ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے
بشروا ولا تنفروا ، ويسروا ولا تعسروا
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود -الصفحة أو الرقم: 4835
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
سیدنا ابو موسٰی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کو کسی کام کےلیےبھیجا کرتے تھے تو انہیں فرماتے : ''خوشخبری دینے والا بننا،نفرت نہ دلانا ،آسانی کرنااور تنگی اور مشقت میں نہ ڈالنا ۔ ''
تخریج : (اخرجه مسلم ، الجھادوالسیر ،باب فی الامر بالتیسیر و ترك التنفیر ، ح : 1732 من حدیث ابی اسامة به)
فائدہ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ) :
قائد اور صاحب منصب کے لیے خاص نبوی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ماتحت افراد کے لیےنرمی اور آسانی کرنے والا بنے ۔ بے مقصد سختی مخالفت کا باعث بنتی ہے جو نفرت دلاتی ہے اور کسی بھی نظم اور اجتماعیت کے لیے سم قاتل ہے۔
''ابو النعمان حماد بن زید ازرق بن قیس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم اہواز میں نہر کے کنارے ٹھہرے ہوئے تھے جس کا پانی خشک ہوگیا تھا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ ایک گھوڑے پر سوار آئے آپ نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دیا وہ گھوڑا چلنے لگا تو نماز چھوڑ کر اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس گھوڑے تک پہنچ کر اس کو پکڑ لیا پھر واپس آئے اور باقی نماز پوری کی اور ہم میں ایک آدمی عقلمند تھا وہ کہنے لگا کہ اس بڈھے کو دیکھو کہ گھوڑے کے لئے نماز چھوڑ دی تو ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوا ہوں کسی نے مجھ کو ایسی سخت بات نہیں کہی اور بیان کیا کہ میرا گھر بہت دور ہے اگر میں نماز پڑھتا اور اس گھوڑے کو چھوڑ دیتا تو میں رات تک بھی اپنے گھر والوں میں نہ پہنچ سکتا اور بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسانی اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔''
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل پوچھنے لگے۔ پس ایک نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے نہ جانا کہ رمی نحر سے پہلے ضروری ہے اور میں نے رمی سے پہلے نحر کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی حرج نہیں اب رمی کر لو اور دوسرے نے کہا کہ میں نے نہ جانا کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہئے اور میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نحر کر لو اور کچھ حرج نہیں۔ ( راوی ) نے کہا کہ میں نے سنا کہ اس دن جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا کام کہ جسے انسان بھول جاتا ہے اور آگے پیچھے کر لیتا ہے، اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس گھر میں فرمایا اے اللہ میری اس امت میں سے جس کو ولایت دی جائے اور وہ ان پر سختی کرے تو تو اس پر سختی کر اور میری امت میں سے جس کو کسی معاملہ کو والی بنایا جائے وہ ان سے نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔
1
بشروا ولا تنفروا ، ويسروا ولا تعسروا
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود -الصفحة أو الرقم: 4835
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
سیدنا ابو موسٰی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کو کسی کام کےلیےبھیجا کرتے تھے تو انہیں فرماتے : ''خوشخبری دینے والا بننا،نفرت نہ دلانا ،آسانی کرنااور تنگی اور مشقت میں نہ ڈالنا ۔ ''
تخریج : (اخرجه مسلم ، الجھادوالسیر ،باب فی الامر بالتیسیر و ترك التنفیر ، ح : 1732 من حدیث ابی اسامة به)
فائدہ (ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ) :
قائد اور صاحب منصب کے لیے خاص نبوی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ماتحت افراد کے لیےنرمی اور آسانی کرنے والا بنے ۔ بے مقصد سختی مخالفت کا باعث بنتی ہے جو نفرت دلاتی ہے اور کسی بھی نظم اور اجتماعیت کے لیے سم قاتل ہے۔
2
صحیح بخاری :
کتاب الادب :
باب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ آسانی کرو سختی نہ کرو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ تخفیف اور آسانی برتنے کو پسند فرماتے تھے۔''ابو النعمان حماد بن زید ازرق بن قیس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم اہواز میں نہر کے کنارے ٹھہرے ہوئے تھے جس کا پانی خشک ہوگیا تھا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ ایک گھوڑے پر سوار آئے آپ نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دیا وہ گھوڑا چلنے لگا تو نماز چھوڑ کر اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ اس گھوڑے تک پہنچ کر اس کو پکڑ لیا پھر واپس آئے اور باقی نماز پوری کی اور ہم میں ایک آدمی عقلمند تھا وہ کہنے لگا کہ اس بڈھے کو دیکھو کہ گھوڑے کے لئے نماز چھوڑ دی تو ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہوا ہوں کسی نے مجھ کو ایسی سخت بات نہیں کہی اور بیان کیا کہ میرا گھر بہت دور ہے اگر میں نماز پڑھتا اور اس گھوڑے کو چھوڑ دیتا تو میں رات تک بھی اپنے گھر والوں میں نہ پہنچ سکتا اور بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسانی اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔''
3
ما خُيِّر النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بين أمرين إلا اختار أيسرَهما ما لم يأثم، فإذا كان الإثمُ كان أبعدَهما منه، واللهِ ما انتقم لنفسه في شيءٍ يؤتى إليه قطُّ، حتى تُنتهك حرماتُ اللهِ، فينتقم لله .
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6786
اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو معاملات کے درمیان ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان امر ہی کو اختیار کیا۔ جب تک اس میں گناہ کی بات نہ ہو۔ اگر اس آسان کام میں گناہ ہوتا تو تمام لوگوں سے زیادہ اس سے دور ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی معاملے میں اپنا ذاتی انتقام نہیں لیا۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حرمت کو توڑا جاتا تو اللہ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے ۔4
صحیح مسلم :
حج کے مسائل :
باب : جس نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لئے یا کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی ، اس کے متعلق :سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل پوچھنے لگے۔ پس ایک نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے نہ جانا کہ رمی نحر سے پہلے ضروری ہے اور میں نے رمی سے پہلے نحر کر لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی حرج نہیں اب رمی کر لو اور دوسرے نے کہا کہ میں نے نہ جانا کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے کرنی چاہئے اور میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نحر کر لو اور کچھ حرج نہیں۔ ( راوی ) نے کہا کہ میں نے سنا کہ اس دن جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا کام کہ جسے انسان بھول جاتا ہے اور آگے پیچھے کر لیتا ہے، اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔
5
صحیح مسلم :
کتاب الامارة :
حاکم عادل کی فضیلت اور ظالم حاکم کی سزا کے بیان میں :ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس گھر میں فرمایا اے اللہ میری اس امت میں سے جس کو ولایت دی جائے اور وہ ان پر سختی کرے تو تو اس پر سختی کر اور میری امت میں سے جس کو کسی معاملہ کو والی بنایا جائے وہ ان سے نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔