احمد پربھنوی
رکن
- شمولیت
- دسمبر 17، 2016
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 48
السلام علیکم و رحمۃاللہ !اس کے علاوہ ذہبی، ابن الجوزی، اور ابن حجر وغیرہ نے صرف ان کا یہ قول نقل کیا ہے، جو کہ باقی محدثین کے مخالف نہیں ہے
باقی محدثین کے قول کیا ہیں وہ ان کے اقوال کے پس منظر میں دیکہیں جائیں گے ۔لیکن یہ ابو سعید الرواس کون ہیں؟؟ کیا ابن الجوزی رحمہ اللہ کا سماع ان سے ثابت ہے ؟ کیا ابو سعید الرواس ثقہ ہے ؟؟
یہ جب تک معلوم نہ ہوسکے اس جرح کو ثابت نہیں مانا جائیگا۔
اب اگر کوئی کہے کہ ابو سعید الرواس تک سند نہیں معلوم اور ان کے حالات بھی نہیں معلوم لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ کی اپنی جرح تو ثابت ہے۔
تو امام ذہبی ابن الجوزی رحمہ اللہ کی اس کتاب جس میں ابو سعید الرواس کا یہ قول موجود ہے اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"وقد أورده أيضاً العلامة أبو الفرج بن الجوزي في الضعفاء ولم يذكر فيه أقوال من وثقه؛ وهذا من عيوب كتابه،( مقدمہ ص 60 سیر اعلام النبلاء )
ترجمہ :اس راوی کو ابن الجوزی نے الضعفاء میں ذکر کیا اور اسمیں انہوں نے ان لوگوں کے اقوال کو ذکر نہیں کیا جنہوں نے ان کی توثیق کی اور یہ ان کی کتاب کے عیوب میں سے ہے ۔"
اسی طرح شیخ معلمی بھی کہتے ہیں۔
لانه كثير الاوهام (التنكيل ج 1 ص 430)
يعنی ابن الجوزی کثرت سے وہم کا شکار ہونے والے ہیں۔
شیخ زبیر علی زائی الحدیث ش 53 ص 44 پر لکھتے ہیں حافظ ابن الجوزی کے اوہام و اخطا کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنی کتابوں کی مراجعت کا موقع نہ ملا۔
تو اب یہ ابن الجوزی کے قول کو کسطرح معتبر مانا جئیگا۔