سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا
سرفراز فیضی
ان آیات میں اﷲ رب العزت نے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے ۔ 1:شاہد 2 :مبشر 3 :نذیر 4 : داعی الی اﷲ باذن اﷲ 5 :سراج منیریَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا٭ وَدَاعِیًا إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُنِیرًا
اے نبیﷺ!ہم نے آپ کو گواہی دینے والا بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔نیز اﷲ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ (بنا کر بھیجا ہے) (الأحزاب: 45 46)
ان صفات میں سے پہلی صفت ہمارے اس درس کا موضوع ہے ۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر تورات میں
عَنْ عَطَاء ِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قُلْتُ: أَخْبِرْنِی عَنْ صِفَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْرَاۃِ؟ قَالَ: " أَجَلْ، وَاللَّہِ إِنَّہُ لَمَوْصُوفٌ فِی التَّوْرَاۃِ بِبَعْضِ صِفَتِہِ فِی القُرْآنِ: (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا) (الأحزاب: 45)، وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِی وَرَسُولِی، سَمَّیْتُکَ المتَوَکِّلَ لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیظٍ، وَلاَ سَخَّابٍ فِی الأَسْوَاقِ، وَلاَ یَدْفَعُ بِالسَّیِّئَۃِ السَّیِّئَۃَ، وَلَکِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ، وَلَنْ یَقْبِضَہُ اللَّہُ حَتَّی یُقِیمَ بِہِ المِلَّۃَ العَوْجَاء َ، بِأَنْ یَقُولُوا: لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، وَیَفْتَحُ بِہَا أَعْیُنًا عُمْیًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا "
عطاء بن یسار سے روایت کرتے ہیں میں عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالی عنہ سے ملا اور میں نے کہا کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ حال بیان کریں جو تورات میں ہے، انہوں نے کہا کہ اچھا بخدا تورات میں آپ کی بعض صفتیں وہی بیان کی گئیں ہیں جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں،’’ اے نبی ہم نے تم کو گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھ لوگوں کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، تم ہمارے بندے اور رسول ہو تمہارا نام ہم نے متوکل رکھا ہے نہ تو بد خواہ ہو اور نہ سنگ دل اور نہ بازار میں شور مچانے والے ہو اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے ہو، اور بخش دیتے ہو اور اس کو اﷲ تعالیٰ نہیں اٹھائے گا جب کہ ٹیڑے مذھب کو اس کے ذریعے سیدھا نہ کر دے اس طور پر کہ لوگ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہنے لگیں اور اس کے ذریعے اندھی آنکھیں اور بہرے کان اور غلاف چڑھے ہوئے دلوں کو کھول دے‘‘
( صحیح بخاری کتاب التفسیر، بَابُ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا)
شاہد اور شہید
قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے شاہد کے ہی کے معنی میں شہید کی صفت بھی بیان کی گئی ہے ۔ (البقرۃ:143)شاہد اور شہید کا لفظ دیگر انبیاء کے لیے
قرآن مجید میں شاہد اور شہید کا لفظ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے انبیاء کرام کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ (النساء: 41)، (المزمل:15)شہادت کا لفظ قرآن مجید میں
شہادت کا لفظ قرآن مجید میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ 1۔حاضر یعنی غیب کی ضد کے مفہوم میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (الأنعام:73)
2۔کسی جگہ پر حاضر ہونے کے مفہوم میں جیسے اﷲ تعالی کا قول :
(قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَأَہْلَہُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ ) (النمل : 49)
3۔کسی زمانہ کو پانے کے معنی میں جیسے اﷲ تعالی کا قول:
(فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ) (البقرۃ :185)
4 :علم کے معنی میں جیسے اﷲ تعالی کا قول:
(إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیدًا) (النساء :33)
5۔شریک کار اور مددگار کے معنی میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(وَادْعُوا شُہَدَاء َکُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ) (البقرۃ :23)
6 ۔بصارت کی بنیاد پر کسی چیز کی گواہی دینے کے مفہوم میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُونَ ) (الزخرف :19)
7۔بصیرت کی بنیاد پر کسی چیز کی گواہی دیناجیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) (آل عمران :18)
اہل علم جو توحید کی گواہی دیتے ہیں اس کی بنیاد بصیرت پر ہوتی ہے نہ کہ بصارت پر ۔
آیت میں شاہد کا مفہوم
مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں شاہد کا لفظ گواہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ شہادت ( بمعنی گواہی)کہتے ہیں علم اور یقین کی بنیاد پر کسی چیز کے اقرار کو ,یہ علم اور یقین مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔شاہد بمعنی حاضر و ناظر
احمد رضا خان صاحب نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے ۔ پھر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔''( اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر''
''شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے ''
اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ الْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ ''
یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ''
جواب
لغوی اعتبار سے شاہد گرچہ حاضر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس آیت میں شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر سے کرنا کئی وجوہات کی بنیاد پر غلط ہے : قرآن کی صراحت
1۔قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاہد بمعنی حاضرو ناظر ہونے کی نفی بہت صاف انداز میں فرما دی گئی ہے ۔ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے ۔ تعجب کی بات ہے کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے جس عقیدہ کو احمد رضا خان صاحب نے کنزالایمان میں متعدد مقامات پر پر زور انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے آیت اس کی بالکل صراحت کے ساتھ تردید کررہی ہے اس کے باوجود رضا خان صاحب نے نہ تو آیت کے متن میں اس کی کوئی تاویل و تشریح کی ہے اور نہ ہی حاشیہ ہی میں اس کا کوئی جواب دیا ہے ۔(وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلَی مُوسَی الْأَمْرَ وَمَا کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) (القصص :44 )
اور تم طور کی جانب مغرب میں نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا اور اس وقت تم حاضر نہ تھے(ترجمہ کنزالایمان احمد رضا خان بریلوی)
امت کے تمام مفسرین کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں شاہد کا لفظ حاضر و ناظر کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ کچھ مفسرین کے اقوال بھی نقل کردیتے ہیں ۔
٭عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما - (المتوفی : 68ھ)
(وَمَا کنتَ مِنَ الشَّاہِدین) من الْحَاضِرین ہُنَاکَ۔ (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (ص : 327)
٭أبو اللیث السمرقندی (المتوفی :373ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ یعنی: الحاضرین لذلک الأمر۔ (تفسیر السمرقندی = بحر العلوم (2/ 610)
٭أبو إسحاق الثعلبی (المتوفی :427ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ الحاضرین ہناک۔( تفسیر الثعلبی = الکشف والبیان عن تفسیر القرآن (7/ 251)
٭عبد الکریم بن ہوازن بن عبد الملک القشیری (المتوفی :465ہـ)
لم تکن حاضرا فتعرف ذلک مشاہدۃ۔ (لطائف الإشارات = تفسیر القشیری (3/ 70)
٭أبو الحسن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (المتوفی:468ہـ)
(وما کنت من الشاہدین) الحاضرین ہناک۔ (الوجیز للواحدی (ص :820)
٭أبو المظفر، منصور بن محمد السمعانی الحنفی ثم الشافعی (المتوفی :489ہـ)
(وَمَا کنت من الشَّاہِدین) أَی: الْحَاضِرین ذَلِک الْمقَام۔ (تفسیر السمعانی (4/ 143)
٭محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (المتوفی :510ہـ)
(وَمَا کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) الْحَاضِرِینَ ذَلِکَ الْمَقَامَ فَتَذْکُرُہُ مِنْ ذَاتِ نَفْسِکَ. [تفسیر البغوی (6/ 210)]
٭ا بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (المتوفی :542ہـ)
المعنی ولم تحضر یا محمد ہذہ الغیوب التی تخبر بہا ولکنہا صارت إلیک بوحینا۔ ( المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز (4/ 289)
٭فخر الدین الرازی خطیب الری (المتوفی :606ہـ)
وَالْخِطَابُ لِلرَّسُولِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَمَا کُنْتَ حاضرا ۔(تفسیر الرازی = مفاتیح الغیب أو التفسیر الکبیر (24/ 602)
٭أبو البرکات عبد اﷲ بن أحمد النسفی(المتوفی :710ہـ)
(وَمَا کنتَ مِنَ الشاہدین) من جملۃ الشاہدین للوحی إلیہ حتی تقف من جہۃ المشاہدۃ علی ما جری من أمر موسی فی میقاتہ۔ (تفسیر النسفی = مدارک التنزیل وحقائق التأویل (2/ 646)
٭علاء الدین علی بن محمد الخازن (المتوفی :741ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ یعنی الحاضرین ذلک المقام الذی أوحینا إلی موسی فیہ فتذکرہ من ذات نفسک۔ [تفسیر الخازن =لباب التأویل فی معانی التنزیل: ۳؍ ۶۵ ۳]۔
٭أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی (المتوفی :774ہـ)
مَا کُنْتَ مُشَاہِدًا لِشَیْء ٍ مِنْ ذَلِکَ، وَلَکِنَّ اللَّہَ أَوْحَاہُ إِلَیْکَ وَأَخْبَرَکَ بِہِ،۔ (تفسیر ابن کثیر ت سلامۃ (6/ 241)
قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر زمان و مکان میں حاضر و ناظر ہونے کی نفی
2۔اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں بہت ساری آیات ہیں جو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کی نفی کرتی ہیں ۔ (وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَیْنَا وَلَکِنْ رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ)
اور ( اے نبیﷺ) تم طور کے دامن میں بھی اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے پکارا تھا ، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جا ری ہیں) (القصص :46)
(وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِی أَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِنَا وَلَکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِینَ)
اہلِ مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ان کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے ، مگر ( اس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں۔(القصص :45)
(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاء ِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونَ)
اے نبی ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں ، اورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو؟ اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔ (آل عمران :44)
(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاء ِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ)
(اے نبی ﷺ (! یہ قصہ بھی)غیب کی خبروں سے ہے جس کو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت ان کے پاس تو نہیں تھے۔ جب برادران یوسف نے ایک بات پر اتفاق کر لیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی مکارانہ سازش کر رہے تھے (یوسف :102) .
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاہد کا لفظ گواہ کے معنی
3۔قرآنی آیات آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیلیے شاہد اور شہید کا لفظ صراحت کے ساتھ گواہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا:احمد رضا خان صاحب نے قرآن کے دوسرے مقامات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے جہاں جہاں شاہد یا شہید کا لفظ استعمال ہوا ہے وہا ں ترجمہ میں گواہ کے ساتھ نگہبان کا لفظ بڑھا دیا ہے ۔ لیکن سورہ نحل کی اس آیت کا سیاق اتنا واضح ہے کہ یہاں نگہبان کی زیادتی کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ پھر بھی شہید کا صاف صاف ترجمہ گواہ سے کرنے کے بجائے اس کے مترادف شاہد لکھ دیاہے ۔( وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ أُمَّۃٍ شَہِیدًا عَلَیْہِمْ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَہِیدًا عَلَی ہَؤُلَاء ِ ) (النحل :89)
اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر شاہد بناکر لائیں گے(ترجمہ کنزالایمان )
ایک بات اس آیت میں واضح ہے کہ آیت میں شہید کا لفظ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اسی معنی استعمال ہوا ہے میں جس معنی میں آیت کے پہلے حصہ میں استعمال ہوا ہے ۔ آیت کے پہلے حصہ میں شاہد کا ترجمہ احمد رضا خان صاحب نے گواہ سے کیا ہے لہذ ا آیت میں دوسرے شہید کا ترجمہ بھی گواہ ہی سے ہونا چاہیے ۔
( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا) (البقرۃ :143)
اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ (ترجمہ کنزالایمان )
سیاق سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دونوں آیات میں نبی ﷺکے لیے شہید کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس معنی میں امت کے لیے ۔ لہذا اگر شہید سے اگر حاضر وناظر مراد لیا جائے تو لازم آئے گا کہ آپ ﷺکے ساتھ ساتھ آپ کی ساری امت کو حاضر و ناظر مان لیاجائے ۔ حالانکہ اس عقیدہ کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اور اگر آیت میں شہید سے مراد گواہ لیے جائیں تو مطلب ہوگا کہ نبی ﷺکو اپنی امت پر اور آپ کی امت کو سابقہ امتوں پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔ اس طرح آیت کی تفسیر میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا ۔(وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِنْ قَبْلُ وَفِی ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ) (الحج :78)
اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا اس نے تمہیں پسند کیااور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی تمہارے باپ ابراہیم کا دین اﷲ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو اور تم اور لوگوں پر گواہی دو۔(ترجمہ کنزالایمان )
مفسرین کا اتفاق
4۔امت کے قدیم و جدید تمام مفسرین نے شاہد کا مفہوم گواہ بیان فرمایا ہے( جس کی تفصیل ہم آگے پیش کریں گے ان شاء اﷲ) ۔یہی وجہ کہ احمد رضا خان صاحب نے اپنے اس مفہوم کی تائید کے لیے کسی تفسیر کے بجائے مفردات القرآن کا حوالہ دینا پڑا۔ حالانکہ خود امام راغب اصفہانی جن کی مفردات کا حوالہ احمد رضا خان صاحب نے دیا آیت میں شاہد کا مفہوم گواہ بیان فرمایا ہے ۔ لیکون الرسول علیکم شہیدا کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ امام راغب اصفہانی نے بھی اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہرزمان ومکان میں حاضر و ناظر ہونے کی نفی کی ہے ، فرماتے ہیں۔الشاہد ہو العالم بالشیء المخبر عنہ مبینا، حکمہ، وأعظم شاہد من ثبتت شہادتہ بحجۃ، ولما خص اﷲ تعالی الإنسان بالعقل والتمییز بین الخیر والشر وکملہ ببعثۃ الأنبیاء ، وخص ہذہ الأمۃ بأتم کتاب، کما وصفہ بقولہ: (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ) وقولہ: (وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ) ، فأفادناہ- علیہ السلام- وبینہ لنا صار حجۃ وشاہداً أن نقول ما جاء نا من بشیر ولا نذیر،[تفسیر الراغب الأصفہانی (1/ 330)]۔
إن قیل: کیف یصح أن یکون النبی صلی اﷲ علیہ وسلم - شاہدًا للأنبیاء الذین قبلہ وہو لم یحضرہم؟ وأی فائدۃ لشہادتہ وشہادتہم؟
قیل: إن الأنبیاء لم یختلفوا فی أصول ما دعوا إلیہ.
بل کلُہم لسان واحد فی الدعاء إلی التوحید.
تفسیر الراغب الأصفہانی (3/ 1245)