• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن حبان کون ہیں؟ قرآن و صحاح ستہ میں نکاح کے دو گواہ سے متعلق ہدایت کیوں نہیں ہے؟

سید رافع

مبتدی
شمولیت
مئی 19، 2020
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
28
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ وَمَا كَانَ مِنْ نِكَاحٍ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ فَهُوَ بَاطِلٌ فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ

4075 صحيح ابن حبان ذكر نفي إجازة عقد النكاح بغير ولي وشاهدي عدل

4075 المحدث شعيب الأرناؤوط خلاصة حكم المحدث إسناده حسن في تخريج صحيح ابن حبان

قال ابن قدامة أَنَّ النِّكَاحَ لَا يَنْعَقِدُ إلَّا بِشَاهِدَيْنِ هَذَا الْمَشْهُورُ عَنْ أَحْمَدَ وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَالْحَسَنِ وَالنَّخَعِيِّ وَقَتَادَةَ وَالثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ

اردو ترجمہ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ و علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح نہیں ہے مگر ولی اور دو عادل گواہوں کے ساتھ اور اس کے علاوہ جو نکاح ہو وہ باطل ہے ۔ پھر اگر جھگڑا ہو تو جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی حاکم ہوگا ۔

حدیث نمبر 4075 صحیح ابن حبان بغیر ولی اور گواہوں کے شادی کے متعلق ۔

4075 محدث شعیب ارنوط نے صحیح ابن حبان کی تخریج میں اس حدیث کی اسناد پر حسن کا حکم لگایا ہے ۔


ایک تو اس حدیث کے متعلق یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ صحیح ہے یا حسن؟

دوسرے صحیح بن حبان کے مصنف کیا کوئی حکومتی آدمی تھے جو غیر مستند احادیث کو مستند بناتے تھے؟

تیسرے یہ کہ قرآن میں طلاق کے لیے دو گواہ کی آیت موجود ہے لیکن نکاح کا ذکر 23 جگہ ہوا اور ایک جگہ بھی دو گواہ کا ذکر مذکور نہیں۔ اسکی کیا وجہ ہے؟

چوتھا کیا وجہ ہے کہ بخاری و مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ میں صحیح اور متواتر احادیث اس دو گواہ کے موضوع پر میسر نہیں؟

پانچوں یہ کہ صحیح ابن حبان 356 ھ یعنی بخاری کے ایک سو سال بعد لکھی گئی۔ بخاری 256ھ میں لکھی گئی۔ مسلم 261 ھ میں لکھی گئی۔ کیا وجہ ہے کہ 250 سال امت کو اس ہر روز کی ضرورت نکاح کے لیے ایک صحیح حدیث نہ مل سکی۔ اور ملی بھی تو جا کر کہیں 350 سال بعد۔ غور کیجیے گا کہ صحیح ابن حبان کی تصنیف کے وقت عباسی خلافت کے تحت المعتصم باللہ، واثق باللہ، اور المتوكّل جیسے خلیفہ حکمران تھے۔ہمیں معلوم ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ حسن ہے۔ زندگی کے ایک اہم کام سے متعلق ایک دو کیا متواتر سینکڑوں احدیث ہونی چاہیے تھیں۔ حسن میں روای کا حافظہ کچھ کمزور ہوتا ہے۔

امید ہے کہ رہنمائی فرمائیں گے۔
 
Top