پیر 27 ذی الحجہ 1433هـ - 12 نومبر 2012م
اردن سے تعلق رکھنے والے ایک سخت گیر عالم دین ابو قتادہ نے اپنی برطانیہ بدری کے خلاف اپیل جیت لی ہے۔ ایک برطانوی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ انھیں ان کے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
برطانیہ کے خصوصی امیگریشن اپیلز کمیشن نے سوموار کو اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ وہ اس بات پر مطمئن نہیں کہ اردن ابو قتادہ کے منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دے گا۔ اس نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے جنوری کے فیصلے کی توثیق کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اردن میں تشدد عام ہے اور اس کا ثبوت اس کی عدالتوں میں پیش کیے گئے شواہد سے بھی ملا ہے
عدالت کے جج جان مٹنگ نے عالم دین کی ضمانت بھی منظور کر لی ہے اور ان کو منگل کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کا یہ موقف مسترد کر دیا کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گا کیونکہ حکومت عدالت کے اس حکم سے بالکل بھی متفق نہیں ہے''۔ وزیر داخلہ تھریسامے اس معاملے پر دارالعوام میں آج ہی ایک بیان دینے والی تھیں۔
ابو قتادہ فلسطینی نژاد اردنی عالم دین ہیں۔ ان کا حقیقی نام عمر محمود محمد عثمان ہے۔ اردن میں 1999ء میں اور 2000ء میں ان کے خلاف دہشت گردی کی سازشوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت ان کی غیر موجودگی میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔
برطانوی حکومت کے وکلاء نے ماضی میں ان کا تعلق القاعدہ کے ایک جنگجو زکریا موسوی سے جوڑا تھا۔ زکریا پر امریکا میں نائن الیون حملوں کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔ ان کے خطبات کی آڈیو ریکارڈنگز گیارہ ستمبر کو طیارے ہائی جیک کرنے والے بعض حملہ آوروں کے جرمنی کے شہر ہمبرگ میں واقع فلیٹ سے ملی تھیں اور انھی سے ان کا القاعدہ سے تعلق جوڑا گیا تھا۔
برطانوی حکام نے اکاون سالہ ابو قتادہ کو پہلی مرتبہ 2001ء میں اردن کے حوالے کرنے کی کوشش کی تھی اور پھر انھیں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 2002ء میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔ سن 2005ء میں اس قانون کے خاتمے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انھیں نگرانی میں رکھنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انھیں برطانیہ بدری کے خلاف ان کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ برطانیہ اس عالم دین کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا چلا آ رہا ہے اور انھیں ایک ہسپانوی جج نے ماضی میں القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن کا ایک سنئیر مشیر قرار دیا تھا۔
اسٹراسبرگ میں قائم یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے جنوری میں اپنے ایک حکم میں قرار دیا تھا کہ برطانیہ ابو قتادہ کو اردن کے حوالے نہیں کر سکتا کیونکہ وہاں ان کے خلاف کسی بھی ٹرائل میں استعمال کیے جانے والے شواہد تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔
اردن کی ایک عدالت نے ابو قتادہ کو ان کی ملک میں عدم موجودگی میں 1998ء میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں قصور وار قرار دیا تھا۔ اب اگر انھیں اردن کے حوالے کیا جاتا ہے تو ان کے خلاف وہاں یہ مقدمہ دوبارہ چلایا جائے گا۔ اردن کی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ابو قتادہ کے خلاف منصفانہ اور شفاف انداز میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
برطانیہ میں انھیں کچھ عرصہ قبل ضمانت کی سخت شرائط کے تحت رہا کر دیا گیا تھا اور عدالت میں ان کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی حراست غیر قانونی ہے لیکن بعد میں برطانیہ کے سرحدی حکام نے راسخ العقیدہ عالم دین کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ انھیں اب ان کے آبائی وطن اردن بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
وزیر داخلہ تھریسا مے نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اس سال کے اوائل میں اردن کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے اردنی حکام سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان کے خلاف تشدد سے حاصل کیے گَئے شواہد کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے اس کیس کے سلسلہ میں حال ہی ملاقات کی تھی اور ان سے ابو قتادہ کے خلاف منصفانہ ٹرائل سے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا۔