• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آل سفیان رضوان اللہ علیھم اجمعین !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آل سفیان رضوان اللہ علیھم اجمعین !

باغی راویوں نے جس ہستی کو سب سے زیادہ شدید تنقید اور تہمتوں کا نشانہ بنایا ہے ، وہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بے مثال حکمت و دانش سے باغی تحریک کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ اس کی مزید تفصیل ہم آگے حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے متعلق ابواب میں بیان کریں گے۔

حضرت معاویہ کے بارے میں یہ الزام تراشی کی جاتی ہے کہ وہ ایک بڑے اسلام دشمن کے بیٹے تھے اور دل میں اسلام سے بغض رکھتے تھے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے چند برس اسلام دشمنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگوں کی قیادت کی لیکن فتح مکہ کے موقع پر وہ مسلمان ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نجران کا گورنر مقرر فرمایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو سفیان دل سے مسلمان ہو چکے تھے ورنہ انہیں ایک اہم اور حساس علاقے کا گورنر کیوں بنایا جاتا جہاں کی آبادی کی اکثریت عیسائی تھی۔ ویسے بھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاف فرما دیں، اس کے خلاف کسی بدزبانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ حضرت معاویہ اور ان کے بڑے بھائی یزید رضی اللہ عنہما، عہد نبوی کی جنگوں یعنی بدر، احد اور خندق وغیرہ کے زمانے میں ابھی بچے تھے اور ان کا کسی جنگ میں کسی کردار کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ تذکرہ ضرور ملتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہو گئے تاکہ آپ کی تربیت اسلامی ماحول میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کاتب مقرر فرمایا اور آپ قرآن مجید کی وحی کی کتابت بھی کرتے رہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو شمالی عرب میں "تیماء" کا گورنر مقرر فرمایا جو کہ ایک سرحدی شہر تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قیصر روم سے جو جنگیں ہوئیں، ان میں یزید بن سفیان ایک بڑی فوج کے کمانڈر تھے اور معاویہ ان کے تحت افسر تھے۔ فتح کے بعد حضرت ابوبکر نے شام کا گورنر یزید کو مقرر کیا اور معاویہ ان کے نائب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یزید نے وفات پائی تو ان کی جگہ معاویہ کو شام کا گورنر مقرر کیا گیا۔ شام وہ سرحدی علاقہ تھا جو مسلمانوں نے قیصر روم کی افواج سے حاصل کیا تھا۔ قیصر اس علاقے کو واپس لینا چاہتا تھا اور اس پر لشکر کشی کے منصوبے بناتا تھا۔ حضرت معاویہ نے اپنی بے مثال شجاعت اور حکمت سے قیصر کے منصوبوں کو ناکام بنایا اور اس کے متعدد علاقوں میں مزید فتوحات حاصل کر کے موجودہ ترکی کا بھی چالیس فیصد علاقہ فتح کر لیا۔ اس طرح قیصر کی حکومت اب موجودہ ترکی کے ساٹھ فیصد علاقے تک محدود رہ گئی۔

حضرت عمر اپنے کسی گورنر سے کم ہی مطمئن ہوتے تھے اور اکثر ان کا تبادلہ کیے رکھتے تھے لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے انہیں نہ صرف ان کے عہدے پر برقرار رکھا بلکہ ان کے زیر نگیں علاقوں میں بھی اضافہ کرتے چلے گئے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں شام کا صوبہ شمال مشرق میں دریائے فرات سے لے کر مغرب میں دریائے نیل تک پھیلا ہواتھا۔ موجودہ شام، لبنان، فلسطین اور اردن کے پورے پورے ممالک صوبہ شام کا حصہ تھے جبکہ عراق اور ترکی کے بعض حصے بھی اسی صوبے میں شامل تھے۔شام ایک غیر معمولی صوبہ تھا کیونکہ اس کی سرحدیں بازنطینی ایمپائر کے ساتھ لگتی تھیں جس کا سربراہ قیصر روم تھا۔ قیصر کی کوشش تھی کہ کسی طرح اپنے مقبوضات واپس لے لے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ شام پر کسی غیر معمولی صلاحیتوں والے گورنر کو مقرر کیا جاتا ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو 20/642 میں یہاں کا گورنر مقرر کیا۔ شام میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی آباد تھے۔ یہاں کی عیسائی آبادی چونکہ ان کے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھتی تھی اور رومن چرچ نے انہیں مرتد قرار دے رکھا تھا، اس وجہ سے ان کی حمایت مسلمانوں کے لیے تھی۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام کی مسلم اور غیر مسلم آبادی کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ سبھی آپ کے گرویدہ ہو گئے اور آپ سے بے پناہ محبت کرنے لگے۔ ملکی دولت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوا کرتی تھی اور ہر شخص کو اس کا حق ملتا تھا۔حضرت معاویہ نے حضرت عمر سے بارہا ایک مضبوط بحریہ (Navy) تیار کرنے کی اجازت طلب کی لیکن آپ نے بحری جنگ کے خطرات کے سبب یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت عثمان نے اپنے دور میں اس شرط پر اس کی اجازت دی کہ کسی سپاہی کو بحریہ میں شمولیت پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بحیرہ روم کے ساحلوں پر جہاز رانی کی ایک بہت بڑی صنعت قائم کی جس سے بے شمار لوگوں کو روزگار ملا اور ملک خوشحال ہوا۔ مسلم نیوی نے بحیرہ روم پر قیصر روم کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ جلد ہی جزیرہ قبرص (Cyprus) فتح ہو گیا اور ایک مہم قیصر کے دار الحکومت قسطنطنیہ (Constantinople)کے لیے روانہ ہوئی۔ دوسری طرف موجودہ ترکی کے مشرقی علاقے میں جنگ بندی کی سی کیفیت تھی۔

اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے مقرر کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے صرف اتنا کیا کہ حضرت معاویہ کی ذمہ داریوں میں اس طرح اضافہ کیا کہ انہوں نے جو علاقے فتح کیے، وہ انہی کے تحت رہنے دیے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ علاقے مرکزی دار الحکومت سے اتنے دور تھے کہ مرکز کے لیے انہیں کنٹرول کرنا مشکل تھا۔ اس کے برعکس دمشق سے ان علاقوں کو اچھی طرح کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب ان علاقوں میں ایسا حسن انتظام کیا کہ قیصر روم کو یہاں کوئی کامیابی بھی حاصل نہ ہو سکی۔ حضرت عثمان کے زمانے میں باغی تحریک کو بصرہ، کوفہ اور مصر میں قدم جمانے کا موقع ملا لیکن شام میں اسے ذرہ برابر بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی جو کہ حضرت معاویہ کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
 
Top