ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
دوران نمازکپڑے اور بال سمیٹنے کا حکم
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری
دوران نماز کپڑے اور بال سمیٹنے سے اجنتا ب کیجئے، سیدنا عبد اللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃٍ، لَّا أَکُفُّ شَعَرًا وَلاَ ثَوْبًا .
''مجھے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہحکم بھی دیا گیا کہ نماز میں بال اور کپڑے نہ سمیٹوں۔''
(صحیح البخاري : ٨١٦، صحیح مسلم : ١/١٩٣، ح : ٤٩٠)
یہ حکم حالت نماز کے متعلق ہے یا نماز سے پہلے آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہونے کے متعلق ۔؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت نماز کے اندر کی ہے۔داؤدی کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ تھوڑا آگے جا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے 'بَابُ لَا یَکُفُّ ثَوْبَہ، فِي الصَّلَاۃِ' ''نماز میں کپڑا نہ سمیٹنے کا بیان ہے۔''قائم کیا ہے۔ اس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے۔''
(فتح الباري : ٢/٢٩٦)
امام نسائی رحمہ اللہ (٢/٢١٥، ح : ١١١٦) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ (١٠٤٠) کی تبویب سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
بَابُ الزَّجْرِ عَنْ کَفِّ الثَّیَابِ فِي الصَّلَاۃِ .
''نماز کے اندر کپڑے سمیٹنے پر ڈانٹ کا بیان ۔''
(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٣٨٣، ح : ٧٨٢)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَی النَّہْیِ عَنِ الصَّلَاۃِ وَثَوْبُہ، مُشَمَّرٌ أَوْ کُمُّہ، أَوْ نَحْوُہ، .
''علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نماز کے اندر کپڑا یا آستینیں چڑھانا ممنوع ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
نیز لکھتے ہیں:
''آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کے بارے میں نہی، نہی تنزیہی ہے۔ (یعنی ناقابل مؤاخذہ خطا ہے۔) اگر کوئی اس حال میں نماز پڑھ لے، تو یہ مستحسن اقدام نہ ہو گا، لیکن اس کی نماز درست اور صحیح ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے علما کے اجماع کو اس مسئلہ میں دلیل بنایا ہے۔
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی دعویٰ اجماع کیا ہے کہ ایسے نمازی پر اعادہ نہیں ۔
(الأوسط لابن المنذر : ٣/١٨٤)
راجح موقف یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق نماز کے اندر سے ہے۔راوی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباسw کے فعل سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ البتہ بالوں کا معاملہ اس سے مستثنی ہے۔ نماز کے اندر اور باہر ہر دو حالت میںممنوع ہے۔
کریب سیدنا عبد اللہ بن عباسwسے بیان کرتے ہیں کہ انہوں (ابن عباسw ) نے عبد اللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا جب کہ ان کے سر کے بال پیچھے کی طرف گندھے تھے۔ تو سیدنا عبد اللہ بن عباسw اٹھے اور بالوں کو کھولنا شروع کر دیا،وہ نماز سے فارغ ہوئے، تو سیدنا عبد اللہ بن عباسw سے کہا : آپ میرے بالوں کے ساتھ کیا کر رہے تھے، توکہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
إِنَّمَا مَثَلُ ہٰذَا مَثَلُ الَّذِيْ یُصَلِّي وَہُوَ مَکْتُوفٌ .
''اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو نماز پڑھتا ہے اور اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں۔''
(صحیح مسلم : ١/١٩٤، ح : ٤٩٢)
اسی دلیل کی بنا پر حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس نہی کے مطلق ہونے کو مختار و صحیح کہا ہے۔
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
فائدہ نمبر : 1
اگر قمیص کے ہاف بازو ہوں یا بازو بالکل نہ ہوں، تو اس میں نماز بالکل درست ہے، کیوں کہ نماز میں کندھے ڈھانپنے کا ذکر تو ہے۔ (صحیح البخاری : ٣٥٩، صحیح مسلم : ٥١٦) لیکن بازو ڈھانپنے کا کہیں ذکر نہیں۔ البتہ اگر آستین نماز کے اندر فولڈ کرتا ہے یا نماز سے باہر فولڈ کر کے نماز میں داخل ہوتا ہے، کہنیاں ننگی ہوں یا نہ ہوں، تو یہ مکروہ ضرور ہے۔ اس میںکراہت تنزیہی ہے، لیکن نماز درست اور صحیح ہے۔ ہاں کپڑے اور بال بھی سجدہ کرتے ہیں، انہیںسمیٹ لے گا، تو سجدہ نہ کر پائیں گے، لہٰذا ثواب سے محروم رہے گا۔
فائدہ نمبر : 2
قرائن سے ثابت ہے کہ عورت بالوں اور آستین کے حوالے سے مستثنی ہے۔
فائدہ نمبر : 3
شلوار وغیرہ کو پائنچے یا نیچے سے سمیٹنا یا لپیٹنا جائز اور درست ہے۔
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری
دوران نماز کپڑے اور بال سمیٹنے سے اجنتا ب کیجئے، سیدنا عبد اللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃٍ، لَّا أَکُفُّ شَعَرًا وَلاَ ثَوْبًا .
''مجھے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہحکم بھی دیا گیا کہ نماز میں بال اور کپڑے نہ سمیٹوں۔''
(صحیح البخاري : ٨١٦، صحیح مسلم : ١/١٩٣، ح : ٤٩٠)
یہ حکم حالت نماز کے متعلق ہے یا نماز سے پہلے آستین چڑھا کر نماز میں داخل ہونے کے متعلق ۔؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت نماز کے اندر کی ہے۔داؤدی کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ تھوڑا آگے جا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے 'بَابُ لَا یَکُفُّ ثَوْبَہ، فِي الصَّلَاۃِ' ''نماز میں کپڑا نہ سمیٹنے کا بیان ہے۔''قائم کیا ہے۔ اس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے۔''
(فتح الباري : ٢/٢٩٦)
امام نسائی رحمہ اللہ (٢/٢١٥، ح : ١١١٦) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ (١٠٤٠) کی تبویب سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
بَابُ الزَّجْرِ عَنْ کَفِّ الثَّیَابِ فِي الصَّلَاۃِ .
''نماز کے اندر کپڑے سمیٹنے پر ڈانٹ کا بیان ۔''
(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٣٨٣، ح : ٧٨٢)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَی النَّہْیِ عَنِ الصَّلَاۃِ وَثَوْبُہ، مُشَمَّرٌ أَوْ کُمُّہ، أَوْ نَحْوُہ، .
''علماء اس بات پر متفق ہیں کہ نماز کے اندر کپڑا یا آستینیں چڑھانا ممنوع ہے۔''
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
نیز لکھتے ہیں:
''آستین چڑھا کر نماز پڑھنے کے بارے میں نہی، نہی تنزیہی ہے۔ (یعنی ناقابل مؤاخذہ خطا ہے۔) اگر کوئی اس حال میں نماز پڑھ لے، تو یہ مستحسن اقدام نہ ہو گا، لیکن اس کی نماز درست اور صحیح ہے۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے علما کے اجماع کو اس مسئلہ میں دلیل بنایا ہے۔
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے بھی دعویٰ اجماع کیا ہے کہ ایسے نمازی پر اعادہ نہیں ۔
(الأوسط لابن المنذر : ٣/١٨٤)
راجح موقف یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق نماز کے اندر سے ہے۔راوی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عباسw کے فعل سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ البتہ بالوں کا معاملہ اس سے مستثنی ہے۔ نماز کے اندر اور باہر ہر دو حالت میںممنوع ہے۔
کریب سیدنا عبد اللہ بن عباسwسے بیان کرتے ہیں کہ انہوں (ابن عباسw ) نے عبد اللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا جب کہ ان کے سر کے بال پیچھے کی طرف گندھے تھے۔ تو سیدنا عبد اللہ بن عباسw اٹھے اور بالوں کو کھولنا شروع کر دیا،وہ نماز سے فارغ ہوئے، تو سیدنا عبد اللہ بن عباسw سے کہا : آپ میرے بالوں کے ساتھ کیا کر رہے تھے، توکہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
إِنَّمَا مَثَلُ ہٰذَا مَثَلُ الَّذِيْ یُصَلِّي وَہُوَ مَکْتُوفٌ .
''اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو نماز پڑھتا ہے اور اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں۔''
(صحیح مسلم : ١/١٩٤، ح : ٤٩٢)
اسی دلیل کی بنا پر حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس نہی کے مطلق ہونے کو مختار و صحیح کہا ہے۔
(شرح صحیح مسلم : ١/١٩٣)
فائدہ نمبر : 1
اگر قمیص کے ہاف بازو ہوں یا بازو بالکل نہ ہوں، تو اس میں نماز بالکل درست ہے، کیوں کہ نماز میں کندھے ڈھانپنے کا ذکر تو ہے۔ (صحیح البخاری : ٣٥٩، صحیح مسلم : ٥١٦) لیکن بازو ڈھانپنے کا کہیں ذکر نہیں۔ البتہ اگر آستین نماز کے اندر فولڈ کرتا ہے یا نماز سے باہر فولڈ کر کے نماز میں داخل ہوتا ہے، کہنیاں ننگی ہوں یا نہ ہوں، تو یہ مکروہ ضرور ہے۔ اس میںکراہت تنزیہی ہے، لیکن نماز درست اور صحیح ہے۔ ہاں کپڑے اور بال بھی سجدہ کرتے ہیں، انہیںسمیٹ لے گا، تو سجدہ نہ کر پائیں گے، لہٰذا ثواب سے محروم رہے گا۔
فائدہ نمبر : 2
قرائن سے ثابت ہے کہ عورت بالوں اور آستین کے حوالے سے مستثنی ہے۔
فائدہ نمبر : 3
شلوار وغیرہ کو پائنچے یا نیچے سے سمیٹنا یا لپیٹنا جائز اور درست ہے۔