بنتِ تسنيم
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2017
- پیغامات
- 269
- ری ایکشن اسکور
- 40
- پوائنٹ
- 66
آزمائشیں اور قید و بند - - - ربّانی سنت ہے!
احمد الحمدان
احمد الحمدان
ہم نے یہ مضمون اپنے بھائیوں اور جھاد فی سبیل اللہ کے راستے پر چلنے والوں کی توجہ آزمائشوں کی جانب مبذول کرانے کی خاطر قلمبند کیا ہے، یہاں تک کہ اللہ جلِ شانہُ کا حکم آ پہنچے اور انہیں قید و بند کی آزمائش گھیر لے. اور وہ یہ جان لیں کہ انکی آزمائش کوئی نئی نہیں ہے اور نہ ہی انکا یہ مغالطہ درست ہے کہ اسیری، راہِ حق کا کوئی خاص ثبوت نہیں. مضمون کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ جان لیں کہ یہ راستہ انبیاء و صالحین کا ہے. اگر کوئی شخص قید کیا گیا ہے تو اس سے پہلے انبیاء کرام بھی قید کیے گئے تھے. اور ہمارے دور کا کوئی ایک شخص بھی انبیاء کرام سے زیادہ اللہ کا مقرب بندہ نہیں ہے.
ورقہ بن نوفل نے جبریل کی آمد کا واقعہ سن کر رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو اسی مستقل نبوی خصوصیت سے آگاہ کیا کہ تمام انبیاء اور اہلِ حق کو ان دشمنیوں سے سامنا کرنا پڑتا ہے.
"جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی."( صحیحین )
مسلمانوں کا کفار و مشرکین کی دشمنی کا سامنا کرنا، ایک سنتِ الہیہ ہے. جو ہرگز بھی تبدیل نہیں ہوتی. اور کفار کے لیے سب سے اہم ھدف یعنی مسلمانوں کو کفر و شرک میں لے جانے کے لئے نہایت گھناؤنے اور تکلیف دہ طریقے استعمال کرنے میں کچھ بھی مانع نہیں ہے. جیسا کہ اللہ جلِ شانہُ نے فرما دیا،
... وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ... ﴿البقرة ۲۱۷﴾
... یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہوسکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں...
سید قطب فرماتے ہیں؛ "یہ اللہ العلیم کی طرف سے رحمت ہے کہ اس نے ہمیں دشمنوں کی بدباطنی پر مُصر رہنے کی خبر دے دی ہے اور دشمنانِ اسلام کے اس مستقل ہدف کی وضاحت کر کے مسلمانوں کے عقیدے کی جانچ پڑتال بھی کر لی. دشمنانِ اسلام کا یہی وہ مستقل ہدف ہے جس کا سامنا تمام مسلم دنیا اور آنے والی تمام مسلم نسلوں کو کرنا ہے. مسلمانوں کو قتل کرنے کے ذرائع اور طریقے تو مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کا ہدف ایک مستقل ہدف ہے."( قرآن کے سایے میں، صفحہ ٢٢٧-٢٢٨ )
مسلمانوں کو انکے دین سے پھیرنے کا ایک طریقہ قید و بند اور جیل ہے:
اللہ تعالٰی نے بیان کیا ہے کہ جیل اور قید و بند ایک ایسی آزمائش ہے جس میں ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام بھی آزمائے گئے. سورہ یوسف میں ارشاد باری تعالٰی ہے.
ثُمَّ بَدَا لَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا رَاَوُا الۡاٰیٰتِ لَیَسۡجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیۡنٍ ﴿یوسف ٪۳۵﴾
"پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں."
ابن کثیر فرماتے ہیں: "یوسف علیہ السلام کی پاکبازی عیاں ہونے کے بعد بھی انہوں نے کچھ مدت کے لئے حضرت یوسف کو قید کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ لوگ اس پر زیادہ گفتگو نہ کریں اور عزیز مصر کی بیوی بے قصور رھے اور لوگ یہی سمجھیں کہ یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی بیوی کو بہلایا پھسلایا تھا اور اسی وجہ سے انکو قید میں ڈالا گیا. پس، انہوں نے ظلم و عداوت کے باعث یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈالا. "(قصص الأنبياء، ص ٢٢٧ )
اور ظلم کی بنا پر یوسف علیہ السلام کو جیل میں ڈالنا، انکے خلاف کذب بیانی اور لوگوں کی نظر میں انکا کردار مشکوک بنانا ہی کافی نہیں تھا، بلکہ مفسرین نے قرآن کے ان الفاظ "حَتّٰی حِیۡنٍ" کی تفسیر میں بیان کیا ہے : " یہ مدت غیر معینہ تھی"
(النقاط والعيون للمواردي ٣/٣٥)
یعنی بغیر کسی عدالتی فیصلے کے جیسے کہ ہمارے موجودہ دور میں ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے کوئی ایک بھی ثالث نہیں تھا جو ان کی رہائی کے لیے کچھ کرے؛ یعنی تمام راستے مسدود ہیں!
تو اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا کِیا - - - ؟!
اللہ عزوجل نے اپنے نبی کے وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں جو یوسف علیہ السلام نے اپنی ساتھی قیدیوں دعوت توحید دیتے ہوئے کہے تھے:
... اِنِّیۡ تَرَکۡتُ مِلَّۃَ قَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿یوسف ۳۷﴾
"... میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں."
وَ اتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿یوسف ۳۸﴾
"میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم واسحاق اور یعقوب کے دین کا، ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں، ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں."
یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ ءَاَرۡبَابٌ مُّتَفَرِّقُوۡنَ خَیۡرٌ اَمِ اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴿ؕؕیوسف ۳۹﴾
"اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟"
مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اَسۡمَآءً سَمَّیۡتُمُوۡہَاۤ اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنۡ سُلۡطٰنٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿یوسف ۴۰﴾
"اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وه سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے."
پھر یوسف علیہ السلام نے کہا،
وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫﴿ؕؕیوسف ٪۴۲﴾
" اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا..."
اللہ کے نبی کی سنت جانتے ہوئے بھی ہم نے پہلے جن باتوں کا ذکر کیا:
ظلم
انکا کردار مسخ کیا گیا
انکی اسیری غیر معینہ مدت کے لئے تھی.
اس سب کے باوجود یوسف علیہ السلام نے اپنے ذاتی مسئلہ پر توحید اور کافروں سے برأت کے معاملے کو ترجیح دی.
اسی طرح، اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کو دو باتوں کا علم تھا جو قید میں انکی ثابت قدمی اور انکے وقار کی بھی وجہ بنا. جیسا کہ سورۃ یوسف میں اللہ تعالٰی بیان کرتے ہیں :
اِنَّہٗ مَنۡ یَّـتَّقِ وَ یَصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿یوسف ۹۰﴾
...بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا."
إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " انہوں نے اپنے تقوی اور صبر کے ذریعے سے رہائی اور مقام و مرتبہ حاصل کیا." (تفسیر الکبیر ٥/٥٨ )
یہاں تک کہ یوسف علیہ السلام بادشاہ کے وزیر بنا دئیے گئے :
وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ ﴿یوسف ۵۴﴾
" بادشاه نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کر لوں، پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج سے ذی عزت اور امانت دار ہیں."
إبن کثیر کہتے ہیں : "بادشاہ نے یوسف علیہ السلام کو اپنی قوم میں اعلی ترین منصب پر فائز کیا جو طبقہ اشرافیہ سمجھا جاتا ہے." ( قصص الأنبي،ص ٢٣٣)
* * *