- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,410
- ری ایکشن اسکور
- 2,730
- پوائنٹ
- 556
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!
عبد الرحمن بن ملجم المرادي
زنادقہ وروافضہ میں سے بعض جاہل وخبیث اشخاس، عوام الناس کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قاتل، ابن ملجم خارجی، "صحابی" تھا، حالانکہ یہ بات قطعی طور پر جھوٹ ہے، اہل سنت کے علماء میں سے کسی نے اسے صحابی نہ سمجھا، نہ لکھا، اور نہ ہی کسی قابل اعتماد روایت میں اس کی صحابیت کا کوئی اشارہ ہی ہے.
مگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے عداوت، بغض وعناد رکھنے والے، کینہ پرور، دشمنان اسلام جن میں روافض سب سے آگے ہیں، اہل سنت کی کتب کی چند عبارات سے بزعم خویش اپنا باطل مفہوم کشید کرکے، ابن ملجم کو صحابی باور کروانے کی سعی کرتے ہیں، کہ اس بہانے صحابہ رضی اللہ عنہم کو غیر معتبر باور کروایا جائے۔
امام ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب الإصابة في تمييز الصحابة میں رقم فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن ملجم المرادي:
أدرك الجاهلية، وهاجر في خلافة عمر، وقرأ على معاذ بن جبل. ذكر ذلك أبو سعيد بن يونس، ثم صار من كبار الخوارج، وهو أشقى هذه الأمة بالنص الثابت عن النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم بقتل علي بن أبي طالب، فقتله أولاد علي. وذلك في شهر رمضان سنة أربع وأربعين. ذكره الذّهبيّ في التجريد لكونه على الشرط، وليس بأهل أن يذكر مع هؤلاء، وبسطت ترجمته في لسان الميزان.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 85 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 158 جلد 08 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والاسلامية - القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 828 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية - مصر
حالاںکہ اس عبارت میں کہیں بھی ابن ملجم کو "صحابی" نہیں کہا گیا، نہ ہی أدرك الجاهلية، کے الفاظ سے صحابیت کا اثبات ہوتا ہے، اور نہ ہی ابن حجر العسقلانی کی اس کتاب میں محض کسی کا ذکر کرنے سے صحابیت کا اثبات ہوتا ہے؛
یوں تو اس کتاب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، لیکن اس کتاب کے اسی باب سے ایک ہی مثال پیش کی جاتی ہے، وہی کفایت کرے گی، کہ بعین یہی بات ابن حجر العسقلانی نے ایک شخص کے متعلق کہی اور اس کا صحابی نہ ہونا بھی لکھا ہے، لہٰذا یہ ابن حجر العسقلانی کا ابن ملجم کو اس کتاب میں ذکر کرنا, صحابی شمار کرنا نہیں، جس طرح عبد الرحمن بن غنم بن کزيز کو اسی کتاب میں ذکر کرنا، انہیں صحابی شمار کرنا نہیں:
عبد الرحمن بن غنم بن كريز:
ويقال هانئ بن ربيعة بن عامر بن عدي بن وائل الأشعري.
تقدّم نسبه، وسمّي ابنه في القسم الأول. وأما هذا فتابعي شهير، له إدراك، وهاجر في زمن عمر.
قال البغويّ: هو قديم، لا أدري أدرك أم لا. وقيل: إنه ولد في حياة النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم وقال حرب، عن أحمد: أدرك ولم يسمع. وقال التّرمذيّ: يقال إنه أدرك.
وقال أبو نعيم: مختلف في صحبته. وقال أبو حاتم: جاهلي ليست له صحبة، وروايته مرسلة.
وقال أبو عمر: كان مسلما في عهد النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم ولم يره، سمع معاذ بن جبل. وقال يعقوب بن شيبة: أدرك عمر وسمع منه. وقال ابن أبي خيثمة: قال أبو مسهر: كان رأس التابعين.
وقد روى عبد الرحمن بن غنم عن عمر، وعثمان، ومعاذ، وأبي عبيدة، وأبي ذر، وأبي الدّرداء، وأبي مالك الأشعري، وشداد بن أوس، وثوبان، وعبادة، وغيرهم.
روى عنه ابنه محمد، وعطية بن قيس، وأبو سلام الأسود، وشهر بن حوشب، ومكحول، ورجاء بن حيوة، وآخرون.
وقال أبو زرعة الدّمشقيّ، عن دحيم: عبد الرحمن بن غنم مقدّم عندي على الصّنابحي، وهو رجل أهل الشام.
قال خليفة وغيره: مات سنة ثمان وسبعين من الهجرة.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 - 83 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 153 - 155 جلد 08 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز للبحوث والدراسات العربية والاسلامية - القاھرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 819 - 720 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 99 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية - بيروت
ابن حجر العسقلانی نے الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن ملجم کے ذکر میں کہا ہے کہ امام ذہبی نے ابن ملجم کو تجرید اسماء الصحابة میں ذکر کیا ہے؛
درست! لیکن امام ابن حجر العسقلانی یہ نہیں کہا کہ امام ذہبی نے ابن ملجم کو صحابی کہا ہے، اور نہ ہی امام ذہبی نے ابن ملجم کو صحابی کہا ہے؛ بلکہ اسی صفحہ پر دو نام ایسے دیکھے جا سکتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت نہیں، اور ان کی احادیث جو وہ بلا واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں وہ مرسل احادیث ہیں:
عبد الرحمن بن ملجم المرادي قاتل امير المؤمنين علي << ذكر ابن يونس انه قرآ علی معاذ بن جبل >>
اور اس سے قبل درج ذیل عبارات موجود ہیں:
عبد الرحمن بن معاذ بن جبل توفي مع ابيه في طاعون عمواس لا صحبة له.
۔۔
عبد الرحمن بن معاوية لا تصح له صحبة نزل مصر وروي عنه سويد بن قيس * مرسل *.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 356 جلد 01 تجريد اسماء الصحابة - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر - بيروت
عبد الرحمن بن ملجم المرادي
زنادقہ وروافضہ میں سے بعض جاہل وخبیث اشخاس، عوام الناس کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا قاتل، ابن ملجم خارجی، "صحابی" تھا، حالانکہ یہ بات قطعی طور پر جھوٹ ہے، اہل سنت کے علماء میں سے کسی نے اسے صحابی نہ سمجھا، نہ لکھا، اور نہ ہی کسی قابل اعتماد روایت میں اس کی صحابیت کا کوئی اشارہ ہی ہے.
مگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے عداوت، بغض وعناد رکھنے والے، کینہ پرور، دشمنان اسلام جن میں روافض سب سے آگے ہیں، اہل سنت کی کتب کی چند عبارات سے بزعم خویش اپنا باطل مفہوم کشید کرکے، ابن ملجم کو صحابی باور کروانے کی سعی کرتے ہیں، کہ اس بہانے صحابہ رضی اللہ عنہم کو غیر معتبر باور کروایا جائے۔
امام ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب الإصابة في تمييز الصحابة میں رقم فرماتے ہیں:
عبد الرحمن بن ملجم المرادي:
أدرك الجاهلية، وهاجر في خلافة عمر، وقرأ على معاذ بن جبل. ذكر ذلك أبو سعيد بن يونس، ثم صار من كبار الخوارج، وهو أشقى هذه الأمة بالنص الثابت عن النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم بقتل علي بن أبي طالب، فقتله أولاد علي. وذلك في شهر رمضان سنة أربع وأربعين. ذكره الذّهبيّ في التجريد لكونه على الشرط، وليس بأهل أن يذكر مع هؤلاء، وبسطت ترجمته في لسان الميزان.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 85 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 158 جلد 08 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والاسلامية - القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 828 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية - مصر
حالاںکہ اس عبارت میں کہیں بھی ابن ملجم کو "صحابی" نہیں کہا گیا، نہ ہی أدرك الجاهلية، کے الفاظ سے صحابیت کا اثبات ہوتا ہے، اور نہ ہی ابن حجر العسقلانی کی اس کتاب میں محض کسی کا ذکر کرنے سے صحابیت کا اثبات ہوتا ہے؛
یوں تو اس کتاب میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، لیکن اس کتاب کے اسی باب سے ایک ہی مثال پیش کی جاتی ہے، وہی کفایت کرے گی، کہ بعین یہی بات ابن حجر العسقلانی نے ایک شخص کے متعلق کہی اور اس کا صحابی نہ ہونا بھی لکھا ہے، لہٰذا یہ ابن حجر العسقلانی کا ابن ملجم کو اس کتاب میں ذکر کرنا, صحابی شمار کرنا نہیں، جس طرح عبد الرحمن بن غنم بن کزيز کو اسی کتاب میں ذکر کرنا، انہیں صحابی شمار کرنا نہیں:
عبد الرحمن بن غنم بن كريز:
ويقال هانئ بن ربيعة بن عامر بن عدي بن وائل الأشعري.
تقدّم نسبه، وسمّي ابنه في القسم الأول. وأما هذا فتابعي شهير، له إدراك، وهاجر في زمن عمر.
قال البغويّ: هو قديم، لا أدري أدرك أم لا. وقيل: إنه ولد في حياة النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم وقال حرب، عن أحمد: أدرك ولم يسمع. وقال التّرمذيّ: يقال إنه أدرك.
وقال أبو نعيم: مختلف في صحبته. وقال أبو حاتم: جاهلي ليست له صحبة، وروايته مرسلة.
وقال أبو عمر: كان مسلما في عهد النبي صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم ولم يره، سمع معاذ بن جبل. وقال يعقوب بن شيبة: أدرك عمر وسمع منه. وقال ابن أبي خيثمة: قال أبو مسهر: كان رأس التابعين.
وقد روى عبد الرحمن بن غنم عن عمر، وعثمان، ومعاذ، وأبي عبيدة، وأبي ذر، وأبي الدّرداء، وأبي مالك الأشعري، وشداد بن أوس، وثوبان، وعبادة، وغيرهم.
روى عنه ابنه محمد، وعطية بن قيس، وأبو سلام الأسود، وشهر بن حوشب، ومكحول، ورجاء بن حيوة، وآخرون.
وقال أبو زرعة الدّمشقيّ، عن دحيم: عبد الرحمن بن غنم مقدّم عندي على الصّنابحي، وهو رجل أهل الشام.
قال خليفة وغيره: مات سنة ثمان وسبعين من الهجرة.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 82 - 83 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 153 - 155 جلد 08 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز للبحوث والدراسات العربية والاسلامية - القاھرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 819 - 720 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 99 جلد 05 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية - بيروت
ابن حجر العسقلانی نے الإصابة في تمييز الصحابة میں ابن ملجم کے ذکر میں کہا ہے کہ امام ذہبی نے ابن ملجم کو تجرید اسماء الصحابة میں ذکر کیا ہے؛
درست! لیکن امام ابن حجر العسقلانی یہ نہیں کہا کہ امام ذہبی نے ابن ملجم کو صحابی کہا ہے، اور نہ ہی امام ذہبی نے ابن ملجم کو صحابی کہا ہے؛ بلکہ اسی صفحہ پر دو نام ایسے دیکھے جا سکتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت نہیں، اور ان کی احادیث جو وہ بلا واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کریں وہ مرسل احادیث ہیں:
عبد الرحمن بن ملجم المرادي قاتل امير المؤمنين علي << ذكر ابن يونس انه قرآ علی معاذ بن جبل >>
اور اس سے قبل درج ذیل عبارات موجود ہیں:
عبد الرحمن بن معاذ بن جبل توفي مع ابيه في طاعون عمواس لا صحبة له.
۔۔
عبد الرحمن بن معاوية لا تصح له صحبة نزل مصر وروي عنه سويد بن قيس * مرسل *.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 356 جلد 01 تجريد اسماء الصحابة - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر - بيروت