• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابن عربی پر اہل علم کی جرح

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی @ابن داود اس متعلق کوئی تفصیل ہو تو بیان کر دیں ۔ جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
تحریر: محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

وحدت الوجود کے بڑے داعی اور مشہور حلولی صوفی ابن عربی (محی الدین محمد بن علی الحاتمی ابن عربی صوفی) کا مختصر و جامع رد پیشِ خدمت ہے:

1- حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ امام (شیخ الاسلام) سراج الدین البلقینی سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فوراً جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ (لسان المیزان ج 4 ص 319، دوسرا نسخہ ج 5 ص 213، تنبیہ الغبی إلیٰ تکفیر ابن عربی للمحدث البقاعی رحمہ اللہ ص 159)

ابن عربی کے بارے میں حافظ ابن حجر کا ایک گمراہ شخص سے مباہلہ بھی ہوا تھا جس کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ ان شاء اللہ

2- حافظ ابن دقیق العید نے ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی الدمشقی الشافعی رحمہ اللہ (متوفی 660 ھ) سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:

’’شیخ سوء کذاب مقبوح، یقول بقدم العالم ولا یری تحریم فرج‘‘ إلخ

گندا، کذاب (اور) حق سے دُور شخص (تھا) وہ عالَم کے قدیم ہونے کا قائل تھا اور کسی شرمگاہ کو حرام نہیں سمجھتا تھا۔ الخ

الوافی بالوفیات ج 4 ص 125، وسندہ صحیح، تنبیہ الغبی ص 138)

ابن عبدالسلام کا یہ قول درج ذیل کتابوں میں بھی دوسری سندوں کے ساتھ مذکور ہے: (تنبیہ الغبی ص 139، وسندہ حسن) مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ (ج 2 ص 244 وسندہ حسن) میزان الاعتدال (3/ 659) لسان المیزان (5/ 311، 312، دوسرا نسخہ 6/ 398)

تنبیہ: الوافی بالوفیات میں کاتب کی غلطی سے ’’أبی بکر بن العربی‘‘ چھپ گیا ہے جبکہ صحیح لفظ ابی بکر کے بغیر ’’ابن عربی‘‘ ہے۔

3- ثقہ اور جلیل القدر امام ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 745ھ) نے فرمایا:

’’ومن ذھب من ملاحدتھم إلی القول بالإ تحاد والوحدۃ کالحلاج والشوذی وابن أحلی وابن العربي المقیم کان بدمشق وابن الفارض وأتباع ھؤلاء کابن سبعین والتستري تلمیذہ وابن مطرف المقیم بمرسیۃ والصفار المقتول بغرناطۃ وابن اللباج وأبوالحسن المقیم کان بلورقۃ وممن رأیناہُ یُرمی بھذا المذہب الملعون العفیف التلمساني ……‘‘ إلخ

اور ان کے ملحدین میں سے جو اتحاد اور وحدت (یعنی وحدت الوجود) کا قائل ہے جیسے (حسین بن منصور) الحلاج، شوذی، ابن اَحلی، ابن عربی جو دمشق میں مقیم تھا، ابن فارض اور ان کے پیروکار جیسے ابن سبعین اور اس کا شاگرد تستری، مرسیہ میں رہنے والا ابن مطرف اور غرناطہ میں قتل ہونے والا الصفار، ابن اللباج اور لورقہ میں رہنے والا ابو الحسن اور ہم نے جنھیں اس ملعون مذہب کی تہمت کے ساتھ دیکھاہے جیسے عفیف تلمسانی …… الخ

(تفسیر البحر المحیط ج 3 ص 464، 465، سورۃ المائدہ: 17)

4- تفسیر ابن کثیر کے مصنف حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ولہ کتابہ المسمی بفصوص الحکم فیہ أشیاء کثیرۃ ظاھرھا کفر صریح‘‘

اور اس کی کتاب جس کا نام فصوص الحکم ہے، اس میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا ظاہر کفرِصریح ہے۔

(البدایہ والنہایہ ج 13 ص 167، وفیات 638ھ)

5- حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ولم یمدح الحیرۃ أحدمن أھل العلم والإیمان ولکن مدحھا طائفۃ من الملاحدۃ کصاحب الفصوص ابن عربي وأمثالہ من الملاحدۃ الذین ھم حیاری……‘‘

اہلِ علم اور اہلِ ایمان میں سے کسی نے بھی حیرت کی تعریف نہیں کی لیکن ملحدین کے ایک گروہ نے اس کی تعریف کی ہے جیسے فصوص الحکم والا ابن عربی اور اس جیسے دوسرے ملحدین جو حیران و پریشان ہیں……

(فتاویٰ ابن تیمیہ ج 11 ص 385)

حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم دونوں کے بارے میں ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:

’’ومن طالع شرح منازل السائرین تبین لہ أنھما کانا من أکابر أھل السنۃ والجماعۃ ومن أولیاء ھذہ الأمۃ‘‘

اور جس نے منازل السائرین کی شرح کا مطالعہ کیا ہے تو اس پر واضح ہوا کہ وہ (ابن تیمیہ اور ابن القیم) دونوں اہل سنت والجماعۃ کے اکابر اور اس امت کے اولیاء میں سے تھے۔

(جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج 1 ص 207)

6- محدث بقاعی لکھتے ہیں کہ ہمارے استاذ حافظ ابن حجر العسقلانی کا ابن الامین نامی ایک شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ! اگر ابن عربی گمراہی پر ہے تو تُو مجھ پر لعنت فرما۔ حافظ ابن حجر نے کہا: اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پر ہے تو تُو مجھ پر لعنت فرما۔

وہ شخص اس مباہلے کے چند مہینے بعد رات کو اندھا ہو کر مرگیا۔ یہ واقعہ 797ھ کو ذوالقعدہ میں ہوا تھا اور مباہلہ رمضان میں ہوا تھا۔ (تنبیہ الغبی ص 136، 137)

اس مباہلے کی تفصیل اور ذکر کے لئے دیکھئے الجواہر والدرر (ج3ص 1001۔1002) اور فتح الباری (ج 8 ص 95 ح 4380۔4382 باب قصۃ اہل نجران، کتاب المغازی)

7- ملا علی قاری حنفی کا حوالہ گزر چکا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو۔

8- قاضی تقی الدین علی بن عبدالکافی السبکی الشافعی نے شرح المنہاج کے باب الوصیہ میں کہا:

’’ومن کان من ھؤلاء الصوفیۃ المتأخرین کإبن عربی وغیرہ فھم ضلال جھال خارجون عن طریقۃ الإسلام‘‘

اور جو اِن متاخرین صوفیہ میں سے ہے جیسے ابن عربی وغیرہ تو یہ گمراہ جاہل ہیں (جو) اسلام کے طریقے سے خارج ہیں۔

(تنبیہ الغبی ص 143)

9- شمس الدین محمد العیزری الشافعی نے اپنی کتاب ’’الفتاوی المنتشرۃ‘‘ میں فصوص الحکم کے بارے میں کہا:

’’قال العلماء: جمیع مافیہ کفر لأنہ دائر مع عقیدۃ الإ تحاد……‘‘ إلخ

علماء نے کہا: اس میں سارے کا سارا کفر ہے کیونکہ یہ اتحاد کے عقیدے پر مشتمل ہے۔ الخ

(تنبیہ الغبی ص 152)

10- محد ث برہان الدین البقاعی نے تکفیر ابن عربی پر تنبیہ الغبی کے نام سے کتاب لکھی ہے جس کے حوالے آپ کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔

معلوم ہوا کہ عام علماء اور جلیل القدر محدثین کرام کے نزدیک ابن عربی صوفی اور وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے لوگ گمراہ اور گمراہ کرنے والے ہیں۔

جن علماء نے ابن عربی کی تعریف کی ہے یا اسے شیخ اکبر کے خود ساختہ لقب سے یاد کیا ہے، اُن کے دو گروہ ہیں:

اول: جنھیں ابن عربی کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔

دوم: جنھیں ابن عربی کے بارے میں علم ہے۔ان کے تین گروہ ہیں:

اول: جو ابن عربی کی کتابوں اور اس کی طرف منسوب کفر یہ عبارات کا یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ یہ ابن عربی سے ثابت ہی نہیں ہیں۔

دوم: جو تاویلات کے ذریعے سے کفریہ عبارات کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوم: جو ان عبارات سے کلیتاً متفق ہیں۔ اس تیسرے گروہ اور ابن عربی کا ایک ہی حکم ہے اور پہلے دو گروہ اگر بذاتِ خود صحیح العقیدہ ہیں تو جہالت کی وجہ سے لاعلم ہیں۔

آخر میں عرض ہے کہ وحدت الوجود ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے جس کی تردید قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ، اجماع، آثارِ سلف صالحین اور عقل سے ثابت ہے۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کیا تم بے خوف ہو اُس سے جو آسمان پر ہے کہ تمھیں زمین میں دھنسا دے پھر وہ ڈولنے لگے؟ (سورۃ الملک: 16)

رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی سے پوچھا: ((أَینَ اللہُ؟)) اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟

اس نے جواب دیا: ’’فِی السَّمَاءِ‘‘ آسمان پر ہے۔

آپ نے پوچھا: میں کون ہوں؟

اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔

آپ ﷺ نے اُس لونڈی کے مالک سے فرمایا:((أَعْتِقْھَا فَإِنَّھَا مُؤْمِنَۃٌ)) اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ ایمان والی ہے۔ (صحیح مسلم: 537، ترقیم دارالسلام: 1199)

ابو عمروالطلمنکی نے کہا: اہلِ سنت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور معیت سے مراد اُس کا علم (وقدرت) ہے۔ (دیکھئے شرح حدیث النزول لابن تیمیہ ص 144، 145، ملخصاً)

تنبیہ: وحدت الوجود کے قائل حسین بن منصور الحلاج الحلولی کے بارے میں تفصیلی تحقیق کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 21 ص 8۔11

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 468 تا 472) نیز دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 63 تا 67) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
 
Top