• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آدابِ دْعاء

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آدابِ دُعاء

سعید مجتبیٰ سعیدی
(محدث میگزین ، اپریل 1987)
اللہ تعالیٰ سے جو آدمی سوال نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یسأل اللہ یغضب عليه۔'' 1
''حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں،آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اللہ سے سوال نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔''
(ترمذی:9؍312، ابن ماجہ:2738، مسنداحمد2؍477 )

یہ اس لیے کہ تکبر اور لاپرواہی کے سبب سوال نہ کرنا ناجائز ہے۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں او رکون ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو اپنے حق میں پسند کرتا ہو؟ (کوئی نہیں) کسی نے کیا خوب کہا ہے:

''اللہ یغضب إن ترکت سؤاله
وتری ابن آدم حین یسأل یغضب


''اگر اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں، اور اس کے برعکس انسان کا یہ حال ہےکہ اگر اس سے مانگیں تو ناراض ہوجاتا ہے۔''

اس کے ساتھ ساتھ یہ بیان بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء اور سوال کیا جائے تو یہ عمل بہت پسندیدہ ہے:
''عن عبادة بن الصامت حدثهم أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: ما علی الأرض مسلم یدعو اللہ بدعوة إلا آتاہ اللہ إیاھا أو صرف عنه من السوء مثلها مالم یدع بإثم أو قطیعة رحم فقال رجل من القوم إذا نکثر قال: اللہ أکبر'' (ترمذی:10؍24 )
''حضرت عبادہ بن صامتؓ نے حدیث بیان کی کہ : ''آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''روئے زمین پر جو مسلمان بھی اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے ، تو اللہ تعالیٰ کی مطلوبہ چیز اسے عطا فرما دیتے ہیں یا اتنا ہی شر اس سے ہٹا دیتے ہیں، بشرطیکہ وہ گناہ یاقطع رحمی کی دعاء نہ کرے۔'' یہ سن کر ایک شخص نے کہا'' تب تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں۔'' آپؐ نے فرمایا: اللہ اس سے بھی بڑھ کر قبول کرنے والا ہے۔''

مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے:
گزشتہ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی دعاء قبول ہوتی ہے۔ اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث ہے:
''عن جابر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ما من أحد یدعو بدعاء إلاآتاہ اللہ ماسأل أو کف عنه من سوء مثله مالم یدع بإثم أو قطیعة رحم'' (ترمذی :9؍323 )
''حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں: میں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے سنا، ''کوئی شخص جو دعاء کرے، اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا فرما دیتے ہیں، یا پھر اس کے برابر اس سے بُرائی اور شر کودور کردیتے ہیں، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعاء نہ کرے۔''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر ہر پکارنے والے کی دعا کو قبول کرنا لازم کررکھا ہے، بشرطیکہ اس میں دعاء کی قبولیت کی شروط موجود ہوں یعنی دعاء گناہ او ربدی کی نہ ہو۔

دعاء کرنے کا طریقہ:
دعاء کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے کے بعد ضروری ہے کہ دعاء کرنے کا طریقہ بھی بیان کردیا جائے۔

دعاء کے وقت ہاتھ اٹھانا:
دعاء کے وقت ہاتھ اٹھانا مشروع اور آنحضرتﷺ سے فعلاً ثابت ہے۔ آپؐ کے بعدصحابہ کرامؓ او رپوری اُمت کا تعامل بھی یہ چلا آرہا ہے:
''عن أبي موسیٰ الأشعري قال دعا النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم رفع یدیه ورأیت بیاض إبطيه''
''ابو موسیٰ اشعریؓ بیان فرماتے ہیں کہ: میں نے آنحضرتﷺ کو دعاء کرتے دیکھا، آپؐ نے ہاتھ اس قدر بلند اٹھائے کہ میں نے آپ ؐ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔'' (صحیح بخاری معلقاً :11؍141 )

''حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ: آنحضرت ﷺ نے دعاء کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ''یا اللہ، خالد (بن ولید) نے جو کیا، میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔''
''وعن أنس أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع یديه حتیٰ رأیت بیاض إبطيه'' (صحیح بخاری:11؍141 )
''حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہاتھ اس قدر بلند اٹھائے کہ مجھے آپؐ کی بغلوں کی سفیدی نظر آئی۔''

''وعن سلمان الفارسي قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إن ربکم حیي کریم یستحيي من عبادہ إذا رفع یديه أن یرد ھما صفرا'' (ابوداؤد حدیث نمبر 1474، ابن ماجہ حدیث نمبر 3865، ترمذی :9؍544 )
'' حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا رب مہربان اور حیا کرنے والا ہے۔بندہ جب ہاتھ اٹھاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ ہاتھوں کوخالی لوٹا دے۔''

ہاتھوں کا کندھوں کے برابر اٹھانا اور استغفار کے وقت انگلی سے اشارہ کرنا:
حضرت ابن عباسؓ سے صحیح سند سے ثابت ہے ، انہوں نے فرمایا: ''سوال کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ تقریباً کندھوں کے برابر اٹھائے او راستغفار کاطریقہ یہ کہ ایک انگلی سے اشارہ کرے اور ابتھال(شدت طلب) یہ ہے کہ دونوں ہاتھ ملا کر اٹھائے ‘‘
(ابوداؤد حدیث نمبر 1475 )

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ''آنحضرتﷺ استسقاء میں ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ اس کے علاوہ کسی دعاء میں آپؐ ہاتھ نہ اٹھاتے تھے۔ ''(متفق علیہ )

حضرت انس ؓ کی یہ حدیث ہماری بیان کردہ سابقہ احادیث کے منافی اور مخالف نہیں ، کیونکہ حضرت انسؓ کے کہنے کا مقصود صرف یہ ہے کہ اس کیفیت میں ہاتھ آپؐ صرف استسقاء کے موقع پر اٹھاتے تھے۔حدیث ابن عباسؓ جو اوپر گزری ہے، وہ بھی اس کی مؤید ہے۔

ہتھیلیوں سے دعاء کرنا:
ہتھیلیوں سےدعاء کرنا بھی دعاء کے آداب میں سے ہے اور صحیح سند سے ثابت ہے:
''عن مالك بن یسار أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: إذا سألتم اللہ فسلوہ بباطن أکفکم ولا تسئالوہ بظهورھا''
(ابوداؤد، حدیث 1472 )
''حضرت مالک بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:''جب تم اللہ سے مانگو تو ہتھیلیوں سے مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو۔''

چنانچہ یہی کیفیت پُرامید سائل کی ہوتی ہے۔

قبولیت دعا کی شرائط :
گزشتہ کلام سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دعاء ایک عبادت ہے۔لہٰذا اللہ کے ہاں اس کی قبولیت کے لیے شروط قبولیت کا پایا جانا ضروری ہے۔

دعاء کی قبولیت کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ دعاء میں خلوص:
یعنی دعاء صر ف اللہ تعالیٰ سے کی جائے او راس بارہ میں کتاب و سنت میں بے شمار دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾...سورۃ الجن
''بے شک مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔''

نیز فرمایا:
﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ...﴿١٩٤﴾...سورۃ الاعراف
''جنہیں تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو، وہ تو تم جیسےبندے ہیں۔''

نیز فرمایا:
﴿أَغَيْرَ‌ ٱللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ ﴿٤٠﴾...سورۃ الانعام
''اگر تم سچے ہو تو غیر اللہ کو کیوں پکارتے ہو؟''

نیز فرمایا:
﴿وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌كُمْ...﴿١٩٧﴾...سورۃ الاعراف
''تم اللہ کے علاوہ جنہیں پکارتے ہو، وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔''

ان آیات میں لفظ ''من دون اللہ'' وارد ہوا ہے۔ اس کا اطلاق ہراس چیز پر ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ جس کی پرستش کی جاتی ہو، خواہ وہ جمادات ہوں یا نباتات ، حیوان ہو یا انسان، بت ہو یا سورج، ولی ہو یا نبی وغیرہ وغیرہ۔

آنحضرتﷺ نے اپنے عم زاد حضرت ابن عباسؓ کو وصیت فرمائی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں آنحضورﷺ کے پیچھے(سوار) تھا، آپؐ نے فرمایا:
''یا غلام احفظ اللہ یحفظك، احفظ اللہ تجدہ تجاھك۔ وإذاسألت فاسئال اللہ وإذا استعنت فاستعن باللہ'' (ترمذی:7؍219)
''لڑکے! تو اللہ کے احکام کا خیال رکھ، اللہ تعالیٰ تیرا خیال رکھیں گے۔ تو اللہ کا خیال رکھ، تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ تو جب مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو بھی صرف اللہ سے مدد مانگ۔''

کسی نے کیا خوب کہا ہے:

وأفنیة الملوك محجبات ............ رباب اللہ مبذول الفناء
فما أرجو سواہ لکشف ضري ............ ولا أفزع إلیٰ غیر الدعاء
ولا أدعو إلی اللہ واء کھفا ............ سویٰ من لا یصم عن الدعاء


یعنی ''بادشاہوں کے دربار پہرہ زدہ ہیں اوراللہ کا دربار ہر دم کھلا ہے، میں اپنی تکالیف اور پریشانیوں کے ازالہ کے لیے اللہ کے سوا کسی سے امیدوار نہیں اور دعاء کے لیے کسی او رکی طرف نہیں مائل ہوتا۔ میں مصائب سے پناہ کی خاطر اللہ کے سوا کسی بھی پناہ کو تلاش نہیں کرتا، جو کہ کسی بھی پکار سے بے خبر نہیں۔''

دعا کےلیےخلوص ضروری ہے ، چنانچہ میت کے لیے بھی خلوص دل سے دعا کیجئے:

احادیث میں بیان آیا ہے کہ میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعاء کرنی چاہیے۔ کیونکہ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:إذا صلیتم علی المیت فأخلصو اله الدعاء''
( ابوداؤد، حدیث نمبر 3183)
''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ''تم جب میت کے لیے دعاء کرو، تو اخلاص کے ساتھ کرو۔''

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ ''فأخلصوا له الدعاء'' سےثابت ہواکہ اس موقع پر ماثور او رمنقول دعاؤں میں سے کوئی مقرر نہیں، بلکہ میت پر نماز جنازہ پڑھنے اور دعاء کرنے والے کو چاہیے کہ اخلاص کےساتھ دعاء کرے ، وہ نیک ہو یا نہ۔ اس لیے کہ گنہگار شخص اپنے مسلمان بھائیوں کی دعاء کا شدید محتاج ہوتا ہے، تبھی تو وہ تمام مل کر اسے الوداع کرتے او راکٹھے لےکر آتے ہیں۔ (نیل الاوطار4؍1،06 )

2۔ جلدی نہ کرنا:
قبولیت دعاء کی دوسری شرط یہ ہے کہ انسان دعا ء کرے تو اس کے نتیجہ کا انتظار کرے او رجلدی نہ کرے، کیونکہ جلد بازی کرنے سے دعاء ضائع ہوجاتی ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنه قال لا یزال یستجاب للعبد مالم یدع بإثم أو قطیعة رحم مالم یستعجل ۔ قیل: یا رسول اللہ فما الا ستعجال؟ قال : یقول : قد دعوت فلم أن یستجب لي فیستحسر عند ذٰلك و یدع الدعاء''
(صحیح مسلم 17؍52 )
بروایت ابوہریرہؓ ، آنحضرتﷺ نے فرمایا: ''انسان کی دعاء قبول ضرور ہوتی ہے جب تک کہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی دعاء نہ کرے او رجلدی بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ کہا گیا : ''یارسول اللہﷺ! جلد بازی سے کیا مراد ہے؟'' فرمایا: (مثلاً یوں کہے کہ میں نے دعاء کی ، وہ مجھے قبول ہوتی نظر نہیں آتی او رپھر ناامید ہوکر دعاء کرنا چھوڑ دے۔''

اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
﴿لَا يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَلَا يَسْتَحْسِرُ‌ونَ ﴿١٩﴾...سورۃ الانبیاء
یعنی '' مؤمنین کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کو پکارنے سے نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ دعاء کرنے سے باز آتے ہیں۔''

معلوم ہواکہ دعاء ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے اور دعاء کی قبولیت کو دور نہیں سمجھنا چاہیے۔

اسی حدیث کی تائید میں ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے:
''إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: یستجاب لأ حدکم مالم یعجل یقول: دعوت فلم یستجب لي''
(صحیح مسلم :17؍51، ترمذی 9؍330، ابوداؤد حدیث نمبر 1470 )
''آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:انسان جب تک جلدی نہ کرے تو دعاء قبول ہوجاتی ہے۔ جلدی یوں کرتا ہے کہ کہے ''میں نے دعاء کی مگر قبول نہیں ہوئی۔''

اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
﴿وَيَدْعُ ٱلْإِنسَـٰنُ بِٱلشَّرِّ‌ دُعَآءَهُۥ بِٱلْخَيْرِ‌ ۖ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ عَجُولًا ﴿١١﴾...سورۃ الاسراء
''او رانسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی کی دعا کرتا ہے۔اسی طرح بُرائی مانگتا ہے، او رانسان جلد باز ہے۔''

اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جلد قبولیت کی دعاء کرنا مع ہے۔ بلکہ یہ دعاء کی جاسکتی ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہآنحضرتﷺ نے استسقاء کےموقع پریوں دعا فرمائی:
''عاجلا غیررائت'' (ابن ماجہ حدیث نمبر 1269، مسنداحمد 4؍235 )
''اے اللہ ! ہمیں جلدی بلا تاخیر بارش عطاء فرما''

ہاں جس جلدی کودرست نہیں سمجھا گیا، اس کا مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔

3۔ نیکی او ربھلائی کی دعاء کرنا:
اللہ تعالیٰ کے ہاں دعاء کی قبولیت او رپسندیدگی کے لیے ضروری ہے کہ دعا نیکی کی ہو، جیساکہ گزشتہ احادیث میں تفصیل گزر چکی ہے کہ انسان کی دعاء قبول ہوتی ہے ، بشرطیکہ وہ گناہ اور قطع رحمی کی نہ ہو، گناہوں میں سے قطع رحمی کو بالخصوص ذکرکیا گیا، کیونکہ اس کا گناہ بہت زیادہ ہے۔

4۔ حضور قلب :
دعاء کی قبولیت کے لیے حضور قلب بھی ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ادعوا اللہ وأنتم موقنون بالإجابة و اعلموا أن اللہ لایستجیب دعآء من قلب غافل لاہ''
(ترمذی9؍450 )
''رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سے قبولیت کا یقین اور امید رکھتے ہوئے دعاء کیا کرو یاد رکھو اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعاء قبول نہیں فرماتے۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ دعاء کے وقت دل کی حاضری ضروری ہے۔ تاکہ انسان جو کچھ زبان سے کہے، اسے اس کا شعور بھی ہو او ریہ احساس بھی کہ وہ اللہ رب العزّت سے مخاطب ہے۔ یہ انتہائی نامناسب ہے کہ کمزور، محتاج انسان اپنے رب سے لاپرواہی کے ساتھ گفتگو کرے یا رٹے رٹائے چند دعائیہ کلمات ، سمجھے بغیر زبان سے کہہ ڈالے۔

اس حدیث کی تائیدایک دوسری سے بھی ہوتی ہے، جسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں:
''عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : القلوب أو عیة بعضھا أوعی من بعض فإذا سألتم اللہ عزوجل أیھا الناس : فاسئلوہ وأنتم موقنون بالإجابة فإن اللہ لا یستجیب لعبد دعاءہ عن ظهر قلب غافل'' (مسنداحمد2؍177 )
''دل یاد رکھنے والے اور محفوظ رکھنےوالے ہیں۔ ان میں سے بعض دوسروں کی نسبت زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ لوگو! تم جب اللہ تعالیٰ سے مانگو تو مانگتے ہوئے دعا کی قبولیت کا یقین رکھو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کی غافل دل سے مانگی ہوئی دعاء قبول نہیں فرماتے ۔

5۔ حلال خوری :
قبولیت دعاء کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط حلال خوری بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں:
﴿فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَـٰقٍ ﴿٢٠٠﴾...سورۃ البقرۃ
''کچھ لوگ کہتے ہیں: ''اے رب! ہمیں دنیا ہی میں عطا فرما دے۔ ''ایسا کہنے والوں کے لیے ''آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔''

''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:أیھا الناس إن اللہ طیب لا یقبل إلا طیبا وإن اللہ أمرالمؤمنین ما أمربه المرسلین فقال: يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔ وقال يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمدیدیه إلی السمآء یارب یارب و مطعمه حرام و مشربه حرام و ملبسه حرام و غدي بالحرام فأنی یستجاب لذالك''(صحیح مسلم 7؍100 )
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''لوگوں! اللہ تعالیٰ اچھے ہیں او راچھی چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو بھی حکم دیا ہے جورسولوں کو دیا۔ فرمایا، ''اے میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو۔ تم جو کچھ کرتے ہو مجھے اس کی خوب خبر ہے۔'' نیز فرمایا ہے، ''اے ایمان دارو! ہم نے تمہیں جو کچھ دیا اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ''
اس کے بعد آپؐ نے ایسے آدمی کا ذکر کیا جوطویل سفر کرے، گرد آلود اور پراگندہ کیفیت ہو، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر ''یارب یارب'' پکارے مگر اس کا حال یہ ہو کہ اس کا کھانا، پینا او رلباس حرام ہواور اس نے حرام غذا کھائی ہو تو دعا کیسے قبول ہو؟''

میرے بھائی! تقویٰ کو کبھی نہ بھولیں۔یہ تمام امور (اعمال) کی بنیاد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾...سورۃ المائدہ
''اللہ تعالیٰ تو صرف اپنے سے ڈرنے والوں سے قبول فرماتے ہیں۔''

6۔ آنحضرتﷺ پر درود پڑھنا:
درود پڑھنا بھی دعاء کی قبولیت کے لیے بہت ہم ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
''کل دعاء محجوب حتیٰ یصلی على النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم '' (صحیح الجامع الصغیر ، حدیث نمبر 4399 )
کہ ''ہر دعاء قبولیت سے روک دی جاتی ہے۔جب تک آنحضرت ﷺ پر درود نہ پڑھا جائے۔''

یعنی جب تک داعی دعاء کے ساتھ درود نہ پڑھے، تب تک وہ دعاء اللہ کے ہاں نہیں پہنچتی۔

لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شرط کوئی بنیادی نہیں۔ کیونکہ خود آنحضرتﷺ نے دعاء کے موقعہ پر ہمیشہ اس کاالتزام نہیں کیا اور بہت سی دعائیں آپؐ نے بغیر درود کے پڑھیں مثلاً :
''اللھم إني أعوذبك من البرص والجنون والجزام ومن سيء الأسقام''(احمد، ابوداؤد )
معلوم ہواکہ یہ شرط نہیں، البتہ اسے استجاب پر محمول کیا جائے گا۔ دعاء کے لیے درود کے استجاب کی بات کو ایک دوسری حدیث سے مزید تقویت ملتی ہے۔

اور سنن الترمذی میں بسند حسن یہ حدیث شریف مروی ہے :
«يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله جاءت الراجفة تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه»، قال أبي: قلت: يا رسول الله إني أكثر الصلاة عليك فكم أجعل لك من صلاتي؟ فقال: «ما شئت». قال: قلت: الربع، قال: «ما شئت فإن زدت فهو خير لك»، قلت: النصف، قال: «ما شئت، فإن زدت فهو خير لك»، قال: قلت: فالثلثين، قال: «ما شئت، فإن زدت فهو خير لك»، قلت: أجعل لك صلاتي كلها قال: «إذا تكفى همك، ويغفر لك ذنبك»: «هذا حديث حسن»
ترجمہ :
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو“، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے“، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟“ آپ نے فرمایا:”جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 
Last edited:

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
چنانچہ میت کے لیے بھی خلوص دل سے دعا کیجئے:

احادیث میں بیان آیا ہے کہ میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعاء کرنی چاہیے۔ کیونکہ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے:
''عن أبي ھریرة رضی اللہ عنه قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:إذا صلیتم علی المیت فأخلصو اله الدعاء''
( ابوداؤد، حدیث نمبر 3183)
''حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ''تم جب میت کے لیے دعاء کرو، تو اخلاص کے ساتھ کرو۔''

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ ''فأخلصوا له الدعاء'' سےثابت ہواکہ اس موقع پر ماثور او رمنقول دعاؤں میں سے کوئی مقرر نہیں، بلکہ میت پر نماز جنازہ پڑھنے اور دعاء کرنے والے کو چاہیے کہ اخلاص کےساتھ دعاء کرے ، وہ نیک ہو یا نہ۔ اس لیے کہ گنہگار شخص اپنے مسلمان بھائیوں کی دعاء کا شدید محتاج ہوتا ہے، تبھی تو وہ تمام مل کر اسے الوداع کرتے او راکٹھے لےکر آتے ہیں۔ (نیل الاوطار4؍1،06 )
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

شیخ ''فأخلصوا له الدعاء'' کا ترجمہ "اخلاص کے ساتھ کرو" ہوگا یا خالص میت ہی کے لئے دعا کرو ہوگا؟ یا پھر دونوں ترجمے صحیح ہونگے؟

شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللّٰہ نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے:


وقد أورد أبو داود حديث أبي هريرة رضي الله عنه: أن النبي عليه الصلاة والسلام قال: (إذا صليتم على الميتفأخلصوا له الدعاء) أي: اجتهدوا في الدعاء من قلوب مخلصة، فهذا هو المقصود من صلاة الجنازة.
ومعلوم أنه كونه يدعا له وحده فهذا هو الأصل، لكن إذا دُعي للحي بعده كما جاءت به السنة فلا بأس بذلك، وأما أن يقوم الإنسان على الجنازة يدعو لنفسه فلا، بل يدعو للميت، وأما قوله في الدعاء: (اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده) فهذا دعاء للحي، ولكنه يتعلق بالميت، فالذي يبدو أن المقصود منه هو أن الإنسان يجتهد ويقبل على الله، ويهتم بالدعاء، فلا يكون هناك ذهول ولا غفلة؛ حتى يحصل المقصود من الصلاة على الجنازة.
 
Top