• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ ﷺ کی بیٹیوں میں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہی شہرت کیوں ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کی تعداد کتنی؟

عموما ہمارے ہاں پاک و ہند میں یہ تصور عام ہے کہ رسول الله ﷺ کی ایک ہی بیٹی تھی یعنی سیدة النساء العالمين فاطمہ سلام اللہ علیہا۔ مگر یہ بات پاک و ہند سے باہر اتنی عام نہیں ہے، بلکہ ہمیں اسکے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ ہم کچھ صحیح الإسناد احادیث نقل کریں گے اور قرآن سے بھی بات کریں گے اسکے متعلق۔
قرآن کہتا ہے:
يا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗوَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ آیا ہے بناتك یعنی اپنی بیٹیوں، ادھر الله ﷻ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہوکر یہ فرما رہا ہے۔ تو یہ ایک سے زیادہ کا ذکر ہے، کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ادھر بھی الله ﷻ نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ذکر جمع سے کیا جیسے مباہلہ کے متعلق کیا نساءنا یعنی ہماری عورتوں سے کہہ کر، مگر ہمارے پاس نص قطعی موجود ہے کہ رسول الله ﷺ مباہلہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ساتھ لیکر گئے تھے جبکہ ہمارے پاس کوئی نص قطعی نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی باقی بیٹیوں کو مختلف نام سے بلایا گیا بنت محمد کے علاوہ۔ اور مباہلہ جس وقت ہوا تب تک باقی بیٹیاں وفات پا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ رسول الله ﷺ کی دیگر بیویوں سے بیٹیاں مراد ہیں، مگر اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو الله ﷻ اسکا ذکر ایسے کرتا جیسے اس آیت میں کیا: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد, جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے۔ اگر اس طرح سے ذکر کرنا ہوتا تو ربائب کا لفظ آتا بنات کی جگہ۔
اب کچھ احادیث دیکھتے ہیں:
یہ دعاء امام موسی کاظم علیہ السلام سے منسوب ہے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْقَاسِمِ وَ الطَّاهِرِ ابْنَيْ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى رُقَيَّةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا
اے الله ﷻ! صلوات بھیج اپنے نبی کے بیٹے قاسم اور طاہر پر، اے الله ﷻ! صلوات بھیج رقیہ پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی، اے الله ﷻ! صلوات بھیج ام کلثوم پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اسکے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی۔
تهذيب الأحكام، ج 3، ص 120
شیخ طوسی اسکو اپنی کتاب تهذيب الأحكام میں لائے ہیں صحیح سند کے ساتھ۔ تهذيب الأحكام ہماری کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے، رقیہ اور ام کلثوم، سلام اللہ علیہا۔
اسکی سند:
محمد بن يعقوب عن علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن محبوب عن علي بن رئاب عن عبد صالح عليه السلام قال، ادع بهذا الدعاء في شهر رمضان مستقبل دخول السنة
محمد بن یعقوب، جنہوں نے روایت کی علی بن ابراہیم سے اور انہوں نے اپنے والد سے، انکے والد نے محبوب سے اور انہوں نے علی بن رئاب سے، جنہوں نے عبد صالح (امام موسى الكاظم) عليه السلام سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ اس دعاء سے الله ﷻ کو پکارو آئندہ جب بھی نیا سال آئے۔۔۔ پھر دعاء تعلیم فرمائی جسکا کچھ حصہ اوپر نقل کیا ہے۔ سند کے تمام راوی معتبر ہیں، علامہ مجلسی نے اسکی سند کو حسن کہا ہے۔
أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام
احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام الصادق علیہ السلام سے جنہوں نے فرمایا کہ انکے والد (امام الباقر ع) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جنکی والدہ زینب بنت رسول الله ﷺ تھیں نے علی علیہ السلام کے بعد شادی کی۔۔۔ الخ
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینب بھی رسول الله ﷺ کی بیٹی تھیں۔
تهذيب الأحكام، ج 8، ص 258
اسکے علاوہ یہ روایت ہے:
وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا
زینبت بنت نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السلام اپنے عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی۔
اسکی بھی سند معتبر ہے۔
تهذيب الأحكام، ج 3، ص 333
ایک اور حدیث:
قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال: " ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة - وهو من بني أمية - زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله - من أم إبراهيم - إبراهيم، وهي مارية القبطية۔۔۔
اور اس نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا مسعدہ بن صدقہ نے، اس نے کہا مجھ سے جعفر بن محمد عليه السلام نے بیان کے اپنے والد (امام الباقر عليه السلام) سے کہ رسول الله ﷺ کی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے اولاد تھی قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ، اور زینب۔ پھر علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام سے شادی کی، اور زینب کی شادی ہوئی ابو العاص بن ریبعہ سے، اور وہ بنی امیہ سے تھا۔ اور عثمان بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے اور وہ ان میں داخل نہ ہوا حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ پھر اسکی جگہ رسول الله ﷺ نے اسکی شادی رقیہ سے کردی، پھر رسول الله ﷺ کو اولاد ملی ام ابراہم سے، اور وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔۔۔ الخ
اسکی سند موثق کے درجے سے نہیں گرتی اکثر علماء کے نزدیک۔
قرب الإسناد، رقم الحديث: 29
نہج البلاغہ:
وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ(صلى الله عليه وآله) وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
امام علی علیہ اللسام نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابو قحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله ﷺ کے بطور نسبت، اور تم شادی کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔
نهج البلاغة، رقم الخطبة: 164
ہمیں بعض روایات میں ملتا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بہن زینب کی بیٹی امامہ سے شادی کرنا، اور پھر بعد ازاں شادی کی تھی آپ علیہ السلام نے۔ اسکے متعلق ایک روایت:
مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ ع إِلَی عَلِیٍّ ع أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أُخْتِهَا مِنْ بَعْدِهَا فَفَعَلَ
زرارہ سے روایت ہے کہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ (ع) نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کی کہ وہ انکی بہن کی بیٹی سے شادی کرلیں انکے بعد، تو امام علی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔
سند معتبر ہے اور تمام راوی ثقہ ہیں۔
الكافي، ج 5، ص 555
اسکے علاوہ کلینی سے لیکر خمینی تک کثیر تعداد میں علماء تشیع کا یہی موقف رہا ہے کہ رسول الله ﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہ سلام الله علیهن۔
امام مھدی عج کے نائب کا بیان:
كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال (4): فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة
حسین بن روح (نائبِ امام عج) سے پوچھا گیا کہ رسول الله ﷺ کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار۔ پوچھا گیا کہ سب سے افضل کونسی تھیں؟ انہوں نے کہا فاطمہ سلام اللہ علیہا۔
الغيبة للطوسي، ج 1، ص 409
ایسے ہی شیخ الكليني الكافي میں لکھتے ہیں:
وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ ع الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ ع وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ ع
اور آپ ﷺ کی شادی خدیجہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی جب آپ ﷺ کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل انکو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ علیہا السلام، اور روایت کی گئی ہے کہ انکی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ علیہا السلام۔۔۔ الخ
الكافي، ج 1، ص 439
ایسے ہی شیخ مفید نے لکھا ہے:
أن زينب ورقية كانتا ابنتى رسول الله صلى الله عليه وآله والمخالف لذلك شاذ بخلافه
زینب اور رقیہ رسول الله ﷺ کی بیٹیوں میں سے دو ہیں اور اس بات کا مخالف شاذ ہے اپنی مخالفت میں۔
المسائل العكبرية، ص 120
ایسے ہی شیخ طوسی نے مبسوط میں اور ابن شہر آشوب نے مناقب آل أبي طالب میں، شیخ عباس قمی نے منتهي الآمال میں، علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں اور بحار الأنوار میں بہت سی مختلف روایات اس ضمن میں جمع کی ہیں، اور ایسے ہی دیگر علماء نے یہی ذکر کیا ہے۔
ایک بیٹی کی بات جو آج پاک و ہند میں رائج بھی ہے یہ سب سے پہلے علی بن احمد کوفی نے ایجاد کی کہ یہ خدیجہ س کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں، اسکو ابن شہر آشوب نے بدعت کہا ہے:
والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة
یہ بات بدعت ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو کہ خدیجہ کی بہن تھیں۔
مناقب آل أبي طالب، ج 1، ص 138
ایسے ہی شیخ تستری نے نقل کیا ہے:
لا ريب أن زينب ورقية كانتا ابنتي النبي (صلى الله عليه وآله). والبدع الذي قال هو كتاب أبي القاسم المذكور
اس بات میں شک نہیں کہ زینب اور رقیہ دونوں نبی ﷺ کی بیٹیاں تھیں۔ اور یہ بات بدعت ہے جو کہ ابو القاسم (الكوفي) کی کتاب میں مذکور ہے۔
قاموس الرجال، ج 9، ص 450
ابو القاسم الکوفی علی بن محمد کے متعلق رجال کی کتب میں ملتا ہے کہ وہ ایک غالی تھا اور کذاب تھا، وہ چوتھی صدی ہجری میں وفات پاگیا تھا۔ دیکھئے الفهرست للطوسي، رجال النجاشي، معجم رجال الحديث وغیرہ۔
ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن نے بھی بنات یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جب رسول الله ﷺ کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی ہمیں کثرت سے احادیث ملتی ہیں دیگر بیٹیوں کے متعلق جس میں سے ہم نے چند نقل کردیں باقی بھی کتب احادیث میں موجود ہیں اور علامہ مجلسی نے بحار کی جلد 2، صفحہ 151 پر باب باندھا ہے “عدد أولاد النبي (صلى الله عليه وآله) وأحوالهم” یعنی نبی ﷺ کی اولاد کی تعداد اور انکے احوال۔ ام کلثوم اور رقیہ بنا کسی اولاد کے فوت ہوگئی تھیں رسول الله ﷺ کی زندگی میں اور ایسے ہی زینب بنت محمد ﷺ کی بھی وفات رسول الله ﷺ کی زندگی میں ہوگئی، آپ ﷺ کی اولاد کا سلسلہ صرف فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہی چلا۔ اب اگر کوئی اس بات سے اعتراض کرتا ہے تو وہ احادیث پیش کر سکتا ہے جس میں ذکر ہو کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا واحد بیٹی تھیں، ہم نے بعض افراد سے سنا ہے جو کچھ ریاضیات کے ذریعے نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ چونکہ رسول الله ﷺ کی شادی کے وقت عمر تھی 25 سال اور بعد ازاں چار سال تک اولاد نہ ہوئی پھر انکے بیٹے قاسم کی ولادت ہوئی، پھر باقی اولاد۔۔۔ الخ، مگر یہ باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ ان تواریخ میں ویسے ہی اختلاف ہے تو انکو بنیاد بناکر ہم کوئی کیلکیولیشن نہیں کر سکتے جس سے کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ مباہلہ کے موقع پر صرف سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لیکر گئے رسول الله ﷺ لہذا وہی اکلوتی بیٹی ہیں۔ مگر مباہلہ کا واقعہ دس ہجری میں ہوا جبکہ باقی بیٹیاں تب تک وفات پا چکی تھیں۔ تو یہ اعتراض درست نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے متعلق احادیث میں بہت کچھ روایت کیا گیا ہے مگر باقی تین بیٹیوں کے متعلق کچھ خاص نہیں ملتا تو وہ کیوں، تو اسکی بھی وجہ یہ ہے کہ وہ کم سنی میں وفات پا گئیں مگر اس وجہ سے وجود کا انکار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس ہی طرح رسول الله ﷺ کی بیٹے تھے جنکے نام قاسم، طیب، طاہر اور ابراہیم تھے انکے متعلق بھی ہمیں کچھ خاص نہیں ملتا روایات میں، مگر کیا ہم اس وجہ سے وجود کا انکار کر دیتے ہیں، نہیں بلکہ انکے وجود کو ہم پھر بھی قبول کرتے ہیں۔ ہم تو صرف معتبر احادیث و روایات کے مطابق چل سکتے ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔
( منقول)
اس سلسلے میں یہ مضمون بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ مضمون کا لنک
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
شائد آپ کے یہاں انٹرنیٹ کنکشن کا پرابلم ہو کیونکہ میں نے موبائل اور لیپ ٹاپ دونوں پہ لنک اوپن کیا تو کھل رہا ہے۔
جزاک اللہ خیرا ، میں معلومات حاصل کرتا ہوں کہ کیا وجوہات درپیش ہیں
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

لاگ آوٹ کریں فورم سے اوپن ہوجائیگا لنک!

Screenshot from 2018-10-14 19-16-51.png
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

لاگ آوٹ کریں فورم سے اوپن ہوجائیگا لنک!

20838 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جزاکک اللہ خیرا محترم عدیل بهائی ، بالکل درست حل دیا آپ نے ، لاگ آوٹ کے بعد اوپن هوا تهریڈ ۔ اب سوچ رها هوں یہ ستم لاگ ان هونے پر کیوں هو رها هے؟
 
Top