• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن القیم کا مقامِ عالی اپنے تلامذہ کی زبانی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ابن القیم کا مقامِ عالی اپنے تلامذہ کی زبانی

تحریر: محمد معاذ أبو قحافة

الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

کسی بھی معلِّم کے حق میں؛ تلامذہ کی زبانی تعریفی وتوصیفی کلمات بہت اہم ہوتے ہیں، استاد کی محنت، استاد کا وسعت علم، استاد کی طلبہ کے تئیں فکرمندی، وغیرہ امور کے اولین مشاہدین تلامذہ ہی ہوا کرتے ہیں۔

کسی بھی عالمِ دین کا ترجَمۂ حیات پڑھ لیں، ان کے ثناء خوانوں میں طلبہ کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔

رسول اللہ ﷺ بحیثیتِ معلِّم

رسول اللہ ﷺ کے حق میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایسی تعریفی کلمات بھی بکثرت ملتے ہیں جو آپ ﷺ کے حق میں بحیثیتِ استاد کہے گئے ہیں!

فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے تاہم بطورِ آغاز اور بطورِ تبرک رسول اللہ ﷺ کی شان میں کہے گئے الفاظ ذکر کر دیتا ہوں، پس منظر جاننے کے لیے اصل حدیث کی طرف رجوع کرلیں!

معاویہ بن الحکم السُّلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي.

میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔


( صحیح مسلم: كتاب المساجد ومواضع الصلاة. رقم: 537 ).

حافظ ابن قیم الجوزیہ بحیثیتِ استاد

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی سیرت اور آپ کی زندگی کے متعدد پہلوؤں پر أصحابِ علم نے خوب خوب لکھا ہے، زیادہ تر حصہ عربی زبان میں ہے۔ مجھے آپ کی زندگی کا بس ایک ورق آپ کی خدمت میں پیش کرنا ہے، وہ ہے آپ کی شخصیت، آپ کا عالی رتبہ آپ کے لائق تلامذہ کی زبانی!
البتہ آپ کا مختصر تعارف کرا دیتا ہوں!

١)- محمد بن ابو بکر بن ایوب بن سعد، آپ کا نام ہے، ابو عبد اللہ کنیت اور شمس الدین آپ کا دینی لقب تھا۔
آپ کی علاقائی نسبت (دمشقی) ہے اور بالاخص (زُرعی) ہے جو دمشق کے قرب وجوار کا علاقہ (حَوران) کا قصبہ ہے۔

٢)- حافظ ابن القیم کا سنہ ولادت باتفاق مؤرخین (7 صفر سنہ691ھ) ہے۔ اغلب الظن یہی ہے کہ آپ کی ولادت (دمشق) میں ہوئی ہے۔

٣)- علمی دنیا میں آپ اکثر ( ابن القیم ) یا ( ابن قیم الجوزیہ ) سے جانے جاتے ہیں۔

فائدہ

عالمِ اسلام کے مشہور عالم، مفسر، محدث، مؤرخ، ادیب حافظ ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی (ت 597ھ) رحمہ اللہ کے فرزند محی الدین یوسف بن عبد الرحمن ابن الجوزی (ت 656ھ) رحمہ اللہ نے دمشق میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو ( الجوزية ) سے مشہور ہے۔

حافظ ابن القیم کے والدِ ماجد ابو بکر بن ایوب زرعی (ت 723ھ) اس مدرسہ کے علمی نگران بنائے گئے، نگران کے لیے عربی زبان میں لفظِ ( قيِّم ) مستعمل ہے، یوں آپ ( قیم الجوزیہ ) ہوئے، پھر آپ کے سبھی فرزندان فرداً فرداً ( ابن القیم ) کہلائے، البتہ سب سے زیادہ مشہور، اور مطلقًا ( ابن القیم ) سے آپ کے فرزند ( محمد ) ہی مراد ہوتے ہیں۔

ویسے تاریخ میں ( ابن القیم ) سے متعدد اصحابِ علم موسوم ہیں، جن کا ذکر علامہ بکر بن عبد اللہ ابو زید (ت 1429ھ) رحمہ اللہ اپنی کتاب ( ابن قيم الجوزية: حياته، وآثاره، وموارده: ص 28 ) میں کر چکے ہیں.

٤)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی خالص علمی گھرانے میں نشونما ہوئی، آپ کے والد ابو بکر زرعی کا ترجمۂ حیات حافظ ابن کثیر دمشقی (ت 774ھ) کی ( البداية والنهاية: ١٦/١٧٠، دار ابن كثير ) سے سنہ 723ھ کے حالات میں دیکھ سکتے ہیں۔

آپ کے والد گرامی ( علم الفرائض ) میں مہارت رکھتے تھے، آپ ( علم الفرائض ) اپنے والد سے ہی سیکھا ہے۔

آپ کے گھرانے سے آپ کے بھائی ابو الفرج زین الدین عبد الرحمن بن ابو بکر (ت 769ھ) اور آپ کے بھتیجے عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن عبد الرحمن (ت 799ھ)۔
حافظ ابن القیم کے فرزندان میں خصوصاً شرف الدین عبد اللہ (ت 756ھ) اور برھان الدین ابراھیم (ت 767ھ) سب علمی دنیا کے اساطین ہیں، رحمہم اللہ اجمعین۔

٥)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نہایت چھوٹی عمر ہی میں طلب علم کے لیے کمر بستہ ہو گئے تھے، اللہ تعالیٰ کے بعد یہ فضل آپ کے والدین کی طرف عود کرتا ہے۔
آج بھی دینی مدارس میں چھوٹی چھوٹی عمر کے طلبہ کو دیکھ سکتے ہیں۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ محض سات سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا۔
آپ اپنی معروف کتاب ( زاد المعاد في هدي خير العباد: ٢/٥٣٨ ) میں ( عام الوفود ) کے ضمن میں ( وفد بنو حنیفہ کی آمد ) کی بابت گفتگو کرتے ہوئے ( مسیلمہ الکذاب ) کے جھوٹے ہونے اور اس کے مقتول ہونے پر رسول اللہ ﷺ کے خواب کی شرح میں اپنے استاد ابو العباس احمد بن عبد الرحمن المقدسی جو الشھاب العابر سے معروف ہیں؛ کا ذکر فرمائے ہیں۔ شیخ شہاب العابر ایک مشہور معبر تھے، حافظ ابن القیم تعبیر الرؤیا کا علم آپ سے سَماع کیے، دلچسپ بات یہ ہے کہ شہاب عابر کی وفات 697ھ میں ہوئی، اس وقت حافظ ابن القیم کی عمر محض سات سال تھی۔

البتہ صحبت اور استفادہ کی مدت نہایت قلیل تھی، ابن القیم کے الفاظ میں:
ولم يتفق لي قراءةُ هذا العلم عليه لصغر السن واخترام المنية له رحمه الله تعالى.

٦)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ طلبِ علم کے لیے اس زمانے میں الرحلات العلمية ( علمی سفر ) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، حرمین کی زیارت کی، اور ( قاھرہ - مصر ) کی طرف تو کئی مرتبہ سفر کر چکے ہیں۔ البتہ آپ کے علمی اسفار کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہے۔

شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید رحمہ اللہ ( ابن القيم الجوزية: ص 56 ) میں کہتے ہیں:
وعلى أي حال فإن ابن القيم إذا لم يشتهر عنه من أمر الرحلة في الطلب فإن له عذراً واسعاً في هذا.

حافظ ابن القیم کی زندگی میں ( علمی رحلات ) کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہے، اور یقیناً آپ کے لئے ایک نہیں کئی اعذار ہیں، مثلاً:
آپ کے زمانے میں احادیث کتابوں میں مدون ہو چکی تھیں، نیز آپ دمشقی ہیں یعنی دمشق اس دور کا عظیم علمی اور دیگر فنون کا مرکز تھا، بلکہ دمشقی حضرات وافاضل کی طرف طلبہ وعلماء کوچ کرتے تھے۔

٧)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کو متعدد بار حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔
آپ کے تلمیذِ رشید حافظ ابو الفرج ابن رجب حنبلی (ت 795ھ) رحمہ اللہ ( ذيل طبقات الحنابلة: ٢/٤٤٩ ) میں کہتے ہیں:
وحج مراتٍ كثيرة، وجاور بمكة، وكان أهل مكة يذكرون عنه شدة العبادة وكثرة الطواف أمراً يتعجب منه.

فائدہ

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا کثرتِ حج آپ کی بہت ساری تالیفات میں مذکور ہے، جس میں آپ کی دعوت وتبلیغ کا ذکر ہے، اہلِ علم سے ملاقات کی روداد ہے، علمی نقاش کے تذکرے ہیں، اپنی نجی زندگی سے جڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات ہیں، اور ان اسفار میں آپ کی نوع بنوع قلمی کاوشیں بھی منصۂ شہود پر آئیں، چونکہ ( سیرتِ ابن القیم ) ہماری اس تحریر کا موضوع نہیں ہے، اس لیے اس تفصیل کو کسی اور تحریر میں پیش کروں گا ان شاء اللہ۔

٨)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ علومِ شرعیہ سے متعلقات سبھی موضوعات پر کتابیں حاصل کرتے رہے، ایک عظیم مکتبہ آپ نے ترتیب دیا، در اصل شرعی علم سے وفورِ محبت کا یہ لازمی نتیجہ تھا۔ حافظ ابن القیم کی تالیفات میں مذکور حوالہ جات اس پر شاہد ہیں کہ آپ کا مکتبہ کس قدر وسیع رہا ہوگا۔

ابن القیم کی کتابوں سے محبت، کتابوں کی خریداری، کتابوں کے حصول میں مشقت، وغیرہ امور پر آپ کے تلمیذِ رشید کی زبانی سنیے:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ( البداية والنهاية: ١٦/٣٥٤، دار ابن كثير ) میں کہتے ہیں: واقتنى من الكتب ما لا يتهيأ لغيره تحصيل عشر معشاره من كتب السلف والخلف.
ابن القیم کو سلف وخلف (قدیم وجدید) کی اتنی بڑی مقدار میں کتابیں حاصل ہوگئی تھیں جس کا دسواں حصہ بھی کسی کو میسر نہیں تھا۔

آپ کے ایک اور شاگرد حافظ ابن رجب حنبلی ( ذيل طبقات الحنابلة: ٢/٤٤٩ ) میں کہتے ہیں:
وكان شديد المحبة للعلم، وكتابته ومطالعته وتصنيفه واقتناء الكتب واقتنى من الكتب ما لم يحصل لغيره.
آپ شرعی علم کے شیدائی تھے، فی نفسہ علمِ دین سے محبت تھی، دینی کتب کا مطالعہ، شرعِ متین کی توضیحات پر قلم اٹھانا، اس عظیم کاز کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کتابیں جمع کرنا یہ سبھی امور آپ کو مرغوب تھے، یہ اعمالِ خیر آپ کی اولین پسند تھیں۔ اور کتابوں کی یہ عددی کثرت، موضوعات کا تنوع سوائے ہمارے شیخ ابن القیم کے کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ہے۔
پھر اس عظیم مکتبے کا کیا حال ہوا؟ فی الحال مجھے لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے!

٨)- ابن القیم رحمہ اللہ کی زندگی علم وعمل سے عبارت تھی، آپ نے مدرسہ ( الجوزیہ ) میں بحیثیتِ امام رہے، جامع دمشق میں خطیب الجمعہ بھی رہے، بھری جوانی ہی سے مدرسہ ( الصدرية ) اور دیگر جوامع ومدارس میں تدریس بھی کی، منصبِ افتاء پر بھی فائز رہے، مناظرات کیے، احقاقِ حق کی پاداش میں مسجون بھی ہوئے، کتابیں بھی تصنیف کیں، تالیفات کی تو بہتات ہے جس کا کچھ حصہ آگے ذکر کروں گا ان شاء اللہ۔

٩)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی تالیفات شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید رحمہ اللہ کی تحقیق میں کُل (98) کتابیں ہیں۔
دیکھیے: ( ابن قيم الجوزية: حياته وآثاره وموارده. ص 189- 197 ).

یہاں اس تحریر میں حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی کُل تالیفات کا ذکر مشکل ہے، البتہ میں صرف ان کتابوں کی نام ذکر کروں گا جو میرے پاس ہیں، اس طرح حافظ ابن القیم کی تالیفات جو میرے پاس ہیں اس کی فہرست بھی تیار ہو جائے گی، شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید رحمہ اللہ نے سبھی تالیفات حروف المعجم کا لحاظ کرتے ہوئے پیش کی ہیں، میں بھی اسی نہج کو اختیار کر رہا ہوں.

١)- اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة والجهمية.
٢)- أحكام أهل الذمة.
٣)- أمثال القرآن.
٤)- إعلام الموقعين عن رب العالمين.
٥)- إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان.
٦)- بدائع الفوائد.
٧)- التبيان في أيمان القرآن.
٨)- تحفة المودود بأحكام المولود.
٩)- تهذيب مختصر سنن أبي داود.
١٠)- حكم تارك الصلاة.
١١)- الداء والدواء.
١٢)- زاد المعاد في هدي خير العباد.
١٣)- شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل.
١٤)- الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة.
١٥)- الطب النبوي. (یہ زاد المعاد کا حصہ ہے، البتہ کچھ اہم امور ہیں جنہیں طالب علم کو جاننا چاہیے، فی الحال اس بیان کی گنجائش نہیں ہے).
١٦)- طريق الهجرتين وباب السعادتين.
١٧)- الطرق الحكمية في السياسة الشرعية.
١٨)- عدة الصابرين وذخيرة الشاكرين.
١٩)- الفوائد.
٢٠)- الكافية الشافية في الانتصار للفرقة الناجية. ( القصيدة النونية ).
٢١)- مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين.
٢٢)- مفتاح دار السعادة ومنشور ألوية العلم والإرادة.
٢٣)- هداية الحيارى في أجوبة اليهود والنصارى.

فائدہ

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی تالیفات پر اہلِ علم کی خدمات بھی تالیفات کی شکل میں مطبوع ہیں، وہ بھی قابلِ ذکر ہیں، اس طرح کی کتابیں بہت معاون ثابت ہوتی ہیں، جو میرے پاس موجود ہیں اس کی فہرست بھی تیار کرکے آپ قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا ان شاء اللہ۔

١٠)- حافظ ابن القیم رحمہ اللہ 60 سال کی عمر پاکر 13 رجب 751ھ میں وفات پائے۔

آخری بات

حافظ القیم رحمہ اللہ کی یہ مختصر سیرت رہی، البتہ آپ کی سیرت کا وہ حصہ جو نہایت اہم ہے، بلکہ اصل ہے یعنی آپ کی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ملاقات، آپ کا مسلکِ سلف کو قبول کرنا، ابن تیمیہ اور ابن القیم کے آپسی تعلقات وغیرہ امور کا ذکر مستقل ایک تحریر کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے اس پر مستقل تحریر کروں گا ان شاء اللہ، مجھے اس تحریر میں حافظ ابن القیم کی شخصیت آپ کے تلامذہ کی زبانی پیش کرنی ہے، اس پر لکھ رہا ہوں بہت جلد پیش کروں گا، اللهم وفقني لما تحب وترضى.
 
Top