود بری الزمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ صنفی امتیاز و تعصب ہمارے معاشرے میں بری طرح اپنے خونخوار پنجے گاڑ چکا ہے۔ دونوں اصناف ( مرد و زن) کو اپنی برتری کا لوہا منوانے کے لئے جو طریقہ کار گر نظر آتا ہے وہ اپنا لیتے ہیں خواہ اخلاقیات کا اس میں دم گھٹ جائے یا سرے سے ہی معدوم ہو جائیں۔ اسکا کسی کو احساس تک نہیں رہتا۔ کبھی خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پہ مارچ کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی مرد اپنی ذات کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کے لئے جابرانہ سلوک کرتے نظر آتے ہیں۔ میری کوشش ہے کہ جہاں تک اصلاح ہو سکتی وہ کر سکوں تاکہ اس کار خیر میں تھوڑا سا میرا بھی ہاتھ ہو۔

یہاں ذکر ہوا ہے تحریک حقوق ِنسواں کا، ہمیں اس مہم کی تاریخ کے بار ے میں تھوری آگاہی ہونی چاہیئے کہ آیا یہ ناسور ہمارے درمیان کیسے وقوع پذیر ہوا؟ جس نے معاشرے میں اپنے زہر سے اتنی کڑواہٹ پھیلا دی ہے۔ آج کی عورت ہی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑ رہی بلکہ یہ صدیوں پرانی ریت ہے جسے کچھ بے راہ لوگ وراثت کی طرح اپنی نسلوں میں منتقل کرتے آئے ہیں۔ معززین! اس کا ارتقاء 1700 ء سے پہلے ہوا تھا ۔ جسے ایک فرانسیسی مصنفہ عورت نے اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا۔ اس کے بعد مغرب اور کچھ دوسرے پسماندہ میں آواز اٹھائی گئی جس میں عورتوں کی تعلیم، سیاسی حقوق جیسے ووٹ دینا اور معاشرتی آزادی تھی، یوں ایک منظم و مربوط تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جو کہ آج تک دھنک رنگوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں جنم لے رہا ہے ۔ایسی صورت میں عورت مرد کے شانہ بشانہ تو چلنے لگی مگر اپنی اخلاقی و فطری قیود سے بھی آزاد ہوگئی۔ہمارے یہاں بھی کچھ مغرب کی دلدادہ اور کچھ احساس کمتری کی حامل خواتین مغربی عورتوں کی دیکھا دیکھی اپنی جدو جہد کا لائحہ عمل بناتی ہیں اور اس پر عمل کی پر زور کوشش کرتی ہیں۔

قارئین! ذرا اب صنفی امتیاز کے بارے میں جان لیں کہ آیا یہ کس بلا کا نام ہے؟ صنفی امتیاز سے مراد کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز ہے۔اور ایک ایسا تصور بھی ہو سکتا ہے جس میں ایک صنف کو فطری یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جائے۔جو کہ ہمارے معاشرے میں معمولی بات سمجھی جاتی ہے ابن آدم کو بنت حوا پہ فوقیت دی جاتی ہے ۔یہ امر کسی تیسرے کے رویے سے سرانجام پاتا ہے یہ افرا ط و تفریط ہمارے والدین ، معاشرہ یا کسی بھی شخص کے ہاتھوں سر زد ہو سکتی ہے۔ہمیں جان لینا چاہئیے کہ کسی بھی شخص کو جنس،رنگ و نسل کی بنیاد پہ کوئی درجہ حاصل نہیں ہے۔ سب سیدنا آدم ٖٖٖؑ کی اولاد سے ہیں اللہ کے نزدیک وہی برترہے جس کا تقویٰ زیادہ ہے۔آئیے ذرا اس کو اپنے ماحول سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صنفی امتیاز کی ابتدا ہمارے گھروں سے ہوتی ہےجب کسی ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا بسا اوقات تو سوگ کی سی کیفیت بنا لی جاتی ہے۔اور بیٹی کی والدہ کو خوب کھری کھوٹی سنائی جاتی ہے جبکہ بیٹے کی ولادت پہ سارےخاندان میں میٹھایاں تقسیم کی جاتی ہیں۔اگر بھائی چھوٹا ہے تو اسے چھوٹے ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت دی جاتی ہے اور اگر وہ بڑا ہے تو اسکی عزت کی بناء پر اسے خاص مقام دیا جاتاہے۔ گویہی انداز دینا کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔مرد کو مرد ہونے کی وجہ سے کافی مرعات دی جاتی ہیں اور جہاں بات عورت کی آتی ہے تو اسے ناقص العقل خیال کرتے اسے اس کے خیالات سمیت چپ کروا دیا جاتا۔ یہی غیر منصفانہ تقسیم بعد میں معاشرتی ناسور(تعصب) بن کے سامنے آتی ہے۔

معززین! یہاں ذکر جنسی تعصب کا ہوا ہےجسے ہم اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی کہہ لیں تو غلط نہ ہوگا۔ہم یہاں اس کی بھی وضاحت بھی پڑھ لیتے ہیں کہ تعصب کا مطلب کیا ہے اور کس طرحد تک ہمارے معاشرے میں طول پکڑ چکا ہے۔تعصب کے لغوی و اصطلاحی معنی پٹی باندھنا، مقابلہ کرنے کے ہیں۔ تعصب کئی اقسام کا ہوتا ہے مثلا مذہبی، نسلی، معاشرتی، قومی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہم ذکر کریں گے جنسی تعصب کا۔تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسان کی تذلیل کرتا ہے، اپنے مخالف کو کمتر گردانتا ہے۔جس سے دوسرے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔انسان حقوق العباد میں غفلت برتتا ہے بسا اوقات عمدا ادا نہیں کرتا۔ تعصب اپنے ساتھ اور بہت سی بیماریوں کو کارندے بناکر لاتا ہے جیسے حسد و بغض،الزام و بہتان تراشی اور افتراء پردازی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔آئیے اب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے۔ کوئی بھی بات یا سوال بحیثت لڑکی کسی مرد سے کرے تو چپ کروا دیا جاتا ہے خاتون یہ آپ کا کام نہیں آپ گھر کا ہانڈی چولہا کریں اور اگر یہی سوال ایک لڑکے کے طور پر کیا جائے تو اس کا مدلل جواب دیا جاتا ہے۔کیا یہ کھلا تعصب نہیں؟ عصبیت میں صرف ان لوگوں کا شمار نہیں ہوتا جو دین کا علم نہیں رکھتے بلکہ یہاں چند ایک احادیث پڑھے جو خود کو عالم سمجھنے کی کوتاہی کر بیٹھتے ہیں وہ بھی خواتین کے تمسخر و تحقیر میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔احادیث سے اپنی مرضی کا مفہوم نکال کر عورت کی تحقیر کرتے ہیں مثال کے طور پہ عورت ہوتی ہی کم عقل ہے اسی لیے خاموش رہا کرو، عورت کو تو پیدا ہی ٹیڑھی پسلی سے کیا ہےاسی لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔اب بات کرتے ہیں عورت میں کس قدر اور کس قسم کا تعصب پایا جاتا ہے؟ مرد تو ہوتے ہی ظالم ہیں، ہمیں قید کر نے پہ ہی خوش ہیں، مرد کبھی ہماری بات نہیں سمجھ سکتے۔مردوں کو اپنے علاوہ کسی سے سروکار نہیں ہوتا۔۔۔۔اسی طرح کی سوچ ہمارے دماغوں میں بھری ہے۔ خدارا ایک آدمی کا فعل پوری صنف پہ لاگو نہیں ہوتا، ہر کوئی دوسرے سے مختلف ہے۔

معززین! کسی بھی معاشرے کی اخلاقی تباہی و تنزلی کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب وہاں کے باسی اپنی تعلیمات و اقدار سے انحراف کرتے ہیں۔ اور اپنے خالق حقیقی کی طے کردہ حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک نظام مقرر کر دیا ہے کائنات میں موجود ہر ستارہ و سیارہ اپنے مدار میں گردش کرتا ہے اور جس دن یہ اپنے مدار سے باہر آئے آپس میں ٹکراؤ ہوگا اور تباہی(قیامت)مقدر ہوگی.تاریخ گواہ ہے جب بھی اولاد آدم نے اپنے متعین راستوں کو چھوڑا ہے یا تو تباہی سے ان کا پالا پڑا ہے یا انھیں خلاؤں میں لٹکتا چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کہیں کے نہ رہے۔ہمارا تباہی سے بچنا اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اسلام کی متعین کردہ حدود کی پاسداری کریں گے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے ہٹ کر چلیں اور ہمیں فلاح و کامران بھی ملے ۔اللہ نے تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی اس صنفی امیتاز و تعصب کا قلع قمع کر دیا تھا۔

جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ:"اے لوگو! بے شک ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمیں مختلف قوموں اورخاندانوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔یقین رکھو کی اللہ سب کچھ جاننے والاہر چیز سے باخبرہے"۔(الحجرات#13)

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ تقوی واحد چیز ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے اور تقوی کا تعلق بندے اور اللہ کے درمیان پوشیدہ ہے کوئی تیسرا اس کو نہیں جان سکتا۔اللہ نے دنیوی زندگی گزانے کے لیےکچھ طریقہ کار وضع کیے ہیں جن میں کبھی کسی ایک کو دوسرے پہ فوقیت دی ہےجیسے معاش کی ذمہ داری مرد پہ ڈالی گئی ہےاور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کی بنا پر اللہ نے فوقیت دی ۔

جبکہ دوسری طرف اللہ نے عورت (ماں) کے حق کو باپ کے حق پہ مقدم رکھا ہے، "ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا پھر کون ؟فرمایا تیری ماں ، اس نے عرض کیا پھر کون ؟ ارشاد ہوا تیری ماں، اس نے عرض کیا پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ "۔(صحیح بخاری: 5971)

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: "مرد عورتوں پہ نگہبان اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہےاور اس لئے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کئے"۔(النساء#34)

جبکہ دوسری جگہ اللہ نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہےاللہ فرماتے ہیں کہ: عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ ان پہ فضیلت حاصل ہے(البقرہ#228) ۔ "

اللہ تعالیٰ سورۃ حم السجدہ #46 میں فرماتے ہیں کہ : جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں شرک کی نفی کے بعد جو بات ذکر فرمائی وہ یہ تھی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک رکھو۔ اللہ نے عورت کو گنتی کے احکام کا پابند کر دیا جبکہ مردوں کو عورتوں کے ہر معاملے میں ڈرنے کا حکم دے دیا۔خواہ کوئی بھی فیصلہ ، حکم کچھ بھی ہو اس میں اللہ کا ڈر شامل ہو کہ اللہ یہاں سے نہ ہماری پکڑ کر لے یا وہاں سے سر زنش نہ ہو جائے۔ہمارے معاشرے میں بیٹی کو زحمت خیال کیا جاتا ہے اور بیٹے کی آمد پہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اسلام نے ہمارے اس رویے کو ترک کردیا ، بلکہ اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت بھی دی۔ بیٹی کو رحمت قرار دے دیا گیا ۔

ارشاد بنویﷺ ہےکہ جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوںاور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے(اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کر دے)تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاںملی ہوئی ہیں۔(ترمذی)

جبکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف سے کام لو(متفق علیہ)۔

رسول اللہ ﷺ تو پیکر شفقت تھے پھر عورت کیونکر اس شفقت سے محروم ہوتی ؟ رسول اللہ ﷺ نے تو عورت کو آبگینے (کرسٹل)کہا ہے۔ اور ایسی چیزوں کو بہت احتیاط سے محفوظ مقام پہ رکھا جاتا ہے ہلکی سی ٹھیس بھی ان کے لیے نقسان دہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے عورت کو محفوظ مقام بھی بتا دیا،

ارشاد باری تعالی ہےکہ: اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو (الاحزاب#33)۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھے اور اگر کسی مجبوری کے تحت باہر نکلنا پڑے بھی تو اپنی زینت کو چھپا کے نکلے۔



رب نے تجھے نوازا ہے احترام کے رشتوں سے

تو ہر روپ میں قابل احترام ہے بنت حوا

ہمیں اپنے فرائض پہ نظر رکھنی چاہئے حقوق خود بخود ملتے جائیں گے۔ مرد کو چاہئے جو فرائض اس کے ذمہ ہیں وہ خالص اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے ان کو پورا کرے اسی طرح عورت بھی ادا کرے ۔ نہ تو فطری و مجموعی طور پر ابن آدم جابر ہے اور نہ بنت حوا بے راہ روی کا شکار ہے ابن آدم نے اپنے فرائض چھوڑ دئیے۔ اپنا کردار کھو دیا تو بنت حوا نے اپنے حقوق کے لئے لڑنا شروع کر دیااور اپنی نسوانیت کھو دی۔مرد و زن میں فطری فرق ہےاور اسی فطری فرق کو لیے اپنی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ہمارا معاشرہ اس وقت ہی اخلاقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا جب ہم ایک دوسرے کو ان کی فطرت سمیت سمجھنے کے قابل ہوگئے۔ ہمیں یہ زندگی جینے کے لئے نہیں جینا بلکہ اگلی زندگی جینے کے کئے جینا ہے ۔ جو ہم عمل کریں گے اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ساری بات کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق گزارنا شروع کر دیں سارے معاملات ٹھیک ہوتے جائیں گے ان شاءاللہ۔

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

اللہ ہمارے احوال پہ رحم فرمائے اور ہمیں اپنی زمہ داریاں سمجھنے اور خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔
 
Top