القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
آیت ِتحکیم کی صحیح تفسیر
اور
حکمرانوں کی غلط تکفیر
فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
" وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ )، و ( الظَّالِمُونَ )، و ( الْفَاسِقُونَ ) [المائدۃ: 45،46،47]
یہ تمام آیتیں کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ اس کے شان نزول میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث[1] ہے ۔ ایک مسلمان کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس کلام میں اضمار ہے اسی لئے پورے کلام کو اس طرح سمجھنا چاہیے:
"ومن لکم یحکم بما انزل اللہ ردا للقرآن وجحرا لقول الرسول ﷺ فھو کافر"
’’جو شخص قرآن کریم کا رد اور رسول اللہ ﷺ کے قول کا انکار یا بالکل ترک کرتے ہوئے اللہ تعالی کےنازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘
یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
چنانچہ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
"ومن لم یحکم بما انزل اللہ فقد کفر ومن اقر بہ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق"۔
’’ جو اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ کافر ہے لیکن جو حکم الہی کا اقرار تو کرتا ہے مگر (کسی مجبوری کے سبب)اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق ہے۔‘‘
یعنی کافر نہیں ہے۔ سعید بن منصور، فریابی، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی میں انہی سے روایت ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اصل کفر یا ظلم یا فسق مراد نہیں یعنی کفر سے کم تر کفر جس سے خروج عن الملۃ (ملت اسلامیہ سے خروج) نہیں ہوتا، ظلم سے کم تر ظلم اور فسق سے کم ترفسق مراد ہے۔
(در منثور، ص ٢٨٦، ج ٢)
ابن جریر ،ص: 256، ج:6 میں امام طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ سے روایت لاتے ہیں کہ
"لیس بکفر ینقل عن الملۃ" یعنی ’’یہ وہ کفر نہیں جو(ملت اسلامیہ) سے خارج کرتا ہے۔‘‘ اس اعتبار سے آیت عام ہے۔
ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’یہ آیتیں سب کے لئے عام ہیں، خواہ مسلمان ہوں یا اہل کتاب اس معنی کے اعتبار سے تو جو کوئی بھی غیراللہ کے حکم کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے اور اس قانون کو حلال سمجھتا ہے تواس کے لئے یہ حکم ہے لیکن جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے بھی اس کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق مسلمانوں میں سے ہے اور اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے چاہے تو اسے عذاب کرے یا چاہے تو بخش دے‘‘۔
[ القرطبی، ص:170، ج:6،تشریح کے ساتھ]
ناظرین! اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔جسے امام ذہبی نے ’’ الکبائر‘‘ ، ص :146، کبیرہ:31 ،میں بیان کیا ہے۔ لیکن کبیرہ گناہ کے بسبب کسی مسلمان کو اسلام سے خارج نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ اپنے اس کئے گئے فعل کے صحیح ہونے یا برحق ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا، بلکہ اسے غلط سمجھتا ہے لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے قضاء الہی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ ظالم اور فاسق تو ضرور ہے مگر اسے کافر یا اسلام سےخارج نہیں کہہ سکتے۔
یہی اہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے۔ لیکن خوارج ہر گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں جس کا بیان کچھ تو مقدمہ میں اور کچھ تفسیر فاتحہ کے اختتام باب: 2 میں ہوا۔ وہ (خوارج) انہیں آیتوں سے استدلال کرتے ہیں اور دوسری طرف کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ وطریقۂ کار رہا ہے۔
لیکن اہلسنت کہتے ہیں کہ کفر اور اسلام سے خارج ہونے کا حکم اس کے لئے ہے جو باوجود امکان کے اللہ تعالی کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے یا پھر اس کے لئے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو مگر یہ اس صورت میں کہ وہ وضعی وخود ساختہ قانون کو برحق سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرے۔
اس نقطہ کو نا سمجھنے کی وجہ سے کتنے ہی بیچارے بے سمجھ لوگ، جن میں جوش تو بہت ہوتا ہے مگر ہوش کم، وہ بعض حکام پر اپنے گھر بیٹھے بیٹھے کفر کا فتویٰ لگانے کے لئےتیار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کے پاس حکومت کی باگ ڈور نہیں لہذا اس طرح کی جلدبازی صحیح نہیں۔ کیونکہ کفر کا فتویٰ لگانا بہت خطرناک کام ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ:
"ایما امریء قال لاخیہ کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ."
(مسلم، ص:57، ج:1 شرح نووی کے ساتھ)
رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ:’’ جس نے اپنے بھائی(مسلمان) کو کافر کہا تو اس کلمہ کا ان میں سے کوئی ایک مصداق بنے گا۔ اگر اس کا ایسا کہنا واقعی صحیح ہے تو فبہا ورنہ یہ فتوی خود اس کے سر لوٹ آئے گا۔‘‘
اسی لئے ایسے فیصلوں میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حکام شرعی فیصلوں کو برحق اور واجب الاتباع سمجھتے ہیں مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے نافذ کرنے سے عاجز ہیں، حالانکہ وہ غیرشرعی فیصلے پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتے لیکن لاچار انہیں نافذ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی نیت پر فوراً حملہ کرنا دانشمندی نہیں۔
اگرچہ وہ شرعی حکم نافذ نہیں کرسکتے لیکن مسلمانوں کو بہت سا فائدہ پہنچا سکتے اور ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ان کی مخالفت کرکے انہیں ہٹانے سے دوسرے ذیادہ (بڑے) نقصانات کا اندیشہ ہے اسی لئے ہمارے دوستوں کو اس معاملے میں سنبھل کرقدم اٹھانا چاہیے۔
[بدیع التفاسیر جلد:7 تفسیر سورۂ مائدۃ ایڈیشن جنوری:1998،صفحہ:238]
فضیلۃ الشیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ
[1] یہودیوں کا زانی کے سنگسار کی سزا کو بدل ڈالنے والے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ [مترجم]