اس قول کی مذکورہ اسانید کے علاوہ اور بھی کئی اسانید ہیں۔ اس کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے۔
امام سفیان الثوری سے مجھے خاص لگاؤ ہے، ان کی سیرت بھی میں نے جمع کر رکھی ہے اور اس میں یہ قول مذکور ہے۔ سفیان نے جس علم کو بھی ہاتھ لگایا اس کے وہ امام بن گئے۔ حدیث میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اور آپ کو امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب دیا گیا ہے یہاں تک کہ حدیث میں آپ کا مقام شعبہ سے بھی اونچا ہے۔ فقہ میں آپ کا مقام یہ ہے کہ یحیی القطان وغیرہ جیسے لوگوں نے کہا کہ آپ مالک سے بھی بڑے فقیہ تھے، اور آپ کا فقہی مذہب ساتویں ہجری تک بھی قائم تھا اور کئی کبار ائمہ آپ کے مذہب کے پیروکار رہے ہیں۔ تفسیر قرآن اور قراءت قرآن میں بھی آپ کو امام کہا گیا ہے یہاں تک آپ کی تفسیری روایات کو بھی اکھٹا کیا گیا ہے۔ اور لوگ آپ سے قراءت قرآن بھی روایت کیا کرتے تھے۔ تقوی اور زہد میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا، اور حال یہ تھا کہ آپ آخرت اور موت پر اتنا غور وفکر کیا کرتے تھے کہ راتوں کو نیند سے گھبرا کر اٹھ جاتے اور موت موت پکارنے لگتے۔
امام سفیان الثوری جیسے ائمہ کی سیرت پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اصل علم اور تقوی کس چڑیا کا نام ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ مدرسوں وغیرہ میں طلباء کو سب سے پہلے ان ائمہ کی سیرت پڑھانا چاہیے تا کہ ان کے اندر ادب اور نرمی پیدا ہو اور علم کے اصل حاملین کی پہچان ہو۔
اللہ ہمیں سلف صالحین کی اچھی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین۔