• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آزمائش پر راضی رہنے والا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آزمائش پر راضی رہنے والا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ عِظَمَ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَـلَائِ، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا اِبْتَـلَاھُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَہُ الرِّضٰی، وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السُّخْطُ۔ ))1
'' بڑا ثواب، بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کو کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے، جو اس آزمائش پر راضی ہوا (اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط گمان نہ رکھا) تو اس کے لیے رضا ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہو (صبر کی بجائے غلط شکوے اور گمان کیے) تو اس کے لیے ناراضی ہے۔ ''
تشریح...: وہ انسان مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ مختلف مصائب اور آزمائش میں مبتلا کرے لیکن وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے اور صبر سے کام لیتا ہے اور آزمائش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے متعلق گمان اچھا ہی رکھتا ہے چنانچہ خوشنودی اور مصیبت کے مطابق ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر آزمائش ناراضی کی وجہ سے نہیں ڈالتا بلکہ یا تو مکروہ چیز کو دور کرنے کے لیے یا گناہوں کے کفارے کے لیے اور یا مرتبہ بلند کرنے کے لیے آزماتا ہے اور بندہ جب خوشی خوشی اسے قبول کرلیتا ہے تو یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۹۵۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمُ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ ... حَتّٰی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُھَا ... إِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ خَطَایَاہُ۔ ))1
'' مسلمان کو کوئی بھی دکھ و تکلیف و رنج و غم آئے یا صدمہ پہنچے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی اگر چبھے ہر دکھ کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ ''
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ مَرَضِہِ وَھُوَ یُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا فَقُلْتُ: إِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، قُلْتُ: إِنَّ ذَاکَ بِأَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، قَالَ: أَجَلْ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَصِیْبُہُ أَذًی إِلاَّ حَاتَّ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ۔ ))2
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیماری کی حالت میں گیا (بیمار پرسی کے لیے) ۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: بے شک آپ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں۔ اورمیں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیوں نہیں'' جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔ ''
ان احادیث میں ہر مومن کے لیے بشارت ہے کیونکہ اکثر اوقات انسان مذکورہ تکالیف میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مبتلا ہوتا ہے، تو معلوم ہوا کہ امراض و تکالیف بدنی ہوں یا قلبی ان کی وجہ سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: ما جاء في کفارۃ المرض، رقم: ۵۶۴۱، ۵۶۴۲۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: شدۃ المرض، رقم: ۵۶۴۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((مَنْ أَذْھَبْتُ حَبِیْبَتَیْہِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ، لَمْ أَرْضَ لَہُ ثَوَابًا دُوْنَ الْجَنَّۃِ۔ ))1
'' میں جس کی دو محبوب چیزیں واپس لے لوں اور وہ صبر کرتا اور ثواب کی امید رکھتا ہے تو میں جنت کے علاوہ اس کے لیے اور کسی ثواب سے راضی نہیں ہوتا۔ ''
دو محبوب چیزوں سے آنکھیں مراد ہیں کیونکہ یہ انسان کو اپنے تمام اعضاء سے پیاری اور بھلی لگتی ہیں۔ ان کے ضائع ہونے کی وجہ سے انسان کسی اچھی چیز کو دیکھ کر خوش ہونے سے محروم اور بری چیز دیکھ کر بچنے سے معذور ہوجاتا ہے، چنانچہ محض صبر ہی نہیں کرتا بلکہ صبر کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جن انعامات و اعزازات کا وعدہ کیا ہے ان کو بھی مدنظر رکھتا ہے، لہٰذا اس کو سب سے بڑا معاوضہ جنت کی صورت میں ملتا ہے کیونکہ دنیا کے فنا کے ساتھ ہی بصارت کی لذت ختم ہوجاتی ہے لیکن جنت کی لذت اس کی بقا کی طرح باقی رہنے والی ہے۔
یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: (( مَرَّ النَّبِيُّ بِامْرَأَۃٍ تَبْکِیْ عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ: اِتَّقِیْ اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ۔ قَالَتْ: إِلَیْکَ عَنِّیْ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصَیْبَتِیْ وَلَمْ تَعْرِفْہُ فَقِیْلَ لَھَا: أَنَّہُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِیْنَ فَقَالَتْ: لَمْ أَعْرِفْکَ فَقَالَ: (( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلیٰ۔))2
''انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے کہ جو قبر کے نزدیک بیٹھی رو رہی تھی، گزرے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ سے ڈر اور صبر کر۔'' وہ کہنے لگی:آپ اپنی راہ لیجیے، آپ کو میرے ایسی مصیبت نہیں پہنچی اور نہ آپ کو اس مصیبت کا پتہ ہی ہے ۔اسے کہا گیا ''بی بی! یہ اللہ کے نبی تھے۔ (وہ بیچاری پہلے جان نہ سکی تھی۔)پس وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پہ آئی ۔اسے یہاں کوئی دربان نہیں ملا۔ چنانچہ گھر میں داخل ہو کر وہ آپ سے عرض کرنے لگی:(اللہ کے نبی! معاف کیجیے گا) ''میں آپ کو جان نہ سکی۔(معذرت چاہتی ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ صبر مصیبت کی ابتداء کے وقت ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۹۵۹۔
2 اخرجہ البخاری فی کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور ۱۲۸۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نیز فرمایا:
(( یَقُوْلُ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ: اَبْنَ اٰدَمَ! إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلیٰ، لَمْ أَرْضِ لَکَ ثَوَابًا دُوْنَ الْجَنَّۃِ۔ ))1
'' اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ابن آدم! اگر تو مصیبت کی ابتداء کے وقت صبر کرے گا اور ثواب کی نیت رکھے گا تو میں تیرے لیے جنت کے سوا اور کسی ثواب پر راضی نہیں۔ ''
ان احادیث میں یہ اشارہ ہے کہ نفس پر مشکل صبر، جس کا بڑا ثواب ہے، وہ مصیبت اور آزمائش کی ابتدا کا وقت ہوتا ہے، اس لیے یہ بات اس انسان کی دلی قوت اور صبر کے مقام پر ثابت قدم رہنے پر دلالت کرتی ہے، بخلاف اس شخص کہ جو بعد میں صبر کرتا ہے، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصیبت کا دکھ اور تکلیف بھول جاتی ہے اور اس کی حرارت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس وقت تو ہر ایک صبر کرلیتا ہے اور جب انسان مصیبت کی ابتدا کے وقت پریشان اور بے چین ہوتا ہے اور پھر مایوس ہوکر صبر کرتا ہے تو مقصود پھر بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ مصیبت کے وقت عاقل کو وہ چیز لازم پکڑنی چاہیے جو بیوقوف کو تین دن کے بعد سمجھ آتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کو مصیبت کی وجہ سے اجر نہیں ملتا کیونکہ یہ اس کا فعل ہی نہیں بلکہ اسے اچھے صبر اور عمدہ ثابت قدمی کی وجہ سے اجر و ثواب ملتا ہے۔
ایک اور حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلَائِکَتِہِ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِيْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ۔ فَیَقُوْلُ: قَبَضْتُمْ ثَمْرَۃَ فُؤَادِہِ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ۔ فَیَقُوْلُ: مَا ذَا قَالَ عَبْدِيْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ: اُبْنُوْا لِعَبْدِيْ بَیْتًا فِيْ الْجَنَّۃِ وَسَمُّوْہُ: بَیْتَ الْحَمْدِ۔ ))2
جب کسی بندے کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کی ہے، فرشتے جواب میں ہاں کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم نے اس کے دل کا ٹکڑا اور ثمرہ قبض کیا، وہ کہتے ہیں: ہاں! اللہ پوچھتے ہیں: میرے بندے نے اس وقت کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں: اس نے تیری تعریف کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تھا۔ اللہ فرماتے ہیں: میرے بندے کے لیے جنت میں گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (قابل تعریف گھر) رکھو۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح ابن ماجہ، رقم: ۱۲۹۸۔
2 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۸۱۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ إِذَآ أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o أُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ o}[ البقرہ: ۱۵۵ تا ۱۵۷]
'' اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے کہ انہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ''
معلوم ہوا کہ جب مومن اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرلیتا اور انا للہ پڑھتا ہے تو تین بھلائیوں کا مستحق ٹھہرتا ہے (۱) اللہ کی نوازشیں (۲) رحمت (۳) ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی سکھلایا ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے، اجر و ثواب کا سوال اور مصیبت کے بدلے اچھائی طلب کی جائے۔ فرمایا:
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہُ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا أَمَرَہُ اللّٰہُ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، أَللّٰھُمَّ أَجِرْنِيْ فِيْ مُصِیْبَتِيْ وَأَخْلُفْ لِيْ خَیْرًا مِنْھَا ، إِلاَّ أَخْلَفَ اللّٰہُ لَہُ خَیْرًا مِنْھَا۔)) قَالَتْ: فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ سَلَمَۃَ ، قُلْتُ: أَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ مِنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ؟ أَوَّلُ بَیْتٍ ھَاجَرَ إِلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، ثُمَّ إِنِّيْ قُلْتُھَا، فَأَخْلَفَ اللّٰہُ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَتْ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَاطِبَ بْنَ أَبِیْ بَلْتَعَۃَ یَخْطُبِیْ لَہُ فَقُلْتُ: إِنَّ لِیْ بِنْتًا وَأَنَا غَیُوْرٌ، فَقَالَ: أَمَّا ابْنَتُھَا فَتَدْعُوا اللّٰہَ أَنْ یُّغْنِیَھَا عَنْھَا، وَأَدْعُوْا اللّٰہَ أَنْ یَذْھَبَ بِالْغَیْرَۃِ۔ ))1
''کسی مسلمان کو جب وہ مصیبت پہنچتی ہے جس کا اللہ نے حکم کیا ہوتا ہے تو اس پر کوئی مسلمان یہ کہے:
''ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! مجھے اس مصیبت میں اجر سے نواز دیجیے اور مجھے اس سے بہتر عطا فرمادیجیے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرمادیتے ہیں۔ حدیث کی راویہ اُم المؤمنین سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ (ان کے خاوند) فوت ہوگئے تو میں دل میں کہتی: مسلمانوں میں سے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر بھی بھلا کوئی ہوگا؟ وہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں اسی طرح اللہ سے دعا کرتی رہی ، یعنی : اَللّٰہُمَّ أَجِرْنِيْ فِیْ مُصِیْبَتِيْ ... الخ پس اللہ نے ان کے متصل بعد اللہ کے رسول عطا کردئیے (ام المومنین رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں: میری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو پیامِ نکاح دے کر بھیجا تو میں نے ان سے کہا ''میری ایک بیٹی ہے اور میں بہت زیادہ غیرت والی ہوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''پس ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ وہ ان کو اس سے مستغنی کردیں گے اور میں اللہ سے دعا کروں گا کہ اس کی یہ حد سے زیادہ والی غیرت لے جائے (یعنی اعتدال پر لے آئے)۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کو مصیبت پہنچے اور وہ یہ کہے جو اللہ نے اسے حکم دیا (یعنی) انا للّٰہ پڑھے (اور یہ دعا مانگے) یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا ثواب دے اور اس کے بدلہ میں اس سے اچھی چیز عنایت فرما، مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر چیز اس کو دیتا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الجنائز، باب: ما یقال عند المصیبۃ، رقم: ۲۱۲۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسی طرح یہ بھی بتلایا کہ جب کسی مصیبت زدہ کو دیکھا جائے تو خود مصیبت میں مبتلا نہ ہونے کی بنا پر اللہ کی حمد کی جائے۔ نیز فرمایا:
(( مَنْ رَأَی مُبْتَلیٰ فَقَالَ: أَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِيْ عَافَانِيْ مِمَّا ابْتَـلَاکَ بِہِ، وَفَضَّلَنِيْ عَلیٰ کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا، لَمْ یُصِبْہُ ذٰلِکَ الْبَـلَائُ۔ ))1
'' جو کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر (یہ دعا پڑھے:) سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں کہ جس نے مجھے اس چیز سے عافیت بخشی جس کے ساتھ تجھے آزمایا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوق پر اچھی طرح فضیلت دی، تو اسے وہ بیماری نہیں پہنچے گی۔ ''
انسان کی جب تک سانسیں جاری ہیں اس وقت تک وہ اس دنیا کے گھر میں امتحان کے لیے، مصائب اور آزمائش کا نشانہ بنتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً o} [الانبیاء:۳۵]
'' اور ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ ''
یعنی مصائب و آلام سے دو چار کرکے اور کبھی دنیا کے وسائلِ فراواں سے بہرہ ور کرکے کبھی صحت و فراغت کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے کبھی تونگری دے کر اور کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا کرکے ہم آزماتے ہیں کیونکہ یہ دارالامتحان ہے اور یہیں پر ان درجات و مراتب کی حد بندی ہونی ہے جن پر قیامت کے دن لوگ ہوں گے۔ مقولہ ہے: (( عِنْدَ الْاِمْتِحَانِ یُکْرَمُ الْمَرْئُ أَوْ یُھَانُ۔)) کہ امتحان کے وقت آدمی کو عزت بخشی جاتی ہے یا رسوا کیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھیں صرف زبانی دعویٰ سے ایمان کے مرتبہ کا حصول آسان نہیں بلکہ اس کے لیے امتحان و آزمائش ناگزیر اور ضروری ہے۔ جیسا کہ اس پر مقام فرمایا:
{أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْٓا أَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o} [العنکبوت: ۲، ۳]
'' کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعویٰ پر کہ ہم ایمان لائے ہیں، ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے، ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا، یقینا اللہ تعالیٰ انہیں بھی جانـچ لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرے گا جو جھوٹے ہیں۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۷۲۹۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ بھی فرمایا:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَکُمْ o}[محمد: ۳۱]
'' یقینا ہم تمہارا امتحان کرکے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو صاف معلوم کرلیں گے اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کریں گے۔ ''
آزمائش کا سبب حسب ذیل بھی ہوتا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَّہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُo}[الملک: ۲]
'' وہ ذات کہ جس نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے سب سے اجھا ہے۔ ''
ابتلاء سے بندے کا امتحان ہوتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ راضی ہوتا ہے کہ نہیں، صبر کرتا ہے یا کہ بے صبری، شکر کرتا ہے یا ناشکری جیسے اللہ تعالیٰ سلیمان علیہ السلام کی بات بیان کرتے ہوتے فرماتے ہیں:
{قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ أَنَا آتِیکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ یَّرْتَدَّ إِِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی ئَ أَشْکُرُ أَمْ اَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِِنَّ رَبِّی غَنِیٌّ کَرِیمٌ o} [النمل: ۴۰]
'' کہا (سلیمان نے) یہی میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار بے پروا اور کریم ہے۔ ''
بندے کی آزمائش اللہ تعالیٰ اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی حالت کو جان سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ماضی، حال، مستقبل کی ہر چیز کو جاننے اور پہچاننے والا ہے، بلکہ اس سے غرض لوگوں کو معلوم کروانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قدیم علم کی بنا پر ان کو بدلہ نہیں دیں گے بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں جزاء دیں گے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندے پر حجت قائم ہوسکے کہ وہ مومن ہے یا کافر، صادق ہے یا کاذب۔
ابتلاء سے کوئی بھاگ نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی آزمائش سے بچ سکتا تو وہ رسولوں اور انبیاء کی جماعت ہوتی اور خصوصاً افضل الرسل و خاتم الانبیاء بچتے، حالانکہ انہیں پتھر مارے گئے، دونوں قدم خون سے لت پت ہوگئے، چہرہ مبارک زخمی کیا گیا، دانت توڑا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاعر، مجنوں اور جادوگر ہونے کے الزامات لگائے گئے، اپنے شہر مکہ سے نکالا گیا، لیکن ان مصائب و آلام کے مقابلہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہترین صابر و شاکر اور بہترین اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور ثواب کی امید رکھنے والے ثابت ہوئے۔ (صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَـلَائً قَالَ (( اَلْأَنْبِیَائُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِیْنِہِ، فَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ صُلْبًا اِشْتَدَّ بِلَاؤُہُ، وَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ اُبْتُلِيَ عَلیٰ قَدْرِ دِیْنِہِ، فَمَا یَبْرَحُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی یَتْرُکَہُ یَمْشِيْ عَلَی الْأَرْضِ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ۔))1
'' اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سے لوگ سخت تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں؟ فرمایا: انبیاء، پھر درجہ بدرجہ آدمی اپنے دین کے مطابق آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، اگر دین پر سختی سے کار بند ہے تو پھر آزمائش بھی سخت ہے، اگر دین میں نرمی ہے تو آزمائش بھی دین کے موافق ہے۔ آزمائش بندے کا ساتھ نہیں چھوڑتی، حتیٰ کہ بندہ زمین پر چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۹۵۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آزمائش کا راز یہ ہے کہ آزمائش نعمت کے مدمقابل ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی نعمت زیادہ ہوگی اس کی آزمائش بھی بڑی ہوگی اور جس کی آزمائش بڑی ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور عاجزی بھی زیادہ کرے گا۔
ابن جوزی رحمہ اللہ کا قول ہے: اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قوی جس کے اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے اٹھاتا ہے اور ضعیف پر نرمی کی جاتی ہے مگر جب بھی مبتلا ہونے والے کو اللہ کی معرفت قوی ہوگی تو آزمائش آسان و نرم ہوجائے گی اور بعض ابتلاء کے اجر پر نظر رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر آزمائش نرم و آسان ہوجاتی ہے۔ ان میں سب سے بڑا درجہ اس بندے کا ہے جو آزمائش کو مالک کا اپنی بادشاہی میں تصرف خیال کرکے تسلیم کرلے اور اعتراض نہ کرے اور اس سے بھی بڑا درجہ اس کا ہے جسے محبت آزمائش کے خاتمہ کی دعا سے لا پروا کردے اور انتہائی درجہ کا اعلیٰ انسان وہ ہے جو آزمائش سے لذت محسوس کرے کیونکہ یہ اختیار سے پیدا ہوتی ہے۔
دنیا کی جتنی بڑی آزمائش ہو وہ جنت کے ایک غوطے کے بھی برابر نہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یُوْتَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَنَعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنَ الْکُفَّارِ، فَیُقَالُ اِغْتَمِسُوْہُ فِی النَّارِ غَمْسَۃً، فَیُغْمَسُ فِیْھَا، ثُمَّ یُقَالُ لَہُ: أَيْ فُـلَانُ ! ھَلْ أَصَابَکَ نَعِیْمٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا مَا أَصَابَنِیْ نَعِیْمٌ قَطُّ ، وَیُؤْتَی بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِیْنَ ضُرًّا وَّبَـلَائً۔ فَیُقَالُ: اِغْمِسُوْہُ غَمْسَۃً فِي الْجَنَّۃِ۔ فَیُغْمَسُ فِیْھَا غَمْسَۃً۔ فَیُقَالُ لَہٗ: أَيْ فَـلَانُ! ھَلْ أَصَابَکَ ضُرٌّ قَطُّ أَوْ بَـلَائٌ؟ فَیَقُوْلُ: مَا أَصَابَنِيْ قَطُّ ضُرٌّ وَلَا بَـلَائٌ۔ ))1
''قیامت کے دن دنیا کے سب سے زیادہ نعمتوں میں رہنے والے کافر کو لایا جائے گا اس کے بارے میں حکم ہوگا کہ اسے جہنم میں ایک غوطہ لگوایا جائے پس اسے اس میں غوطہ دے دیا جائے گا۔ پھر اسے کہا جائے گا اے فلاں! کیا دنیا میں کبھی تجھے کوئی نعمت بھی ملی تھی؟ وہ کہے گا ''نہیں۔ میں نے کوئی نعمت کبھی نہیں چکھی۔ پھر قیامت والے تکلیف اور آزمائش کے لحاظ سے سخت ترین مومن کو لا کر اس کے بارے میں کہا جائے گا: اس کو جنت کا ایک غوطہ لگواؤ۔ چنانچہ اسے جنت میں ایک غوطہ لگوایا جائے گا۔(پھر) اس سے پوچھا جائے گا: اے فلاں! کیا دنیا میں کبھی تجھے تنگی اور تکلیف پہنچی تھی؟ کہے گا: مجھے کبھی بھی تنگی اور مصیبت نہیں پہنچی تھی۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد؍ باب ذکر الشفاعۃ؍ حدیث: ۴۳۲۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پھر فرمایا:
(( یَوَدُّ أَھْلُ الْعَافِیَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حِیْنَ یُعْطٰی أَھْلُ الْبَـلَائِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُوْدَھُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْیَا بِالْمَقَارِیْضِ۔ ))1
'' اسی لیے قیامت کے دن جب مصیبت زدہ ثواب سے نوازے جائیں گے (تو یہ دیکھ کر) صحت اور آرام والے خواہش کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے (تاکہ آج وہ بھی بڑے ثواب کے حقدار ہوتے)۔ ''
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْأَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ أَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا o} [الکہف: ۷]
'' جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اسے صرف زمین کے لیے زینت بنایا ہے تاکہ ہم انہیں (انسانوں کو) آزما سکیں کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے سب سے اچھا کون ہے۔ ''

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top