• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آلِ علیؓ و آلِ مروانؓ کے باہمی تعلقات

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
آلِ علیؓ و آلِ مروانؓ کے باہمی تعلقات
تحریر: محمد فھد حارث

جن حضرات نے تاریخ و انساب کے مستند ماخذ کا بنظرِ غائر و غیر جانبدار انہ مطالعہ کر رکھا ہوتا ہے، ان کے اوپر یہ امر مکمل طور سے مترشح ہوتا ہے کہ سیاسی رقابتیں رکھنے کے باوجود آلِ علیؓ و آلِ مروانؓ کے درمیان عموماً مؤدت و محبت کے تعلقات روا رہے۔ اس سلسلے میں جہاں سیدنا علیؓ کی طرف سے سیدنا مروانؓ کے لیے فکرمندی اور صلہ رحمی بہت نمایاں ہوکر نظر آتی ہے وہیں سیدنا مروان بن الحکمؓ اور ان کے بیٹے امیر عبدالملک بن مروانؒ کی طرف سے جناب علی بن حسینؒ المعروف زین العابدین کے لیے بھی بعینہٖ ویسی ہی مودت اور تعلقِ خاطر دیکھنے کو ملتا ہے۔ علامہ ابن کثیر مروانؓ سے متعلق سیدنا علیؓ کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابن عبدالحکم کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کو کہتے ہوئے سنا کہ جب جنگ جمل میں لوگوں کو شکست ہوگئی تو سیدنا علیؓ مروانؓ کے بارے میں اکثر پوچھتے تھے۔ علیؓ سے اس متعلق سوال کیا گیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ مجھے ان پر قریبی رشتہ کے سبب رحم آتا ہے اور وہ قریش کے نوجوانوں کےسردار ہیں (وھو سید من شباب قریش) ۔ (البدایہ و النہایہ الجزء الثامن صفحہ ۳۶۱ تحت الترجمہ مروان بن الحکم)

علامہ ابن کثیر دمشقی مزید لکھتے ہیں کہ المدائنی نے ابراہیم بن محمد سے بحوالہ جعفر بن محمد روایت کی ہے کہ جناب علی بن حسین المعروف زین العابدینؒ جب اپنے والد حسین بن علیؓ کی شہادت کے بعد مدینہ لوٹ آئے تو مروانؓ نے ان کو چھ ہزار درہم ( بعض روایات میں ایک لاکھ درہم کا ذکر ہے ) قرض دیا۔ پھر جب مروانؓ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو مروانؓ نے اپنے صاحبزادے عبدالملک بن مروانؒ کو وصیت کی کہ وہ علی بن حسینؒ سے کوئی چیز واپس نہ لیں۔ عبدالملک نے علی بن حسینؒ کو یہ پیغام لکھ بھیجا جس پر پہلے تو آپ نے انکار کیا لیکن بعد از اصرارِ عبدالملک آپ مان گئے۔ (البدایہ و النہایہ الجزء الثامن صفحہ۳۶۲ تحت الترجمہ مروان بن الحکم)

سیدنا مروان بن الحکمؓ نے جناب علی بن حسینؒ کو یہ قرض کیوں دیا تھا؟اس کی نہایت دلچسپ اور جناب مروانؓ کی آلِ علیؓ سے مودت پر مبنی وجہ ابن کثیر نے اپنی کتاب "البدایہ و النہایہ الجزء التاسع صفحہ ۲۸۱" میں ۹۴ہجری کی وفیات کے ذیل میں جناب علی بن حسینؒ کے ترجمہ کے تحت یہ لکھی ہے کہ الاصمعی کہتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ کی نسل میں صرف علی بن حسینؒ باقی رہ گئے تھے اور علی بن حسینؒ کے خاندان میں صرف ان کے چچا حسن کی نسل باقی رہ گئی تھی۔پس مروانؓ نے آپ سے کہا کہ آپ باندیاں خرید لیں تاکہ آپ کی نسل میں اضافہ ہو۔ جناب علی بن حسینؒ نے جواباً عرض کیا کہ میرے پاس اتنی مالی استطاعت نہیں جس پر سیدنا مروانؓ نے ان کو ایک لاکھ درہم قرض دیا جس سے علی بن حسین کے لیے باندیاں خریدی گئیں اور ان کی نسل میں خوب اضافہ ہوا۔ بعد میں اپنے مرض الوفات میں مروانؓ نے وصیت کی کہ علی بن حسینؒ سے قرض کی واپسی کی صورت میں کوئی چیز بھی واپس نہ لی جائے۔ اب تمام حسینی ان ہی علی بن حسین کی اولاد میں سے ہیں۔

علامہ ذہبی سير أعلام النبلاء (۴/۳۸۹) جناب علی بن حسین بن علیؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

روى شعيب عن الزهري قال: كان علي بن الحسين من أفضل أهل بيته، وأحسنهم طاعة، وأحبهم إلى مروان وإلى عبد الملك

یعنی امام زہری کہتے ہیں کہ علی بن حسینؒ اہلبیت میں سب سے افضل تھے۔ سب سے طاعت گزار تھے اور مروانؓ اور عبدالملک بن مروانؒ کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔

علامہ ابن کثیر دمشقی حضرات حسنین ؓ اور مروانؓ سے متعلق لکھتے ہیں کہ امام شافعی محمد بن علی بن حسین بن ابی طالب کی سند سے فرماتے ہیں کہ حسنؓ و حسینؓ مروانؓ کے پیچھے صلوٰۃ ادا کیا کرتے تھے اور وہ اس کا اعادہ نہ کرتے تھے اور اس کے لیے تیاری کیا کرتے تھے۔ (البدایہ و النہایہ الجزء الثامن صفحہ۳۶۲ تحت الترجمہ مروان بن الحکم)

اسی طرح سیدنا مروانؓ کو سیدنا حسین بن علیؓ سے کس قدر تعلقِ خاطر تھا ، اس سلسلے میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب سیدنا حسین بن علیؓ کوفیوں کے بلاوے پر مکہ سے کوفہ عازمِ سفر ہوئے تو مروانؓ نے عاملِ کوفہ عبیداللہ بن زیاد کو خصوصی طور پر مراسلہ ارسال کیا کہ سیدنا حسینؓ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا۔ ابن کثیر الفاظ ہیں:

"مروان نے ابن زیاد کو لکھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ حسین بن علیؓ تمہاری طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ حسینؓ فاطمہؓ کے بیٹے ہیں اور فاطمہؓ نبیﷺ کی بیٹی ہیں۔ اللہ کی قسم! حسینؓ سے زیادہ کوئی بھی شخص ہمیں محبوب نہیں۔ خبردار !ایسا نہ ہو کہ تم نفس کے ہیجان میں کوئی ایسا کام کر بیٹھو جس کے بُرے نتائج کو امت فراموش نہ کرسکے اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر نہ بھولے اور قیامت تک اس کا تذکرہ ہوتا رہے۔ والسلام" (البدایہ و النہایہ الجزء الثامن صفحہ ۲۳۷)

سنن سعید بن منصور کے باب جامع الشہادۃ میں روایت موجود ہے کہ جنگِ جمل کے دن سیدنا مروانؓ نے سیدنا حسنؓ و حسینؓ اور عبداللہ بن عباسؓ وغیرہم کے ذریعے سیدنا علیؓ سے اپنے لیے امان طلب کروائی اور ان حضرات نے سیدنا علیؓ سے سیدنا مروانؓ کے لیے امان طلب کی تو سیدناعلیؓ نے سیدنا مروانؓ کو امان تفویض کردی۔ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں امام محمد باقر سے روایت موجود ہے کہ ان سے کسی نے سوال کیا کہ سیدنا حسنؓ و حسینؓ ہمیشہ مروان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، تو کیا وہ گھر آکر اپنی نمازیں لوٹاتے تھے؟امام محمد باقر نے اللہ کی قسم کھا کر کہا ہمارے اکابر امامِ نماز کی نماز سے زیادہ نہیں بڑھاتے تھے۔ یہی بات تاریخِ صغیر میں امام بخاری نے بھی نقل کی ہے کہ حدثنی شرحبیل ابو سعد قال رایت الحسن و الحسین یصلیان خلف مروان۔

علامہ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ کی جلد ۸ میں سیدنا مروانؓ کے آلِ علیؓ کی محبت و عنایات سے متعلق چند ایک واقعات نقل کیے ہیں جن میں سے ایک واقعہ ہم اوپر علی بن حسین المعروف زین العابدین کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں جبکہ دوسرے واقعہ کے ضمن میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں جب سیدنا حسنؓ کا انتقال ہوا تو سیدنا مروانؓ ان کی تجہیز و تکفین میں شامل تھے اور جنازے کے ساتھ روتے جاتے تھے۔ چونکہ سیدنا مروانؓ اور سیدنا حسنؓ تقریباً ہم عمر تھے سو دونوں میں خوشگوار نوک جھوک چلتی رہتی ہے۔ سیدنا مروانؓ کو روتا دیکھ کر کسی نے آپ سے کہہ دیا کہ اب رو رہے ہیں جبکہ ان کی زندگی میں ان کے ساتھ خوب نوک جھونک کرتے تھے۔ سیدنا مروانؓ نے یہ سن کر سامنے کے پہاڑ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ میں تو اس پہاڑ سے بھی زیادہ اَحلَم یعنی حلیم ترین شخص سے نوک جھونک کرتا تھا۔

یہ ان خوشگوار تعلقات کی کرشمہ سازی ہی تھی کہ سیدنا علیؓ کے خاندان سے سیدنا مروانؓ کے خاندان کی کئی رشتہ داریاں قائم ہوئیں۔ جو کہ یہ ثابت کردیتی ہیں کہ سیدنا مروانؓ خود اور انکی آل اولاد بنو ہاشم و علیؓ کی نظروں میں بھی قدر و منزلت والے اور مستحسن تھے اسی لئے بنو ہاشم کی کئی لڑکیاں مروانؓ کے بیٹے اور پوتوں کو بیاہی گئیں۔ سیدنا علی ؓ کی صاحبزادی رملہ بنت علیؒ سیدنا مروانؓ کے بیٹے معاویہ ؒ بن مروانؓ کے نکاح میں تھیں۔ اس لحاظ سے سیدنا علی ؓ اور سیدنا مروانؓ سمدھی تھے۔ ( کتاب نسب قریش ص ۴۵، تحت ولد علی بن ابی طالبؓ)

سیدنا علیؓ کی دوسری صاحبزادی انہی مروانؓ بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں انکو بیاہی تھی۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹)

اسی طرح سیدنا علی ؓ کے بڑے بیٹے سیدنا حسن ؓ بن علی کی صاحبزادی سیدہ نفیسہؒ بنت زید بن حسن کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی (عمدۃ الطالب ص ۴۴)

ان نفیسہؒ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی بھی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروانؒ سے ہوئی تھی۔ (جمہرۃ الانساب ص ۳۶)
سیدنا حسن بن علیؓ کی چوتھی پوتی مروانؓ کے ایک فرزند معاویہؒ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسنؓ کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے۔ (جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)

سیدنا حسن بن علیؓ کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ مروانؓ کے ایک بھتیجے کے فرزند، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)

اسی طرح سیدنا علیؓ کے چھوٹے بیٹے سیدنا حسین ؓ بن علیؓ کی مشہور صاحبزادی سکینہؒ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیرؓ کے مقتول ہوجانے کے بعد مروانؓ کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بھائی تھے۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ ؒ کی بیٹی ام یزیدؒ تھیں ۔ (کتاب نسب قریش ص ۵۹، المعارف ابن قیتبہ ص ۹۴)

سیدنا حسینؓ کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم سے تھیں، مروانؓ کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری ص ۵۹)

یہ ساری رشتہ داریاں بھی یہی ثابت کرتی ہیں کہ سیدنا مروانؓ اور آلِ علیؓ کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات تھے اور آپس میں ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے والی یہ روایات مجروح راویوں کی اختراع کردہ ہیں۔ ایسی ہی روایات کی بابت محدث احناف مُلّا علی قاری حنفی ؒ اپنی کتاب "موضوعات کبیر" صفحہ ۱۰۶ پر لکھتے ہیں :

"روافض نے سیدنا علی ؓ اور اہلبیت کے فضائل میں تین لاکھ کے آس پاس روایتیں وضع کی ہیں۔۔۔ اور انہیں وضعی احادیث میں وہ روایات بھی ہیں جو سیدنا معاویہؓ ، سیدنا عمرو بن العاص ؓ اور بنو امیہ کی مذمت، منصور و سفاح کی مدح میں اور ایسے ہی یزید و ولید مروان بن الحکم ؓکی مذمت میں گھڑی گئی ہیں ۔"
 
Top