جزاک اللہ رفیق بھائی اچھے طریقےسے سمجھایا ۔ابراہیم نخعی کا یہ کہنا :
إِن كَانَ وَائِل رَآهُ مرّة يفعل ذَلِك، فقد رَآهُ عبد الله خمسين مرّة لَا يفعل ذَلِك
درست نہیں !!!
کیونکہ ابراہیم نخعی تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بھی بعد میں پیدا ہوئے ہیں انکی وفات ۳۲ ہجری میں ہوئی ہے اور نخعی کی پیدائش ۵۰ ہجری کو !!
اور اس انقطاع کا اعتراف حنفیت کے بابا جی أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين نے بھی عمدۃ القاری جلد ۵ صفحہ ۲۷۴ میں کیا ہے ۔ اور اسی طرح طحاوی حنفی نے بھی شرح مشکل الآثار جلد ۱۵ صفحہ ۳۸ پر بھی کیا ہے ۔ گوکہ اس اعتراف حقیقت کے بعد دونوں نے ہی کچھ زور لگانے کی کوشش بھی کی ہے مگر بے سود ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس قول کو طحاوی نے بایں سند نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا مُؤَمَّلٌ، قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: حَدِيثُ وَائِلٍ «أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ , وَإِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ؟» فَقَالَ: إِنْ كَانَ وَائِلٌ رَآهُ مَرَّةً يَفْعَلُ ذَلِكَ , فَقَدْ رَآهُ عَبْدُ اللهِ خَمْسِينَ مَرَّةً , لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ "
تو اسکی سند میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور بصیغہ " عن " روایت کررہےہیں ۔ تو اس عنعنہ کی بناء پر یہ سند بھی ضعیف ہے ۔
اور یہی رویت مؤطا مالک بروایت محمد بن الحسن بأیں طور مروی ہے :
قال محمد : أخبرنا يعقوب بن إبراهيم أخبرنا حصين بن عبد الرحمن قال : دخلت أنا وعمرو بن مرة على إبراهيم النخعي قال عمرو : حدثني علقمة بن وائل الحضرمي عن أبيه : أنه صلى مع رسول الله فرآه يرفع يديه إذا كبر وإذا ركع وإذا رفع قال إبراهيم : ما أدري لعله لم ير النبي صلى الله عليه و سلم يصلي إلا ذلك اليوم فحفظ هذا منه ولم يحفظه ابن مسعود وأصحابه ما سمعته من أحد منهم إنما كانوا يرفعون أيديهم في بدء الصلاة حين يكبرون
اسکی سند میں اولا تو راوی کتاب محمد بن الحسن الشیبانی خود ہی ضعیف ہے دوسرا یعقوب بن ابراہیم یعنی قاضی ابو یوسف شاگرد ابو حنیفہ بھی ضعیف ہے ۔
یعنی نہ تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا دیکھنا ثابت ہے اور نہ ہی ابراہیم نخعی کا یہ قول ثابت ہے !!!!
اور
جمشید بھائی یہ تو بتا دیں ابراہیم نخعی والی روایت آپ کے نزدیک یہ صحیح ہے یا غلط ؟؟؟؟