• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آہ، مبلغ قرآن راہی ٴملک ِعدم ہوئے! پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی المناک شہادت

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا جذبہ فراواں
مرحوم نے قرآن و سنت کے نور کو عام کرنے کا عزم کیا اور اس کے لئے اپنی تمام تر ذ ہنی و جسمانی صلاحیتیں صرف کردیں۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے اندر ایک انقلاب انگیز تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنے اس جذبہ میں کس قدر پختہ اور مخلص تھے، اس کا اندازہ ان کے ان خیالات سے کیا جاسکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فرمایا:
”ہم نے جو پہلے زندگی گزاری، وہ اپنی عمر کا ایک قیمتی حصہ تھا جو ضائع کرلیا۔ اب ہمیں قرآنِ حکیم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تدریس قرآن کا منفرد اسلوب
آپ نے تدریس قرآن اور عربی زبان کی تعلیم کا اچھوتا، منفرد ،سہل اور آسان فہم اسلوب اختیار کیا جس کی ا س دور میں مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے عربی گرامر کو اردو /انگریز ی کی گرامر کی طرز پر آسان انداز سے پیش کیا۔ اور عربی اصطلاحات کا ترجمہ اردو اور انگلش گرامر کی اصطلاحات کی باہم مطابقت کے ساتھ بیان کرنے کا منفرد طرزِ تعلیم متعارف کرایا۔ ان کے اس طرزِ تعلیم کو تمام حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس کورس سے ہزاروں طلبا، وکلا، ججز ، پروفیسر، سرکاری آفیسرز نے استفادہ کیا۔
ان کے ایک مداح جناب امین الرحمن ان کی شہادت پر اپنے ایک مضمون میں ان کے منفرد طرزِ تدریس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”میں ان کی کلاس میں ایک طالب علم کی حیثیت سے بیٹھا تو بلامبالغہ میں نے قرآن کے اسباق کا اچھوتا اور انتہائی آسان فہم انداز، عربی اصطلاحات کا ترجمہ، اردو اور انگلش گرامر کی اصطلاحات سے مطابقت کے ساتھ بیان کرنے کا ایسا انوکھا اور پیارا اسلوب دیکھا کہ اس سے پہلے کہیں مشاہدہ نہ کیا تھا۔ بلکہ میں نے ان کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ان کی وسعت ِظرفی اور روا داری
مرحوم اگرچہ ابتدا میں علمی طور پر دوسرے فرقوں سے چشمک کا شکار رہے لیکن ’رحمانیہ‘ میں ان کا قیام غیر شعوری طور پر اعتدال کی راہ دکھاتا رہا ، آخر کار قرآنی عربی کی تدریس نے انہیں قرآن و سنت پر کاربند رہ کر فکر ی جمود اور فرقہ واریت سے کنارہ کشی کی صورت ہرمعاملہ میں وسعت ظرفی اور رواداری پر مائل کرلیا تھا، لہٰذا وہ اب اس بات کے شدید متمنی رہتے کہ ملک میں وسعت ِظرفی اور مذہبی رواداری کے جذبہ کو فروغ دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شہادت سے چند روز قبل روزنامہ ’جنگ‘ کے تحت ہونیوالے ایک پروگرام (روا داری اور مذہبی ہم آہنگی، تعلیمات ِنبوی کی روشنی میں) میں اظہارِ ِخیال کرتے ہوئے کہا تھا :
”جہاں تک خود مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کے سلسلے میں میری تجویز ہے کہ جب تک دینی مدارس میں ایک مخصوص فقہ کی بجائے مذاہب ِاربعہ کی فقہ کا تقابلی مطالعہ نہیں کروایا جائے گا، اس وقت تک وسعت ِظرفی اور مذہبی رواداری کا جذبہ پروان نہیں چڑھے گا اور نہ ہی فکری جمود کا خاتمہ ہونا، ممکن ہوسکے گا۔ ہمارے مدارس میں تقابلی تعلیم کے اہتمام سے تعصب اور فکری جمود ختم نہیں ہورہا۔ اسی طرح ائمہ اور خطباءِ مساجد کے لئے کوئی معیار مقرر کیا جانا ضروری ہے۔ کم از کم ان کے لئے یہ تو لازمی قرار دیا جائے کہ وہ قرآن کے ترجمہ سے آشنا ہوں جبکہ ان کی ۷۰ فیصد اکثریت قرآن مجید کے مکمل ترجمہ سے بھی واقف نہیں۔ دین ہماری متاع ہے اور ہم نے اسے مذہبی پیشواؤں کے سپرد کررکھا ہے۔ ا س کے سدباب کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوسکے۔“
ان کے یہ خیالات ان کی قرآنِ مجید سے والہانہ محبت و شیفتگی، ملت ِاسلامیہ کے اتحاد کے لئے فکری جمود کو ختم کرنے کے شدید جذبہ کا اعلیٰ مظہر ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شہادت پر مذہبی اور سیاسی زعما کے تاثرات
ان کی شہادت کی خبر ملک کے تمام اخبارات میں شہ سرخیوں میں چھپی اورتمام مذہبی اور سیاسی طبقوں نے ان کی شہادت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شہادت کو ایک عظیم سانحہ، امت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان اور ان کے قتل کو ملک و ملت کے لئے نہایت گہری سازش کا شاخسانہ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائے۔
ندائے خلافت کے مدیر جناب حافظ عاکف سعید نے اپنے اداریہ میں ان کی شہادت پر گہرے غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ
”جناب عطاء الرحمن ثاقب جیسے جوان ہمت و جوان سال خادمِ قرآن و عربی زبان کی شہادت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ انہوں نے بطورِ معلم و مدرس عربی زبان اپنے کیریئر کا آغاز قریباً دس سال قبل محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے قائم کردہ کالج سے کیا تھا۔ یہ ان کی شخصی عظمت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ برملا اس امر کا اعتراف کرتے تھے کہ عربی زبان کی تدریس کا یہ سہل انداز انہوں نے قرآن کالج سے ہی حاصل کیا تھا، بعد میں انہوں نے اسے تحریک کی شکل دے کر اپنی اُخروی کمائی میں بے پناہ اضافہ کا موجب بنایا۔ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا کہ یہ سانحہ ملک و قوم کے خلاف گہری سازش کا شاخسانہ ہو۔ قرآنِ حکیم اور اس کی زبان کی تدریس وترویج میں ہمہ تن مصروف و منہمک ایک ایسے ایسے عالم دین کا قتل جو فرقہ وارانہ سرگرمیوں سے کوسوں دور ہو، خوف و ہراس اور بے چینی کی اس فضا کو کئی گنا زیادہ آلودہ اور دبیز کرنے کاموجب ہے۔“ (ندائے خلافت: جلد۱۱، شمارہ ۱۱)
ان کے جنازہ کے موقع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر کے فرزند جناب حافظ ابتسام الٰہی نے کہا:
”پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کلام اللہ کے صحیح عالم تھے، وہ آج بھی زندہ ہیں۔ ان شہادتوں سے کلام اللہ کو پھیلانے کا سفر رک نہیں سکتا۔“
جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما جناب حافظ عبدالسلام بھٹوی نے کہا:
”مرحوم عطاء الرحمن ثاقب نے اپنی زندگی قرآن کی اشاعت کے لئے وقف کررکھی تھی اور وہ تمام حلقوں کی غیر متنازعہ شخصیت تھی۔“
ملت پارٹی کے سربراہ جناب فاروق احمد لغاری نے ان کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے عالم کا ہم سے بچھڑ جانا ایک بڑا سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔
۵/اپریل ۲۰۰۲ء کو اسلامک فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام ہمدر د ہال میں پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی یاد میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان کررہے تھے۔ اس میں حافظ عبدالسلام بھٹوی، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، لیاقت بلوچ، میاں محمد جمیل، عبدالغفار روپڑی، پروفیسر مزمل احسن شیخ، رانا شفیق پسروری، قاضی عبدالقدیر خاموش، انجینئر سلیم اللہ ، ڈاکٹراجمل قادری، مولانا زبیر احمد ظہیر اور کئی دیگر زعما نے خطاب کرتے ہوئے ان کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
”کفار کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ قرآن کی تعلیمات ہیں۔ پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لئے خدمات انتہائی عظیم ہیں۔ انہوں نے ایسے دور میں جب شخصیت پرستی اور نعرے بازی کا دور عام ہوچکا ہے۔ انتہائی خاموشی سے قرآن سمجھنے اور سمجھانے کی تحریک برپا کررکھی تھی۔ جس کے نتیجے میں چراغ سے چراغ جلتا تھا اور یہ روشنی پھیلتی رہی ۔“
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان نے ان کی خدمات کوسراہا اور کہا
” پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب، حنفی، شافعی ، سلفی، سنی سے قطع نظر صرف اور صرف معلم قرآن تھے۔ مجھے انکے ساتھ تقریباً دو سال گزارنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جو مسئلہ بھی پیش ہوا، انہوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ انکی شہادت کا غم پوری امت ِمسلمہ کا غم ہے“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مرحوم کے تلامذہ
مرحوم نے سات سال قبل اپنی فہم قرآن تحریک کا آغاز کیا اور اب تک لاہورمیں بیسیوں مراکز کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی فہم قرآن کورسز کا آغاز کیا جاچکا تھا جو اب تک جاری ہے اور اس سات سال کے عرصہ کے دوران آپ کے شاگردوں کی تعداد ۹ ہزار سے تجاوز کرچکی تھی جنہیں آپ نے قرآنی تعلیمات سے روشناس کروایا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شہادت
ان کے ایک عقیدت مند شاگرد قاری عبدالحفیظ کا بیان ہے کہ
”پروفیسر ثاقب بڑے متقی اور تہجد گزار انسان تھے۔ ۱۹/ مارچ ۲۰۰۲ء بروز منگل شہادت کے دن بھی آپ نے حسب ِمعمول تہجد ادا کی اور نمازِ فجر سے لے کر ۳۰:۶ تک اوراد و وظائف میں مشغول رہے۔ پھر ناشتہ کیا، سات بجے گھر سے نکلے، اور سات بج کر بیس منٹ پر اے جی آفس کے اندرونی دروازے پر پہنچے۔ ابھی گاڑی سے اتر کر چند قدم بھی نہ چل پائے تھے کہ وہاں پر موجود دو سفاک درندوں نے قرآن کے اس مبلغ پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ گولیاں آپ کے سر میں لگیں اور آپ موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے۔ اس کے بعد ان درندوں نے آپ کے ڈرائیور شیراز پرگولیاں برسا کر انہیں بھی موت کی نیند سلا دیا۔“ انا لله وانا اليه راجعون!
اس کے بعد آپ کو ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں سے آپ کاجسد خاکی گلشن راوی آپ کے سسرال منتقل ہوا۔ آپ کی شہادت کی خبر ریڈیو پرنشر کی گئی۔ شہادت کی خبر پھیلتے ہی تمام حلقوں میں غم و اندوہ کی ایک لہر دوڑ گئی۔۳۰:۳ پر آپ کو غسل دیا گیا اور ابھی تک آ پ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور چہرے پر پرسکون مسکراہٹ تھی۔ جنازہ کے لئے ناصر باغ کا چناؤ کیا گیا اور ۵ بجے کا وقت مقرر ہوا۔ لوگ چار بجے سے ناصرباغ میں جمع ہونا شرو ع ہوگئے۔ جنازہ کے وقت دور دور تک لوگوں کے سر ہی سر دکھائی دیتے تھے۔ میں نے ہر آنکھ کو آشکبار دیکھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شام ۱۵ :۵ پر علامہ شہید کے فرزند حافظ ابتسام الٰہی ظہیرنے ۵ منٹ کے لئے مرحوم کے متعلق گفتگو کی اور اس کے بعد انتہائی رقت آمیز انداز میں نمازِ جنازہ پڑھائی۔ان کے علمی مربی حافظ عبد الرحمن مدنی اس حادثہ فاجعہ کے وقت سوڈان کے دورہ پر تھے، جہاں بذریعہ ٹیلی فون انہیں اطلاع دی گئی لیکن وہ جنازہ میں شرکت نہ کرسکے۔ جنازہ میں جن دیگر نامور شخصیات نے شرکت کی، ان میں مرکزی جمعیت کے امیر پروفیسر ساجد میر، جماعة الدعوة کے رہنما حافظ عبدالسلام بھٹوی، میاں محمد جمیل، حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا عبدالسلام فتح پوری، حافظ عبدالرزاق، مولانا زبیر احمد ظہیر، جامعہ رحمانیہ کے ناظم محمد شفیق مدنی، قاری ابراہیم میر محمدی، محدث کے مدیر حافظ حسن مدنی،جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، حافظ ادریس احمد، ڈاکٹر راشد رندھاوا، ضلعی ناظم میاں عامر محمود، صوبائی مشیر مولانا طاہر محمود اشرفی، صوبائی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد سمیت مختلف مکاتب ِفکر کے ہزاروں افرادشامل تھے۔
بعد ازاں مرحوم کی میت فیصل آباد لے جائی گئی اور رات دس بجے علامہ اقبال کالونی ٹینکی والی مسجد میں دوسری مرتبہ آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ جس کی امامت جامعہ سلفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی نے کروائی۔ جس میں جامعہ سلفیہ، جامعہ دارالقرآن، جامعہ تعلیمات کے اساتذہ و طلبا کے علاوہ علاقہ کی سینکڑوں معروف شخصیات نے شرکت کی۔ اس کے بعد میت آپکے آبائی گاؤں چک ۴۷۴گ ب سمندری فیصل آباد میں لے جائی گئی۔ اور اگلے دن صبح ۱۰:۸ بجے آپ کے بہنوئی مولانا عبدالتواب کی امامت میں تیسری مرتبہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ جس میں جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے اساتذہ و طلبا کے علاوہ علاقہ کے بے شمار لوگ شریک ہوئے اور گاؤں کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا جنازہ تھا۔ اس کے بعد ۰۰:۹ بجے آپ کی میت کو لحد میں اتارا گیا۔ اس طرح یہ مبلغ قرآن شہر خموشاں میں ابدی نیند سوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
زندگانی تھی مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوانِ سحر مر قد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا
آپ نے دو بیویاں اور تین بچے (ایک لڑکی دو لڑکے) اپنے پیچھے سوگوار چھوڑے ۔ اللہ ربّ العزت آپ کے اہل و عیال کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کے مشن کو تاقیامت جاری رکھے۔ آمین!
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,403
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جناب عطاء الرحمن ثاقب کے مضامین ومقالات
ماہنامہ ’محدث‘ لاہور
ابراہیم شقرہ،محمد نبی اکرم اکا اندازِ تربیت جلد۱۳ عدد۱ ۱۰ تا ۱۳
ابن تیمیہ،شیخ الاسلام نصیری فرقے کا تعارف جلد۱۲ عدد۱۱ ۲۱ تا ۳۴
فقہی اختلافات کی اصلیت از شاہ ولی اللہ(مترجم:مولانا عبیداللہ بن خوشی محمد) جلد۱۲ عدد۳ (تبصرہ نگار) ۴۷
ماہنامہ ’ترجمان الحدیث‘ لاہور
عطاء الرحمن ثاقب جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! فروری ۸۳ء ۳ تا ۷
ماہنامہ ’ترجمان السنة‘ لاہور
احسان الٰہی ظہیر تصوف ۱۲/اقساط میں (مترجم:عطاء الرحمن ثاقب) دسمبر ۸۹ء تا اگست ۹۲ء
احسان الٰہی ظہیر شیعہ اور اہل سنت (مترجم:عطاء الرحمن ثاقب) دسمبر ۸۹ء
عطاء الرحمن ثاقب اسلامی انقلاب اور توحید اکتوبر۱۹۹۰ء
عطاء الرحمن ثاقب شریعت بل کے متعلق چند گذارشات مئی ۱۹۹۱ء
عطاء الرحمن ثاقب شریعت بل ،متن ،تبصرہ، جائزہ جون ۱۹۹۰ء
عطاء الرحمن ثاقب شیعہ اور عقیدہ ختمِ نبوت(۲/اقساط) جنوری،فروری۱۹۹۰ء
عطاء الرحمن ثاقب علامہ احسان شہید اور فرقِ باطلہ مارچ ۱۹۹۱ء
عطاء الرحمن ثاقب علامہ احسان شہید کی یادمیں! مارچ ۱۹۹۱ء
عطاء الرحمن ثاقب غلام حیدر وائیں کا قتل…ایک وضاحت اکتوبر ۱۹۹۳ء

اس(مکمل) مضمون کو پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیراعبد الرشید بھائی!
مضمون کے آخر میں لنک دینے کی بجائے شروع میں پہلی پوسٹ میں ہی اس کا لنک کتاب وسنت ڈاٹ کام سے دے دیں! شکریہ!
 
Top