کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
تغلیط امام مالک رحمہ اللہ کی بنیاد
(منکرروایت)
(منکرروایت)
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نےکہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، " أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ "[مصنف عبد الرزاق: 4/ 260]۔
یہ روایت ضعیف ہے اورثقہ رواۃ کے خلاف ہے لہٰذا منکرہے اس کی علتوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی علت:
امام عبدالرزاق نے اپنے دو استاذ اسے بیان کیا ہے ۔
1۔ داؤد بن قیس
2۔ وغیرہ ، یعنی ایک اور نام معلوم شخص ۔
جب کوئی محدث نے اپنے دو طریق سے ایک متن کے ساتھ روایت بیان کرے تو عام اصول یہی ہے کہ وہ متن دونوں طریق کا مانا جائے گا الایہ کہ تفریق کی کوئی صریح دلیل مل جائے ۔
اوریہاں صریح دلیل موجود ہے کہ امام عبدرالرزاق کے دونوں استاذ یعنی داؤد بن قیس اور غیرہ (نامعلوم) کا متن مختلف ہے ۔چنانچہ محمدبن یوسف ہی سے داؤد بن قیس کی یہ روایت امام فریابی (المتوفى 301) نے یوں نقل کی ہے:
حدثنا قتيبة، حدثنا وكيع، عن داود بن قيس، عن محمد بن يوسف الأعرج، عن السائب بن يزيد قال: كنا في زمن عمر بن الخطاب نفعله، يعني «نربط الحبال في شهر رمضان بين السواري، ثم نتعلق بها حتى نرى فروع الفجر»
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ہم عہدفاروقی میں ہم ماہ رمضان میں کھمبوں کے درمیاں رسیاں باندھتے تھے پھر ہم فجر کے ظہورتک اس کا سہارا لیتے تھے [الصيام للفريابي ص: 131 رقم 175 واسنادہ صحیح]
ملاحظہ فرمائیں داؤد بن قیس کی یہ روایت جو صحیح سند سے ثابت ہے اس میں سرے سے رکعات ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ فجر تک رسیوں کا سہارا لینے کی بات ہے یعنی کب تک نماز پڑھتے تھے اس کابیان ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد بن قیس نے اس روایت کو حد درجہ اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور صرف رسیوں کا سہارا لینے اور اختتام نماز کے وقت کو بیان کی ہے ۔
اختتام نماز کا یہ وقت عبدلرزاق کی مذکورہ روایت میں بھی ہے لیکن اس میں رکعات کی تعداد اور نماز کے ائمہ وغیرہ کا بھی ذکر ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ اضافی باتیں اس نامعلوم شخص ہی کے متن کا حصہ ہیں جن کا نام امام عبدالرزاق نے نہیں بتلایا ہے ، لہٰذا اس نامعلوم شخص کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔
یادرہے کہ یہ طرزعمل یعنی دو طریق سے مختلف الفاظ کو یکجا کرکے ایک ہی سیاق میں بیان کرنا اہل فن کے یہاں نہ صرف معیوب بات ہے ، بلکہ بکثرت ایسا کرنا باعث جرح بھی ہے ۔ جیساکہ ماقبل میں بتایا گیا ہے کہ واقدی پر اس وجہ سے بھی جرح کی گئی ہے۔
چونکہ امام عبدالرزاق سے یہ عمل بکثرت ثابت نہیں ہے لہٰذا اس طرح کی ایک دو غلطی معاف ہے ، مگرجس روایت میں یہ غلطی ثابت ہوگئی وہ روایت اس سیاق میں صحیح نہ ہوگی ۔
علاوہ بریں آگے اس بات کا تذکرہ آرہا ہے کہ امام عبدالرزاق نا بینا ہونے کے بعد متغیر الحفظ ہوگئے تھے اور اس حالت میں تلقین قبول کرلیا کرتے ،یعنی کوئی ان کی ہی روایت رد و بدل کے ساتھ بیان کرتا ،تو اس سے بھی اتفاق فرما لیتے تھے ،اور تبدیلی کو بھانپ نہیں پاتے تھے ۔
اورزیر بحث روایت امام عبدالرزاق سے دبری نے بیان کی ہے ،اوردبری کے بارے میں بھی اہل فن کی شہادت آرہی ہے، کہ یہ بہت چھوٹے تھے جب ان کے والد انہیں امام عبدالرزاق کے حلقہ درس میں بٹھا دیا کرتے تھے ، جہاں دوسرے لوگ امام عبدالرزاق کی مرویات پڑھ کرسناتے اور دبری اسے سنتے ۔ ممکن ہے یہ روایت جس حلقہ درس میں دبری نے نوٹ کی ہے، اس میں کسی قاری نے امام عبدالرزاق کی اس روایت کے ساتھ اضافہ بھی بیان کردیا ہو، جس پر یا تو امام عبدالرزاق متنبہ نہیں سکے ، یا ”وغیرہ“ کہہ کراس کی اضافہ کردہ بات بھی شامل روایت کرلی ، شایدیہی وجہ ہے کہ اس طالب علم کا نام بھی نہ لیا بلکہ ”وغیرہ“ کہہ کر اس کا حوالہ دے دیا ۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری علت:
اسحاق بن ابراہیم الدبری عن عبدالرزاق کے طریق میں ضعف:
مصنف عبدالرزاق کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورہ رویات کو امام عبدالرزاق سے ’’اسحاق بن ابراہیم الدبری‘‘ نے نقل کیا ہے۔
اوراس طریق سے عبدالرزاق کی مرویات پر اہل فن نے کلام کیا ہے اسحاق دبری نے امام عبدالرزاق سے آخری دور میں سنا ہے اور آخر میں عبدالرزاق رحمہ اللہ مختلط ہوگئے تھے ، چنانچہ:
امام احمد رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة[سوالات ابن ھانی رقم 2285 ، موسوعة أقوال الإمام أحمد في الجرح والتعديل 4/ 322]۔
امام أبو زرعة الدمشقي رحمه الله (المتوفى281)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: أَتَيْنَا عَبْدَ الرَّزَّاقِ قَبْلَ الْمِائَتَيْنِ، وَهُوَ صَحِيحُ الْبَصَرِ وَمَنْ سَمِعَ مِنْهُ بعدما ذهب بصرهن فَهُوَ ضَعِيفُ السَّمَاعِ[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص: 457]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عبد الرَّزَّاق بن همام فِيهِ نظر لمن كتب عَنهُ بِأخرَة[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 69]۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
لا بأس به إلاَّ أنه قد سبق منه أحاديث فِي فضائل أهل البيت ومثالب آخرين مناكير[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 545]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
يخطىء على معمر في أحاديث لم تكن في الكتاب[سؤالات ابن بكير للدارقطني: ص: 2]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع[تقريب التهذيب لابن حجر: 2/ 354]۔
معلوم کہ امام عبدالرزاق اخیر میں مختلط ہوگئے تھے لہٰذا ان سے جن لوگوں نے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیرتحقیق روایت کو ان اسحاق الدبری نے روایت کیا اورانہوں امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
استصغره عَبد الرَّزَّاق أحضره أبوه عنده، وَهو صغير جدا فكان يقول: قرأنا على عَبد الرَّزَّاق أي قرأ غيره، وحضر صغيرا وحدث عنه باحادیث منکرۃ .[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔
امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
قَدْ وَجَدْتُ فِيمَا رُوِيَ عَنِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَحَادِيثَ اسْتَنْكَرْتُهَا جِدًّا، فَأَحَلْتُ أَمْرَهَا عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّ سَمَاعَ الدَّبَرِيِّ مِنْهُ مُتَأَخِّرٌ جِدًّا[مقدمة ابن الصلاح: ص: 396]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
أن الإسناد الذي ساقه لا تقوم به حجة ؛ لأنه من رواية الدبري عن عبد الرزاق ؛ فإن الدبري - مع أنه قد تكلم بعضهم فيه ؛ فإنه - ممن سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطه ؛ قال ابن الصلاح : "وجدت فيما روى الطبراني عن الدبري عنه أحاديث استنكرتها جداً ، فأحلت أمرها على ذلك" [سلسلة الأحاديث الضعيفة :11/ 521]۔
تیسری علت:
عبدالرزاق سے نقل کرنے والے '' اسحاق بن ابراہیم الدبری '' یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدث عنه بحديث منكر[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]
چوتھی علت:
محمدبن یوسف کے چھ شاگردوں نے ان سے گیارہ رکعات کی تعداد نقل کی ہے(کماسیاتی) ان شاگردوں میں امام مالک ، امام یحیی بن سعید جیسے جلیل القدرمحدثین بھی ہیں لہٰذا جمہور اوراوثق کے خلاف دوسری تعداد بتلانے والی یہ روایت منکر ہے۔
روایت مذکورہ کے ضعیف و مردود ہونے کی ایک اورزبردست دلیل:
اس روایت کے ضعیف و مردود ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اس روایت میں محمدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد نقل کی گئے ہے جبکہ ابوبکرالنیسابوری کی روایت میں محمدبن یوسف کے شاگر اسماعیل بن امیہ نے جب ان سے یہ روایت سنی تو ان کے استاذ محمدبن یوسف نے گیارہ کی تعدادبتلائی ، اس پر ان کے شاگرداسماعیل بن امیہ نے اپنے استاذ کو روک کرپوچھا کہ گیارہ یا اکیس ؟؟؟ اس استفسار پر بھی محمدبن یوسف نے گیارہ ہی کی تعداد روایت کی اور اکیس کی تعداد سے متعلق کہا کہ یہ تو یزیدبن خصیفہ بیان کرتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ محدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد نقل کرنا سراسر غلط ہے ، کیونکہ انہوں نے اس سے برات ظاہر کردی ہے ، والحمدللہ۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اکیس رکعت والی روایت ثابت ہی نہیں لہٰذا اسے بنیاد بنا کر امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
اورعلامہ ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463)نے جو یہ کہا:
( هكذا قال مالك في هذا الحديث إحدى عشرة ركعة ) وغير مالك يخالفه فيقول في موضع إحدى عشرة ركعة ( إحدى وعشرين ) ولا أعلم أحدا قال في هذا الحديث إحدى عشرة ركعة غير مالك والله أعلم[الاستذكار 2/ 68]۔
عرض ہے کہ علامہ ابن عبدالبررحمہ اللہ کی یہ بات بہت ہی عجیب وغریب ہے ، کیونکہ:یعنی: امام مالک رحمہ اللہ نے گیارہ رکعت روایت کیا ہے جبکہ امام مالک کے علاوہ دوسرے روای گیارہ رکعات کے بجائے اکیس رکعات روایت کرتے ہیں اور مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو
اول :
علامہ ابن عبدالبر نے اکیس کی تعداد والی جس روایت پر اعتماد کرکے امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کی ہے وہ صحیح نہیں کمامضی۔
دوم:
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو یہ کہا کہ ’’مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو ‘‘ یہ بجائے خود بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ امام مالک کے علاوہ بھی بہت سارے رواۃ نے اسی روایت کوبیان کرتے ہوئے گیارہ رکعت کی تعداد نقل کی ، اسی لئے امام زرقانی نے موطا کی شرح میں علامہ ابن عبدالبر کی اس بات کا پھرپور رد کیا ہے۔
امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: إِنَّ مَالِكًا انْفَرَدَ بِهِ لَيْسَ كَمَا قَالَ فَقَدْ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ فَقَالَ: إِحْدَى عَشْرَةَ كَمَا قَالَ مَالِكٌ.[شرح الزرقاني على الموطأ: 1/ 419]۔
امام سبکی المتوفی(756ھ) بھی ابن عبدالبر پررد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ابن عبدالبرکا یہ کہنا کہ صرف امام مالک نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے گیارہ کی تعداد نقل کی ہے ، درست نہیں ، کیونکہ سعیدبن منصورنے ایک دوسرے طریق (عبد العزيز بن محمد بن عبيد الدراوردى) سے محمدبن یوسف سے نقل کیا اوراس راوی نے بھی امام مالک کی طرح گیارہ کی تعدادنقل کی ہے۔
وَكَأَنَّهُ لَمْ يَقِفْ عَلَى مُصَنَّفِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي ذَلِكَ فَإِنَّهُ رَوَاهَا كَمَا رَوَاهَا مالك عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ محمد بن يوسف شَيْخِ مالك[الحاوي للفتاوي 1/ 417]۔
بلکہ نیموی حنفی بھی فرماتے ہیں:لگتاہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سعیدبن منصور رحمہ اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں ہوئے کیونکہ اس کتاب میں بھی امام مالک ہی کی روایت کے مطابق ، امام مالک کے شیخ محمدبن بن یوسف سے عبدالعزیزبن محمد نے روایت کیا ہے۔
مَا قاله بن عَبْدِ الْبَرِّ مِنْ وَهَمِ مَالِكٍ فَغَلَطٌ جِدًّا لِأَنَّ مَالِكًا قَدْ تَابَعَهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي سُنَنِهِ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ كِلَاهُمَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ وَقَالَا إِحْدَى عَشْرَةَ كَمَا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ جَدِّهِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ، انتھی هَذَا قَرِيبٌ مِمَّا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ أَيْ مَعَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ [آثار السنن: ج ٢ص ٥٢ وانظر:تحفة الأحوذي:3/ 443]۔
عرض ہے اس کے علاوہ بھی اورکئی رواۃ نے محمدبن یوسف سے اسی روایت کوگیارہ کی تعداد کے ساتھ نقل کیا اوران سب کی کل تعداد چھ ہے ، تفصیل آگے ملاحظہ ہو:ابن عبدالبر نے امام مالک رحمہ اللہ کے وہم سے متعلق جوبات کہی ہے وہ بہت ہی غلط ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے جیساکہ سنن سعیدبن منصور میں ہے اور یحیی بن سعیدالقطان رحمہ اللہ نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ، چنانچہ عبدالعزیز بن محمد اور یحیی بن سعیدالقطان ، ان دونوں اماموں نے (امام مالک ہی کے شیخ) محمدبن یوسف سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں نے بھی اسی طرح گیارہ رکعات نقل کیا ، جس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، نیز امام مروزی رحمہ اللہ نے بھی ’’قیام اللیل‘‘ میں محمدبن اسحاق کے طریق سے روایت کیا ’’ انہوں نے کہا: مجھ سے محمدبن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے تھے ‘‘۔ یہ روایت بھی تقریبا امام مالک کی محمدبن یوسف سے نقل کردہ روایت ہی کی طرح ہے ، بایں طور کہ اس روایت میں عشاء کی بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کی لی گئی ہیں۔
Last edited: