- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ڈاکٹر صاحب ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے
کراچی کے باسی کے لیے یہ انتہائی تعجب خیز بات تھی، وقت کی نامور شخصیت محض ملاقات کے غرض سے آنے والوں سے گھنٹوں محفل جمائے رکھے، دوستانہ ماحول میں اپنے بچپن، مزدوری اور طالب علمی کے دل چسپ واقعات سنائے، حاضرین کی بات غور سے سن کر اسے اہمیت دیں، یہ اکابرینِ حقانیہ کا خاص وصف ہے.
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نوشہرہ کے امیر مولانا قاری اسلم صاحب کی معیت میں ان کے دولت کدہ پر بعد نماز عصر حاضر ہوئے، انہوں نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا، میرا کراچی سے تعلق جان کر مسکراتے ہوئے اردو میں پوچھنے لگے پشتو بھی بول لیتے ہو یا ہمیں اردو ہی بولنا پڑے گی؟ بعد نماز عصر شروع ہونے والی یادگار محفل مغرب کی اذان نے ہی برخاست کی، ان کا اتنی آسانی سے ملاقات کے لیے دستیاب ہونا اور پھر طویل ساعات ساتھ بِتانا یہ سب کراچی کے باسی کے لیے حیرت انگیز تھا.
ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا، والد صاحب زمین دار تھے، ڈاکٹر صاحب خود بھی بحالی صحت تک شوقیہ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ابتدا سے دورہ حدیث تک تعلیم حاصل کی، ۱۹۵۵ء میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کی خواہش پر جامعہ سے منسلک ہوئے، ۱۹۷۳ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، وہاں سے پی ایچ ڈی ڈگری سمیت شعبہ قضاة میں ایم فل کیا، تقریباً بارہ سال مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی تشریف لائے اور دار العلوم کورنگی جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال میں دوسال استاذ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، ازاں بعد شیخ الحدیث مولانا محمد فرید کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے، انہوں نے شیخ التفسیر مولانا احمد احمد لاہوری اور حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی سے قرآن کی تفسیر پڑھی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرپرستوں میں ان کا شمار ہوتاتھا، انہیں عربی، اردو، پشتو، فارسی اور انگلش زبان پر عبور حاصل تھا، وہ پاکستان اور افغانستان کے ہزاروں علماء ومشائخ کے استاذ تھے، افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا، ان کے ہاتھوں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں متعدد اہم تصانیف منصہ شہود پر آئیں.
شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمہ اللہ کئی ماہ سے مختلف امرض میں مبتلا تھے، کل بعد نماز جمعہ حالت نازک ہوگئی اور عصر کے بعد لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ اس دار فانی سے کوچ کرگئے، ڈاکٹر صاحب ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے.
(منقول)
کراچی کے باسی کے لیے یہ انتہائی تعجب خیز بات تھی، وقت کی نامور شخصیت محض ملاقات کے غرض سے آنے والوں سے گھنٹوں محفل جمائے رکھے، دوستانہ ماحول میں اپنے بچپن، مزدوری اور طالب علمی کے دل چسپ واقعات سنائے، حاضرین کی بات غور سے سن کر اسے اہمیت دیں، یہ اکابرینِ حقانیہ کا خاص وصف ہے.
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نوشہرہ کے امیر مولانا قاری اسلم صاحب کی معیت میں ان کے دولت کدہ پر بعد نماز عصر حاضر ہوئے، انہوں نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا، میرا کراچی سے تعلق جان کر مسکراتے ہوئے اردو میں پوچھنے لگے پشتو بھی بول لیتے ہو یا ہمیں اردو ہی بولنا پڑے گی؟ بعد نماز عصر شروع ہونے والی یادگار محفل مغرب کی اذان نے ہی برخاست کی، ان کا اتنی آسانی سے ملاقات کے لیے دستیاب ہونا اور پھر طویل ساعات ساتھ بِتانا یہ سب کراچی کے باسی کے لیے حیرت انگیز تھا.
ان کا تعلق سادات خاندان سے تھا، والد صاحب زمین دار تھے، ڈاکٹر صاحب خود بھی بحالی صحت تک شوقیہ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ابتدا سے دورہ حدیث تک تعلیم حاصل کی، ۱۹۵۵ء میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کی خواہش پر جامعہ سے منسلک ہوئے، ۱۹۷۳ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، وہاں سے پی ایچ ڈی ڈگری سمیت شعبہ قضاة میں ایم فل کیا، تقریباً بارہ سال مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی تشریف لائے اور دار العلوم کورنگی جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال میں دوسال استاذ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، ازاں بعد شیخ الحدیث مولانا محمد فرید کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے، انہوں نے شیخ التفسیر مولانا احمد احمد لاہوری اور حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی سے قرآن کی تفسیر پڑھی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سرپرستوں میں ان کا شمار ہوتاتھا، انہیں عربی، اردو، پشتو، فارسی اور انگلش زبان پر عبور حاصل تھا، وہ پاکستان اور افغانستان کے ہزاروں علماء ومشائخ کے استاذ تھے، افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا، ان کے ہاتھوں تفسیر وحدیث کے علاوہ دیگر علوم میں متعدد اہم تصانیف منصہ شہود پر آئیں.
شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمہ اللہ کئی ماہ سے مختلف امرض میں مبتلا تھے، کل بعد نماز جمعہ حالت نازک ہوگئی اور عصر کے بعد لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ اس دار فانی سے کوچ کرگئے، ڈاکٹر صاحب ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے.
(منقول)