- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
کائنات کیسے وجود میں آئی
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات کی تخلیق 14ارب(1) سال پہلے ہوئی تھی ،بگ بینگ(انتہائی زبردست دھماکہ )کی تھیوری تخلیق کائنات کے سلسلے میں ہی بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق کائنات کو عدم سے وجودمیں لایا گیا جس کے اجزا ایک نقطے میں بند تھے۔اس سے پہلے مادہ تھا نہ توانائی اورنہ وقت۔ایک بڑے دھماکے کے سبب یہ سب ایک ساتھ ظہور میں آئے اور باہم گتھا ہوا مادہ چھوٹے بڑے حصوں میں تقسیم ہو گیا اورمنتشر ہو کر خلا میں انتہائی تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے دور ہوتا چلاگیا۔ مادے کے ٹکڑے ابھی بھی خلا میں تیر رہے ہیں اوران کا تیز رفتار سفر جاری ہے،اسی نظریے کے تحت مادے کے چھوٹے اور بڑے ٹکڑے کہیں سیارے بن گئے اور کہیں انہیں ستاروں کی حیثیت مل گئی۔ دمدار ستارے اور آسمان میں ٹمٹماتے تارے اسی نظریے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرہ ارض،سورج ،چاند ،مریخ ،مشتری ،زحل جیسے متعدد سیارے بھی اسی بگ بینگ کا نتیجہ ہیں۔ (2)
بگ بینگ سے ثابت ہو تاہے کہ کائنات ایک نکتے سے عد م سے وجود میں آئی۔ یہ واحد نقطہ جس نے کائنات کے تمام مادے کو پناہ دے رکھی تھی ”صفر حجم ”اور لامحدود کثافت ”کامالک تھا۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ”صفر حجم ”ایک نظری اظہار ہے جو اس موضوع کی تشریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سائنس ”عدم ”کے تصور کی ٹھوس تشریح کرنے سے قاصر ہے اور اسے ”ایک نقطہ صفر حجم کے ساتھ ”ہی بیان کیا جاتاہے۔ درحقیقت ”ایک نقطہ بغیر کسی حجم کے”کے معنی ہیں ”عدم”۔اور اسی عدم سے یہ کائنات وجود میں آئی۔ دوسرے لفظوں میں اسے تخلیق کیا گیا۔ اسی بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتاہے کہ اگر ہم کائنات کے پھیلاؤ کے مخالف سمت سفر کریں تو یہ ہمیں ایک نقطے سے وجود میں آتی دکھائی دے گی ،اگر چہ ایسا سفر عملاً ناممکن ہے۔
جدید سائنسی حلقے اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ کائنا ت کے آغاز اور اس کے وجود کی واحد معقول اور قابل ثبوت وضاحت ”بگ بینگ ”ہی ہے کیونکہ اس سے پہلے مادے (MATTER) کا وجود ہی نہ تھا۔”حالت عدم”(CONDITION OF NON-EXISTENCE)تھی جس میں نہ مادہ تھا ‘نہ توانائی تھی اور نہ ہی وقت موجود تھا۔ اسے مابعد الطبیعیاتی طور پر یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ مادے ،توانائی اور وقت کو ایک ساتھ تخلیق کیا گیا۔ (3)
1948ء میں ایک امریکی ماہر فلکیات GEORGE GAMOVبگ بینگ سے متعلق ایک اور خیال لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ ایک بڑے دھماکے کے نتیجے میں جب یہ کائنات وجود میں آگئی تو اس دھماکے بعد شعاعوں کا ایک فالتو حصہ کائنات میں باقی رہ گیا ہو گا۔مزید یہ کہ ان شعاعوں کومساوی طورپر پوری کائنات میں منتشرہوجانا چاہیے تھا۔یہ ثبوت ”جسے موجود ہونا چاہیے تھا ”جلد تلاش کر لیا گیا۔ 1965ء میں دو محققین PENZIAS ARNOاور رابرٹ ولسن نے شعاعوں کی ان لہروں کو اتفاقاً دریافت کر لیا۔ ان شعاعوں کو ”کائناتی پس منظر والی شعاعیں ”کہا گیا جو کسی خاص منبع سے نکلتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھیں بلکہ پورے کرہ ٔ خلائی کو گھیرے ہوئے تھیں۔جس سے یہ ثابت ہو گیاکہ خلاء میں ہر سمت سے جو گرم لہریں یکسا ں طور پر شعاعوں کی شکل میں خارج ہو رہی تھیں وہ بگ بینگ کے ابتدائی مراحل کی باقیات ہی ہیں۔ PENZIAS اور ولسن کو اس دریافت پر نوبل پر ائز دیا گیا۔
1989ء میں ناسا (NASA)نے ایک سیٹلائٹ خلامیں بھیجاجس کا نام کوبے(COBE) یعنیٰ (Cosmic Background Explorer)تھا۔ اس سیٹلائٹ کے بھیجنے کا مقصد کائناتی پس منظر کی شعاعوں (Cosmic Background Radiations)کی تحقیق کرناتھا۔اس سیٹلائٹ پر ایسے حساس جائزہ کار آلات نصب تھے جنہوں نے صرف8 منٹ میں PENZIAS اور ولسن دونوں محققین کی پیمائشوں کی تصدیق کر دی تھی۔ کوبے سیٹلائٹ نے اس بڑے دھماکے کی باقیات تلاش کر لی تھیں جو کائنات کے آغاز کے وقت ہو اتھا۔
بگ بینگ کا ایک اور اہم ثبوت ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسوں کی وہ مقدار تھی جو خلا میں پائی گئی تھی۔ آخری جائزوں میں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کائنات میں جس ہائیڈروجن ہیلیم کا ارتکاز ہے وہ ہائیڈروجن ہیلیم کے ارتکاز کے ان نظری جائزوں کے ہم آہنگ ہے جو بگ بینگ کی باقیات کا نتیجہ تھا۔ اگر اس کائنات کا کوئی آغاز نہ ہوتا اور اگر یہ ازل سے موجود ہوتی تو اب تک اس کی ہائیڈروجن ، ہیلیم میں تبدیل ہوکر خرچ ہو گئی ہوتی۔ یہ سب کے سب اپنے آپ کو اس قدر منوا لینے والے ثبوت تھے کہ سائنس دانوں کے پاس ”نظریہ بگ بینگ” کو تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا۔ کائنات کے آغاز اور اس کی تشکیل سے متعلق دیگر نظریات کے مقابلہ میں بگ بینگ ہی ایک ایسا ٹھوس نظریہ ثابت ہو اہے کہ جس پر ماہرین فلکیات کی اکثریت متفق نظر آتی ہے۔
کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے پروفیسر جارج ایبل نے بھی کہا کہ جو ثبوت سردست دستیا ب ہے اس کے مطابق یہ کائنات کئی بلین برس قبل ایک دھماکے ساتھ وجود میں لائی گئی تھی۔ اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سوائے نظریۂ بگ بینگ کو تسلیم کر لینے کے اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ (4)
قرآن مجید میں کائنات کے وجو دمیں آنے کے حوالے سے درج ذیل آیت میں نشاندہی کی گئی ہے:
(اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِکُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْ مِنُوْنَ)
” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟” (5)
مولانا عبدا لرحمان کیلانی ” تیسیر القرآن ” جلد سوم میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اوریہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چسپیدہ ہونا ہے اور فتق کے معنی ان گڈمڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کر دینا ہے ،اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداً صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور دوسرے اجرامِ فلکی کو پیدافرمایا۔”
ہمارے مشاہدات میں ہے کہ جب دنیا میں کوئی دھماکہ ہوتاہے تو اس کے نتیجے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سالہا سال کی محنت سے بنائی جانے والی عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ افراد کے خاکی اجسام کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ اور جو کچھ ان دھماکوں کی زد میں آتا ہے ‘تباہ وبرباد ہو جاتاہے۔ مثلاً ایٹم اور ہائیڈروجن بم کے دھماکے ،احتراق پذیر گیس کے دھماکے ،آتش فشانی دھماکے، قدرتی گیسوں کے دھماکے اورشمسی دھماکے ،ان سب کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔اس کے برعکس اگر ہمیں کوئی کہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہوا اور وہاں تباہی وبربادی ہونے کی بجائے بڑی بڑی عمارتیں ‘فیکٹریاں اور باغات معرض وجود میں آگئے ہیں تو آپ کہنے والے کو پاگل قرار دے دیں گئے کیونکہ اس کا یہ دعویٰ آپ کے مشاہدات کے برعکس ہے۔ مگرحقیقتاً اگر ایسا ہی ہو تو پھر آپ یہ سوچیں گئے کہ یہ دھماکہ ایک منفرد اور غیر معمولی دھماکہ ہے اور ضرور اس کے پیچھے کسی مافوق الفطرت ہستی کا ہاتھ ہے۔
چنانچہ سائنس نے ہمیں بگ بینگ کے متعلق یہی بتایا ہے کہ یہ دھماکہ ایک ایسا دھماکہ تھا کہ جس کے نتیجے میں بڑی بڑی کہکشائیں ،ستارے ،سیارے وغیر ہ وجود میں آگئے او ر یہ سب زبردست نظم وضبط کے ساتھ خلا میں مداروں کے اندر گھوم رہے ہیں۔چنانچہ یہ دھماکہ ظاہر کرتاہے کہ اس غیر معمولی دھماکے کے پیچھے ایک مافوق الفطرت ہستی کا دستِ قدرت ہے ‘جسے ہم اللہ کے نام سے جانتے ہیں۔
سر فریڈ ہائل نے کئی سال تک بگ بینگ کی مخالفت کی،پھر اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس صورت حال کو بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا:
نظریہ بگ بینگ کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات ایک واحد دھماکے کے ساتھ وجود میں آئی تاہم جیساکہ پہلے بیان کیاگیا ہے دھماکہ تو مادے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے جبکہ بگ بینگ نے متضاد نتیجہ پیش کیا ہے کہ مادے کے کہکشاؤں کی صورت میں جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہوگئے ہیں…..وہ قوانین طبیعیات جو بگ بینگ کے ساتھ ہی وجود میں آگئے تھے 14 ارب سال گزر جانے کے باوجودتبدیل نہ ہوئے۔ یہ قوانین اس قدر نپے تلے حساب کے ساتھ وجود میں آئے تھے کہ ان کی جاریہ قیمتوں (Values)سے ایک ملی میٹر کا فرق بھی پوری کائنات کے مکمل ڈھانچے اور ساخت کی تباہی وبربادی کا باعث بن سکتا تھا۔
مشہور ماہر طبیعیات پروفیسر اسٹیفن ہاکنزاپنی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ ”(A Brief History of Time) میں لکھتاہے کہ یہ کائنات حساب کتاب کے ساتھ طے شدہ جائزوں اورتوازنوں پر قائم کی گئی ہے اوراسے اس قدر نفاست کے ساتھ ”نوک پلک درست” کر کے رکھا گیا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ (6)
قرآن کی زیر نظر آیت اور سائنسی نظریہ بگ بینگ میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔ غور کریں کہ آج سے 1400 سال پہلے جب عرب کے صحرا میں پہلی مرتبہ یہ آیت نازل ہوئی تھی تو کیا یہ کسی انسان کے بس کی بات تھی کہ وہ سائنس کی اس حقیقت کو جو صرف چند سال پہلے مسلسل تجربوں کے بعد سامنے آئی ہے ،اس وقت لکھ سکتا۔ علاوہ ازیں سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ کہکشاؤں کے وجود میں آنے سے پہلے تمام کائنات دھویں کا بادل تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کی اس حالت کا ذکر لفظ ” دخان ” یعنی دُھویں سے کیا ہے اور اس حقیقت کو آج سائنس دانوں نے بھی تسلیم کیاہے۔ یونیورسٹی آف ایری زونا کے سائنس دان ڈینیئل آئزن اسٹین نے نئی تحقیق کی روشنی میں بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی کائنات کو دُھواں پھینکنے والی گن سے تشبیہہ دی ہے کہ جس سے خارج ہونے والا دھواں ایک مخصوص انداز میں پھیلتا ہے۔کائنات بھی اسی طرح فروغ پذیر ہے(7)۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ حم السجدہ میں اس با ت کی طرف اشارہ اس طرح کیا ہے:
(ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَان فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا ط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ)
” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت دھواں تھا تو اس نے (اس طرح کے) آسمان اور زمین سے کہا کہ وجو د میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو،دونوں نے کہا ہم فرماںبرداروں کی طرح آگئے” (8)
پروفیسر ڈاکٹر یوشی ہائیڈ کوزائے(Professor Dr. Yoshihide Koszai) سے جب ان آیات قرآنی پر تبصر ہ کرنے کے لیے کہا گیا جو آسمانوں کی تخلیق کی ابتداء اور زمین وآسمان کے معاملات کی توضیح کرتی ہیں تو انہوں نے آیات کا مطالعہ اور ان پرغور وخوض کرنے کے بعد قرآن مجید کے نزول کے متعلق تفصیلات معلوم کیں کہ یہ کہاں ،کب اور کس پر نازل ہوا ؟ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید 14 سو سال پہلے نازل ہوا تھا تو انہوں نے تعجب کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ” قرآن انتہائی بلند مقام سے کائنات کی وضاحت کرتا ہے۔۔ اس نے جو کچھ کہا وہ حقیقت میں موجود ہے۔ (گویا اُس نے )ایسے مقام سے دیکھا ہے جہاں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ ”
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی وقت ایسا بھی تھا جب آسمان دھواں تھا توانہوں نے بتایا کہ تمام علامات و نشانیاں اسی بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب آسمان دھویں کا بادل تھا۔ بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ دخان (Smoke)دھند یا کہر(Mist)ہے لیکن پروفیسر کوزائے کہتے ہیں کہ دھند یا کہر دھویں سے مشابہت نہیں رکھتی کیونکہ دھند یا کہر کی خصوصیت ٹھنڈی ہوتی ہے جبکہ فلکیاتی دھواں (Cosmic Smoke)گرم ہوتاہے۔درحقیقت”دخان ”مائع گیسوں (Diffused Gases)سے بناہے جس کے ساتھ ٹھوس مواد (Solid Substance)شامل ہے اور یہ دھویں کی بالکل صحیح تعریف ہے جس سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ پروفیسر کوزائے کہتے ہیں چونکہ دھواں گرم تھا لہٰذا ہم اس کو دھند یا کہر سے تعبیر نہیں کر سکتے اور ”دخان ” اس کے لیے بہترین لفظ ہے۔ان کا کہناتھا کہ قرآ ن مجید کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے۔(9)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کائنا ت کی ابتدائی حالت کو دُھویں سے تشبیہہ دی ہے اور یہی جدید سائنس کی تحقیق ہے جبکہ اس حقیقت کا اظہار 1400 سال پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھا۔اس لیے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات کے اس راز کو کائنات کا بنانے والا ہی بتا سکتا ہے، کوئی انسان نہیں۔
حواشی
(1)۔ http://crystalnebulae.co.uk/2dfmap.html
(2)۔بحوالہ روزنامہ اردو نیوزجدہ ،25 نومبر 2004 ء
(3)۔ قرآن رہنمائے سائنس۔صفحہ 109
(4)۔ اللہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ 251-253
(5)۔ سورة الانبیاء ۔ 21:30
(6)۔ اللہ کی نشانیاں ۔صفحہ23-24
(7)۔ روزنامہ اردونیوز جدہ ،مورخہ 13 جنوری 2005 ء
(8)۔ 41:11
(9)۔ سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔
صفحہ133-134
http://quraniscience.com/…/how-did-the-universe-come-intoex…
بشکریہ محترم جانی اعوان صاحب
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات کی تخلیق 14ارب(1) سال پہلے ہوئی تھی ،بگ بینگ(انتہائی زبردست دھماکہ )کی تھیوری تخلیق کائنات کے سلسلے میں ہی بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق کائنات کو عدم سے وجودمیں لایا گیا جس کے اجزا ایک نقطے میں بند تھے۔اس سے پہلے مادہ تھا نہ توانائی اورنہ وقت۔ایک بڑے دھماکے کے سبب یہ سب ایک ساتھ ظہور میں آئے اور باہم گتھا ہوا مادہ چھوٹے بڑے حصوں میں تقسیم ہو گیا اورمنتشر ہو کر خلا میں انتہائی تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے دور ہوتا چلاگیا۔ مادے کے ٹکڑے ابھی بھی خلا میں تیر رہے ہیں اوران کا تیز رفتار سفر جاری ہے،اسی نظریے کے تحت مادے کے چھوٹے اور بڑے ٹکڑے کہیں سیارے بن گئے اور کہیں انہیں ستاروں کی حیثیت مل گئی۔ دمدار ستارے اور آسمان میں ٹمٹماتے تارے اسی نظریے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کرہ ارض،سورج ،چاند ،مریخ ،مشتری ،زحل جیسے متعدد سیارے بھی اسی بگ بینگ کا نتیجہ ہیں۔ (2)
بگ بینگ سے ثابت ہو تاہے کہ کائنات ایک نکتے سے عد م سے وجود میں آئی۔ یہ واحد نقطہ جس نے کائنات کے تمام مادے کو پناہ دے رکھی تھی ”صفر حجم ”اور لامحدود کثافت ”کامالک تھا۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ”صفر حجم ”ایک نظری اظہار ہے جو اس موضوع کی تشریح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سائنس ”عدم ”کے تصور کی ٹھوس تشریح کرنے سے قاصر ہے اور اسے ”ایک نقطہ صفر حجم کے ساتھ ”ہی بیان کیا جاتاہے۔ درحقیقت ”ایک نقطہ بغیر کسی حجم کے”کے معنی ہیں ”عدم”۔اور اسی عدم سے یہ کائنات وجود میں آئی۔ دوسرے لفظوں میں اسے تخلیق کیا گیا۔ اسی بات کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتاہے کہ اگر ہم کائنات کے پھیلاؤ کے مخالف سمت سفر کریں تو یہ ہمیں ایک نقطے سے وجود میں آتی دکھائی دے گی ،اگر چہ ایسا سفر عملاً ناممکن ہے۔
جدید سائنسی حلقے اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ کائنا ت کے آغاز اور اس کے وجود کی واحد معقول اور قابل ثبوت وضاحت ”بگ بینگ ”ہی ہے کیونکہ اس سے پہلے مادے (MATTER) کا وجود ہی نہ تھا۔”حالت عدم”(CONDITION OF NON-EXISTENCE)تھی جس میں نہ مادہ تھا ‘نہ توانائی تھی اور نہ ہی وقت موجود تھا۔ اسے مابعد الطبیعیاتی طور پر یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ مادے ،توانائی اور وقت کو ایک ساتھ تخلیق کیا گیا۔ (3)
1948ء میں ایک امریکی ماہر فلکیات GEORGE GAMOVبگ بینگ سے متعلق ایک اور خیال لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ ایک بڑے دھماکے کے نتیجے میں جب یہ کائنات وجود میں آگئی تو اس دھماکے بعد شعاعوں کا ایک فالتو حصہ کائنات میں باقی رہ گیا ہو گا۔مزید یہ کہ ان شعاعوں کومساوی طورپر پوری کائنات میں منتشرہوجانا چاہیے تھا۔یہ ثبوت ”جسے موجود ہونا چاہیے تھا ”جلد تلاش کر لیا گیا۔ 1965ء میں دو محققین PENZIAS ARNOاور رابرٹ ولسن نے شعاعوں کی ان لہروں کو اتفاقاً دریافت کر لیا۔ ان شعاعوں کو ”کائناتی پس منظر والی شعاعیں ”کہا گیا جو کسی خاص منبع سے نکلتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھیں بلکہ پورے کرہ ٔ خلائی کو گھیرے ہوئے تھیں۔جس سے یہ ثابت ہو گیاکہ خلاء میں ہر سمت سے جو گرم لہریں یکسا ں طور پر شعاعوں کی شکل میں خارج ہو رہی تھیں وہ بگ بینگ کے ابتدائی مراحل کی باقیات ہی ہیں۔ PENZIAS اور ولسن کو اس دریافت پر نوبل پر ائز دیا گیا۔
1989ء میں ناسا (NASA)نے ایک سیٹلائٹ خلامیں بھیجاجس کا نام کوبے(COBE) یعنیٰ (Cosmic Background Explorer)تھا۔ اس سیٹلائٹ کے بھیجنے کا مقصد کائناتی پس منظر کی شعاعوں (Cosmic Background Radiations)کی تحقیق کرناتھا۔اس سیٹلائٹ پر ایسے حساس جائزہ کار آلات نصب تھے جنہوں نے صرف8 منٹ میں PENZIAS اور ولسن دونوں محققین کی پیمائشوں کی تصدیق کر دی تھی۔ کوبے سیٹلائٹ نے اس بڑے دھماکے کی باقیات تلاش کر لی تھیں جو کائنات کے آغاز کے وقت ہو اتھا۔
بگ بینگ کا ایک اور اہم ثبوت ہائیڈروجن اور ہیلیم گیسوں کی وہ مقدار تھی جو خلا میں پائی گئی تھی۔ آخری جائزوں میں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کائنات میں جس ہائیڈروجن ہیلیم کا ارتکاز ہے وہ ہائیڈروجن ہیلیم کے ارتکاز کے ان نظری جائزوں کے ہم آہنگ ہے جو بگ بینگ کی باقیات کا نتیجہ تھا۔ اگر اس کائنات کا کوئی آغاز نہ ہوتا اور اگر یہ ازل سے موجود ہوتی تو اب تک اس کی ہائیڈروجن ، ہیلیم میں تبدیل ہوکر خرچ ہو گئی ہوتی۔ یہ سب کے سب اپنے آپ کو اس قدر منوا لینے والے ثبوت تھے کہ سائنس دانوں کے پاس ”نظریہ بگ بینگ” کو تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا۔ کائنات کے آغاز اور اس کی تشکیل سے متعلق دیگر نظریات کے مقابلہ میں بگ بینگ ہی ایک ایسا ٹھوس نظریہ ثابت ہو اہے کہ جس پر ماہرین فلکیات کی اکثریت متفق نظر آتی ہے۔
کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے پروفیسر جارج ایبل نے بھی کہا کہ جو ثبوت سردست دستیا ب ہے اس کے مطابق یہ کائنات کئی بلین برس قبل ایک دھماکے ساتھ وجود میں لائی گئی تھی۔ اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سوائے نظریۂ بگ بینگ کو تسلیم کر لینے کے اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ (4)
قرآن مجید میں کائنات کے وجو دمیں آنے کے حوالے سے درج ذیل آیت میں نشاندہی کی گئی ہے:
(اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا ط وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِکُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْ مِنُوْنَ)
” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟” (5)
مولانا عبدا لرحمان کیلانی ” تیسیر القرآن ” جلد سوم میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اوریہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چسپیدہ ہونا ہے اور فتق کے معنی ان گڈمڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کر دینا ہے ،اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداً صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور دوسرے اجرامِ فلکی کو پیدافرمایا۔”
ہمارے مشاہدات میں ہے کہ جب دنیا میں کوئی دھماکہ ہوتاہے تو اس کے نتیجے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سالہا سال کی محنت سے بنائی جانے والی عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ افراد کے خاکی اجسام کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔ اور جو کچھ ان دھماکوں کی زد میں آتا ہے ‘تباہ وبرباد ہو جاتاہے۔ مثلاً ایٹم اور ہائیڈروجن بم کے دھماکے ،احتراق پذیر گیس کے دھماکے ،آتش فشانی دھماکے، قدرتی گیسوں کے دھماکے اورشمسی دھماکے ،ان سب کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔اس کے برعکس اگر ہمیں کوئی کہے کہ فلاں جگہ دھماکہ ہوا اور وہاں تباہی وبربادی ہونے کی بجائے بڑی بڑی عمارتیں ‘فیکٹریاں اور باغات معرض وجود میں آگئے ہیں تو آپ کہنے والے کو پاگل قرار دے دیں گئے کیونکہ اس کا یہ دعویٰ آپ کے مشاہدات کے برعکس ہے۔ مگرحقیقتاً اگر ایسا ہی ہو تو پھر آپ یہ سوچیں گئے کہ یہ دھماکہ ایک منفرد اور غیر معمولی دھماکہ ہے اور ضرور اس کے پیچھے کسی مافوق الفطرت ہستی کا ہاتھ ہے۔
چنانچہ سائنس نے ہمیں بگ بینگ کے متعلق یہی بتایا ہے کہ یہ دھماکہ ایک ایسا دھماکہ تھا کہ جس کے نتیجے میں بڑی بڑی کہکشائیں ،ستارے ،سیارے وغیر ہ وجود میں آگئے او ر یہ سب زبردست نظم وضبط کے ساتھ خلا میں مداروں کے اندر گھوم رہے ہیں۔چنانچہ یہ دھماکہ ظاہر کرتاہے کہ اس غیر معمولی دھماکے کے پیچھے ایک مافوق الفطرت ہستی کا دستِ قدرت ہے ‘جسے ہم اللہ کے نام سے جانتے ہیں۔
سر فریڈ ہائل نے کئی سال تک بگ بینگ کی مخالفت کی،پھر اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس صورت حال کو بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا:
نظریہ بگ بینگ کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات ایک واحد دھماکے کے ساتھ وجود میں آئی تاہم جیساکہ پہلے بیان کیاگیا ہے دھماکہ تو مادے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے جبکہ بگ بینگ نے متضاد نتیجہ پیش کیا ہے کہ مادے کے کہکشاؤں کی صورت میں جھنڈ کے جھنڈ نمودار ہوگئے ہیں…..وہ قوانین طبیعیات جو بگ بینگ کے ساتھ ہی وجود میں آگئے تھے 14 ارب سال گزر جانے کے باوجودتبدیل نہ ہوئے۔ یہ قوانین اس قدر نپے تلے حساب کے ساتھ وجود میں آئے تھے کہ ان کی جاریہ قیمتوں (Values)سے ایک ملی میٹر کا فرق بھی پوری کائنات کے مکمل ڈھانچے اور ساخت کی تباہی وبربادی کا باعث بن سکتا تھا۔
مشہور ماہر طبیعیات پروفیسر اسٹیفن ہاکنزاپنی کتاب ”وقت کی مختصر تاریخ ”(A Brief History of Time) میں لکھتاہے کہ یہ کائنات حساب کتاب کے ساتھ طے شدہ جائزوں اورتوازنوں پر قائم کی گئی ہے اوراسے اس قدر نفاست کے ساتھ ”نوک پلک درست” کر کے رکھا گیا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ (6)
قرآن کی زیر نظر آیت اور سائنسی نظریہ بگ بینگ میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔ غور کریں کہ آج سے 1400 سال پہلے جب عرب کے صحرا میں پہلی مرتبہ یہ آیت نازل ہوئی تھی تو کیا یہ کسی انسان کے بس کی بات تھی کہ وہ سائنس کی اس حقیقت کو جو صرف چند سال پہلے مسلسل تجربوں کے بعد سامنے آئی ہے ،اس وقت لکھ سکتا۔ علاوہ ازیں سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ کہکشاؤں کے وجود میں آنے سے پہلے تمام کائنات دھویں کا بادل تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کی اس حالت کا ذکر لفظ ” دخان ” یعنی دُھویں سے کیا ہے اور اس حقیقت کو آج سائنس دانوں نے بھی تسلیم کیاہے۔ یونیورسٹی آف ایری زونا کے سائنس دان ڈینیئل آئزن اسٹین نے نئی تحقیق کی روشنی میں بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والی کائنات کو دُھواں پھینکنے والی گن سے تشبیہہ دی ہے کہ جس سے خارج ہونے والا دھواں ایک مخصوص انداز میں پھیلتا ہے۔کائنات بھی اسی طرح فروغ پذیر ہے(7)۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ حم السجدہ میں اس با ت کی طرف اشارہ اس طرح کیا ہے:
(ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَان فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا ط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ)
” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ اس وقت دھواں تھا تو اس نے (اس طرح کے) آسمان اور زمین سے کہا کہ وجو د میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو،دونوں نے کہا ہم فرماںبرداروں کی طرح آگئے” (8)
پروفیسر ڈاکٹر یوشی ہائیڈ کوزائے(Professor Dr. Yoshihide Koszai) سے جب ان آیات قرآنی پر تبصر ہ کرنے کے لیے کہا گیا جو آسمانوں کی تخلیق کی ابتداء اور زمین وآسمان کے معاملات کی توضیح کرتی ہیں تو انہوں نے آیات کا مطالعہ اور ان پرغور وخوض کرنے کے بعد قرآن مجید کے نزول کے متعلق تفصیلات معلوم کیں کہ یہ کہاں ،کب اور کس پر نازل ہوا ؟ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید 14 سو سال پہلے نازل ہوا تھا تو انہوں نے تعجب کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ” قرآن انتہائی بلند مقام سے کائنات کی وضاحت کرتا ہے۔۔ اس نے جو کچھ کہا وہ حقیقت میں موجود ہے۔ (گویا اُس نے )ایسے مقام سے دیکھا ہے جہاں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ ”
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی وقت ایسا بھی تھا جب آسمان دھواں تھا توانہوں نے بتایا کہ تمام علامات و نشانیاں اسی بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ایک ایسا وقت بھی تھا کہ جب آسمان دھویں کا بادل تھا۔ بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ دخان (Smoke)دھند یا کہر(Mist)ہے لیکن پروفیسر کوزائے کہتے ہیں کہ دھند یا کہر دھویں سے مشابہت نہیں رکھتی کیونکہ دھند یا کہر کی خصوصیت ٹھنڈی ہوتی ہے جبکہ فلکیاتی دھواں (Cosmic Smoke)گرم ہوتاہے۔درحقیقت”دخان ”مائع گیسوں (Diffused Gases)سے بناہے جس کے ساتھ ٹھوس مواد (Solid Substance)شامل ہے اور یہ دھویں کی بالکل صحیح تعریف ہے جس سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ پروفیسر کوزائے کہتے ہیں چونکہ دھواں گرم تھا لہٰذا ہم اس کو دھند یا کہر سے تعبیر نہیں کر سکتے اور ”دخان ” اس کے لیے بہترین لفظ ہے۔ان کا کہناتھا کہ قرآ ن مجید کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے۔(9)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کائنا ت کی ابتدائی حالت کو دُھویں سے تشبیہہ دی ہے اور یہی جدید سائنس کی تحقیق ہے جبکہ اس حقیقت کا اظہار 1400 سال پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھا۔اس لیے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات کے اس راز کو کائنات کا بنانے والا ہی بتا سکتا ہے، کوئی انسان نہیں۔
حواشی
(1)۔ http://crystalnebulae.co.uk/2dfmap.html
(2)۔بحوالہ روزنامہ اردو نیوزجدہ ،25 نومبر 2004 ء
(3)۔ قرآن رہنمائے سائنس۔صفحہ 109
(4)۔ اللہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ 251-253
(5)۔ سورة الانبیاء ۔ 21:30
(6)۔ اللہ کی نشانیاں ۔صفحہ23-24
(7)۔ روزنامہ اردونیوز جدہ ،مورخہ 13 جنوری 2005 ء
(8)۔ 41:11
(9)۔ سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔
صفحہ133-134
http://quraniscience.com/…/how-did-the-universe-come-intoex…
بشکریہ محترم جانی اعوان صاحب