• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ امام اہل سنت یا امام الجہمیہ و المرجئہ !

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرِّمِيُّ ، نا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَلامَ بْنَ أَبِي مُطِيعٍ ، يَقُولُ : "كُنْتُ مَعَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَرَآهُ أَبُو حَنِيفَةَ فَأَقْبَلَ نَحْوَهُ ، فَلَمَّا رَآهُ أَيُّوبُ قَالَ لأَصْحَابِهِ : قُومُوا لا يُعْدِنَا بِجَرَبِهِ ، قُومُوا لا يُعْدِنَا بِجَرَبِهِ "۔
السنة لعبد الله بن أحمد، ص ۱۸۸،۱۸۹
سلام بن ابی مطیع سے روایت ہے کہ ایوب سختیانی مسجد حرام میں بیٹھے تھے ۔ تو ابو حنیفہ کو اپنے طرف آتے دیکھا امام ایوب رحمہ اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں سے چل دو یہ شخص اپنی خارش سے ہمیں بھی خارش زدہ کردے گا۔
کتاب سنت، عبداللہ بن احمد بن حنبل، صفحہ ۱۸۸،۱۸۹

امام حمیدی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ دین اسلام سیدھا اور صحیح چلتا رہا یہاں تک کہ ابو حنیفہ کوفہ میں، ربیعہ مدینہ میں، اور البتی بصرہ میں پیدا ہوئے۔ (تاریخ بغداد جلد 13 ص 414)
میں کہتا ہوں کہ دین کا معاملہ پہلے ہی خراب چل رہا تھا کہ البانی، ابن باز، اور عثیمین پیدا ہوئے جو خود بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کہ بھی گمراہ کیا اس کے نتیجے میں دین کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔
"​
ابو اسحاق الفزاری نے کہا کہ ابو حنیفہ کہتا تھا ابلیس کا ایمان اور ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ایمان ایک برابر ہے (نعوذباللہ) ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) یا رب کہتا ہے اور ابلیس بھی یا رب کہتا ہے۔​
"​
(کتاب السنت عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمھما اللہ ص: ۲۱۹)

اسود بن سالم نے کہا میں ابوبکر بن عیاش کے ساتھ بنی اسید کی مسجد میں تھا پس ایک آدمی نے مسئلے کے بارے میں ان سے (ابو بکر بن عیاش سے ) پوچھا پس اس آدمی نے کہا کہ ابو حنیفہ ایسے ایسے کہتا ہے (اس مسئلے میں) تو ابوبکر بن عیاش نے کہا اللہ ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ کرے۔ اور اس شخص کا چہرہ جو اس کے ساتھ کہتا ہے (یعنی ابو حنیفہ کے اس مسئلے کے مطابق)
کتاب السنہ عبداللہ بن احمد بن حنبل صفحہ ۲۲۲

حدثني أبو معمر عن إسحاق بن عيسى قال سألت حماد بن سلمة عن أبي حنيفة قال ذاك أبو جيفة سد الله عز وجل به الأرض
السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل
اسحاق بن عیسی نے کہا میں نے حماد بن سلمہ سے ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ابو جیفہ (مردار کاباپ) ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس کے ساتھ پر کردیا۔
کتاب السنہ از عبداللہ بن احمد بن حنبل


أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطيّ، حدّثنا عبد الله ابن محمّد بن عثمان المزنيّ- بواسط- حدّثنا طريف بن عبد الله قال: سمعت ابن أبي شيبة- وذكر أبا حنيفة- فقال: أراد كان يهوديا۔
طریف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کے ذکر پر کہا: "وہ ایک یہودی تھا۔"
تاريخ بغداد

عن القاسم بن حبيب قال وضعت نعلي في الحصى ثم قلت لأبي حنيفة أرأيت رجلا صلى لهذه النعل حتى مات إلا أنه يعرف الله بقلبه ؟ فقال: مؤمن!
قاسم بن حبیب نے کہا:
میں نے اپنا جوتا پتھروں میں گاڑکر ابو حنیفہ سے پوچھا :بتایئے ۔۔ایک آدمی ساری زندگی اس جوتے کی نماز پڑھتا رہے ،حتی اسی عقیدہ پر اسے موت آئے ،اور ساتھ ہی وہ دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی رکھتا ہو ۔(اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟) ۔۔۔فرمایا :وہ مومن ہے ۔)
(
تاريخ بغداد،13/377)
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نا أَبُو صَالِحٍ، سَمِعْتُ يُوسُفَ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَقُولُ «لَوْ أَدْرَكَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَدْرَكْتُهُ لَأَخَذَ بِكَثِيرٍ مِنِّي وَمِنْ قُولِي وَهَلِ الدِّينُ إِلَّا الرَّأْي»
یوسف بن أسباط رحمه الله فرماتے ہیں: ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت) کہتا ہے اگر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پالیتے یا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیتا تو آپ میرے بہت سے اقوال کو لے لیتے۔ اور دین تو صرف اچھی رائے کا نام ہے۔ السنة لعبد الله بن أحمد (رحمهما الله) ١/٢٢٦
امام احمد رضی اللہ عنہ نے کہا اصحاب رائے بدعتی و گمراه، سنت و حدیث کے دشمن، حدیث کو بےکار کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رد کرنے والے ہیں اور ابو حنیفہ اور اس کے قول کو لینے والے افراد کو امام بناتے ہیں اور ان کی راہ کو اختیار کرتے ہیں. جس شخص نے ان کا قول اختیار کیا اور قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قول صحابہ رضی اللہ عنہم کو ترک کیا اور ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کی پیروی کی، اس سے بڑی ضلالت و گمراہی کیا ہے؟ گمراہی، ہلاکت اور طغیان کے لیے یہی کافی ہے. طبقات الحنابلة ٣٥/١


قال عبد الله (حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ الْخُرَاسَانِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ شَمَّاسِ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، بِالثَّغْرِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُكْنَى أَبَا خِدَاشٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَا تَرْوِ لَنَا عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِنَّهُ كَانَ مُرْجِئًا فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيْهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا جَاءَ الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَرَايهِ ضَرَبَ عَلَيْهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ مِنْ كُتُبِهِ وَتَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُ، وَذَلِكَ آخِرُ مَا قَرَأَ عَلَى النَّاسِ بِالثَّغْرِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَمَاتَ۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
"
إِبْرَاهِيمُ بْنُ شَمَّاسِ السَّمَرْقَنْدِيُّ کہتے ہیں ہم سے الثَّغْرِ میں ابن مبارک نے ابو حنیفہ کے بارے بیان کیا پس ایک شخص کھڑا ہوا جسکی کنیت ابو خداش تھی اور بولا اے ابا عبد الرحمان ہم سے ابو حنیفہ کی روایت نہ کریں کیونکہ وہ مرجئہ تھے ابن مبارک نے اسکا انکار نہیں کیا پس اس کے بعد جب ابو حنیفہ کی روایت اوررائے آتی تو ابن مبارک نے اس کو ترک کیا اور یہ الثَّغْرِ میں آخر میں ہوا اس کے بعد ابن مبارک چلے گئے اور مر گئے۔"
کتاب السنہ از عبداللہ بن احمد بن حنبل صفحہ ۲۱۳

"
حدثني أحمد بن إبراهيم ثنا خالد بن خداش عن عبد الملك بن قريب الاصمعي عن حازم الطفاوي قال وكان من أصحاب الحديث أبو حنيفة إنما كان يعمل بكتب جهم تأتيه من خراسان"
السنة عبد االله بن أحمد بن حنبل الشيباني رحمھما اللہ
"عبْدِ الْمَلِكِ بْنِ قَرِيبٍ الْأَصْمَعِيِّ روایت کرتے ہیں کہ …. ابو حنیفہ جھم (بن صفوان) کی کتابوں پر عمل کرتا تھا جو خراسان سے آئی تھیں"
السنہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمھما اللہ


عبد اللہ بن احمد رحمہما اللہ اپنے والد احمد ابن حنبل رحمہ اللہ سے کتاب السنہ میں نقل کرتے ہیں:
"
میں نے اپنے باپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو دین کے کسی کام پر جس سے ایمان برباد نہ ہو جیسے طلاق یا دیگر پر اصحاب رائے کے پاس جائے یا ان اصحاب حدیث کے پاس جائے جو حدیث کو صحیح طرح یاد نہیں رکھتے اور قوی الاسناد کو ضعیف الاسناد سے جدا نہیں کر پاتے تو ان دونوں میں سے کس سے سوال کرے اصحاب رائے سے یا قلت معرفت والے اصحاب حدیث سے۔" امام احمد نے کہا: "اصحاب حدیث سے سوال کرے اور اصحاب رائے سے نہیں، ایک ضعیف حدیث ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر ہے۔"
السنة لعبد الله بن أحمد ۲۲۹


سیدنا مطرف بن عبد اللہ رحمه الله فرماتے ہیں: جب سیدنا مالک بن انس رحمه الله کے پاس ابو حنیفہ اور دیگر 'الزائغون في الدين' دین کے معاملے میں گمراہوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: سیدنا عمر بن عبد العزیز عليه رحمة الله العزيز کا بیان ہے: کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی سنتوں اور آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد 'ولاة الأمر' (خلفاء) کے طریقوں پر چلنا کتاب اللہ کی پیروی، مکمل اطاعت الٰہی، اور اللہ کے دین پر مضبوطی ہے مخلوق میں سے کسی کے لیے بھی ان کو بدلنا یا ان کی مخالفت کی طرف نظر کرنا جائز نہیں ہے، جو ان کے راستے پر چلا وہ درست راہ پر چلنے والا ہے، جس نے ان کے طریقوں سے مدد چاہی وہ منصور ہے اور جس نے ان کے طریقوں کو چھوڑا وہ مؤمنین کی راہ سے ہٹ گیا اللہ عز وجل اسے اسی طرف پھیر دے گا جس طرف وہ پھرا اور اللہ عز وجل اسے جہنم میں پھینک دے گا اور جہنم کتنا برا ٹھکانا ہے۔
حلية الأولياء ٣٢٤/٦
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
جی ہاں یہ ایک مستند کتاب ہے جس کی سند اس طرح ہے

أَنْبَأَنَا الْأَشْيَاخُ: مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ القَطِيعِيُّ وَعُمَرُ بْنُ كَرَمِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الدَّيْنُورِيُّ، وَأَبُو نَصْرِ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ بْنِ قُنَيْدَةَ وَعَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ بَكْرَانِ الدَّاهِرِيُّ وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: أَنْبَأَنَا أَبُو الْوَقْتِ عَبْدُ الْأَوْلِ بْنُ عِيسَى بْنِ شُعَيْبٍ السِّجْزِيُّ الْهَرَوِيُّالصُّوفِيُّ قَالَ: أَنَا الشَّيْخُ الْإِمَامُ شَيْخُ الْإِسْلَامِ أَبُو إِسْمَاعِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيُّ مِنْ كِتَابِهِ أَنَا أَبُو يَعْقُوبَ إِسْحَاقَبْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَرَّابُ كِتَابَةً، أَنَا أَبُو النَّصْرِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ السِّمْسَارُ نَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ خَالِدٍ الْهَرَوِيُّ، ثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّه ۔۔۔( کتاب السنۃ ط القحطانی ج ١ ص ١٠١ ۔ ١٠٢ )

اور کٸی علماء نے اس کتاب کے حوالے بطور دلیل نقل کٸے ہے مثال کے طور پر

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے (درء تعارض العقل والنقل) اور (مجموع الفتاوى) میں متعدد جگہوں پر" کتاب السنہ"سے روایات نقل کی ہے۔
كما ذكر الخلال ما ذكره عبد الله بن أحمد في كتابه السنة
السنة لعبد الله بن أحمد رقم ۵۳۴
درء تعارض العقل والنقل ج ۱ ص ۶۹
درء تعارض العقل والنقل ج ۲ ص ۳۹
السنة لعبد الله بن أحمد رقم ۵۰۸
مجموع الفتاوى ج ۵ ص ۳۸۷

امام ابن قیمؒ نے اپنی کتاب (زاد المعاد في هدي خير العباد )ایک روایت کی تائید میں" کتاب السنہ" کا حوالہ دیا ہے۔
الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِي مُسْنَدِ أَبِيهِ وَفِي كِتَابِ " السُّنَّةِ "
زاد المعاد في هدي خير العباد ج ۳ ص ۵۹۲
 

محمدساجد

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2019
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
13
میں کہتا ہوں کہ دین کا معاملہ پہلے ہی خراب چل رہا تھا کہ البانی، ابن باز، اور عثیمین پیدا ہوئے جو خود بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کہ بھی گمراہ کیا اس کے نتیجے میں دین کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔
يه كس كا قول
هے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ؛
اسرار حسین صاحب کا معاملہ کچھ پراسرار سا معلوم ہوتا ہے؛
محمد ساجد بھائی! اگر کتابت کی کوئی غلطی نہیں تو یہ انہیں کا قول ہے!
 

محمدساجد

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2019
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
13
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جزاك الله خيرا
جى محسوس ايسا هي هوتا
ہے
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
هل مات الإمام أبو حنيفة على التجهم ؟


1- كان رحمه الله جهميا ثم تاب عن ذلك وأمر الاستتابة مشهور عند حملة الآثار.

2- من أسباب الرجوع عن التجهم مناظرة أبي يوسف القاضي لأبي حنيفة سنة جرداء أو ستة أشهر في خلق القرآن فاتفقا في النهاية على أنّ القرآن كلام الله غير مخلوق.
أخرجها ابن أبي حاتم في الرّد على الجهمية كما في العلو للذهبي (ص155) والأسماء والصفات للبيهقي (551) بإسناد جيد.

3- رجوع أبي حنيفة عن القول بخلق القرآن ثابت، والاستتابة من ذلك مشهور بل متواتر كما قال الشيخ المعلمي رحمه الله.

4- تكفير أبي حنيفة للجهمية بعد ذلك معلوم في كتب أصحابه وغيرها.

5- كل من وصف أبا حنيفة بالتجهم فإنما يعني أول الأمر وقبل الرجوع عن مقالة جهم لعنه الله.
فقد روى الخطيب في التاريخ (15/ 514) عن أبي يوسف أن أبا حنيفة كان يذم الجهم بن صفوان ويعيب قوله.
وروى بإسناد آخر عن أبي يوسف أنه قال: قال أبو حنيفة: صنفان من شر الناس بخراسان: الجهمية والمشبهة، وربما قال المقاتلية.
وروى من طريق عبد الحميد بن عبد الرحمن الحماني قال: سمعت أبا حنيفة يقول: جهم بن صفوان كافر.

6- أما موت أبي حنيفة على الجهمية فلا يصح لأنها رواية منكرة أو شاذة تفرّد بها محمد بن سعيد بن سلم عن أبيه وهو مجهول، والمحفوظ عن أبيه (سعيد بن سلم) هو: قلت لأبي يوسف أكان أبو حنيفة جهميا؟ قال: نعم.

وهذا يحمل على ما كان قبل الرجوع والاستتابة.

على أي حال رواية الموت على التجهم مدارها سعيد بن سلم الباهلي تفرد بها وهو مجهول الحال لم يذكروا فيه جرحا ولا تعديلا مع انها مشكلة من حيث التاريخ والواقع.

7- الصحيح عن أبي يوسف هو أن أبا حنيفة كان يقول بخلق القرآن.
وهذا يحمل على ما قبل الرجوع والاستتابة لأن مناظرة أبي يوسف له والرجوع عن خلق القرآن ثابت، والاستتابة عن ذلك مشهور متواتر فلا معنى للتعلق برواية مجهول الحال.


الخلاصة: لا يصح موت أبي حنيفة على التجهم.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مراسلہ کا اردو ترجمہ زیادہ مفید ھوگا ان شاء اللہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
Top