• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ (٨) رکعات تراویح سے متعلق روایت موطا امام مالک کی تحقیق اورشبہات کا زالہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تغلیط امام مالک رحمہ اللہ کی بنیاد
(منکرروایت)


امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نےکہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، " أَنَّ عُمَرَ: جَمَعَ النَّاسَ فِي رَمَضَانَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَعَلَى تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَلَى إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَكْعَةُ يَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ وَيَنْصَرِفُونَ عِنْدَ فُرُوعِ الْفَجْرِ "[مصنف عبد الرزاق: 4/ 260]۔

یہ روایت ضعیف ہے اورثقہ رواۃ کے خلاف ہے لہٰذا منکرہے اس کی علتوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی علت:
امام عبدالرزاق نے اپنے دو استاذ اسے بیان کیا ہے ۔
1۔ داؤد بن قیس
2۔ وغیرہ ، یعنی ایک اور نام معلوم شخص ۔
جب کوئی محدث نے اپنے دو طریق سے ایک متن کے ساتھ روایت بیان کرے تو عام اصول یہی ہے کہ وہ متن دونوں طریق کا مانا جائے گا الایہ کہ تفریق کی کوئی صریح دلیل مل جائے ۔
اوریہاں صریح دلیل موجود ہے کہ امام عبدرالرزاق کے دونوں استاذ یعنی داؤد بن قیس اور غیرہ (نامعلوم) کا متن مختلف ہے ۔چنانچہ محمدبن یوسف ہی سے داؤد بن قیس کی یہ روایت امام فریابی (المتوفى 301) نے یوں نقل کی ہے:
حدثنا قتيبة، حدثنا وكيع، عن داود بن قيس، عن محمد بن يوسف الأعرج، عن السائب بن يزيد قال: كنا في زمن عمر بن الخطاب نفعله، يعني «نربط الحبال في شهر رمضان بين السواري، ثم نتعلق بها حتى نرى فروع الفجر»
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ہم عہدفاروقی میں ہم ماہ رمضان میں کھمبوں کے درمیاں رسیاں باندھتے تھے پھر ہم فجر کے ظہورتک اس کا سہارا لیتے تھے [الصيام للفريابي ص: 131 رقم 175 واسنادہ صحیح]
ملاحظہ فرمائیں داؤد بن قیس کی یہ روایت جو صحیح سند سے ثابت ہے اس میں سرے سے رکعات ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ فجر تک رسیوں کا سہارا لینے کی بات ہے یعنی کب تک نماز پڑھتے تھے اس کابیان ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد بن قیس نے اس روایت کو حد درجہ اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور صرف رسیوں کا سہارا لینے اور اختتام نماز کے وقت کو بیان کی ہے ۔
اختتام نماز کا یہ وقت عبدلرزاق کی مذکورہ روایت میں بھی ہے لیکن اس میں رکعات کی تعداد اور نماز کے ائمہ وغیرہ کا بھی ذکر ہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ اضافی باتیں اس نامعلوم شخص ہی کے متن کا حصہ ہیں جن کا نام امام عبدالرزاق نے نہیں بتلایا ہے ، لہٰذا اس نامعلوم شخص کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔
یادرہے کہ یہ طرزعمل یعنی دو طریق سے مختلف الفاظ کو یکجا کرکے ایک ہی سیاق میں بیان کرنا اہل فن کے یہاں نہ صرف معیوب بات ہے ، بلکہ بکثرت ایسا کرنا باعث جرح بھی ہے ۔ جیساکہ ماقبل میں بتایا گیا ہے کہ واقدی پر اس وجہ سے بھی جرح کی گئی ہے۔
چونکہ امام عبدالرزاق سے یہ عمل بکثرت ثابت نہیں ہے لہٰذا اس طرح کی ایک دو غلطی معاف ہے ، مگرجس روایت میں یہ غلطی ثابت ہوگئی وہ روایت اس سیاق میں صحیح نہ ہوگی ۔
علاوہ بریں آگے اس بات کا تذکرہ آرہا ہے کہ امام عبدالرزاق نا بینا ہونے کے بعد متغیر الحفظ ہوگئے تھے اور اس حالت میں تلقین قبول کرلیا کرتے ،یعنی کوئی ان کی ہی روایت رد و بدل کے ساتھ بیان کرتا ،تو اس سے بھی اتفاق فرما لیتے تھے ،اور تبدیلی کو بھانپ نہیں پاتے تھے ۔
اورزیر بحث روایت امام عبدالرزاق سے دبری نے بیان کی ہے ،اوردبری کے بارے میں بھی اہل فن کی شہادت آرہی ہے، کہ یہ بہت چھوٹے تھے جب ان کے والد انہیں امام عبدالرزاق کے حلقہ درس میں بٹھا دیا کرتے تھے ، جہاں دوسرے لوگ امام عبدالرزاق کی مرویات پڑھ کرسناتے اور دبری اسے سنتے ۔ ممکن ہے یہ روایت جس حلقہ درس میں دبری نے نوٹ کی ہے، اس میں کسی قاری نے امام عبدالرزاق کی اس روایت کے ساتھ اضافہ بھی بیان کردیا ہو، جس پر یا تو امام عبدالرزاق متنبہ نہیں سکے ، یا ”وغیرہ“ کہہ کراس کی اضافہ کردہ بات بھی شامل روایت کرلی ، شایدیہی وجہ ہے کہ اس طالب علم کا نام بھی نہ لیا بلکہ ”وغیرہ“ کہہ کر اس کا حوالہ دے دیا ۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری علت:
اسحاق بن ابراہیم الدبری عن عبدالرزاق کے طریق میں ضعف:
مصنف عبدالرزاق کے مطبوعہ نسخہ میں مذکورہ رویات کو امام عبدالرزاق سے ’’اسحاق بن ابراہیم الدبری‘‘ نے نقل کیا ہے۔
اوراس طریق سے عبدالرزاق کی مرویات پر اہل فن نے کلام کیا ہے اسحاق دبری نے امام عبدالرزاق سے آخری دور میں سنا ہے اور آخر میں عبدالرزاق رحمہ اللہ مختلط ہوگئے تھے ، چنانچہ:

امام احمد رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة[سوالات ابن ھانی رقم 2285 ، موسوعة أقوال الإمام أحمد في الجرح والتعديل 4/ 322]۔

امام أبو زرعة الدمشقي رحمه الله (المتوفى281)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَ: أَتَيْنَا عَبْدَ الرَّزَّاقِ قَبْلَ الْمِائَتَيْنِ، وَهُوَ صَحِيحُ الْبَصَرِ وَمَنْ سَمِعَ مِنْهُ بعدما ذهب بصرهن فَهُوَ ضَعِيفُ السَّمَاعِ[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص: 457]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عبد الرَّزَّاق بن همام فِيهِ نظر لمن كتب عَنهُ بِأخرَة[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 69]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
لا بأس به إلاَّ أنه قد سبق منه أحاديث فِي فضائل أهل البيت ومثالب آخرين مناكير[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 545]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
يخطىء على معمر في أحاديث لم تكن في الكتاب[سؤالات ابن بكير للدارقطني: ص: 2]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ مصنف شهير عمي في آخر عمره فتغير وكان يتشيع[تقريب التهذيب لابن حجر: 2/ 354]۔

معلوم کہ امام عبدالرزاق اخیر میں مختلط ہوگئے تھے لہٰذا ان سے جن لوگوں نے اختلاط کے بعد روایت کی ہے وہ حجت نہیں اور زیرتحقیق روایت کو ان اسحاق الدبری نے روایت کیا اورانہوں امام عبدالرزاق کے اختلاط کے بعد ان سے روایت کی ہے۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
استصغره عَبد الرَّزَّاق أحضره أبوه عنده، وَهو صغير جدا فكان يقول: قرأنا على عَبد الرَّزَّاق أي قرأ غيره، وحضر صغيرا وحدث عنه باحادیث منکرۃ .[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔

امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
قَدْ وَجَدْتُ فِيمَا رُوِيَ عَنِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَحَادِيثَ اسْتَنْكَرْتُهَا جِدًّا، فَأَحَلْتُ أَمْرَهَا عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّ سَمَاعَ الدَّبَرِيِّ مِنْهُ مُتَأَخِّرٌ جِدًّا[مقدمة ابن الصلاح: ص: 396]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]

علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
أن الإسناد الذي ساقه لا تقوم به حجة ؛ لأنه من رواية الدبري عن عبد الرزاق ؛ فإن الدبري - مع أنه قد تكلم بعضهم فيه ؛ فإنه - ممن سمع من عبد الرزاق بعد اختلاطه ؛ قال ابن الصلاح : "وجدت فيما روى الطبراني عن الدبري عنه أحاديث استنكرتها جداً ، فأحلت أمرها على ذلك" [سلسلة الأحاديث الضعيفة :11/ 521]۔

تیسری علت:
عبدالرزاق سے نقل کرنے والے '' اسحاق بن ابراہیم الدبری '' یہ خود بھی متکلم فیہ ہیں:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدث عنه بحديث منكر[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 560]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ما كان الرجل صاحب حديث، وإنما أسمعه أبوه واعتنى به، سمع من عبد الرزاق تصانيفه، وهو ابن سبع سنين أو نحوها، لكن روى عن عبد الرزاق أحاديث منكرة[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 181]

چوتھی علت:
محمدبن یوسف کے چھ شاگردوں نے ان سے گیارہ رکعات کی تعداد نقل کی ہے(کماسیاتی) ان شاگردوں میں امام مالک ، امام یحیی بن سعید جیسے جلیل القدرمحدثین بھی ہیں لہٰذا جمہور اوراوثق کے خلاف دوسری تعداد بتلانے والی یہ روایت منکر ہے۔

روایت مذکورہ کے ضعیف و مردود ہونے کی ایک اورزبردست دلیل:
اس روایت کے ضعیف و مردود ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اس روایت میں محمدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد نقل کی گئے ہے جبکہ ابوبکرالنیسابوری کی روایت میں محمدبن یوسف کے شاگر اسماعیل بن امیہ نے جب ان سے یہ روایت سنی تو ان کے استاذ محمدبن یوسف نے گیارہ کی تعدادبتلائی ، اس پر ان کے شاگرداسماعیل بن امیہ نے اپنے استاذ کو روک کرپوچھا کہ گیارہ یا اکیس ؟؟؟ اس استفسار پر بھی محمدبن یوسف نے گیارہ ہی کی تعداد روایت کی اور اکیس کی تعداد سے متعلق کہا کہ یہ تو یزیدبن خصیفہ بیان کرتے ہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ محدبن یوسف کے حوالہ سے اکیس کی تعداد نقل کرنا سراسر غلط ہے ، کیونکہ انہوں نے اس سے برات ظاہر کردی ہے ، والحمدللہ۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اکیس رکعت والی روایت ثابت ہی نہیں لہٰذا اسے بنیاد بنا کر امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
اورعلامہ ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463)نے جو یہ کہا:
( هكذا قال مالك في هذا الحديث إحدى عشرة ركعة ) وغير مالك يخالفه فيقول في موضع إحدى عشرة ركعة ( إحدى وعشرين ) ولا أعلم أحدا قال في هذا الحديث إحدى عشرة ركعة غير مالك والله أعلم[الاستذكار 2/ 68]۔
یعنی: امام مالک رحمہ اللہ نے گیارہ رکعت روایت کیا ہے جبکہ امام مالک کے علاوہ دوسرے روای گیارہ رکعات کے بجائے اکیس رکعات روایت کرتے ہیں اور مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو
عرض ہے کہ علامہ ابن عبدالبررحمہ اللہ کی یہ بات بہت ہی عجیب وغریب ہے ، کیونکہ:
اول :
علامہ ابن عبدالبر نے اکیس کی تعداد والی جس روایت پر اعتماد کرکے امام مالک رحمہ اللہ کی تغلیط کی ہے وہ صحیح نہیں کمامضی۔
دوم:
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو یہ کہا کہ ’’مجھے ایک بھی راوی ایسا نہیں معلوم جس نے اس روایت میں گیارہ رکعت نقل کیا ہو ‘‘ یہ بجائے خود بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ امام مالک کے علاوہ بھی بہت سارے رواۃ نے اسی روایت کوبیان کرتے ہوئے گیارہ رکعت کی تعداد نقل کی ، اسی لئے امام زرقانی نے موطا کی شرح میں علامہ ابن عبدالبر کی اس بات کا پھرپور رد کیا ہے۔
امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: إِنَّ مَالِكًا انْفَرَدَ بِهِ لَيْسَ كَمَا قَالَ فَقَدْ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ فَقَالَ: إِحْدَى عَشْرَةَ كَمَا قَالَ مَالِكٌ.[شرح الزرقاني على الموطأ: 1/ 419]۔
ابن عبدالبرکا یہ کہنا کہ صرف امام مالک نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے گیارہ کی تعداد نقل کی ہے ، درست نہیں ، کیونکہ سعیدبن منصورنے ایک دوسرے طریق (عبد العزيز بن محمد بن عبيد الدراوردى) سے محمدبن یوسف سے نقل کیا اوراس راوی نے بھی امام مالک کی طرح گیارہ کی تعدادنقل کی ہے۔
امام سبکی المتوفی(756ھ) بھی ابن عبدالبر پررد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَكَأَنَّهُ لَمْ يَقِفْ عَلَى مُصَنَّفِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي ذَلِكَ فَإِنَّهُ رَوَاهَا كَمَا رَوَاهَا مالك عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ محمد بن يوسف شَيْخِ مالك[الحاوي للفتاوي 1/ 417]۔
لگتاہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سعیدبن منصور رحمہ اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں ہوئے کیونکہ اس کتاب میں بھی امام مالک ہی کی روایت کے مطابق ، امام مالک کے شیخ محمدبن بن یوسف سے عبدالعزیزبن محمد نے روایت کیا ہے۔
بلکہ نیموی حنفی بھی فرماتے ہیں:
مَا قاله بن عَبْدِ الْبَرِّ مِنْ وَهَمِ مَالِكٍ فَغَلَطٌ جِدًّا لِأَنَّ مَالِكًا قَدْ تَابَعَهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي سُنَنِهِ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ كِلَاهُمَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ وَقَالَا إِحْدَى عَشْرَةَ كَمَا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ جَدِّهِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ، انتھی هَذَا قَرِيبٌ مِمَّا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ أَيْ مَعَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ [آثار السنن: ج ٢ص ٥٢ وانظر:تحفة الأحوذي:3/ 443]۔
ابن عبدالبر نے امام مالک رحمہ اللہ کے وہم سے متعلق جوبات کہی ہے وہ بہت ہی غلط ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے جیساکہ سنن سعیدبن منصور میں ہے اور یحیی بن سعیدالقطان رحمہ اللہ نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ، چنانچہ عبدالعزیز بن محمد اور یحیی بن سعیدالقطان ، ان دونوں اماموں نے (امام مالک ہی کے شیخ) محمدبن یوسف سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں نے بھی اسی طرح گیارہ رکعات نقل کیا ، جس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، نیز امام مروزی رحمہ اللہ نے بھی ’’قیام اللیل‘‘ میں محمدبن اسحاق کے طریق سے روایت کیا ’’ انہوں نے کہا: مجھ سے محمدبن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے تھے ‘‘۔ یہ روایت بھی تقریبا امام مالک کی محمدبن یوسف سے نقل کردہ روایت ہی کی طرح ہے ، بایں طور کہ اس روایت میں عشاء کی بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کی لی گئی ہیں۔
عرض ہے اس کے علاوہ بھی اورکئی رواۃ نے محمدبن یوسف سے اسی روایت کوگیارہ کی تعداد کے ساتھ نقل کیا اوران سب کی کل تعداد چھ ہے ، تفصیل آگے ملاحظہ ہو:
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام مالک کی متابعات


امام مالک رحمہ اللہ سے گیارہ کی تعداد نقل کرنے میں قطعا کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے اس کی زبردست اورقطعی دلیل یہ ہے کہ امام مالک کے استاذ محمدبن یوسف ہی سے چھ اور راویوں نے بھی یہی روایت نقل کی اوران سب نے بھی وہی تعداد نقل کی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کی ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :

  1. إسماعيل بن أمية بن عمرو القرشى (المتوفی144ھ)۔
  2. اسامہ بن زید اللیثی المدنى أبو زيد (المتوفی153ھ)۔
  3. إسماعيل بن جعفربن ابی كثير الأنصاري(المتوفى180ھ)۔
  4. عبد العزيز بن محمدبن عبيد الدراوردى (المتوفی186ھ)۔
  5. امام يحيى بن سعيد القطان رحمه الله (المتوفى 198ھ)۔
  6. امام المغازی محمد بن اسحاق رحمہ للہ (المتوفى 150ھ)۔

ان چھ متابعات میں سے شروع کی پانچ متابعات میں صراحتا گیارہ کی تعداد کا ذکر ہے جبکہ چھٹی متابعت میں معنوی طور پر یہ تعداد مذکورہے۔

اب آگے ان سب کی روایات ملاحظہ ہوں:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
پہلی متابعت
(از: إسماعيل بن أمية بن عمرو بن سعيد القرشى المتوفی144)



امام أبو بكر النيسابوري رحمه الله (المتوفى324)نے کہا:
حدّثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية، أنّ محمد بن يوسف ابن أخت السّائب بن يزيد أخبره، أنّ السّائب بن يزيد أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة، فما ننصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر. قال: فكنا نقوم بأحد عشر.[فوائد أبي بكرالنيسابوري ،مخطوط ، واسنادہ صحیح، ورجالہ کلھم من رجال الصحیحین خلا یوسف بن سعد فمن رجال النسائی وھو ثقہ و ابن جریح مدلس لكنه صرح بالتحديث فی ھذا السند]۔
ترجمہ: اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
دوسری متابعت
(اسامہ بن زید اللیثی،المتوفی153)


امام أبو بكر النيسابوري رحمه الله (المتوفى324)نے کہا:
حدثنا الربيع بن سليمان، ثنا ابن وهب، حدثني أسامة بن زيد، عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد، قال: جمع عمر بن الخطاب الناس في قيام رمضان على أبي بن كعب وتميم الداري، كانا يقومان أحد عشرة ركعة ۔۔۔[فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري ، مخطوط ص:15 رقم17 ترقیم الشاملہ واسنادہ صحیح رجالہ ثقات کلھم مترجمون فی التھذیب]۔
اسامہ بن زید اللیثی المدنى رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تیسری متابعت
(إسماعيل بن جعفر بن أبي كثير الأنصاري المتوفى180ھ)۔


على بن حجر بن إياس السعدى(المتوفی244ھ) نے کہا:
ثنا إِسْمَاعِيلُ، حَدْثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْكِنْدِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ «أَنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَقْرَءُونَ فِي الرَّكْعَةِ بِالْمِائَتَيْنِ حَتَّى إِنَّهُمْ لَيَعْتَمِدُونَ بِالْعِصِيِّ»[أحاديث إسماعيل بن جعفر :ص: 499 رقم 440 ، واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ، و أخرجه المستغفري في فضائل القرآن 1/ 406 من طريق اسماعيل بن جعفربه]
اسماعیل بن امیہ رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ: لوگ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات تراویح پڑھتے تھے ، اورایک ایک رکعت میں سو سو آیات پڑھتے تھے یہاں تک کہ طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
چوتھی متابعت
(عبد العزيز بن محمد بن عبيد الدراوردى المتوفی186ھ)



امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي محمد بن يوسف: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً نَقْرَأُ فِيهَا بِالْمِئِينَ، وَنَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَنَنْقَلِبُ عِنْدَ بُزُوغِ الْفَجْرِ[الحاوي للفتاوي 1/ 416 وانظر المصابيح في صلاة التراويح للسیوطی : ص 38 واسنادہ صحیح]۔
ترجمہ: عبدالعزيز بن محمدالدراوردی رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعات تراویح پڑھتے تھے ہم سو سو آیات پڑھتے تھے اورلکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔

امام سبکی المتوفی(756ھ) نے اس روایت کو حددرجہ صحیح قراردیتے ہوئے کہا:
وَفِي مُصَنَّفِ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ بِسَنَدٍ فِي غَايَةِ الصِّحَّةِ [الحاوي للفتاوي 1/ 417]۔
یعنی سعیدبن منصور کی کتاب میں حددرجہ صحیح سند کے ساتھ یہ روایت مروی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنبیہ:
بعض حضرات سے چوک ہوئی ہے اورانہوں نے امام سبکی کی اس تصحیح کو امام سیوطی کی تصحیح سمجھ لیا ، مثلا:
زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں:
جلال الدین سیوطی (متوفی 911ھ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وفی مصنف سعید بن منصور بسند في غاية الصحة
اور یہ (گیارہ رکعات والی روایت) مصنف سعید بن منصور میں بہت صحیح سند کے ساتھ ہے (المصابیح فی صلاۃ التراویح ص15) (قیام رمضان ص 25 ایضا ص35 ایضا ص49 ، ایضا 79)
عرض ہے کہ یہ تصحیح امام سیوطی رحمہ اللہ کی نہیں بلکہ امام سبکی ہے جسے امام سیوطی نے نقل کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
پانچویں متابعت
(از: امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198ھ)


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، أَنَّ السَّائِبَ أَخْبَرَهُ : أَنَّ عُمَرَ جَمَعَ النَّاسَ عَلَى أُبَيٍّ وَتَمِيمٍ فَكَانَا يُصَلِّيَانِ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يَقْرَآنِ بِالْمِئِينَ ، يَعْنِي فِي رَمَضَانَ.[مصنف ابن أبي شيبة: 2/ 391 واسنادہ صحیح، واخرجہ ایضا عمر بن شبة فی تاريخ المدينة : 2/ 713 من طریق یحیی بہ]۔
امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے، اورہرکعت میں سو سوآیات پڑھاتے تھے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
چھٹی متابعت
(از: امام ابن اسحاق رحمہ للہ)

امام أبو بكر النيسابوري رحمه الله (المتوفى324)نے کہا:
حدثنا أبو الأزهر، ثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثني أبي، عن ابن إسحاق، قال حدثني محمد بن يوسف بن عبد الله بن أخت السائب، عن السائب، قال: كُنَّا نُصَلِّي فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ومَا كُنَّا نُخْرِجُ إِلاَّ فِي وِجَاهِ الصُّبْحِ , كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ فِي كل رَكْعَةٍ خَمْسِينَ آيَةً , سِتِّينَ آيَةً.[فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري:ق 136/أ واسنادہ حسن]۔
امام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ نے محمدبن یوسف سے نقل کیا ، وہ سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم عمرفارق رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں تیرہ رکعات پڑھتے تھے اورہم صبح کے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے ، اور قاری ایک رکعت میں پچاس سے ساٹھ آیات کی تلاوت کرتاتھا۔

تطبیق:
ابن اسحاق کی اس روایت میں بھی معنوی طور پر امام مالک کی متابعت کی گئی ہے کیونکہ اس میں جو ’’تیرہ رکعات‘‘ کا ذکر ہے وہ امام مالک کی روایت میں مذکور ’’گیارہ رکعات‘‘ کے مخالف نہیں ہے ، کیونکہ دونوں میں تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کہ ابن اسحاق کی روایت میں عشاء کے بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کرلی گئ ہیں ۔

تطبیق مذکور کی پہلی مثال:
اس تطبیق کی مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ اللیل سے متعلق صحیحین میں مروی مختلف روایات بھی ہیں ۔

چنانچہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی معروف مشہور روایت میں یہ تعداد ’’گیارہ رکعات‘‘ بتلائی گئ ہے[بخاری :كتاب صلاة التراويح:باب فضل من قام رمضان، رقم 2013]۔

جبکہ صحابی رسول زيد بن خالد الجهني نے یہ تعداد ’’تیرہ رکعات‘‘ بتلائی ہے چنانچہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَهُ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ، «فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً»[صحيح مسلم: (1/ 531) :كتاب صلاة المسافرين وقصرها:باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، رقم765]۔
صحابی رسول زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں آج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر دو لمبی رکعتیں پڑھیں دو لمبی لمبی، دو لمبی سے لمبی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور یہ دونوں پہلی دونوں پڑھی گئی سے کم پڑھیں پھر اس سے کم اور پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر اس سے کم دو رکعات پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین وتر پڑھے تو یہ تیرہ رکعتیں ہو گئیں۔
بخاری مسلم کی یہ دونوں روایات باہم مضطرب یا ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ زيد بن خالد الجهني رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعدکی دو رکعات بھی شمار کرلی ہے جیساکہ ان کی روایت کے سیاق سے صاف ظاہرہے۔
ہم کہتے ہیں یہی صورت تطبیق امام مالک کی روایت اورابن اسحاق کی روایت کے مابین بھی اختیار کی جائے گی۔


تطبیق مذکور کی دوسری مثال:
تطبیق کی ایک دوسری مثال صلاۃ اللیل سے متعلق اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مختلف روایات بھی ہیں ، چنانچہ:


اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں رکعات صلاۃ اللیل کی تعداد ’’گیارہ رکعات‘‘ بتلائی گئی ہے، کمامضی۔[بخاری :كتاب صلاة التراويح:باب فضل من قام رمضان، رقم 2013]۔
جبکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی دوسری روایت میں یہ تعداد ’’تیرہ رکعات‘‘ بتلائی گی ہے ، [بخاری:كتاب الجمعة :باب: كيف كان صلاة النبي صلى الله عليه وسلم۔۔۔ ، رقم 1140]۔
اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی ایک تیسری روایت میں یہ تعداد’’ پندرہ رکعات ‘‘ بتلائی گی ہے ، [بخاری :كتاب الجمعة:باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، رقم 1170]۔

ان تینوں روایات میں تعداد کا اختلاف اضطراب کی دلیل نہیں ہے بلکہ تطبیق ممکن ہے وہ اس طرح کہ:

جس روایت میں’’ گیارہ رکعات‘‘ کا ذکر ہے اس سے مراد خالص صلاۃ اللیل کی رکعات ہیں ۔
اورجس روایت میں ’’تیرہ رکعات‘‘ کا ذکر ہے اس میں صلاۃ اللیل کی رکعات کے ساتھ عشاء کے بعد کی دو سنتیں بھی شمار کرلی گئی ہیں یا فجرسے قبل کی دو سنتیں شمار کرلی گئی ہیں ۔
اورجس روایت میں ’’پندرہ رکعات‘‘ کا ذکر ہے اس میں صلاۃ اللیل کی رکعات کے ساتھ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور فجرسے قبل کی دو سنتیں بھی شمار کرلی گئی ہیں ۔

ان توجیہات سے ان تمام روایت میں تطبیق ہوجاتی ہے۔


گھرکی مثال:
اورلطف تو یہ ہے کہ اختلاف کی یہی صورت حال احناف کی ان ضعیف ومردود مستدل روایات میں بھی ہے جنہیں وہ بیس رکعات کی دلیل میں پیش کرتے ہیں ،چنانچہ ان روایات میں سے :
کسی میں بیس(٢٠) رکعات کا ذکرہے[کتاب الصیام للفریابی:ص158]۔
تو کسی میں اکیس(٢١) رکعات کا ذکرہے[فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري:ق135/ ب]۔
تو کسی میں تیئیس(٢٣) رکعات کا ذکر ہے[مصنف عبد الرزاق: 4/ 261 رقم7733]۔

لیکن احناف کو یہاں اضطراب نظر نہیں آتا بلکہ وہ بڑے مزے سے ان کے مابین تطبیق دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں ، اوراضطراب کا نام تک نہیں لیتے ۔
عرض ہے کہ اگربیس ، اکیس ، تیئیس میں تطبیق ممکن ہے تو گیارہ اور تیرہ میں تطبیق کیونکر ناممکن ہے ؟؟؟؟؟

الغرض یہ کہ امام مالک کی روایت اورامام ابن اسحاق کی رویت میں بایں طور تبطیق ممکن ہے کہ امام مالک کی روایات میں خالص رکعات تراویح کابیان ہے جبکہ امام ابن اسحاق کی روایت میں رکعات تراویح کے سند عشاء کے بعد کی دو رکعت سنت بھی شمار کی لی گئی۔

گھرکی شہادت:
چنانچہ دیوبندیوں کے علامہ نیموی حنفی نے بھی امام مالک کی روایت میں اورامام ابن اسحاق کی رویات میں یہی تطبیق دی ہے ، اور پھر یہ تطبیق دینے کے بعد امام ابن اسحاق کی اس روایت کو روایت امام مالک کی متابعات کے ضمن میں پیش کیا ہے ، ملاحظہ ہوں موصوف نیموی حنفی کے الفاظ:
لِأَنَّ مَالِكًا قَدْ تَابَعَهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ فِي سُنَنِهِ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ كِلَاهُمَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ وَقَالَا إِحْدَى عَشْرَةَ كَمَا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ، وَأَخْرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ مِنْ طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ جَدِّهِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً ، انتھی هَذَا قَرِيبٌ مِمَّا رَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ أَيْ مَعَ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ [آثار السنن: ج ٢ص ٥٢ وانظر:تحفة الأحوذي:3/ 443]۔
کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے جیساکہ سنن سعیدبن منصور میں ہے اور یحیی بن سعیدالقطان رحمہ اللہ نے بھی امام مالک کی متابعت کی ہے جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ، چنانچہ عبدالعزیز بن محمد اور یحیی بن سعیدالقطان ، ان دونوں اماموں نے (امام مالک ہی کے شیخ) محمدبن یوسف سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان دونوں نے بھی اسی طرح گیارہ رکعات نقل کیا ، جس طرح امام مالک رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، نیز امام مروزی رحمہ اللہ نے بھی ’’قیام اللیل‘‘ میں محمدبن اسحاق کے طریق سے روایت کیا ’’ انہوں نے کہا: مجھ سے محمدبن یوسف نے بیان کیا ، انہوں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے نقل کیاکہ انہوں نے کہا: ہم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے تھے ‘‘۔ یہ روایت بھی تقریبا امام مالک کی محمدبن یوسف سے نقل کردہ روایت ہی کی طرح ہے ، بایں طور کہ اس روایت میں عشاء کی بعد کی دو سنت رکعات بھی شمار کی لی گئی ہیں۔

اگراب بھی بضدہوں تو:
اوراگر ابن اسحاق کی روایت اورامام مالک کی روایت میں تطبیق نہ دی جائے اور یہ مانا جائے کہ ابن اسحاق کی روایت امام مالک کی رویات سے مختلف ہے تو دریں صورت ابن اسحاق کی رویات شاذ قرار پائے گی کیونکہ ابن اسحاق ثقہ ہیں اوربعض نے ان کے حفظ پر کلام بھی کیا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ اوثق اور احفظ ہیں اور اوراوثق کے خلاف ثقہ کی روایت شاذ قرار پاتی ہے۔
مزیدبرآں یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ کی متابعت بھی پانچ رواۃ نے کی ہے جن میں یحیی بن سعید القطان جیسے زبردست محدث بھی ہیں ایسی صورت میں لازمی طور پر امام مالک کی روایت راجح ہوگی اور ابن اسحاق کی رویات شاذ و نا قابل التفات ہوگی ۔
لیکن ہماری نظر میں تطبیق کی صورت ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی نظیر ہمیں صحیحین کی روایات میں ملتی ہے ۔


فائدہ:
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت باسند متصل نہیں ملی لہٰذا مردودہے،[تعداد رکعات ،قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص:٣٦]۔
عرض ہے کہ اس روایت کی متصل سند ’’ فوائد أبي بكر عبد الله بن محمد بن زياد النيسابوري‘‘ میں موجود ہے جسے اوپرنقل کیا گیا ہے اوریہ سند حسن ہے ، لہٰذا مقبول ہے۔
اورہمارے نزدیک یہ روایت ، امام مالک کی روایت کے مخالف نہیں بلکہ معنوی طورپر اس کی مؤید ہے ، لیکن اگر کوئی ابن اسحاق کی روایت کو امام مالک کی روایت کے خلاف سمجھے تو اسے لازمی طورپر ابن اسحاق کی روایت کو شاذ تسلیم کرنا چاہے کیونکہ ابن اسحاق حفظ اتقان میں امام مالک سے کمتر ہیں اور اپنی روایت میں منفرد بھی ہیں ، جبکہ امام مالک ان کی بنسبت اوثق و احفظ ہیں اور اپنی رویات میں منفرد بھی نہیں بلکہ یحیی بن سعد جیسے جلیل القدر محدث سمیت پانچ رواۃ نے ان کی متابعت کی ہے کما مضی ، وللہ الحمد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متابعات پر ایک اعتراض اور اس کا جائزہ:
مولانا طاہر گیاوی صاحب نے مذکورہ بالا متابعات کو رد کرنے کے لئے یہ شگوفہ چھوڑا کہ ان متابعات میں گیارہ رکعت کے الفاظ تو ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہے کہ ان کا حکم عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دیا تھا فرماتے ہیں:
ان میں سے ایک بھی بحکم فاروقی گیارہ رکعت پڑھنے کی روایت نہیں کرتا بلکہ سب کے سب صرف گیارہ رکعت نقل کرتے ہیں پس بحکم فاروقی گیارہ رکعت کی روایت میں امام مالک منفرد اورتنہا رہ جاتے ہیں ، اوران کا کوئی متابع نہیں ہے ، بنابریں علامہ ابن عبدالبر کا خیال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ امام مالک کے علاوہ کسی نے یہ گیارہ رکعتوں کا بحکم فاروقی پڑھنا روایت نہیں کیا ہے ( احسن التنقیح ص345)
ہم کہتے ہیں کہ:
اولا:
اس اقتاس کی آخری سطور پر توجہ دی جائے کہ مولانا گیاوی صاحب نے اپنے شگوفہ کو علامہ ابن عبدالبر کی طرف بھی منسوب کردیا ۔حالانکہ علامہ ابن عبدالبر نے اپنے نقد میں حکم فاروقی کی صراحت کو بنیاد ہرگز نہیں بنایا ہے بلکہ الفاظ گیارہ رکعت کو بنیاد بنایا ہے ، نیز انہوں نے اپنے نقد کو مدلل کرنے کے لئے امام مالک کی روایت کے خلاف جو بیس رکعات والی روایات پیش کی ہیں ان میں میں اس بات کا التزام نہیں کیا ہے کہ وہی روایات پیش کریں جن میں حکم فاروقی کی صراحت ہو ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام بن عبدالبر کے نقد کی تلخیص پیش کردی ہے ملاحظہ ہو:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سب سے پہلے یہ کہا :
ولا أعلم أحدا قال في هذا الحديث إحدى عشرة ركعة غير مالك والله أعلم
اور مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث میں کسی ایک نے بھی ”گیارہ رکعت“ کہا ہے سوائے مالک کے ، واللہ اعلم [الاستذكار لابن عبدالبر 2/ 68]
ملاحظہ فرمائیں امام مالک سرے سے ”گیارہ رکعت کے الفاظ“ہی کو معدوم بتارہے ہیں، نہ کہ ان الفاظ کے ساتھ ”حکم فاروقی کی صراحت“ کو ،لیکن مولانا گیاوی صاحب کا کمال دیکھیں کہ کس طرح سے بات کو گھما دیا اور نقد کو ”گیارہ رکعت کے الفاظ“ سے ہٹا کر ”حکم فاروقی کی صراحت“ کے ساتھ جوڑ دیا ، یہ تحریفی کا ر روائی نہ صرف یہ کہ علمی بددیانتی ہے بلکہ امام ابن عبدالبر کی تنقیص بھی ہے ، کیونکہ نقد میں ایسی حرف پرستی اور بے تکی باتوں کا مظاہرہ نہ ان کی کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی ان کے شایان شان ہے۔
آگے بڑھئے امام ابن عبدالبر نے اس کے بعد امام مالک کی روایت کے خلاف جو دیگر روایات ذکر کی ہیں وہ یہ ہیں:
1۔ داؤد بن قیس والی روایت
2۔یحیی بن سعید کی منقطع روایت
3۔ حارث بن عبد الرحمن کی روایت
4۔ يزيد بن رومان کی منقطع روایت
اس کے بعد کہا:
وهذا كله يشهد بأن الرواية بإحدى عشرة ركعة وهم وغلط
یہ ساری روایات بتلاتی ہیں کہ گیارہ رکعت والی روایت وہم اور غلط ہے [الاستذكار لابن عبدالبر2/ 69]
ان چاروں روایات کے الفاظ آگے آرہے ہیں ، اگر مولانا طاہر گیاوی صاحب کی فلسفہ سنجی کو بروئے کار لاکر ان کے الفاظ پر غور کیا جائے، تو ان میں سے کوئی روایت بھی امام مالک کی روایت کے مخالف نہ ہوگی ،کیونکہ پہلی ، تیسری اورچوتھی روایات مولانا گیاوی صاحب کے معیار پر حکم فاروقی بیان نہیں کرتیں ، دوسری روایت میں حکم فاروقی ہے لیکن یہ حکم ابی بن کعب اور تمیم داری کے لئے نہیں ہے بلکہ ”رَجُلًا“ کے لفظ سے نا معلوم شخص کے لئے ہے ۔
اب غور کریں کہ امام ابن عبدالبر کے پیش نظر بھی اگر گیاوی صاحب جیسی شگوفہ سنجی ہی تھی، تو انہوں نے ان غیر متعلق روایات کو امام مالک کی روایت کے خلاف کیسے پیش کردیا ؟؟؟
صاف واضح ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے علم میں سرے سے گیارہ رکعت والی کوئی روایت ہی نہیں ہے ، اور اگر ان کی نگاہ ان روایات پر پڑجاتی جن میں امام مالک ہی کی طرف اسی طریق سے گیارہ رکعت منقول ہے تو وہ ہرگز امام مالک کی تغلیط ہرگز نہ کرتے ۔
یہی وجہ ہے جس نے بھی اس طریق میں گیارہ رکعت کے الفاظ دیکھے، اس نے فورا امام مالک کا دفاع کیا ،حتی کہ خود نیموی حنفی بھی گیارہ رکعت والی روایات دیکھ کر امام مالک کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکے ، اور امام ابن عبدالبر کی اس چوک پر تنبیہ ضروری سمجھا ، جیسا کے حوالے گذرچکے ہیں ۔
یہاں یہ وضاحت بھی دلچسی سے خالی نہ ہوگی کہ مولانا طاہر کیاوی نے متابعات پر یہ اعتراض اس غرض سے کیا کہ امام ابن عبدالبر کے نقد کو مبنی بر صواب قرار دیں، لیکن درحقیقت ان کے اس اعتراض نے امام ابن عبدالبر کے نقد کے بھی پرخچے اڑا دئے ہیں کیونکہ متن کا یہ اختلاف ان روایات میں بھی ہے جن کو بنیاد بناکر ابن عبدالبر نے نقد کیا تھا ۔

ثانیا:
قابل غور بات یہ ہے کہ ساری متابعات ایک ہی طریق سے ہیں یعنی عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد کے طریق سے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کا مخرج ایک ہی ہے ، لہٰذا جب ساری متابعات متحد المخرج ہیں ، تو سب کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہوگا اور الفاظ کے اختلاف کو اختصار و تفصیل اور روایت بالمعنی پر محمول کیا جائے گا ۔
ثالثا:
مولانا طاہرگیاوی صاحب کا یہ فرمانا بھی درست نہیں ہے کہ امام مالک کی متابعات میں حکم فاروقی کا بیان نہیں ہے کیونکہ کئی متابعات میں یہ الفاظ ہیں :جمع عمر بن الخطاب یعنی عمربن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا اس کے بعد گیارہ رکعت کا ذکر ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جس طرح جماعت پر جمع کیا تھا اسی طرح گیارہ رکعت پربھی جمع کیا تھا ۔اس سے انکار سوائے حرف پرستی اورمعنوی تحریف کے کچھ نہیں ۔
رابعا:
یہ بات بھی غور کرنے کی ہے الفاظ کا جو ظاہری اختلاف ہے وہ عددرکعات کے علاوہ دیگر حصوں سے متعلق ہے ، لیکن عدد رکعات یعنی گیارہ رکعات کے الفاظ پر سارے متابعات میں متفقہ طور پر ہیں ، اس لئے اختلاف کا کوئی اثر بھی ہوگا تو وہ دیگر حصوں سے متعلق ہوگا لیکن عدد رکعات پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
خامسا:
سب سے اہم بات تو یہ کہ امام مالک کی روایت کی تصحیح کے لئے ان متابعات کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ امام مالک کی روایت کے خلاف جو بھی روایات ہیں ان میں سے ایک بھی روایت صحیح وثابت ہی نہیں ہے ۔
سادسا:
بالفرض یہ تسلیم کرلیں کہ متابعات والی روایات الگ روایا ت ہیں تب تو صحابہ سےگیارہ رکعات سے ثبوت میں روایات کی قطار لگ جائے گی کیونکہ ہر روایت صحابہ کی الگ الگ جماعت سے ثابت ہوگا کہ وہ گیارہ رکعات ہی پڑھتے تھے ۔

کیا امام مالک نے بھی بیس رکعات کی عدد روایت :
مولانا طاہرگیاوی صاحب نے متابعات کو رد کرنے کے لئے جس لفاظی کا سہارا لیا تھا اس کی احسن طریقے سے تنقیح کردی گئی ، اسی ضمن میں موصوف نے اس سے بھی زیادہ عجوبہ نگاری یہ کی ہے، کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ایک ”وہم“ کو بھی اپنے حق میں بطور دلیل استعمال کرلیا ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سبقت قلمی یا وہم سے یہ لکھا دیا کہ:
وروى مالك من طريق يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد عشرين ركعة وهذا محمول على غير الوتر
اورامام مالک نے یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید کے طریق سے بیس رکعت روایت کیا ہے اور یہ وترکے علاوہ پر محمول ہے [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 4/ 253]
امام شوکانی نے بھی فتح الباری کی اسی روایت سے دھوکہ کاکر اسی روایت کو امام مالک کی طرف منسوب کردیا ۔
ان دونوں اہل علم کی اس چوک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا طاہرگیاوی صاحب نے یہ دعوی کردیا کہ یزید بن خصیفہ کی بیس رکعات والی روایت امام مالک نے بھی روایت کی ہے ۔(احسن التنقیح ص 351 تا 354)
حالانکہ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا وہم ہے کیونکہ یزید بن خصیفہ والی روایت نہ مؤطا مالک میں ہے اور نہ ہی امام مالک کے طریق سے کسی اور کتاب میں اس کا کوئی نام ونشان ہے ۔
اسی لئے علامہ البانی رحمہ نے کہا:
وعزاہ الحافظ فی الفتح لمالک فوھم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں وہم کا شکار ہوکر اسے امام مالک کی طرف منسوب کردیا(صلاۃ التراویح ص 49)
اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الھدایہ کی تخریج میں جہاں تعداد رکعات والی روایات پر بحث کی ہے وہاں ابن خصیفہ کی بیس رکعات والی اس روایت کو صرف امام بیہقی کی طرف منسوب کیا ہے اور امام مالک کی طرف صرف یزید بن رومان والی منقطع روایت منسوب کی ہے [الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 203]

واضح رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے فتح الباری میں متعدد روایات کے انتساب میں وہم ہوا ہے بلکہ خود صحیح بخاری ہی کی روایت کی طرف احالہ کرنے ان سے سہو ہوا ہے چنانچہ صلاۃ اللیل ہی کی رکعات پر بحث کے دوران ایک مقام پر لکھتے ہیں:
وأما ما رواه الزهري عن عروة عنها كما سيأتي في باب ما يقرأ في ركعتي الفجر بلفظ كان يصلي بالليل ثلاث عشرة ركعة ثم يصلي إذا سمع النداء بالصبح ركعتين خفيفتين
اور رہی وہ روایت جسے زہری نے عروۃ کے واسطے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے جیساکہ باب ما يقرأ في ركعتي الفجر کے تحت یہ روایت آرہی ہے ، اس کے الفاظ ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعات پڑھتے تے ، پھر جب فجر کی اذان سنتے تھے دو ہلکی رکعات پڑھتے [فتح الباري لابن حجر، ط السلفية: 3/ 21]
حالانکہ صحیح بخاری میں مذکورہ باب میں یہ روایت زہری نے نہیں بلکہ ھشام بن عروہ نے عروہ کے واسطے اماں عائشہ رضی عنہا سے نقل کیا ہے ۔ دیکھئے: صحیح بخاری : كتاب التهجد: باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، رقم 1170۔
اور امام زہری نے عروہ کے واسطے سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اس میں شروع میں تیرہ نہیں بلکہ گیارہ رکعات پڑھنے کی بات ہے اور اس کے بعد فجر کی دو رکعت سنت پڑھنے کی بات ہے ،ان روایات کے مابین تطبیق پر بحث حدیث عائشہ کے ضمن میں ہوچکی ہے ۔
یہاں مقصود یہ دکھلانا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وہم کے سبب جب خود صحیح بخاری میں موجود ھشام کی روایت کو زہری کی طرف منسوب کرسکتے ہیں تو اگر بیہقی کی روایت کو مالک کی طرف منسوب کردیا تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔انصاف پسند آدمی کو اوہام پرستی کے بجائے حقیقتوں پر ایمان لانا چاہئے۔

کیا اس روایت کے رواۃ کا عمل اس کے خلاف ہے؟
بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں اس روایت جو راوی ہیں سب کا عمل اس کے خلاف ہے ۔
عرض ہے کہ:
اولا:
اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا عمل اس کے خلاف نہیں ہے ، اس سلسلے میں جو روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں؟
ثانیا:
بالفرض کسی راوی کا عمل اس کے خلاف بھی ثابت ہو تو کا اس مطلب صرف یہ ہے کہ اس راوی نے اپنی نفل سمجھ کر اپنی طرف کچھ رکعات زیادہ پڑھی ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس نے گیارہ رکعات کی روایت بیان ہی نہیں کی ۔
نیز دیکھئے انوار البدر ص 395 تا 397۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
خلاصہ کلام


الغرض یہ کہ موطا امام مالک کی روایت بالکل صحیح ہے بلکہ صحیحین کی شرط پرصحیح ہے اوراس پر کسی بھی طرح کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔

(ختم شد)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top