• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو الفضل ابن طاہر کے اس قول کا حوالہ جلد از جلد درکار ہے

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ البانی رحمہ اللہ سلسلہ الضعیفہ (593) میں لکھتے ہیں:
ومن هذا الوجه رواه الخطيب في " الجامع " كما في " فيض القدير " للمناوي وقال: " قال ابن طاهر: ومنصور وأبو النضر لا يعرفان، والحديث منكر، انتهى
اسمیں ملون الفاظ کا اصل مصدر درکار ہے. کافی تلاش کے بعد بھی مجھے نہیں مل سکا. جتنی بھی کتابوں میں یہ قول ہے بلا حوالہ ہے.
براہ کرم جلد از جلد اسکا مصدر بتائیں.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حَدِيث: الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّهَاتِ، أحمد والنسائي وابن ماجه والحاكم في مستدركه من حديث ابن جريج، أخبرني محمد بن طلحة هو ابن عبد اللَّه بن عبد الرحمن ابن أبي بكر الصديق عن أبيه عن معاوية بن جاهمة السلمي، أن جاهمة جاء إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال: يا رسول اللَّه، أردت أن أغزو، وقد جئت أستشيرك، فقال: هل لك من أم؟ قال: نعم، قال: فالزمها فإن الجنة تحت رجليها، وقال الحاكم: إنه صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وتعقب بالاضطراب. فقيل: هكذا كما اتفق عليه حجاج بن محمد، وروح بن عبادة، وأبو عاصم، كلهم عن ابن جريج. وقيل عن معاوية أنه السائل، أخرجه ابن ماجه أيضا من حديث محمد بن إسحاق عن محمد بن طلحة بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق عن معاوية عن جاهمة. قال: أتيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقلت: يا رسول اللَّه، إني كنت أردت الجهاد معك، أبتغي بذلك وجه اللَّه، والدار الآخرة، قال: ويحك أحية أمك، قلت: نعم يا رسول اللَّه، قال: ويحك الزم رجلها فثم الجنة، وجعله أيضا بلا واسطة بين محمد بن طلحة ومعاوية. وقد أخرجه ابن شاهين من جهة إبراهيم بن سعد عن ابن إسحاق فأثبته، وتابعه محمد بن سلمة الخزاعي عن ابن إسحاق، وهو المشهور عنه. وقيل عن طلحة بن معاوية أنه هو الذي سأل، ورجح البيهقي الأول. وفيه من الاختلاف غير ذلك مما لبسطه غير هذا المحل. وفي الباب ما أخرجه الخطيب في جامعه، والقضاعي في مسنده، من حديث منصور بن المهاجر البزوري. عن أبي النضر الأبار عن أنس رفعه: الجنة تحت أقدام الأمهات، قال ابن طاهر: ومنصور وأبو النضر لا يعرفان، والحديث منكر، وذكره أيضا من حديث ابن عباس وضعفه، هذا وقد عزاه الديلمي لمسلم عن أنس، فينظر. والمعنى أن التواضع للأمهات سبب لدخول الجنة.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 286 – 287 المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

اور غالباً یہ امام سخاوی نے ابن طاهر کی کتاب ''الكشف عن أحاديث الشهاب ومعرفة الخطأ فيها و الصواب''سے نقل کیا ہے !

یہ کتاب مجھے نہیں مل سکی !
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ!
اور غالباً یہ امام سخاوی نے ابن طاهر کی کتاب ''الكشف عن أحاديث الشهاب ومعرفة الخطأ فيها و الصواب''سے نقل کیا ہے !
صرف اسی کتاب کا نام آپ نے لیا کوئی خاص وجہ؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
امام غماری المداوی میں لکھتے ہیں:
ما نقله عن ابن طاهر من أن منصور بن مهاجر وأبا النضر الأبار لا يعرفان باطل
المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي

اب ایک طرف کئی محدثین ہیں جنہوں نے ابن طاہر کے قول کو نقل کیا ہے لیکن حوالہ نہیں دیا جبکہ دوسری طرف غماری کہتے ہیں کہ علامہ مناوی کا ابن طاہر کے حوالے سے یہ نقل کرنا باطل ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صرف اسی کتاب کا نام آپ نے لیا کوئی خاص وجہ؟؟؟
اس کتاب کا نام اس لئے کہ ملتقی اہل الحدیث پر اس کتاب کے حوالہ سے مذکور تھا!
امام غماری المداوی میں لکھتے ہیں:
ما نقله عن ابن طاهر من أن منصور بن مهاجر وأبا النضر الأبار لا يعرفان باطل
المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي

اب ایک طرف کئی محدثین ہیں جنہوں نے ابن طاہر کے قول کو نقل کیا ہے لیکن حوالہ نہیں دیا جبکہ دوسری طرف غماری کہتے ہیں کہ علامہ مناوی کا ابن طاہر کے حوالے سے یہ نقل کرنا باطل ہے.
اب یہاں سوال دو ہیں!
1: کہ غمازی نے ابن طاھر کے قول کو نقل کرنے کو باطل قرار دیا ہے؟ یعنی کہ ابن طاھر کا یہ قول نہیں!
2: یا کہ غمازی نے ابن طاھر سے منقول اس قول کو باطل قرار دیا ہے؟ یعنی کہ نقل درست ہے، لیکن قول درست نہیں!

غمازی کی اس عبارت پر توجہ کرنا چاہیئے:
السادس: ما نقله عن ابن طاهر من أن منصور بن مهاجر وأبا النضر الأبار لا يعرفان باطل، فمنصور بن مهاجر معروف، روى عنه يعقوب بن شيبة ومحمد بن عبد الملك الدقيقى والحسن بن على الحلوانى ومحمد بن إسماعيل الحسانى وإسحاق بن وهب العلاف وعلى بن إبراهيم بن عبد المجيد وأبو هاشم سهم بن إسحاق بن إبراهيم وعلى بن إبراهيم الواسطى وآخرون، وروى له ابن ماجه في التفسير وله ترجمة في التهذيب، وأبو النضر الأبار هو جرير بن حازم كما ذكره الدولابى في الكنى، وهو ثقه من رجال الجميع.

غمازی کی بات میں وزن ہے!
ایک طرف ان کا تعارف نہ ہونے کا کہا گیا ہے، تو غمازی نے ان کا تعارف پیش کردیا ہے!
ایک راوی کسی کے محدث کے مجہول قرار دینے اور دوسرے کا اس کا تعارف پیش کرنے سے اس کا مجہول ہونا باطل ہو جاتا ہے، یہی کہا جائے گا مجہول کہنے والے کو اس راوی کا معلوم نہ ہوسکا! اس نے درست کہا کہ اس کے لئے وہ راوی مجہول ہے!

ایک بات یہ ہو سکتی ہے کہ راوی کے تعین میں اختلاف ہو!
ان دونوں رواة کی مرویات تلاش کرنی چاہیئں!
آپ کے پاس جوامع الکلم کا سافٹ ویئر ہے؟


آپ کے پاس جوامع الكلم ہے؟ اس سے ان رواة کی مرویات تلاش کریں!
پھر ان مرویات پر محدثین کا کلام، تو راجح صورت سامنے آجائے گی!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اس کتاب کا نام اس لئے کہ ملتقی اہل الحدیث پر اس کتاب کے حوالہ سے مذکور تھا!
ممکن ہو تو اسکا لنک فراہم کر دیں. عین نوازش ہوگی!
اب یہاں سوال دو ہیں!
1: کہ غمازی نے ابن طاھر کے قول کو نقل کرنے کو باطل قرار دیا ہے؟ یعنی کہ ابن طاھر کا یہ قول نہیں!
2: یا کہ غمازی نے ابن طاھر سے منقول اس قول کو باطل قرار دیا ہے؟ یعنی کہ نقل درست ہے، لیکن قول درست نہیں!
ایسی صورت میں کیا کیا جانا چاہئے؟ میں نے کافی کتابوں میں تلاش کیا لیکن کہیں بھی ابن طاہر کا قول بحوالہ نہیں مل سکا.
غمازی کی بات میں وزن ہے!
ایک طرف ان کا تعارف نہ ہونے کا کہا گیا ہے، تو غمازی نے ان کا تعارف پیش کردیا ہے!
کئی محدثین نے منصور کا ترجمہ ذکر کیا ہے البتہ کلمہ توثیق کسی نے ذکر نہیں کیا. البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسکو مستور کہا ہے.
علامہ البانی رحمہ اللہ سلسلہ الصحیحہ میں لکھتے ہیں:
منصور بن مهاجر، روى عنه جمع من الثقات منهم يعقوب بن شيبة، ولم يذكروا فيه توثيقا، ولذلك قال الحافظ في ”التقريب“: ”مستور“.
قلت: فمثله يستشهد به على أقل الدرجات.
ترجمہ: منصور بن مہاجر سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے ان میں سے یعقوب بن شیبہ بھی ہیں. اور ان لوگوں نے منصور کے سلسلے میں کوئی توثیق نہیں ذکر کی ہے. اسی لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں منصور کے متعلق فرمایا کہ یہ مستور ہے.
(علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ اس (منصور) جیسے (راوی) سے کم سے کم استشہاد کیا جا سکتا.
سلسلة الأحاديث الصحيحة للألباني ط مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض: 4/630 (رقم الحديث: 1979)

اسی سے ملتا جلتا کلام علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ الضعیفہ میں بھی کیا ہے.
تفصیل کے لئے دیکھیں: سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة للألباني ط دار المعارف، الرياض - الممكلة العربية السعودية: 14/938 (رقم الحدیث: 6903)
ایک بات یہ ہو سکتی ہے کہ راوی کے تعین میں اختلاف ہو!
نہیں راوی کے تعین میں اختلاف نہیں ہے. ہاں ابو النضر نام کے راوی کو کچھ لوگوں نے ابو النصر بنا دیا ہے. اور اس پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے تنقید کی ہے.
تفصیل کے لئے دیکھیں: سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة للألباني ط دار المعارف، الرياض - الممكلة العربية السعودية: 14/938 رقم الحدیث: 6903
ان دونوں رواة کی مرویات تلاش کرنی چاہیئں!
تھوڑا بہت تلاش کیا تھا.
آپ کے پاس جوامع الکلم کا سافٹ ویئر ہے؟
نہیں محترم شیخ!
وهو ثقه من رجال الجميع.
پہلی بات تو یہ کہ غماری نے کوئی توثیق نہیں ذکر کی ہے. دوسری بات یہ کہ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہیکہ انھوں نے ابو النضر کو ثقہ کہا ہے. حالانکہ کتب ستہ میں جو ابو النضر ہے وہ الازدی ہے. ابو النضر الابار نہیں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اب یہاں سوال دو ہیں!
ایک احتمال شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام غماری نے سرے سے ابن طاہر المقدسی کے قول کو ہی باطل قرار دے دیا ہو یعنی کہ ابن طاہر کا لا یعرفان کہنا ہی باطل ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک احتمال شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام غماری نے سرے سے ابن طاہر المقدسی کے قول کو ہی باطل قرار دے دیا ہو یعنی کہ ابن طاہر کا لا یعرفان کہنا ہی باطل ہے.
جی یہی کہا تھا:
: یا کہ غمازی نے ابن طاھر سے منقول اس قول کو باطل قرار دیا ہے؟ یعنی کہ نقل درست ہے، لیکن قول درست نہیں!
قال الحافظ في ”التقريب“: ”مستور“.
اس سے ابن طاھر کا کلام درست معلوم ہوتا ہے!
دوسری بات یہ کہ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہیکہ انھوں نے ابو النضر کو ثقہ کہا ہے. حالانکہ کتب ستہ میں جو ابو النضر ہے وہ الازدی ہے. ابو النضر الابار نہیں
یہ گتھی سلجھانے والی ہے!
دولابی کی عبارت دیکھیں:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ زِيَادٍ أَبِي النَّضْرِ الْجُعْفِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ جَدِّهِ أَوْ عَمِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ فُقَرَاؤُهَا، وَأَسْرَعُهَا تَضَجُّعًا فِي الْجَنَّةِ ضُعَفَاؤُهَا» حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: «جَمِيلُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ كُنْيَتُهُ أَبُو النَّضْرِ» . قَالَ: «وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ كُنْيَتُهُ أَبُو النَّضْرِ» . سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: " سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ كُنْيَتُهُ: أَبُو النَّضْرِ ". سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: «جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ كُنْيَتُهُ أَبُو النَّضْرِ الْأَبَّارُ»
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جی یہی کہا تھا:
ابتسامہ. معذرت دھیان نہیں دیا تھا.
اس سے ابن طاھر کا کلام درست معلوم ہوتا ہے!
لیکن مسئلہ یہاں پر احتجاج کا ہے. علامہ البانی نے تمام المنہ میں مستور کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے احتجاج ممکن ہے بشرطیکہ وہ منکر نہ بیان کرے. (مفہوم)
مزید سلسلہ الصحیحہ میں خود مستور یعنی منصور کی روایت کو قابل استشہاد بتایا ہے.
دولابی کی عبارت دیکھیں
دولابی میں بھی دیکھا تھا. وہیں سے ابو النضر کا نام جریر معلوم ہوا. وہاں امام دولابی نے اسکی روایت (الجنۃ تحت اقدام الامہات) بھی درج کی ہے. جس کے متعلق میرا مقالہ ہے
 
Top