• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

أنوار التوضيح لركعات التراويح (مسنون رکعات تراویح)

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
رکعات تراویح پر نئی کتاب
=============
أنوار التوضيح لركعات التراويح (مسنون رکعات تراویح)
تالیف: کفایت اللہ سنابلی
صفحات : 400 ، طباعت : دارالسنہ ایم ، پی انڈیا۔
=============
اس کتاب کی چند نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
✿ اس موضوع سے متعلق تمام مرفوع و موقوف روایات کی جملہ اسانید پر بحث ہے، اس سے قبل اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں مخالفین کی طرف سے جو بعض بے سند روایات پیش کی جاتی تھیں، ان کے جواب میں ہماری طرف سے صرف سند کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب بعض نئی کتابوں کی طباعت کے بعد فریقِ مخالف کی طرف سے پیش کردہ ایسی روایات کی سندیں بھی منظرِ عام پر آگئی ہیں، لہٰذا زیرِ نظر کتاب میں ان کی حقیقت بھی واضح کر دی گئی ہے۔
✿ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر احناف نے اضطراب کا جو اعتراض کیا ہے اس کا مفصل جواب پہلی بار اس کتاب میں قارئین پڑھیں گے ۔
✿ رات کی نماز میں گیارہ رکعات سے زائد پڑھنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، اس سلسلے کی جملہ روایات پر سیر حاصل بحث شاید اس کتاب کے علاوہ کسی اور مقام پر قارئین کو نہ ملے۔
✿ عہدِ فاروقی سے متعلق موطا کی روایت پر شذوذ وغیرہ کے جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، ان کے مفصل جوابات بفضلہ تعالیٰ اس کتاب میں قارئین پہلی بار ملاحظہ فرمائیں گے۔
✿ کسی بھی روایت پر صحت و ضعف کا حکم لگانے کے لیے محض اس کی ظاہری سند دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا گیا، بلکہ ہر روایت پر حکم لگانے سے پہلے اس کے تمام طرق و اسانید نیز جملہ متابعات و شواہد کو پیشِ نظر رکھنے کی حتی المقدرکوشش کی گئی ہے۔
✿ اسانید کی تحقیق اور روایات پر حکم لگانے میں محدثین کے منہج پر چلتے ہوئے وہی طریقہ اپنا یا گیاہے جس کی وضاحت ہم نے اپنی کتاب ’’أنوار البدر في وضع الیدین علی الصدر‘‘ (ص: ۴۳۔۶۱) میں کی ہے۔
✿ تابعی کا قول و عمل کسی کے یہاں بھی حجت و دلیل کی حیثیت نہیں رکھتا، لہٰذا تابعین سے متعلق جملہ روایات پر بحث نہیں کی گئی، تاہم یہ ضرور واضح کیا گیا ہے کہ تابعین میں ایک جماعت نے نمازِ تراویح میں مسنون تعداد، یعنی گیارہ رکعات ہی کو اپنایا ہے اور یہی راجح ہے، جب کہ بعض تابعین نے نفل سمجھ کر کچھ اضافی رکعات بھی پڑھی ہیں، لیکن کسی معین و مخصوص تعداد پر ان کے یہاں کوئی اتفاق نہیں پایا جاتا، بلکہ بعض نے تیس رکعات پڑھی ہیں تو بعض نے چالیس
رکعات پڑھی ہیں، جب کہ بعض نے سینتالیس رکعات بھی پڑھی ہیں۔
✿ ایک بریلوی عالم احمد یار خان نعیمی کی ’’جاء الحق‘‘ نامی کتا ب میں بیس رکعات کو سنت ثابت کرنے کے لیے بعض عجیب و غریب اور مضحکہ خیز استدلالات پیش کیے گئے تھے، اس کتاب میں ان کے تسلی بخش جوابات بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔
✿ حرمین میں بیس رکعات کی نوعیت اور اس کے پسِ منظر پر بھی مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
✿ علمائے احناف میں بہت سارے حضرات نے اعتراف کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح ہی پڑھی ہیں، اس سلسلے میں ایک کثیر تعداد کے حوالے اصل کتابوں سے پیش کیے گئے ہیں۔

Titale 1.jpeg
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
ما شاء الله کتاب کافی عمدہ لگ رہی ہے ہم کراچی والے یہ کتاب کہاں سے حاصل کرسکتے ہیں اور آپ کی باقی کتب کی فہرست مل سکتی ہے کیا؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کراچی میں مکتبہ قرآن و حدیث مرکزی جامع مسجد اہلحدیث کورٹ روڈ پر ایک ہفتہ بعد دستیاب ہوگی
باقی کتب کی فہرست انوار البدر کے آخری ایڈیشن میں ہے
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
”أنوار التوضيح لركعات التراويح“ کا پہلا اڈیشن ختم، دوسرا اڈیشن طباعت کے مرحلے میں

❀ ❀ ❀ ❀ ❀ ❀ ❀ ❀
✿ الحمدللہ کتاب کا پہلا اڈیشن فروخت ہوکر تقریبا ختم ہوچکا ہے ، ناشر کے پاس صرف چند ہی نسخے بچے ہیں ،کتاب کے پریس میں جاتے ہی لگ بھگ آٹھ(800) سو نسخے بک ہوچکے تھے ، طباعت کی تکمیل کے بعد بقیہ نسخے بھی ختم ہونے کے قریب ہیں ، باوجود اس کے کہ اب تک کسی مکتبہ کو کتاب نہیں بھیجی گئی ہے، بلکہ شائقین نے انفرادی طور پر ہی کتابیں بک کروائی ہیں۔اس کامیابی پر ہم اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ رب العالمین ہمیں مزید توفیق و نصرت سے نوازے آمین ۔
✿ کتاب کی تالیف وتکمیل اور بعض مراجع ومصادر کی فراہمی میں جن احباب و علم دوست حضرات نے بھی تعاون کیا ہے ، ہم سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ، نیز اپنے قارئین اور ان تمام بھائیوں کے بھی سپاس گذار ہیں جنہوں نے کتاب حاصل کی اورہماری حوصلہ افزائی فرمائی ،فجزاھم اللہ خیرا۔
✿ قارئین نے جس امید اور توقع کے ساتھ کتاب کا استقبال کیا ہے ان شاء اللہ کتاب کا مواد انہیں مایوس نہیں کرے گا، اور ہماری سابقہ کتابوں کی روایت اس میں بھی برقرارملے گی ۔واضح رہے کہ چار سال قبل ”مسنون رکعات تراویح“ کے نام سے ایک مختصر رسالہ لکھا گیا تھا جو اسلامک انفارمیشن سینٹر سے ایک سو بیس صفحات پر مطبوع ہے ، اور نیٹ پر اپلوڈ بھی ہے ، یہ ایک علیحدہ رسالہ ہے ، جبکہ زیرتذکرہ کتاب الگ اور مفصل ہے جس کانام ”أنوار التوضيح لركعات التراويح“ رکھا گیا ہے یہ چار سو (400) صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی خصوصیات سابقہ کسی پوسٹ میں بتلائی جاچکی ہیں۔
✿ یہ کتاب بیرون ہند سے بھی خوبصورت کاغذ اور معیاری جلد کے ساتھ طبع ہوچکی ہے، دیگر ممالک کے حضرات آگے دئے گئے نمبرات پر رابطہ کرکے متعلقہ ناشر و مکتبات کی تفصیلات معلوم کرسکتے ہیں۔
✿ انڈیا میں کتاب کی قیمت ڈھائی سو روپے (250) مقرر ہے۔ناشر سے براہ راست کم ازکم پندرہ یا اس سے زائد نسخے خریدنے کی صورت میں 60 فی صد رعایت دی جائے گی ، ان شاء اللہ۔

● ناشر سے درج ذیل نمبرات پر رابطہ کریں:
◄ واٹس اپ نمبر:
919930099793 +
◄ کالنگ نمبر :
919165917095 +
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
اہل حدیث بھائی نماز تراویح میں ان امور کے کیا دلائل رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی صحیح احادیث ہوں تو مطلع فرمائیں۔
۱۔ سارا رمضان پڑھنا
۲۔ ختم قرآن کرنا
۳۔ باجماعت پڑھنا
۴۔ بعد عشا پڑھنا

جزاک اللہ
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64

نبی پاک ﷺ سے ۲۰ رکعت تراویح کا ثبوت

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ. (تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
اعتراض:
محمد بن حمید الرازی اور عمر بن ہارون البلخی ضعیف ہیں۔ (ضرب حق: جولائی 2012ء مضمون زبیر علیزئی
جواب:
۱۔ امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں محمد بن حمید راوی ہیں اور اس کو صحیح کہا ہے اور البانی نے بھی اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے
(۱۳۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ابن ماجہ (صحیح عند ابن ماجہ و البانی وفیھا راوی محمد بن حمید)
۲۔عمر بن ہارون کے بارے میں امام ترمذی، امام بخاری اور دیگر محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔

(شرح۲۷۶۲) ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ:‏‏‏‏ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِوَكِيعٍ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.(ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں ( یعنی بخاری کو عمر بن ہارون ) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے ( اپنے استاد ) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ ( جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے ) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412

نبی پاک ﷺ سے ۲۰ رکعت تراویح کا ثبوت

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ. (تاریخ جرجان لحافظ حمزۃ بن یوسف السھمی ص146)
اعتراض:
محمد بن حمید الرازی اور عمر بن ہارون البلخی ضعیف ہیں۔ (ضرب حق: جولائی 2012ء مضمون زبیر علیزئی
جواب:
۱۔ امام ابن ماجہ رحمة اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں محمد بن حمید راوی ہیں اور اس کو صحیح کہا ہے اور البانی نے بھی اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے
(۱۳۰۱) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الْعِيدِ رَجَعَ فِي غَيْرِ الطَّرِيقِ الَّذِي أَخَذَ فِيهِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدین کے لیے نکلتے تو اس راستہ کے سوا دوسرے راستہ سے لوٹتے جس سے شروع میں آئے تھے۔ابن ماجہ (صحیح عند ابن ماجہ و البانی وفیھا راوی محمد بن حمید)
۲۔عمر بن ہارون کے بارے میں امام ترمذی، امام بخاری اور دیگر محدثین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔

(شرح۲۷۶۲) ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ:‏‏‏‏ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِوَكِيعٍ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.(ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں ( یعنی بخاری کو عمر بن ہارون ) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے ( اپنے استاد ) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ ( جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے ) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
أبو القاسم حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي القرشي الجرجاني (المتوفى427) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ . [تاريخ جرجان (ص: 317) ].
یعنی جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورلوگوں کو چوبیس رکعات تراویح اورایک رکعات وترپڑھائی۔

یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔

پہلی علت:
عبد الرحمن بن عطاء بن أبي لبيبة

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 5/ 336]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
عبد الرحمن بن عطاء [الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 633]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
ممن لا يحتج به فيما ينفرد به فكيف فيما خالفه فيه من هو أثبت منه [الاستذكار 4/ 83]

نیز کہا:
ليس عندهم بذلك وترك مالك الرواية عنه وهو جاره وحسبك بهذا[التمهيد لابن عبد البر: 17/ 228]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
أدخله البخاري في الضعفاء وقال الرازي يحول من هناك[الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي: 2/ 97]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
صدوق فيه لين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3953]

تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به[تحرير التقريب: رقم3953]۔


دوسری علت:
عمر بن هارون
امام عبد الرحمن بن مهدى رحمه الله (المتوفى198)نے کہا:
لَمْ تكن لَهُ قيمة عندي[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 6/ 57 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
تَرَكوا حَديثِه[الطبقات الكبير لابن سعد 9/ 378]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عمر بن هارون كذاب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن حبان نے ابن معین کی تائید کرتے ہوئے کہا:
والمناكير في روايته تدل على صحة ما قال يحيى بن معين فيه[المجروحين لابن حبان: 2/ 91]۔

امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
كان كذابا [تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15 واسنادہ ضعیف]۔

امام ابن المبارك رحمه الله سے بھی منقول ہے۔
هو كذاب[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 15واسنادہ ضعیف]۔

نوٹ: امام صالح بن محمد اور ابن مبارک رحمہاللہ کے اقوال کی سند ضعیف ہے لیکن ابن معین رحمہ اللہ کا قول بسند صحیح ثابت ہے اورابن حبان نے بھی ان کی تائیدکی ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لا اروى عنه شيئا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
عمر بن هارون: لم يقنع الناس بحديثه[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 355]۔

امام عجلى رحمه الله (المتوفى:261)نے کہا:
عمر بن هارون بن يزيد الثقفي ضعيف [تاريخ الثقات للعجلي: 2/ 171]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
الناس تركوا حديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 141]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي مَتْرُوك الحَدِيث بَصرِي[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 84]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 194]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن يروي عن الثقات المعضلات ويدعى شيوخا لم يرهم[المجروحين لابن حبان: 2/ 90]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
عمر بن هارون البلخي، ضعيف[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني: ص: 16]۔

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
عمر بن هَارُون الْبَلْخِي عَن بن جريج وَالْأَوْزَاعِيّ وَشعْبَة الْمَنَاكِير لَا شَيْء[الضعفاء لأبي نعيم: ص: 113]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
عمر بن هارون البخلي ليس بشيء في الحديث[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 176]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
واه اتهمه بعضهم [الكاشف للذهبي: 2/ 70]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
متروك وكان حافظا[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4979]۔

تیسری علت:
محمد بن حميد الرازی۔


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
فِيهِ نَظَرٌ[التاريخ الكبير للبخاري: 1/ 69]

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
محمد بن حميد الرازي: كان رديء المذهب، غير ثقة.[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 350]۔

أبو حاتم محمد بن إدريس الرازي، (المتوفى277)نے کہا:
هذا كذاب[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 739]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے اسے ضعفاء میں ذکرکیا:
محمد بن حميد الرازي۔۔۔[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 61]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات[المجروحين لابن حبان: 2/ 303]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وثقه جماعة والاولى تركه[الكاشف للذهبي: 2/ 166]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
محمد بن حميد بن حيان الرازي حافظ ضعيف[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5834 ]۔

خان بادشاہ بن چاندی گل دیوبندی لکھتے ہیں:
کیونکہ یہ کذاب اوراکذب اورمنکرالحدیث ہے۔[القول المبین فی اثبات التراویح العشرین والرد علی الالبانی المسکین:ص٣٣٤].

نیز دیکھئے رسول اکرم کاطریقہ نماز از مفتی جمیل صفحہ ٣٠١ ۔


اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔

جابررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت:
جابررضی اللہ عنہ سے منقول مذکورہ روایت موضوع ومن گھڑت ہونے کے ساتھ ساتھ ، جابررضی اللہ عنہ ہی سے منقول صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے ، کیونکہ جابررضی اللہ عنہ نے بسندصحیح منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح پڑھائی، چنانچہ:

امام بن خزيمة رحمہ اللہ(المتوفى311) نے کہا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ» [صحيح ابن خزيمة 2/ 138 رقم 1070]۔

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات تراویح اوروترپڑھائی پھراگلی بارہم مسجدمیں جمع ہوئے اوریہ امیدکی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس(امامت کے لئے)آئیں گے یہاںتک کہ صبح ہوگئی،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے توہم نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں امیدتھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے اورامامت کرائیں گے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے خدشہ ہوا کہ وترتم پرفرض نہ کردی جائے۔
تحقیق: شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ
 
Top