• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کی امانت آپ کی سیوا میں (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آخری پیغمبر محمد ﷺ:
یہ ایک بیش قیمت سچ ہے کہ ہر آنے والے رسول اور نبی کی زبان سے اور اس پر اللہ کی جانب سے اتارے گئے صحیفوں میں ایک آخری نبی کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ان کے آنے کے بعد اور ان کو پہچان لینے کے بعد ساری پرانی شریعتیں اور مذہبی قانون چھوڑ کر ان کی بات مانی جائے اور ان کے ذریعے لائے گئے آخری کلام اور مکمل دین پر چلا جائے۔ یہ بھی اسلام کی حقانیت کا ثبوت ہے کہ پچھلی کتابوں میں انتہائی رد و بدل کے باوجود اس مالک نے آخری رسول محمد ﷺ کے آنے کی خبر کو تبدیل نہ ہونے دیا، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو خبر ہی نہ تھی۔ ویدوں میں اس کا نام نراشنس، پرانوں میں کلکی اوتار، بائبل میں فارقلیط اور بودھ گرنتھوں میں آخری بدھ وغیرہ لکھا گیا ہے۔
ان مذہبی کتب میں محمد ﷺ کے علاقہ ¿ پیدائش، زمانہ ¿ پیدائش اور ان کی صفات و خوبیوں وغیرہ کے بارے میں واضح اشارے دیے گئے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا تعارف:
اب سے تقریباً ساڑھے چودہ سو برس پہلے وہ آخری نبی و رسول محمد رسول ﷺ سعودی عرب کے مشہور شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ پیدائش سے چند مہینے پہلے ہی آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ والدہ آمنہ بھی کچھ زیادہ دن زندہ نہیں رہیں۔ پہلے دادا عبدالمطلب اور ان کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابوطالب نے انہیں پالا۔ آپ اپنی خوبیوں اور نیکیوں کی بدولت جلد ہی تمام مکہ شہر کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے گئے، آپ سے لوگوں کی محبت بڑھتی گئی۔ آپ کو سچا اور ایمان دار کہا جانے لگا۔ لوگ حفاظت کے لیے اپنی بیش قیمتی امانتیں آپ کے پاس رکھتے۔ اپنے آپسی جھگڑوں کا فیصلہ کراتے۔ لوگ محمد ﷺ کو ہر اچھے کام میں آگے پاتے۔ آپ اپنے وطن میں ہوں یا سفر پر، سب لوگ آپ کی خوبیوں کے معترف ہوتے۔
ان دنوں وہاں اللہ کے گھر کعبہ میں ۰۶۳ بت، دیوی دیوتاؤ ں کی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ پورے عرب دیش میں شرک و کفر کے علاوہ قتل و غارت گری، لوٹ مار، غلاموں اور عورتوں کی حق تلفی، اونچ نیچ، دغا و فریب، شراب، جوا، سود، بے بنیاد جنگ، زنا جیسی جانے کتنی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔
محمد ﷺ جب ۰۴ برس کے ہوئے تو اللہ نے اپنے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے آپ پر قرآن نازل کرنا شروع کیا اور آپ کو رسول بنانے کی خوش خبری دی اور لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کی طرف بلانے کی ذمے داری سپرد کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سچ کی آواز:
اللہ کے رسول محمد ﷺ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر خطرے سے باخبر کرنے کے لیے آواز لگائی۔ لوگ اس آواز پر تیزی کے ساتھ جمع ہو گئے، اس لیے کہ یہ ایک سچے ایمان دار آدمی کی آواز تھی۔ آپ نے سوال کیا:اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک بہت بڑی فوج چلی آ رہی ہے اور تم پر حملہ کرنے والی ہے، تو کیا تم یقین کرو گے ؟
سب نے ایک آواز ہو کر کہا: بھلا آپ کی بات پر کون یقین نہیں کرے گا! آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اور ہمارے مقابلے پہاڑ کی چوٹی سے دوسری طرف دیکھ بھی رہے ہیں۔ آپ نے جہنم کی بھیانک آگ سے ڈراتے ہوئے انہیں شرک و بت پرستی سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی اسلام کی طرف بلایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
انسان کی ایک کم زوری:
انسان کی یہ کم زوری رہی ہے کہ وہ اپنے باپ دادا اور بزرگوں کی غلط باتوں کو بھی آنکھ بند کر کے مانتا چلا جاتا ہے، چاہے ان کی عقلیں اور دلائل ان کا ساتھ نہیں دے رہے ہوں، لیکن اس کے باوجود انسان خان دانی باتوں پر جما رہتا ہے اور اس کے خلاف عمل تو کیا، کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رکاوٹیں اور آزمائش:
یہی وجہ تھی کہ چالیس برس کی عمر تک محمد ﷺ کا احترام کرنے اور سچا ماننے اور جاننے کے باوجود مکہ کے لوگ رسول کی حیثیت سے اللہ کی جانب سے لائی گئی آپ کی تعلیمات کے دشمن ہو گئے۔ آپ جتنا زیادہ لوگوں کو سب سے بڑی سچائی، شرک کے خلاف توحید کی طرف بلاتے، لوگ اتنا ہی آپ کے ساتھ دشمنی کرتے۔ کچھ لوگ اس سچائی کو ماننے والوں اور آپ کا ساتھ دینے والوں کو ستاتے، مارتے، اور دہکتے ہوئے آگ کے انگاروں پر لٹا دیتے۔ گلے میں پھندا ڈال کر گھسیٹتے، اور ان کو پتھروں اور کوڑوں سے مارتے، لیکن آپ سب کے لیے اللہ سے دعا مانگتے، کسی سے بدلہ و انتقام نہیں لیتے، ساری ساری رات اپنے مالک سے ان کے لیے ہدایت کی دعا کرتے۔ ایک بار آپ مکہ کے لوگوں سے مایوس ہو کر قریبی شہر طائف گئے۔ وہاں کے لوگوں نے اس عظیم انسان کی توہین کی۔ آپ کے پیچھے شریر لڑکے لگا دیے، جو آپ کو برا بھلا کہتے۔
انھوں نے آپ کو پتھر مارے، جس کی وجہ سے آپ کے پیروں سے خون بہنے لگا۔ تکلیف کی وجہ سے جب آپ کہیں بیٹھ جاتے تو وہ لڑکے آپ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے، اور پھر مارتے۔ اس حال میں آپ شہر سے باہر نکل کر ایک جگہ پر بیٹھ گئے۔ آپ نے انہیں بد دعا نہیں دی، بلکہ اپنے مالک سے دعا کی: ''اے مالک! ان کو سمجھ دے دے، یہ جانتے نہیں۔ '' اس پاک کلام اور وحی پہنچانے کی وجہ سے آپ کا اور آپ کا ساتھ دینے والے خان دان اور قبیلے کا سماجی بائی کاٹ کیا گیا۔ اس پر بھی بس نہ چلا تو آپ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے، آخر کار اللہ کے حکم سے آپ کو اپنا پیارا شہر مکہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا۔ وہاں بھی مکہ والے فوجیں تیار کر کے بار بار آپ سے جنگ کرنے کے لیے دھاوا بولتے رہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حق کی فتح:
سچائی کی ہمیشہ دیر یا سویر فتح ہوتی ہے، ۳۲ سال کی سخت مشقت کے بعد آپ نے سب کے دلوں پر فتح پائی اور سچائی کے راستے کی جانب آپ کی بے لوث دعوت نے پورے ملک عرب کو اسلام کی ٹھنڈی چھاؤ ں میں لا کھڑا کیا۔ اس طرح اس وقت کی معلوم دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ بت پرستی بند ہوئی، اونچ نیچ ختم ہو گئی اور سب لوگ ایک اللہ کو ماننے اور اسی کی عبادت و اطاعت کرنے والے اور ایک دوسرے کو بھائی جان کر ان کا حق ادا کرنے والے ہو گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آخری وصیت:
اپنی وفات سے کچھ ہی مہینے پہلے آپ نے تقریباً سوا لاکھ لوگوں کے ساتھ حج کیا اور تمام لوگوں کو اپنی آخری وصیت کی، جس میں آپ نے یہ بھی کہا: لوگو! مرنے کے بعد قیامت میں حساب کتاب کے دن میرے بارے میں بھی تم سے پوچھا جائے گا، کہ کیا میں نے اللہ کا پیغام اور اس کا دین تم تک پہنچایا تھا، تو تم کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا: بے شک آپ نے اسے مکمل طور سے پہنچا دیا، اس کا حق ادا کر دیا۔ آپ نے آسمان کی جانب انگلی اٹھائی اور تین بار کہا: اے اللہ! آپ گواہ رہیے، آپ گواہ رہیے، آپ گواہ رہیے۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں سے فرمایا: یہ سچا دین جن تک پہنچ چکا ہے، وہ ان کو پہنچائیں، جن کے پاس نہیں پہنچا ہے۔
آپ نے یہ بھی خبر دی کہ میں آخری رسول ہوں۔ اب میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ میں ہی وہ آخری نبی ہوں، جس کا تم انتظار کر رہے تھے اور جس کے بارے میں تم سب کچھ جانتے ہو۔
قرآن میں ہے :
''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس (پیغمبر محمد ) کو ایسے پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اگرچہ ان میں کا ایک گروہ حق کو جانتے بوجھتے چھپاتا ہے o '' (ترجمہ القرآن، البقرة ۲:۶۴۱)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ہر انسان کی ذمے داری:
اب قیامت تک آنے والے ہر انسان پر یہ لازم ہے اور یہ اس کا مذہبی اور انسانی فریضہ ہے کہ وہ اس اکیلے مالک کی بندگی کرے، اسی کی اطاعت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، قیامت اور دوبارہ اٹھائے جانے، حساب کتاب، جنت و جہنم کو صحیح تسلیم کرے اور اس بات کو مانے کہ آخرت میں اللہ ہی مالک و مختار ہو گا، وہاں بھی اس کا کوئی شریک نہ ہو گا اور اس کے آخری پیغمبر محمد ﷺ کو سچا جانے اور ان کے لائے ہوئے دین اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر چلے۔ اسلام میں اسی کو ایمان کہا گیا ہے۔ اس کو مانے بغیر مرنے کے بعد قیامت میں ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کچھ اشکالات:
یہاں کسی کے ذہن میں کچھ سوال پیدا ہو سکتے ہیں۔ مرنے کے بعد جنت یا دوزخ میں جانا دکھائی تو دیتا نہیں، اسے کیوں مانیں ؟
اس سلسلے میں یہ جان لینا مناسب ہو گا کہ تمام الہامی کتابوں میں جنت اور دوزخ کا حال بیان کیا گیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ کا تصور تمام الہامی مذاہب میں مسلّم ہے۔
اسے ہم ایک مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اگر اس سے کہا جائے کہ جب تم باہر آؤ گے تو دودھ پیو گے اور باہر آ کر تم بہت سے لوگوں اور بہت سی چیزوں کو دیکھو گے، تو حالتِ حمل میں اسے یقین نہیں آئے گا، مگر جیسے ہی وہ حالتِ حمل سے باہر آئے گا، تب سب چیزوں کو اپنے سامنے پائے گا۔ اسی طرح یہ تمام جہان ایک حمل کی حالت میں ہے، یہاں سے موت کے بعد نکل کر جب انسان آخرت کے جہان میں آنکھیں کھولے گا تو سب کچھ اپنے سامنے پائے گا۔
وہاں کی جنت و دوزخ اور دوسری حقیقتوں کی خبر ہمیں اس سچے شخص نے دی ہے، جس کو اس کے جانی دشمن بھی کبھی دل سے جھوٹا نہ کہہ سکے، اور قرآن جیسی کتاب نے دی ہے، جس کی سچائی ہر اپنے پرائے نے مانی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دوسرا سوال:
دوسری چیز جو کسی کے دل میں کھٹک سکتی ہے، وہ یہ کہ جب تمام رسول، ان کا لایا ہوا دین اور الہامی صحائف سچے ہیں تو پھر اسلام قبول کرنا کیا ضروری ہے ؟
آج کی موجودہ دنیا میں اس کا جواب بالکل آسان ہے۔ ہمارے ملک کی ایک پارلیمنٹ ہے، یہاں کا ایک منظور شدہ دستور(constitution ) ہے۔ یہاں جتنے وزیر اعظم ہوئے، وہ سب ہندوستان کے حقیقی وزیر اعظم تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو، شاستری جی، اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ وغیرہ۔ ملک کی ضرورت اور وقت کے مطابق جو دستوری ترمیمات اور قوانین انھوں نے پاس کیں، وہ سب بھارت کے دستور اور قانون کا حصہ ہیں، اس کے باوجود اب جو موجودہ وزیر اعظم ہیں، ان کی کابینہ اور سرکار دستور یا قانون میں جو بھی ترمیم کرے گی، اس سے پرانی دستوری دفعہ اور پرانا قانون ختم ہو جائے گا اور بھارت کے ہر شہری کے لیے ضروری ہو گا کہ اس نئے ترمیم شدہ دستور و قانون کو مانے۔ اس کے بعد کوئی ہندوستانی شہری یہ کہے کہ اندرا گاندھی اصلی وزیر اعظم تھیں، میں تو ان کے ہی وقت کے دستور و قانون کو مانوں گا، اس نئے وزیر اعظم کے ترمیم شدہ دستور و قانون کو میں نہیں مانتا اور نہ ان کے ذریعے لگائے گئے ٹیکس دوں گا تو ایسے شخص کو ہر کوئی ملک کا مخالف کہے گا اور اسے سزا کا مستحق سمجھا جائے گا۔ اسی طرح تمام الہامی مذاہب، اور الٰہی کتابوں میں اپنے وقت میں حق اورسچائی کی تعلیم دی جاتی تھی، لیکن اب تمام رسولوں اور الہامی کتابوں کو سچا مانتے ہوئے بھی سب سے آخری رسول محمد ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی لائی ہوئی آخری کتاب و شریعت پر عمل کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔
 
Top