• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آکابرین اہلحدیث کا مسلک کیا تھا؟

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
اکابرین اہلحدیث کا مسلک کیا تھا؟
ؓ ہر جماعت کے اندر نیک وبد افراد ضرور پائے جاتے ہیں ،جب کسی بھی تحریک کا آغاز ہوتا ہے،تو آغاز میں جماعت مختصر مگر مخلصین پر مشتمل ہوتی ہے۔جوں جو تحریک کو عروج ملتا ہے،اور دعوت پھیلتی جاتی ہے،تو جماعت میں طرح طرح کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں،منشور سے ان واقف،مالی فوائد کی خاطرمنافقین،ست مزاج،وغیرہ وغیرہ ۔​
مسلک اہلحدیث اہلسنت و لجماعت کے اندر ایک اصلاحی تحریک تھی،جو عامتہ الناس کو براہ راست قرآن وحدیث سے مستفید ہونے کیلئے کوشاں رہی،یہ جماعت کس حد تک ناکام یا کامیاب رہی مجھے اس بحث سے کچھ غرض نہیں ۔لیکن یہاں ایک بات بڑی شدو مد سے محسوس کی گئی ہے کہ بعض لوگ جو تو نہ تاریخ اہلحدیث سے واقف ہیں ،اور نہ اس مسلک اہلحدیث کے منہج کو سمجھتے ہیں ،ان لوگوں کے نزدیک بزرگان حناف ؒ کی توہین کرنا ،صوفیاعظام ؒ کو مشرک بدعتی قرار دینا ہی مسلک اہلحدیث کا منشور ہے۔یہ نام نہاد اہلحدیث اپنی خود ساختہ تحقیق کو ہی دین سمجھتے ہیں،اور جہاں چاہتے ہیں اکابرینؒ کی تعبیر کو انکی خطا قرار دیکر اپنی من مانی تعبیر کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں،سو اسی خیال سے اکابرین اہلحدیث ؒ کا جو منہج انکے ہی حالات زندگی سے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تا کہ احباب کےسامنےسورتحال نکھر کر سامنے آ سکے،اور نام نہاد اہلحدیث کا کذب و افترا ء کھل کر سامنے آ جائے۔​
حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ کا مسلک:۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رحیم آباد سے میاں صاحبؒ گاڑی پر ریلوے اسٹیشن وینی آ رہئے تھے،اور مولانا محمد ابرھیم صاحب علیہ الرحمتہ آروی ہمراہ تھے،رستہ میں مولانا مرحوم نے میا ں صاحبؒ سے لباس مستورات کی نسبت پوچھا،ساڑی پہننا عورتوں کیلئے جائز ہے یا نہیں؟ میاں صاحبؒ نے جواب دیا ہمارے حضرت جائز کہتے تھے۔مولانا مرحوم نے عرض کیا حضرت کا کہنا کوئی شرعی حجت تو نہیں ہو سکتا،اس پر فرمایا ،کیا تمھارے نزدیک یہ سب حضرات گھس کٹے تھے،تمھیں ایک شیخ چلی پیداہوئےہو۔
ایک دفعہ بخاری پڑھاتے وقت آپ نے کسی حدیث کی تائید میں بوستان کا ایک شعر پڑھا ،ایک شوخ چشم طالب علم بول پڑھا، بوستان کیاہے،گویا بخاری کی شرح ہے،آپ نے فرمایا،تم بوستان کو سمجھتے کیا ہو؟مجھ سے پڑھو اسکی حقیقت تم کو معلوم ہو۔(الحیات ص ۱۶۶)​
مولانا بہاریؒ فرماتے کہ :۔​
’’ میاں صاحبؒ اپنے اساتذہ جناب مولانا شاہ ولی اللہؒ جناب مولانا شاہ عبد العزیزؒ ،مولانا شاہ محمد اسحاق قدس سر ہم اور انکے خاندان کا بہت ادب کرتے تھے ،اکثر قرآن وحدیث کے ترجمعے کے موقعہ پر فرماتے:۔​
’’مجھ سے اسکا مقراضی ترجمعہ سنو جو ہمارے بزرگوں سے سینہ بسینہ چلا آتا ہے‘‘
اور بیان مسائل میں بھی انہیں بزرگوں کے اقوال سے سند لاتے اور فرماتے’’ ہمارے حضرت یوں فرماتے ہیں‘‘​
اس پر کوئی آزاد طبع طالب علم اگر کہہ دیتا حضرت کا کہنا سند نہیں ہو سکتا ،جب تک قرآن وحدیث سے سند نہ دی جائے تو بہت خفا ہو کر فرماتے:۔
’’ مردود کیا یہ حضرت گھس کٹے تھے،ایسی ہی اڑان گھائی اڑاتے تھے‘‘۔​
مولانا بہاریؒ مزید لکھتے ہیں:۔​
’’ یوں تو خاندان والی اللّہی کے ساتھ نہایت ہی شغف تھا ،اور نسبت بھی نہایت زبر دست رکھتے تھے ،مگر شاہ ولی اللہؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کی نسبت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:۔​
’’ میں ان دادا پوتوں کا قائل ہوں جو صرف قرآن و حدیث سے استنباط مسائل کرتے ،اور اپنی رائے پر اعتماد رکھتے تھے۔زید و عمر کسی مصنف سے یا عالم کی پیروی نہیں کرتے۔انکی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ فیضان الٰہی جوش مار رہا ہے‘‘۔​
جناب شاہ عبد لعزیز صاحبؒ کے بارے میں فرماتے :۔​
’’ افسوس ہے کہ زمانہ شباب ہی میں آپکی بصارت جاتی رہی،ورنہ ذہانت تو اس بلا کی تھی کہ اس حالت میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے‘‘۔(ایضاص ۱۶۶ تا ۱۶۸)​
مولانا شاہ رفیع الدین قدس اللہ سرہٗ کے ایک صاحبزادے تھےء ،جو خورجہ میں رہتے تھے ہر چند علم کی درسگاہ ان میں بہت کم تھی،مگر دہلی اکثر آتے ،اور میاں صاحب سے ملاقات کرتے ۔مولانا بہاریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے تو میاں صاحب انکے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے( ایضاص ۱۶۳)​
مولانا اسحاق بھٹی فرماتے ہیں:۔​
کہ حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلوی ؒ کا بہت بڑا حلقہ درس تھاجس میں دور دراز سے طلبہء آ کر تحصیل علم کرتے تھے،لیکن اسکے باوجودانہوں سے الگ جمعہ پڑھنا مناسب نہیں سمجھا،وہ بادشاہی مسجد میں حنفی امام کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا فرماتے رہے۔​
(برصغیر میں علما ء اہلحدیث کی آمد ص۲۸۷)​
(جاری ہے)​
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
مولانا غلام رسول قلعویؒ کا مسلک:۔مولانا عبد القادرؒ فرماتے ہیں:۔
مولوی صاحب (مولاناغلام رسول قلعویؒ )کی طبیعت میں شرک کی بو تک نہ تھی،بعض لوگوں کا مقصدآپ سے مسائل دریافت کرنیکا اکثر یہ ہوتا تھا،کہ اختلافی مسلۂ بحث پرکو چھیڑ دیا جائے،مگر مولوی صاحب کو خداوند کریم نے ایسا ذہن اور لیاقت عطا فرمائی تھی۔کہ شریروں کا مقصد پورا نہیں ہونے پاتا تھا،دوران وعظ میں ایک شخص نے دریافت کیا،کہ حضرت مہربانی فرما کر مقلد اور غیر مقلد کی بابت فیصلہ کن بیان فرمائے،کہ دوبارہ ضرورت دریافت نہ رہے۔
آپ نے فرمایا کہ بھائی یہ سمجھ کی بات ہے،اور ہے بھی بڑی موٹی بات۔مثال اسکی یوں ہے،جیسے ایک تالاب سے چار نالیاں بہتی ہیں،سو کوئی شخص خواہ خواہ کسی نالی کا پانی پیوے،وہ تالاب ہی کا پانی ہو گا۔اور کوئی شک والا براہ راست تالاب سے ہی جا کر پئے،تو وہ بھی اسی تالاب کا پانی ہے۔یہی مثال مقلد اور غیر مقلد کی ہے،صرف دل میں یہ خیال ہونا ضروری ہے کہ حضرت محمد رسول ﷺ ( ٖفدا امی و ابی) کے فعل و قول کے سامنے کسی کی کوئی وقعت نہیں ،اور یہی آئمہ مجتہدین کا فرمان بھی ہے۔آپ نے فرمایا لوگوں میں تفریق پیدا کرنا اور ناحق تکفیرکرنی یہ دونوں بہت بڑے گنا ہ ہیں۔اور موسی علیہ السلام اور ہا رون علیہ السلام کا بیان اس بات کا شاہد ہے،کہ جب آپ تو رات لینے کوہ طور پر خدا کے حکم سے گئے،تو پیچھے سامری کی شرارت سے بچھڑے کی پوجھا شروع ہو گئی،جب موسی علیہ السلام واپس آئے،بھائی پر غضبناک ہو گئے تو ہارون علیہ السلام نے جواب دیا،کہ میں تفرقہ سے ڈر گیا تھا ( ان تقول فر تت بین بنی اسرائیل)پیغمبر بھی تفرقہ کے گنا ہ کے ارتکاب سے ڈرتے تھے،معلوم نہیں کہ آج کل کے نام نہاد فقراء کس دلیری اور جسارت سے تفرقہ بازی اور تکٖفیر کی مشین سے کام لیتے ہیں،اس گناہ کے ارتکاب سے ہر مسلمان کو ضرور بچنا چاہئے۔(سوانح حیات مولانا غلام رسول قلعویؒ ص۷۰)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
="aqeel, post: 87252, member: 3141"]
مسلک اہلحدیث اہلسنت و لجماعت کے اندر ایک اصلاحی تحریک تھی،جو عامتہ الناس کو براہ راست قرآن وحدیث سے مستفید ہونے کیلئے کوشاں رہی،یہ جماعت کس حد تک ناکام یا کامیاب رہی مجھے اس بحث سے کچھ غرض نہیں ۔لیکن یہاں ایک بات بڑی شدو مد سے محسوس کی گئی ہے کہ بعض لوگ جو تو نہ تاریخ اہلحدیث سے واقف ہیں ،اور نہ اس مسلک اہلحدیث کے منہج کو سمجھتے ہیں ،ان لوگوں کے نزدیک بزرگان احناف ؒ کی توہین کرنا ،صوفیاعظام ؒ کو مشرک بدعتی قرار دینا ہی مسلک اہلحدیث کا منشور ہے۔یہ نام نہاد اہلحدیث اپنی خود ساختہ تحقیق کو ہی دین سمجھتے ہیں،اور جہاں چاہتے ہیں اکابرینؒ کی تعبیر کو انکی خطا قرار دیکر اپنی من مانی تعبیر کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں،سو اسی خیال سے اکابرین اہلحدیث ؒ کا جو منہج انکے ہی حالاتیل زندگی سے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تا کہ احباب کےسامنےسورتحال نکھر کر سامنے آ سکے،اور نام نہاد اہلحدیث کا کذب و افترا ء کھل کر سامنے آ جائے۔​
[/QUOTE]​
عقیل قریشی صاحب نے شاید کسی جگہ لکھا تھا کہ وہ خود بھی اہل حدیث ہیں (واللہ أعلم ) اور یہاں یہ کہا ہے کہ کچھ اہل حدیث نہ تو تاریخ اہلحدیث سے واقف ہیں اور نہ منہج اہل حدیث کوسمجھتے ہیں ۔ فورم پر ان کی عام مشارکات پڑھنے کے بعد یہ اندازا لگانا مشکل نہیں کہ خود عقیل قریشی صاحب بھی اسی صف میں کھڑے ہیں کہ نہ تو تاریخ اہل حدیث سے واقف ہیں اور نہ منہج اہل حدیث سے ۔
میں یہاں صرف دو باتوں پر تبصرہ کرنا چاہوں گا باقی انہوں نے جو میاں صاحب اور دیگر علماء کے اقتباسات پیش کیے ہیں بالکل انہیں علماء سے اس کے برعکس اقوال بھی نقل کیے جا سکتے ہیں بلکہ خود اسی تحریر میں ایسے اقوال موجود ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ قریشی صاحب ان کو نمایاں کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔ خیر
1۔ الزام دیا گیا ہے توہین علماء کا کہ کچھ اہل حدیث حضرات اس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

یہاں دو باتیں ہیں
پہلی بات
کہ احترام اورتوہین کا معیار کیا ہے ؟
کیا کسی کے موقف کی غلطی کو واضح کرنا یہ اس کی توہین ہے ؟ کیا دفاع قرآن وسنت کی کوشش کرنا یہ توہین ہے ؟ امت کو اس بات کی دعوت دینا جس کی دعوت سلف صالحین نے خود دی ہے یہ ان کی توہین ہے ؟
اگر یہ سب باتیں توہین ہیں اور عدم احترام کے زمرے میں آتی ہیں تو پھر اس میں آپ کے مورد طعن اہل حدیث اکیلے نہیں ہیں بلکہ سلف صالحین امت نے یہی کام کیا ہے ۔ اور ایسی توہین اور عدم احترام درست امر ہے ۔ لہذا یا تو صرف ایک خاص جماعت کو اس توہین کا مرتکب نہ ٹھہرایا جائے بلکہ دیگر سلف صالحین کے بارے میں بھی اپنے مافی الضمیر کا اظہا رکیا جائے ۔
اگر پہلے زمانے میں یہ توہین نہیں تھیں تو آج یہ توہین کے درجہ میں کیوں آ گئی ہیں اس کی وضاحت کی جائے ۔
دوسری بات
سلف صالحین میں سے کسی کو معصوم عن الخطاء سمجھنا یہ غلط بات ہے تو کسی ایک غلطی یا چند غلطیوں کو لے کر کسی کی ذات کو ہدف تنقید و توہین بنانا بھی درست نہیں ہے ۔
اگر واقعتا صحیح معنوں میں کوئی سلف صالحین میں سے کسی کی توہین کرتا ہے تو غلط ہے اس کو اپنے موقف کی اصلاح کرنی چاہیے ۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ سلف صالحین ہیں کون ؟
ہر گزرا ہوا شخص سلف صالحین کی فہرست میں نہیں آتا ۔ خیر القرون میں پائے جانے والی ہر شخصیت کا شمار سلف صالحین میں نہیں ہوتا ظاہر ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں ابو جہل ابو لہب بھی تو تھے ۔ اسی طرح بعد کے دور میں جہاں اہل سنت والجماعت موجود تھے وہیں اہل بدعت اور زنادقہ بھی موجود تھے ۔ جہم بن صفوان اور جعد بن درہم خیر القرون میں ہی اس دنیا سے ذلیل و خوار ہو کر گئے ہیں ۔
اس لیے بعض دفعہ کچھ حضرات پرسخت قسم کی تنقید کی جاتی ہے تو اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ ان کا شمار سلف صالحین میں ہوتا ہی نہیں ۔ بعض شخصیات انتہائی متنازعہ ہیں جن کو بعض لوگ اہل سنت میں سے سمجھتے ہیں بعض ان کو اہل بدعت میں سے سمجھتے ہیں اب ظاہر ہے جو ان کوسنی سمجھتا ہے وہ ان کی غلطیوں کے باوصف ان کا احترام کرتا ہے لیکن جس شخص کے نزدیک ان شخصیات کا اہل سنت میں سے ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو اگر وہ ان پر تنقید یا ان کی توہین کرتا ہے تو میرے خیال سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس نے سلف صالحین یا علماء کی توہین کی ہےٰ ۔
اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے دیگر مباحث میں بھی بہت غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں مثلا کچھ ضعیف حدیث کے رد کو انکار حدیث کا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ یہ حدیث رسول کو رد کرنا ہے ۔ حالانکہ رد کرنے والے کے نزدیک اس کا حدیث رسول ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو پھر اس کو انکار حدیث کا الزام دینا نرا تحکم و سینہ زوری ہے ۔
اب کوئی یہ بھی تو کہ سکتا ہے کہ منکرین حدیث ( عقل پرست لوگ ) بھی تو احادیث کا انکار اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ کی ہو ہی نہیں سکتیں تو پھر ان کو انکار حدیث کا الزام کیوں دیا جاتا ہے ۔ تو بات یہ ہے کہ کسی چیز کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا یا نہ کرنا یہ محض کسی کی عقل یا ذوق کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مسلمہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس طرح سنی کون ہے ؟ بدعتی کون ہے ؟ یہ باتیں بھی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتی ہیں نہ کہ کسی کی دشمنی ، عدوات یا خواہش پر مبنی ۔ لہذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ اپنی مرضی سے کسی کو سنی کا لقب دے دیا جاتا ہے اور من کے مطابق کسی کو بدعتی کا ایوارڈ دے دیا جاتا ہے ۔
کہنا یہ چاہتا تھا کہ کسی کے سنی یا بدعتی ہونے کا فیصلہ کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے جس طرح احادیث کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف ہو جاتا ہے جس طرح ایک محدث اپنے نزدیک پایہ ثبوت تک پہنچنے والی حدیث کو ایسے محدث پر حجت نہیں بنا سکتا جس کے نزدیک وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی اسی طرح اگر کسی کے سنی یا بدعتی ہونے میں اختلاف ہے تو جو شخص کسی کو سنی سمجھتا وہ کسی دوسرے شخص کو جو اس شخصیت کو بدعتی سمجھتا ہے اس کے احترام کا پابند نہیں بنا سکتا ۔
بہر صورت ان باتوں میں جلد بازی کی بجائے متانت وسنجیدگی سے کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے اور قرآن وسنت کے گہرے فہم کا ہونا ضروری ہے ۔

2۔ کہ کچھ اہل حدیث حضرات اپنی من مانی تعبیر کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں اور اکابرین کی رائے کو خطا قرار دیتے ہیں ۔

میرے خیال سے امر واقع میں ایسا کوئی اہل حدیث پیش نہیں کیا جا سکتا اگر واقعتا کوئی اس طرح کرتا ہے تو سب سمجھتے ہیں کہ وہ غلط کرتا ہے ۔
میرے خیال سے عقیل قریشی بھائی اور یہ نقطہ نظر رکھنے والے دیگر بھائیوں کو یہاں چند مثالیں پیش کرنی چاہییں کہ فلاں فلاں اہل حدیث عالم نے فلاں فلاں جگہ پر یہ کام کیا ہے ۔ بس اپنی کہی ہوئی دو قیدیں ذہن میں رکھیں
1۔ من مانی تشریح ہو 2 ۔ اکابرین کو اس میں غلط قرار دیا گیا ہو ۔
ہاں اس طرح کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں کہ کسی مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہوں تو اہل حدیث عالم نے ان میں سے کسی ایک کی بات کو قرآن وسنت کے مطابق ہونے کی وجہ سے راجح قرار دیا ہو اور دیگر آراء بلا دلیل یا خلاف دلیل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہو ۔
اگر اسی بات کو اکابرین پر نکتہ چینی سمجھا گیا ہے تو وہ لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں جو کسی ایک امام کی بات کو تھام کر باقی سب کو چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ سلف صالحین صرف امام ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، احمد رحمہم اللہ میں سے کوئی ایک نہیں ہے ، سب کے سب علماء ہیں ۔
اب ایک مسئلہ ہے اس میں بالفرض چار قول ہیں ظاہر ہے عمل تو ایک پر ہی کیا جا سکتا ہے اب ایک کو پکڑنا کیسے ہے اور باقی تین کو چھوڑنا کیسے ہے ؟
اس کے دو طریقے ہیں
ایک طریقہ یہ ہے کہ بلادلیل کسی ایک پسندیدہ امام کو پکڑ لیا جائے اور باقی تین کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ طریقہ ہے حضرات مقلدین کا ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت جس کی تائید کریں اس کو لے لیا جائے اور باقی تین کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ ہے منہج اہل حدیث ۔
اب اس بات سے قطع نظر کہ اختیار و عدم اختیار کا طریقہ کیا تھا یہ بات حتمی ہے کہ تین کو دونوں گروہوں نے ہی چھوڑا ہے یعنی ایک کو لیا اور تین کو چھوڑا ۔
اب اگر کسی امام کی بات کو نہ ماننا اس کی توہین ہے تو پھر دونوں اس میں برابر کے شریک ہیں لیکن ایک کو گستاخ علماء اور دوسرے کو آئمہ کا محب قرار دینا یہ کون سا انصاف ہے ؟
بلکہ اس سے بھی آگے بڑھیں کہ ایک گروہ چاروں آئمہ میں سے جس کی بات قرآن وسنت کے مطابق ملے اس کو اپنا لیتا ہے چاہے وہ جو مرضی ہو اور جو باتیں انکی قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہیں ان کو نہیں لیتا اس میں قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ خود ان کی بات ماننا بھی ہے کیونکہ انہوں نے کہا جب قرآن و حدیث کے مخالف ہماری بات ہو تو اس کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کو اپنا لو ۔ گویا وہ گروہ جو قرآن وسنت کو معیار قرار دیتا ہے وہ تمام آئمہ کی بات مانتا ہے کسی کی بات کو ٹھکراتا نہیں ۔ یہ اہل حدیث ہیں
جبکہ دوسرا گروہ چاہے جو مرضی ہو جائے اس نے ایک امام کے ساتھ ہی رہنا ہے اب ایک کے سوا باقی کا تو وہ پہلے ہی گستاخ ہے لیکن اس ایک کی بات جب قرآن و حدیث کے خلاف آتی ہے تو قرآن و حدیث کے مقابلے میں اس کی بات کو گلے لگا کر خود اس کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ اس کا حکم تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے خلاف میری بات کو چھوڑ دو لیکن یہ چھوڑنے کے لیےتیار نہیں ۔ یہ مقلدین حضرات ہیں
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اہل حدیث سب آئمہ کی بات مانتے ہیں جبکہ مقلدین حضرات خود اپنے امام صاحب کی بھی نہیں مانتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود گستاخ کون ہیں ؟ اہل حدیث ۔۔۔۔ فیا للعجب
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اہل حدیث سب آئمہ کی بات مانتے ہیں جبکہ مقلدین حضرات خود اپنے امام صاحب کی بھی نہیں مانتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود گستاخ کون ہیں ؟ اہل حدیث ۔۔۔۔ فیا للعجب
جس جھگڑے کو مٹانے کے لئے جن دو معتبر شخصیات(صوفی سید نذیر حسین دہلویؒ اور صوفی غلام رسول صاحبؒ) کے حوالے دیئے آپ وہی جھگڑا لے کر پھر میدان میں کود آئے ہیں بس اللہ سے دعا ہے اللہ اس امت کو ایک کر دے مگر کیا کیا جائے دعا تو عمل مانگتی ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جس جھگڑے کو مٹانے کے لئے جن دو معتبر شخصیات(صوفی سید نذیر حسین دہلویؒ اور صوفی غلام رسول صاحبؒ) کے حوالے دیئے آپ وہی جھگڑا لے کر پھر میدان میں کود آئے ہیں بس اللہ سے دعا ہے اللہ اس امت کو ایک کر دے مگر کیا کیا جائے دعا تو عمل مانگتی ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی آپ کے اتحاد امت کے جذبے میں اضافہ فرمائے ۔ اور یہ بھی سمجھ عطا فرمائے کہ امت میں کیونکر ہو سکتا ہے ۔
جن دو نکات پر میں نے کچھ عرض کیا ہے کیا یہ دونوں باتیں آپ کے مراسلے میں موجود نہیں تھیں ؟ ان دو باتوں کے بارے میں آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو امت میں اختلاف نہیں ہوا اور اگر میں نے آپ کے فہم کے سقم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تو اختلاف امت کا سبب بن گیا ہے ۔۔ سبحان اللہ ۔
یا پھر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس بات کو آپ صحیح سمجھتے ہیں اس پر سب یک زبان ہوجائیں یہی مراد ہے نا آپ کی ؟ کیونکہ آپ کی رائے سے اختلاف کرنا تو افتراق امت کا سبب ہے ۔ ۔۔۔ وا عجباہ !!!
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
اللہ تعالی آپ کے اتحاد امت کے جذبے میں اضافہ فرمائے ۔ اور یہ بھی سمجھ عطا فرمائے کہ امت میں کیونکر ہو سکتا ہے ۔
جن دو نکات پر میں نے کچھ عرض کیا ہے کیا یہ دونوں باتیں آپ کے مراسلے میں موجود نہیں تھیں ؟ ان دو باتوں کے بارے میں آپ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو امت میں اختلاف نہیں ہوا اور اگر میں نے آپ کے فہم کے سقم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تو اختلاف امت کا سبب بن گیا ہے ۔۔ سبحان اللہ ۔
یا پھر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس بات کو آپ صحیح سمجھتے ہیں اس پر سب یک زبان ہوجائیں یہی مراد ہے نا آپ کی ؟ کیونکہ آپ کی رائے سے اختلاف کرنا تو افتراق امت کا سبب ہے ۔ ۔۔۔ وا عجباہ !!!
آپ اتنا بتا دے کہ آیا اہلحدیث کہلانے والوں میں کیا نام نہاد اہلحدیث موجو د نہیں جو بزرگان دین کی توہین کرتے ہیں ؟اگر ہیں تو میں نے انکے متعلق لکھا ہے ،نہ کہ تمام اہلحدیث کے متعلق۔
اختلاف کرنا کوئی بری بات نہیں ،بشرط کے اختلاف ذاتی مفاد پر نہ ہو ،باوجود اختلافات کے بھی ہم ایک ہو سکتے ہیں۔
 
Top