• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا

سرفراز فیضی​

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا٭ وَدَاعِیًا إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُنِیرًا
اے نبیﷺ!ہم نے آپ کو گواہی دینے والا بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔نیز اﷲ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ (بنا کر بھیجا ہے) (الأحزاب: 45 46)
ان آیات میں اﷲ رب العزت نے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے ۔ 1:شاہد 2 :مبشر 3 :نذیر 4 : داعی الی اﷲ باذن اﷲ 5 :سراج منیر
ان صفات میں سے پہلی صفت ہمارے اس درس کا موضوع ہے ۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفات کا ذکر تورات میں
عَنْ عَطَاء ِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قُلْتُ: أَخْبِرْنِی عَنْ صِفَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی التَّوْرَاۃِ؟ قَالَ: " أَجَلْ، وَاللَّہِ إِنَّہُ لَمَوْصُوفٌ فِی التَّوْرَاۃِ بِبَعْضِ صِفَتِہِ فِی القُرْآنِ: (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا) (الأحزاب: 45)، وَحِرْزًا لِلْأُمِّیِّینَ، أَنْتَ عَبْدِی وَرَسُولِی، سَمَّیْتُکَ المتَوَکِّلَ لَیْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِیظٍ، وَلاَ سَخَّابٍ فِی الأَسْوَاقِ، وَلاَ یَدْفَعُ بِالسَّیِّئَۃِ السَّیِّئَۃَ، وَلَکِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ، وَلَنْ یَقْبِضَہُ اللَّہُ حَتَّی یُقِیمَ بِہِ المِلَّۃَ العَوْجَاء َ، بِأَنْ یَقُولُوا: لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، وَیَفْتَحُ بِہَا أَعْیُنًا عُمْیًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا "
عطاء بن یسار سے روایت کرتے ہیں میں عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالی عنہ سے ملا اور میں نے کہا کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہ حال بیان کریں جو تورات میں ہے، انہوں نے کہا کہ اچھا بخدا تورات میں آپ کی بعض صفتیں وہی بیان کی گئیں ہیں جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں،’’ اے نبی ہم نے تم کو گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھ لوگوں کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، تم ہمارے بندے اور رسول ہو تمہارا نام ہم نے متوکل رکھا ہے نہ تو بد خواہ ہو اور نہ سنگ دل اور نہ بازار میں شور مچانے والے ہو اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے ہو، اور بخش دیتے ہو اور اس کو اﷲ تعالیٰ نہیں اٹھائے گا جب کہ ٹیڑے مذھب کو اس کے ذریعے سیدھا نہ کر دے اس طور پر کہ لوگ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہنے لگیں اور اس کے ذریعے اندھی آنکھیں اور بہرے کان اور غلاف چڑھے ہوئے دلوں کو کھول دے‘‘
( صحیح بخاری کتاب التفسیر، بَابُ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا)
شاہد اور شہید​
قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے شاہد کے ہی کے معنی میں شہید کی صفت بھی بیان کی گئی ہے ۔ (البقرۃ:143)
شاہد اور شہید کا لفظ دیگر انبیاء کے لیے​
قرآن مجید میں شاہد اور شہید کا لفظ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے انبیاء کرام کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ (النساء: 41)، (المزمل:15)
شہادت کا لفظ قرآن مجید میں​
شہادت کا لفظ قرآن مجید میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
1۔حاضر یعنی غیب کی ضد کے مفہوم میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ (الأنعام:73)
2۔کسی جگہ پر حاضر ہونے کے مفہوم میں جیسے اﷲ تعالی کا قول :
(قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَأَہْلَہُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ ) (النمل : 49)
3۔کسی زمانہ کو پانے کے معنی میں جیسے اﷲ تعالی کا قول:
(فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ) (البقرۃ :185)
4 :علم کے معنی میں جیسے اﷲ تعالی کا قول:
(إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیدًا) (النساء :33)
5۔شریک کار اور مددگار کے معنی میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(وَادْعُوا شُہَدَاء َکُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ) (البقرۃ :23)
6 ۔بصارت کی بنیاد پر کسی چیز کی گواہی دینے کے مفہوم میں جیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(وَجَعَلُوا الْمَلَائِکَۃَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا أَشَہِدُوا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُونَ ) (الزخرف :19)
7۔بصیرت کی بنیاد پر کسی چیز کی گواہی دیناجیسے اﷲ رب العزت کا قول:
(شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَۃُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) (آل عمران :18)
اہل علم جو توحید کی گواہی دیتے ہیں اس کی بنیاد بصیرت پر ہوتی ہے نہ کہ بصارت پر ۔
آیت میں شاہد کا مفہوم​
مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں شاہد کا لفظ گواہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ شہادت ( بمعنی گواہی)کہتے ہیں علم اور یقین کی بنیاد پر کسی چیز کے اقرار کو ,یہ علم اور یقین مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔
شاہد بمعنی حاضر و ناظر​
احمد رضا خان صاحب نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے ۔
''( اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر''
پھر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
''شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں ہے ''
اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ الْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ ''
یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ''
جواب​
لغوی اعتبار سے شاہد گرچہ حاضر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس آیت میں شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر سے کرنا کئی وجوہات کی بنیاد پر غلط ہے :
قرآن کی صراحت​
1۔قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاہد بمعنی حاضرو ناظر ہونے کی نفی بہت صاف انداز میں فرما دی گئی ہے ۔ اﷲ رب العزت کا فرمان ہے ۔
(وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ إِذْ قَضَیْنَا إِلَی مُوسَی الْأَمْرَ وَمَا کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) (القصص :44 )
اور تم طور کی جانب مغرب میں نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا اور اس وقت تم حاضر نہ تھے(ترجمہ کنزالایمان احمد رضا خان بریلوی)
تعجب کی بات ہے کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے جس عقیدہ کو احمد رضا خان صاحب نے کنزالایمان میں متعدد مقامات پر پر زور انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے آیت اس کی بالکل صراحت کے ساتھ تردید کررہی ہے اس کے باوجود رضا خان صاحب نے نہ تو آیت کے متن میں اس کی کوئی تاویل و تشریح کی ہے اور نہ ہی حاشیہ ہی میں اس کا کوئی جواب دیا ہے ۔
امت کے تمام مفسرین کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ آیت میں شاہد کا لفظ حاضر و ناظر کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ کچھ مفسرین کے اقوال بھی نقل کردیتے ہیں ۔
٭عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما - (المتوفی : 68ھ)
(وَمَا کنتَ مِنَ الشَّاہِدین) من الْحَاضِرین ہُنَاکَ۔ (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (ص : 327)
٭أبو اللیث السمرقندی (المتوفی :373ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ یعنی: الحاضرین لذلک الأمر۔ (تفسیر السمرقندی = بحر العلوم (2/ 610)
٭أبو إسحاق الثعلبی (المتوفی :427ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ الحاضرین ہناک۔( تفسیر الثعلبی = الکشف والبیان عن تفسیر القرآن (7/ 251)
٭عبد الکریم بن ہوازن بن عبد الملک القشیری (المتوفی :465ہـ)
لم تکن حاضرا فتعرف ذلک مشاہدۃ۔ (لطائف الإشارات = تفسیر القشیری (3/ 70)
٭أبو الحسن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (المتوفی:468ہـ)
(وما کنت من الشاہدین) الحاضرین ہناک۔ (الوجیز للواحدی (ص :820)
٭أبو المظفر، منصور بن محمد السمعانی الحنفی ثم الشافعی (المتوفی :489ہـ)
(وَمَا کنت من الشَّاہِدین) أَی: الْحَاضِرین ذَلِک الْمقَام۔ (تفسیر السمعانی (4/ 143)
٭محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (المتوفی :510ہـ)
(وَمَا کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) الْحَاضِرِینَ ذَلِکَ الْمَقَامَ فَتَذْکُرُہُ مِنْ ذَاتِ نَفْسِکَ. [تفسیر البغوی (6/ 210)]
٭ا بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (المتوفی :542ہـ)
المعنی ولم تحضر یا محمد ہذہ الغیوب التی تخبر بہا ولکنہا صارت إلیک بوحینا۔ ( المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز (4/ 289)
٭فخر الدین الرازی خطیب الری (المتوفی :606ہـ)
وَالْخِطَابُ لِلرَّسُولِ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: وَمَا کُنْتَ حاضرا ۔(تفسیر الرازی = مفاتیح الغیب أو التفسیر الکبیر (24/ 602)
٭أبو البرکات عبد اﷲ بن أحمد النسفی(المتوفی :710ہـ)
(وَمَا کنتَ مِنَ الشاہدین) من جملۃ الشاہدین للوحی إلیہ حتی تقف من جہۃ المشاہدۃ علی ما جری من أمر موسی فی میقاتہ۔ (تفسیر النسفی = مدارک التنزیل وحقائق التأویل (2/ 646)
٭علاء الدین علی بن محمد الخازن (المتوفی :741ہـ)
وَما کُنْتَ مِنَ الشَّاہِدِینَ یعنی الحاضرین ذلک المقام الذی أوحینا إلی موسی فیہ فتذکرہ من ذات نفسک۔ [تفسیر الخازن =لباب التأویل فی معانی التنزیل: ۳؍ ۶۵ ۳]۔
٭أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی (المتوفی :774ہـ)
مَا کُنْتَ مُشَاہِدًا لِشَیْء ٍ مِنْ ذَلِکَ، وَلَکِنَّ اللَّہَ أَوْحَاہُ إِلَیْکَ وَأَخْبَرَکَ بِہِ،۔ (تفسیر ابن کثیر ت سلامۃ (6/ 241)

قرآن مجید میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہر زمان و مکان میں حاضر و ناظر ہونے کی نفی​
2۔اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں بہت ساری آیات ہیں جو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کی نفی کرتی ہیں ۔
(وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَیْنَا وَلَکِنْ رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ)
اور ( اے نبیﷺ) تم طور کے دامن میں بھی اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے پکارا تھا ، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جا ری ہیں) (القصص :46)
(وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِی أَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِنَا وَلَکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِینَ)
اہلِ مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ان کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے ، مگر ( اس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں۔(القصص :45)
(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاء ِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یَخْتَصِمُونَ)
اے نبی ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعہ سے بتا رہے ہیں ، اورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو؟ اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔ (آل عمران :44)
(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاء ِ الْغَیْبِ نُوحِیہِ إِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ)
(اے نبی ﷺ (! یہ قصہ بھی)غیب کی خبروں سے ہے جس کو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت ان کے پاس تو نہیں تھے۔ جب برادران یوسف نے ایک بات پر اتفاق کر لیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی مکارانہ سازش کر رہے تھے (یوسف :102) .
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاہد کا لفظ گواہ کے معنی​
3۔قرآنی آیات آپس میں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیلیے شاہد اور شہید کا لفظ صراحت کے ساتھ گواہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلا:
( وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ أُمَّۃٍ شَہِیدًا عَلَیْہِمْ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَہِیدًا عَلَی ہَؤُلَاء ِ ) (النحل :89)
اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر شاہد بناکر لائیں گے(ترجمہ کنزالایمان )
احمد رضا خان صاحب نے قرآن کے دوسرے مقامات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے جہاں جہاں شاہد یا شہید کا لفظ استعمال ہوا ہے وہا ں ترجمہ میں گواہ کے ساتھ نگہبان کا لفظ بڑھا دیا ہے ۔ لیکن سورہ نحل کی اس آیت کا سیاق اتنا واضح ہے کہ یہاں نگہبان کی زیادتی کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ پھر بھی شہید کا صاف صاف ترجمہ گواہ سے کرنے کے بجائے اس کے مترادف شاہد لکھ دیاہے ۔
ایک بات اس آیت میں واضح ہے کہ آیت میں شہید کا لفظ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اسی معنی استعمال ہوا ہے میں جس معنی میں آیت کے پہلے حصہ میں استعمال ہوا ہے ۔ آیت کے پہلے حصہ میں شاہد کا ترجمہ احمد رضا خان صاحب نے گواہ سے کیا ہے لہذ ا آیت میں دوسرے شہید کا ترجمہ بھی گواہ ہی سے ہونا چاہیے ۔
( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا) (البقرۃ :143)
اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ (ترجمہ کنزالایمان )
(وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِنْ قَبْلُ وَفِی ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ) (الحج :78)
اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا اس نے تمہیں پسند کیااور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی تمہارے باپ ابراہیم کا دین اﷲ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو اور تم اور لوگوں پر گواہی دو۔(ترجمہ کنزالایمان )
سیاق سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان دونوں آیات میں نبی ﷺکے لیے شہید کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جس معنی میں امت کے لیے ۔ لہذا اگر شہید سے اگر حاضر وناظر مراد لیا جائے تو لازم آئے گا کہ آپ ﷺکے ساتھ ساتھ آپ کی ساری امت کو حاضر و ناظر مان لیاجائے ۔ حالانکہ اس عقیدہ کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ اور اگر آیت میں شہید سے مراد گواہ لیے جائیں تو مطلب ہوگا کہ نبی ﷺکو اپنی امت پر اور آپ کی امت کو سابقہ امتوں پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔ اس طرح آیت کی تفسیر میں کوئی اشکال باقی نہیں رہ جاتا ۔
مفسرین کا اتفاق​
4۔امت کے قدیم و جدید تمام مفسرین نے شاہد کا مفہوم گواہ بیان فرمایا ہے( جس کی تفصیل ہم آگے پیش کریں گے ان شاء اﷲ) ۔یہی وجہ کہ احمد رضا خان صاحب نے اپنے اس مفہوم کی تائید کے لیے کسی تفسیر کے بجائے مفردات القرآن کا حوالہ دینا پڑا۔ حالانکہ خود امام راغب اصفہانی جن کی مفردات کا حوالہ احمد رضا خان صاحب نے دیا آیت میں شاہد کا مفہوم گواہ بیان فرمایا ہے ۔ لیکون الرسول علیکم شہیدا کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
الشاہد ہو العالم بالشیء المخبر عنہ مبینا، حکمہ، وأعظم شاہد من ثبتت شہادتہ بحجۃ، ولما خص اﷲ تعالی الإنسان بالعقل والتمییز بین الخیر والشر وکملہ ببعثۃ الأنبیاء ، وخص ہذہ الأمۃ بأتم کتاب، کما وصفہ بقولہ: (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ) وقولہ: (وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ) ، فأفادناہ- علیہ السلام- وبینہ لنا صار حجۃ وشاہداً أن نقول ما جاء نا من بشیر ولا نذیر،[تفسیر الراغب الأصفہانی (1/ 330)]۔
اس کے علاوہ امام راغب اصفہانی نے بھی اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہرزمان ومکان میں حاضر و ناظر ہونے کی نفی کی ہے ، فرماتے ہیں۔
إن قیل: کیف یصح أن یکون النبی صلی اﷲ علیہ وسلم - شاہدًا للأنبیاء الذین قبلہ وہو لم یحضرہم؟ وأی فائدۃ لشہادتہ وشہادتہم؟
قیل: إن الأنبیاء لم یختلفوا فی أصول ما دعوا إلیہ.
بل کلُہم لسان واحد فی الدعاء إلی التوحید.

تفسیر الراغب الأصفہانی (3/ 1245)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376

شہادت کی تعریف​
علم اور یقین کی بنیاد پر کسی چیز کے اقرار کو شہادت(گواہی) کہا جاتا ہے ۔ یہ علم و یقین مختلف ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔
تفسیر الراغب الأصفہانی (1/ 249)
الشہادۃ إقرار مع العلم وثبات الیقین
تفسیر الراغب الأصفہانی (2/ 629)
الشہادۃ: الإخبار بالشیء عن مشاہدۃ: إما ببصر و ببصیرۃ
شہادت کس بات کی ؟​
انبیاء کی شہادت کے دو پہلو ہیں ایک اخروی اور دوسرا دنیوی ۔ دنیوی لحاظ سے نبی اﷲ کی وحدانیت گواہ ہوتے ہیں اور یہ گواہی اس اعلی درجہ کی بصیرت اور حکمت کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے جو بطور خاص ان کو عطا کی جاتی ہے۔ اور اﷲ کے ملکوت میں سے ان امور غیب کے مشاہدہ کی بنیاد پر بھی ہے جن پر انبیاء کو مطلع کیا جاتا ہے ۔
قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَہُنَّ وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ
(ابراہیم نے )کہا بلکہ تمہارا رب وہ ہے جو رب ہے آسمان اور زمین کا جس نے انہیں پیدا کیا ، اور میں اس پر گواہوں میں سے ہوں۔ (الأنبیاء :56)
(شَہِدَ اﷲُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلا ہُوَ وَالْمَلائِکَۃُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ)
اﷲ نے خود بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی انصاف کے ساتھ یہی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہی زبردست ہے، حکمت والا ہے (آل عمران :18)
ظاہر سی بات ہے کہ اہل علم کا پہلا طبقہ انبیاء کرام کا طبقہ ہے ۔ مفسرین میں سے بغوی ، واحدی ، نسفی ، اور امام شوکانی نے اولوالعلم سے مرادانبیاء بیان فرمایا ہے۔

انبیاء کی شہادت کا دوسرا پہلو اخروی ہے ۔ قیامت کے دن اﷲ کے انبیاء کی حیثیت عدالتی گواہ کی ہوگی ۔ وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اﷲ نے وحی کے ذریعہ جو دین اﷲ کے ان پر نازل فرمایا تھا انہوں نے پور امانت ودیانت کے ساتھ اس کو امت تک پہنچا کر اپنی نبوت کا حق ادا کردیا ہے ۔اب امت کے تمام افراد اپنے اپنے اعمال کے لیے خود ذمہ دار ہیں ۔ قرآن کی بہت ساری آیات ہیں جو اس مفہوم کی تائید کرتی ہیں ۔ (الأنبیاء :56) (البقرۃ :143)،(النساء :41) ،(النحل :89) ،(الحج :78) ،(المزمل :15) ،
کیا اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم امت کے اعمال اور ہدایت و ضلالت کی گواہی دیں گے ؟​
احمد رضا خان صاحب آیت کی تفسیر میں مزید لکھتے ہیں:
گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے ۔ سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمام عالم کی طرف مبعوث ہیں ، آپ کی رسالت عامّہ ہے جیسا کہ سورہ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو حضور پُرنور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری خَلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت ، ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ (ابوالسعود وجمل)
جواب:​
ہم کہتے ہیں کہ یہ قول کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ساری خلق کے اعمال و افعال و احول، تصدیق ، تکذیب ،ہدایت ، ضلال کا مشاہدہ فرمارہے ہیں اور قیامت کے دن اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں اس کے متعلق گواہی دیں گے کئی وجوہات کی بنا پر ناقابل قبول ہے ۔
1۔قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ انبیاء اپنی امت کے اعمال کایا اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ساری خلق یا اپنی امت کے اعمال و احوال کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ اور قیامت کے دن اﷲ کی بارگاہ میں ان اعمال کے متعلق گواہی دیں گے ۔
2۔ اس کے برخلاف قرآن و سنت میں اس بات دلائل موجود ہیں کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء اپنی وفات کے بعد اپنی امت کے اعمال سے ناواقف ہیں ۔ اور یہ ناواقفیت قیامت کے دن تک باقی رہے گی یہاں تک اﷲ ان کو ان کی امت کے اعمال سے واقف فرمائے گا۔ سوائے ان اعمال اور واقعات کے جن کی خبر اﷲ رب العزت انبیاء کی زندگی ہی میں ان کو وحی کے ذریعہ دے دی ہے ۔ اس دعوی کے دلائل ملاحظہ فرمائیں ؛
1) یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔(المائدہ:۱۰۹)
جس دن اﷲ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملاعرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا( ترجمہ کنزالایمان)
2) اسی طرح حضرت عیسی سے قیامت کے دن جب عیسائیوں ں کی گمراہی کے متعلق سوال کیا جائے گا تو وہ فرمائیں گے ۔
وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فِیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْہِمْ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیدٌ (المائدۃ :117)
میں ان پر مطلع تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا، اور ہر چیز تیرے سامنے حاضر ہے ( ترجمہ کنزالایمان)
3)وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ (التوبۃ :101)
اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں، اور کچھ مدینہ والے، ان کی خو ہوگئی ہے نفاق، تم انہیں نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں( ترجمہ کنزالایمان)
آیت اپنے مفہوم میں صریح ہے کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی زندگی ہی میں مدینہ اور اس کے اردگر بسنے والے منافقین کے نفاق کے بارے میں نہیں جانتے تھے ۔
احمد رضا خان صاحب نے اس آیت کو سورہ محمد کی آیت نمبر 30سے منسوخ قرار دیا ہے ۔ حالانکہ سورہ محمد بالاتفاق سورہ توبہ سے بہت پہلے نازل ہوئی ہے کیونکہ سورہ محمد میں مسلمانوں کو پہلی مرتبہ جنگ کی اجازت دی گئی ہے جبکہ سورہ توبہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ اور ناسخ کا منسوخ کے بعد نازل ہونا ضروری ہے ۔ دوسری بات یہ کہ احمد رضا خان صاحب نے حاشیہ میں جان بوجھ کر سورہ محمد کی آدھی آیت ذکر کی ہے جبکہ آیت کے پہلے حصہ میں وَلَوْ نَشَاء ُ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں واقعہ کا نہیں امکان کا ذکر کیا گیا ہے۔
4) عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ : قَالَ عَبْدُ اﷲِ قَالَ النَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ لَیُرْفَعَنَّ إِلَیَّ رِجَالٌ مِنْکُمْ حَتَّی إِذَا أَہْوَیْتُ لأُنَاوِلَہُمُ اخْتُلِجُوا دُونِی فَأَقُولُ أَیْ رَبِّ أَصْحَابِی یَقُولُ لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ.
ابووائل، حضرت عبداﷲ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا تم میں کچھ لوگ میرے سامنے لائیں جائیں گے یہاں تک کہ میں جھکوں گا کہ ان کو پانی پلاؤں تو وہ میرے سامنے سے کھینچ لئے جائیں گے میں کہوں گا اے اﷲ یہ میرے ساتھی ہیں تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد نئی بات پیدا کی۔
(صحیح البخاری ، کتاب الفتن ، باب مَا جَاء َ فِی قَوْلِ اﷲِ تَعَالَی: (وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لاَ تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّۃً).
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں ۔
إِنَّکَ لاَ عِلْمَ لَکَ بِمَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ إِنَّہُمُ ارْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِہِمُ الْقَہْقَرَی.
تمہیں اس کا علم نہیں جو ان لوگوں نے تمہارے بعد نئی بات پیدا کی وہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض)
ہَلْ شَعَرْتَ مَا عَمِلُوا بَعْدَکَ وَاللَّہِ مَا بَرِحُوا یَرْجِعُونَ عَلَی أَعْقَابِہِمْ
کیا تم جانتے ہو جو ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا ہے؟ اﷲ کی قسم یہ الٹے پاوں پھرتے رہے ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض)۔
اس حدیث میں لا تدری ، لا علم لک ، ھل شعرت کے الفاظ اس بات پر صاف دلالت کرتے ہیں کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم امت میں آپ کی وفات کے بعد ایجاد ہونے والی بدعات سے ناواقف ہیں ۔ اور قیامت نا واقف رہیں گے یہاں تک کہ فرشتے ان حالات کا بیان نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے فرمائیں گے ۔ واضح رہے کہ یہ روایت متواتر ہے اور تیس سے زائد صحابہ کرام نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔
5) عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ -صلی اﷲ علیہ وسلم- أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ -صلی اﷲ علیہ وسلم- سَمِعَ جَلَبَۃَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِہِ فَخَرَجَ إِلَیْہِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّہُ یَأْتِینِی الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَہُمْ أَنْ یَکُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّہُ صَادِقٌ فَأَقْضِی لَہُ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا ہِیَ قِطْعَۃٌ مِنَ النَّارِ فَلْیَحْمِلْہَا أَوْ یَذَرْہَا .
زینب بنت ابی سلمہ، ام سلمہ زوجہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر کچھ جھگڑے کی آواز سنی آپ ان کی طرف باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تو محض ایک انسان ہوں اور میرے پاس مقدمہ آتا ہے، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایک دوسرے سے زیادہ بلیغ ہو اور میں یہ گمان کر کے فیصلہ کر دوں کہ وہ سچا ہے، جس شخص کے لئے مسلمان کے حق میں فیصلہ کروں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے اب وہ اس کو لے لے یا اس کو چھوڑ دے۔
ٍ(صحیح البخاری ، کتاب المظالم باب إثم من خاصم فی باطل وہو یعلمہ.صحیح مسلم ،الأقضیۃباب الْحُکْمِ بِالظَّاہِرِ وَاللَّحْنِ بِالْحُجَّۃِ )
حدیث میں اس بات کی صاف وضاحت موجود ہے کہ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم وفات کے بعد ہی نہیں اپنی زندگی ہی میں امت کے سارے اعمال سے واقف نہیں تھے اور آپ کے پاس جو مقدمات آتے تھے ان کا فیصلہ کرنے کے لیے آپ ان کے ظاہر ہی کی بنیاد پر کرتے تھے
3۔قیامت کے دن اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں انبیاء کی گواہی اعمال پر نہیں ابلاغ ( امت تک اﷲ تعالی کا پیغام بغیر کم وکاست پنچا دینے) پر ہوگی ۔ اس قول کے راجح ہونے کی دوسری وجہ وہ آیات بھی ہیں جو اس مفہوم کی تائید کرتی ہیں ۔ (الأنبیاء :56) (البقرۃ :143)،(النساء :41) ،(النحل :89) ،(الحج :78) ،(المزمل :15)
4۔مفسرین امت نے بھی آیت میں شاہد سے مراد شہادت ابلاغ لیا ہے نہ کہ شہادت اعمال ۔ ہم یہاں کچھ مفسرین کے اقوال نقل کرتے ہیں،
محمد بن الطبری (المتوفی :310ہـ)
(إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا) علی أمتک بإبلاغک إیاہم ما أرسلناک بہ من الرسالۃ۔( تفسیر الطبری = جامع البیان ت شاکر (20/ 281)
علی بن الحسین الأَصْفہانی الباقولی (المتوفی: نحو 543ہـ)
شاہداً علی أُمَّتِکَ بالِإبْلاَغِ، إبلاع الرسالۃ۔( معانی القرآن وإعرابہ للزجاج ) (4/ 231)
قتادۃ بن دعامۃ السدوسی (المتوفی:100 و بضع عشرۃ ہـ)
عَنْ قَتَادَۃ رَضِیَ اﷲُ، عَنْہُ فِی قَوْلِہِ: یا أیہا النبی إنا أرسلناک شاہدا قال: علی أمتک بالبلاغ۔( تفسیر ابن أبی حاتم - محققا (9/ 3140)
أبو اللیث نصر بن السمرقندی (المتوفی :373ہـ)
یا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْناکَ شاہِداً یعنی: شہیداً علی أمتک بالبلاغ۔(تفسیر السمرقندی = بحر العلوم ) (3/ 65)
أبو الحسن علی بن أحمد الواحدی (المتوفی :468ہـ)
إنا أرسلناک شاہداً) علی أُمَّتک بإبلاغ الرِّسالۃ۔( الوجیز للواحدی) (ص :868)
أبو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی (المتوفی :597ہـ)
شاہِداً أَی: علی أُمَّتک بالبلاغ۔( زاد المسیر فی علم التفسیر ) (3/ 471)
عز الدین عبد العزیز بن عبد الدمشقی (المتوفی :660ہـ)
(شَاہِداً) علی أمتک بالبلاغ۔( تفسیر العز بن عبد السلام ) (2/ 582)
5۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قیامت کے دن انبیاء اپنی امتوں کے واعمال اور ہدایت و ضلالت پر گواہی دیں گے تو اس کا مطلب اعمال کے صدور پر گواہی نہیں ہوگا بلکہ اعمال کے صحیح اور غلط اور ہدایت اور ضلالت ہونے پر گواہی ہوگا ۔جیسا کہ اﷲ رب العزت نے فرمایا :
(وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ مَا یَمْلِکُونَ مِنْ قِطْمِیرٍ ٭ إِنْ تَدْعُوہُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَاء َکُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیرٍ
اسے چھوڑ کر جنہیں تم پکارتے ہو وہ تو ایک پرِکاہ کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن تو وہ تمہارے شرک کا انکار ہی کردیں گے۔ اور اﷲ خبیر کی طرح آپ کو دوسرا کوئی صحیح خبر نہیں دے سکتا۔(فاطر: 13، 14)
کیا شہادت کے لیے مشاہدہ ضروری ہے ؟​
اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ قیامت کے دن اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تمام امتوں کے احوال و اعمال اور ہدایت وضلالت کی گواہی دیں گے تب بھی ہر زمان و مکان میں اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حاضر و ناظر ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ کیونکہ شہادت صرف حضور و مشاہدہ ہی کی بنیاد پر نہیں دی جاتی جیساکہ شہادت کی پیش کی گئی تعریفات میں ہم نے واضح کیا ہے کہ شہادت کی بنیاد یقین پر ہوتی ہے اور یہ یقین کبھی حضور ومشاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے کبھی بصیرت واستدلال کے ذریعہ ، کبھی ثقہ اور عادل کی روایت کی بنیاد پر اور کبھی تواتر تک پہنچ جانے والی شہرت کی بنیاد پر ۔
والشہادۃ قد تکون بلا مشاہدۃ کالشہادۃ بالتسامع فی الأشیاء المعروفۃ [تفسیر النسفی=مدارک التنزیل وحقائق التأویل: ۱؍۱۳۷]۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا بھائی!
بہت ہی عمدہ، مدلل اور تحقیقی مضمون ہے۔

میں نے بھی فورم پر بعض ساتھیوں سے اس حوالے سے (شاہد کا معنیٰ) لکھنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن الحمد للہ! جو باتیں میں واضح کرنا چاہ رہا تھا، اس مضمون میں وہ باتیں زیادہ بہتر اور بلیغ انداز میں آگئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں۔
اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
احمد رضاخان صاحب کی نزدیک تو پھر ہر مومن حاضر ناضر ہوگا کیونکہ اللہ تعالی نے تو سب کو کہاہے لتکونوا شہداء علی الناس
تاکہ تم سب لوگ حاضر ناضر بن جاے لوگوں پر
 
Top