• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی حقیقت

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی حقیقت
الحمد للہ وحدہ ،والصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد :
محترم قارئین ! ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، ایک دن ہمارے ایک دوست شیخ ابرق ساجدی حفظہ اللہ نے اِس واقعہ سے متعلق سوال کیا کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ اِس واقعہ کا متن مع حوالہ درکار ہے۔
راقم اپنے اِس دوست کا جواب دیتے ہوئے اِس واقعے کی حقیقت پیش کر رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
سب سے پہلے وہ واقعہ ہو بہو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، جو معاشرے میں گردش کر رہا ہے:
”ابودجانہ رضی اللہ عنہ كکی ہر روز کوشش ہوتی ہے کہ وہ نماز فجر رسول اللہﷺ کے پیچھے ادا کریں، لیکن نماز کے فوری بعد یا نماز کے ختم ہونے سے پہلے ہی مسجد سے نکل جاتے، رسول اللہﷺ کی نظریں ابودجانہ کا پیچھا کرتیں ، جب ابودجانہ کا یہی معمول رہا تو ایک دن رسول اللہﷺ نے ابودجانہ کو روک کر پوچھا :ابودجانہ!کیا اللہ سے تمہیں کوئی حاجت نہیں ہے؟ ابودجانہ گویا ہوئے:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول،میں تو لمحہ بھر بھی اللہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔۔۔ رسول اللہﷺ فرمانے لگے: تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے اور اللہ سے اپنی حاجات کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے۔۔۔
ابودجانہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! در اصل اس کا اصل سبب یہ ہے کہ میرے پڑوس میں ایک یہودی رہتا ہے، جس کےکھجور کے درخت کی شاخیں ميرے گھر کےصحن میں لٹکتی ہیں، اور جب رات کو ہوا چلتی ہے تو اس کی کھجوریں ہمارے گھر میں گرتی ہیں، میں مسجد سے جلدی اس لئے نکلتا ہوں تاکہ ان گری ہوئی کھجوروں کو اپنے خالی پیٹ بچوں کے جاگنے سے پہلے پہلے چُن کر اس یہودی کو لوٹادوں، مبادا وہ بچے بھوک کی شدت کی وجہ سے ان کھجوروں کو کھا نا لیں۔۔۔
پھر ابودجانہ قسم اٹھاکر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ایک دن میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو اس گری ہوئی کھجوروں کو چبا رہا تھا، اس سے پہلے کہ وہ اسے نگل پاتا میں نے اپنی انگلی اس کے حلق میں ڈال کر کھجور باہر نکال دی۔ ۔۔اللہ کے رسول! جب ميرا بیٹا رونے لگا تو میں نے کہا :اے ميرے بچے مجھے حیا آتی ہے کل قیامت کے دن میں اللہ کے سامنے بطور چور کھڑا ہوں۔۔۔
سيدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پاس کھڑے یہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ایمانی اور اخوت اسلامی نے جوش مارا تو سيدھے اس يہودی کے پاس گئے اور اس سے کھجور کا پورا درخت خرید کر ابودجانہ اور اس کے بچوں کو ہدیہ کر دیا۔۔۔
پھر کیوں نہ اللہ سبحانہ وتعالی ان مقدس ہستيوں کے بارے میں یہ سند جاری کرے: ﴿رَضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ﴾ ”اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے“۔
چند دنوں بعد جب یہودی کو اس سارے ماجرے کا پتہ چلا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ کو جمع کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔ الحمدللہ على نعمة الإسلام .
عزيزو! ابودجانہ تو اس بات سے ڈر گيا تھا کہ اس کی اولاد ایک یہودی کے درخت سے کھجور کھانے سے کہیں چور نہ بن جائے۔۔۔ اور آج ہمارا کیا حال ہےکہ آج ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا مال ہر ناجائز طريقے سے كکھائے جا رہے ہیں اور ہمارے کان تک جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔۔“.
اللہ المستعان (بحوالہ: الطبقات الكبرى لابن سعد)
اب اِس واقعہ کی حقیقت پیش خدمت ہے :
محترم قارئین ! اِس واقعہ سے متعلق پانچ (5) باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
[پہلی بات] اِس واقعہ کی کوئی سند نہیں مل سکی ہے لہذا یہ واقعہ بے اصل ہے۔
[دوسری بات] مجھے یہ قصہ دو کتابوں میں ملا ہے اور وہ بھی بغیر سند کے۔
اُن دونوں کتابوں اور اُن کے مصنفین کے نام یہ ہیں :
(1)
نزهة المجالس ومنتخب النفائس
--------مصنف : عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری رحمہ اللہ (المتوفی:894ھ)
(2)
إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين
-----مصنف : ابو بکر عثمان بن محمد شطا الدمیاطی رحمہ اللہ (المتوفی:1310ھ)
پہلی کتاب کے مصنف رحمہ اللہ نے زیر بحث واقعہ کو ”حکایۃ“ کہہ کر نقل کیا ہے ۔
اور دوسری کتاب کے مصنف رحمہ اللہ نے ”لطیفۃ“ کہہ کر نقل کیا ہے۔
پہلی کتاب کے الفاظ مع ترجمہ پیش خدمت ہیں :
”حكاية: كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم رجل يقال له أبو دجانة فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا ولم يحضر الدعاء، فسأله النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: جاري له نخلة يسقط رطبها في داري ليلا من الهواء فأسبق أولادي قبل أن يستيقظوا فأطرحه في داره فقال النبي ﷺ لصاحبها: بعني نخلتك بعشر نخلات في الجنة عروقها من ذهب أحمر وزبرجد أخضر وأغصانها من اللؤلؤ الأبيض فقال: لا أبيع حاضرا بغائب، فقال أبو بكر: قد اشتريتها منه بعشر نخلات في مكان كذا، فرح المنافق ووهب النخلة التي في داره لأبي دجانة وقال لزوجته: قد بعت هذه النخلة لأبي بكر بعشر نخلات في مكان كذا وهي داري فلا ندفع لصاحبها إلا القليل، فلما نام تلك الليلة وأصبح وجد النخلة قد تحولت من داره إلى دار أبي دجانة“.
”حکایت : نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے ابو دجانہ -رضی اللہ عنہ- کہا جاتا تھا ۔ جب وہ نماز فجر پڑھ لیتے تو جلدی مسجد سے نکل جاتے اور دعا میں حاضر نہیں رہتے تھے ۔ (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے اُن سے اِس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جوابا عرض کیا کہ میرے پڑوسی کا ایک کھجور کا درخت ہے جس کی پکی ہوئی کھجوریں رات میں ہوا کی وجہ سے میرے کھر میں گرتی ہیں تو میں اپنے بچوں کے جاگنے سے پہلے ہی اُن کھجوروں کو اٹھاتا ہوں اور اُس پڑوسی کے گھر میں ڈال آتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے کھجور کے درخت کے مالک سے کہا : تم مجھے اپنا یہ کھجور کا درخت جنت میں دس کھجور کے درختوں کے بدلے بیچ دوجن کی جڑیں لال سونے اور سبز قیمتی پتھر کی ہوں گیں اور جن کی ٹہنیاں سفید موتی کی ہوں گیں تو اُس نے کہا : میں غائب چیز کے بدلے حاضر چیز کی بیع نہیں کروں گا۔تب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اِس درخت کو اِس آدمی سے فلاں جگہ پر موجود کھجور کے دس درختوں کے بدلے میں خریدلیتا ہوں۔ تو منافق خوش ہو گیا اور اُس نے اپنے گھر میں موجود درخت کو ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور اپنی بیوی کے پاس آکر کہا : میں نے اِس درخت کو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فلاں جگہ پر موجود کھجور کے دس درختوں کے بدلے میں بیچ دیا ہے جبکہ یہ درخت میرے گھر میں ہی ہے لہذا ہم اِس درخت کے مالک کو تھوڑا ہی دیں گے ۔ جب وہ اُس رات سویا اورصبح کیا تو اُس نے دیکھا کہ کھجور کا درخت اُس کے گھر سے منتقل ہو کر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ گیا ہے“۔
(نزهة المجالس ومنتخب النفائس بتحقیق عبد الرحيم مارديني : 1/231)
دوسری کتاب کے الفاظ مع ترجمہ پیش خدمت ہیں :
”(لطيفة) كان في زمن النبي - ﷺ - رجل يقال له أبو دجانة، فكان إذا صلى الفجر خرج مستعجلا ولا يصبر حتى يسمع دعاء النبي - ﷺ -، فقال له يوما: أليس لك إلى الله حاجة؟ فقال: بلى، فقال: فلم لا تقف حتى تسمع الدعاء؟ فقال: لي عذر يا رسول الله.قال: وما عذرك؟ فقال: إن داري ملاصقة لدار رجل، وفي داره نخلة، وهي مشرفة على داري، فإذا هب الهواء ليلا يقع من رطبها في داري، فإذا انتبه أولادي، وقد مسهم الضر من الجوع فما وجدوه أكلوه، فأعجل قبل انتباههم، وأجمع ما وقع وأحمله إلى دار صاحب النخلة، ولقد رأيت ولدي يوما قد وضع رطبة في فمه فأخرجتها بأصبعي من فيه وقلت له: يا بني! لا تفضح أباك في الآخرة، فبكى لفرط جوعه. فقلت له: لو خرجت نفسك لم أدع الحرام يدخل إلى جوفك، وحملتها مع غيرها إلى صاحبها. فدمعت عينا النبي - ﷺ - وسأل عن صاحب النخلة، فقيل له: فلان المنافق، فاستدعاه وقال له: بعني تلك النخلة التي في دارك بعشرة من النخل: عروقها من الزبرجد الأخضر، وساقها من الذهب الأحمر، وقضبانها من اللؤلؤ الأبيض، ومعها من الحور العين بعدد ما عليها من الرطب.فقال له المنافق: ما أنا تاجرا أبيع بنسيئة، لا أبيع إلا نقدا لا وعدا، فوثب أبو بكر الصديق رضي الله تعالى عنه وقال: هي بعشرة من النخيل في الموضع الفلاني، وليس في المدينة مثل تلك النخيل، ففرح المنافق وقال بعتك.قال قد اشتريت، ثم وهبها لأبي دجانة، فقال النبي - ﷺ -:قد ضمنت لك يا أبا بكر عوضها، ففرح الصديق، وفرح أبو دجانة رضي الله عنهما، ومضى المنافق إلى زوجته يقول قد ربحت اليوم ربحا عظيما، وأخبرها بالقصة وقال قد أخذت عشرة من النخيل، والنخلة التي بعتها مقيمة عندي في داري أبدا نأكل منها ولا نوصل منها شيئا إلى صاحبها، فلما نام تلك الليلة وأصبح الصباح وإذا بالنخلة قد تحولت بالقدرة إلى دار أبي دجانة كأنها لم تكن في دار المنافق، فتعجب غاية العجب“.
”لطیفہ : نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی تھا جسے ابو دجانہ -رضی اللہ عنہ- کہا جاتا تھا ۔ جب وہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فورا مسجد سے نکل جاتے اور نبی کریم ﷺ کی دعا سننے تک نہیں ٹہرتے تھے ۔ تو (ایک دن) نبی کریم ﷺ نے اُن سے کہا: کیا آپ کو اللہ سے (کچھ مانگنے) کی ضرورت نہیں ہے؟ تو انہوں نے جوابا عرض کیا :کیوں نہیں، ضرورت ہے۔تو آپ ﷺ نے اُن سے کہا :تب آپ دعا سننے تک ٹہرتے کیوں نہیں؟انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے پاس ایک عذر ہے۔آپ ﷺنے پوچھا:آپ کا عذر کیا ہے؟ تو انہوں کہا: میرا گھر ایک آدمی کے گھر سے ملا ہوا ہےاور اُس کے گھر میں ایک کھجور کا درخت ہےجو میرے گھر پر جھکا ہوا ہے ۔ جب رات میں ہوا چلتی ہے تو اُس کی پکی ہوئی تازہ کھجوریں میرے گھر میں گر جاتی ہیں۔ پھر جب میرے بچے جاگتے ہیں اور انہیں بھوک لگی ہوتی ہے اور وہ کچھ نہیں پاتے ہیں تو انہیں کھجوروں کوہی کھانے لگ جاتے ہیں ۔ اِسی وجہ سے میں اُن سے جلدی پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں اور جو کھجوریں گری ہوئی ہوتی ہیں ، انہیں جمع کرتا ہوںاور صاحب درخت کو واپس کر دیتا ہوں۔
ایک دن میں نے اپنے ایک بچے کو دیکھا کہ اس نے ایک تازہ کھجور کو اپنے منہ میں رکھ لیا تھا، میں نے اپنی انگلی سے اُس کے منہ سے اُس کھجور کو نکال دیا اور اُس سے کہا : اے میرے بیٹے! اپنے والد کو آخرت میں رسوا مت کرتو وہ بھوک کی شدت کی وجہ سےرونے لگا ۔ پس میں نے کہا : اگر تمہاری جان بھی نکل جائے تو میں تمہارے پیٹ میں حرام نہیں داخل ہونے دوں گا ۔ پھر میں نے اُس کھجور کو بھی دوسری کھجوروں کے ساتھ اٹھا کر اُس کے مالک کے پاس پہنچا دیا ۔نبی کریم ﷺ کی دونوں آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور آپ نے اُس درخت والے کے بارے میں پوچھا تو آپ کو بتایا گیا کہ فلاں منافق ہے تو آپ نے اُس کو بلوایا اور اُس سے کہا : تم اپنے گھر میں موجود کھجور کے درخت کو مجھ سےبیچ دو، (جنت میں) دس ایسے کھجور کے درختوں کے بدلے جن کی جڑیں سبز قیمتی پتھر ، جن کا تنا لال سونے کا اور جن کی ٹہنیاںسفید موتی کی ہوں گیں اور اُن درختوں پر جتنی تر کھجوریں ہوں گی، اتنی ہی تعداد میں حوریں بھی ہوں گیں تو اُس منافق نے آپ سے کہا :میں ادھاری بیع کرنے والا تاجر نہیں ہوں، میں صرف نقدی بیع کروں گا ، وعدے والی بیع بھی نہیں کروں گا۔تب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ تم یہ کھجور کا درخت، اُن دس کھجور کے درختوں کے بدلے میں بیچ دو جو فلاں جگہ پر ہیں اور اُن جیسے کھجور کے درخت مدینہ شہر میں نہیں ہیں تو منافق خوش ہو گیا اور کہا کہ میں تم کو بیچتا ہوں تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں خرید لیتا ہوں ۔ پھر آپ نے اُس درخت کو ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دیا ۔ تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اے ابو بکر ! میں تم کو اُس کے بدلے کی ضمانت دیتا ہوں تو ابو بکر اور ابو دجانہ رضی اللہ عنہما دونوں خوش ہو گئے ۔
پھر منافق اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا کہ آج میں نے ایک عظیم فائدے والا سودا کیا ہےاور پورا قصہ بیان کیا اور کہا کہ میں نے دس کھجور کے درخت کو لے لیا اور جو درخت میں نے بیچا ہے وہ تو میرے گھر میں ہمیشہ میرے پاس ہے، ہم اُس میں سے کھائیں گے اور اُس میں سے اُس کے مالک کو کچھ نہیں دیں گے ۔ جب وہ اُس رات سویا اورصبح کیا تو اُس نے دیکھا کہ کھجور کا درخت قدرتی طور پر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں چلا گیا ہے ، گویا کہ وہ اُس منافق کے گھر میں تھا ہی نہیں۔ اِس وجہ سے اُس منافق کو بہت ہی زیادہ تعجب ہوا“۔
(إعانة الطالبين على حل ألفاظ فتح المعين :3/293)
قارئین ! آپ خود غور کریں کہ جس قصے کو ”حکایت اور لطیفہ“ کہہ کر نقل کیا گیا ہو ، اُس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے؟
اِس کے علاوہ مذکورہ دونوں علماء کرام نےاِس قصے کو نقل کرنے کے بعد نہ تو کوئی حوالہ دیا اور نہ ہی صحت و ضعف کے اعتبار سے کوئی گفتگو کی ہے۔
[تیسری بات]
یہ قصہ، الطبقات الکبری لابن سعد میں نہیں ہے لہذا یہ حوالہ غلط ہے۔
[چوتھی بات]
زیر بحث قصے میں ایک جملہ ایسا ہے جسے نقل کر کے اُس کی حقیقت سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
وہ جملہ پیش خدمت ہیں :
جن دو عربی کتابوں کا حوالہ گزشتہ سطور میں پیش کیا گیا ہے، اُن میں-بالترتیب- یہ ہےکہ :
(1) ”فإذا صلى الصبح خرج من المسجد سريعا ولم يحضر الدعاء“۔
”جب ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فورا مسجد سے نکل جاتےاور دعا میں حاضر نہیں رہتے تھے“۔
(2) ”فكان إذا صلى الفجر خرج مستعجلا ولا يصبر حتى يسمع دعاء النبي - ﷺ -“۔
”جب ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھ لیتے تو فورا مسجد سے نکل جاتےاور صبر نہیں کرتے تھے حتی کہ نبی ﷺ کی دعا سن لیں“۔
قارئین ! مذکورہ جملے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز فجر کے بعد نبی کریم ﷺ دعا کرتے تھے اور صحابہ کرام دعا میں حاضر ہوتے تھے۔
راقم - اپنے ناقص علم کے مطابق- باادب عرض کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا مذکورہ عمل ، کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میں نہیں ملتا ہے اور صحیح یا حسن تو دور، کسی ایسے متن میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا جس کی سند موضوع ہو۔
ایک بات اور واضح طور پر جان لیں کہ کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میں اس بات کا ذکر قطعا نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پنج وقتہ نمازوں میں سے کسی نماز کے بعد دعا مانگنے کا اہتمام کرتے تھے اور صحابہ کرام اُس میں حاضر ہوتے تھے۔
[پانچویں بات]
عربی اور اردو، دونوں قصوں میں فرق ہے۔
بطور مثال تین (3) فرق پیش خدمت ہیں :
(1) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں ہے:
”لیکن نماز کے فوری بعد یا نماز كے ختم ہونے سے پہلے ہی مسجد سے نکل جاتے“۔
قارئین ! آپ غور کریں کہ نماز ختم ہونے سے پہلے مسجد سے باہر کیسے نکلیں گے؟
اِس کا واضح مطلب یہ ہے کہ صحابی رسول نماز پوری پڑھے بغیر ہی مسجد سے نکل جاتے تھے۔
اب آپ بتائیں کہ کیا کوئی صحابی اس طرح سے کر سکتے ہیں؟ نعوذ باللہ من ذلک.
اِس پر مزید یہ کہ جن دو کتابوں کا حوالہ گزشتہ سطور میں پیش کیا گیا ہے ، اُن میں یہ جملہ نہیں ہے بلکہ اُن میں یہ ہے کہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھنے کے بعد نکلتے تھے۔کما مر.
(2) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں ہے کہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا پڑوسی یہودی تھا جبکہ دونوں عربی کتابوں میں ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کا پڑوسی ایک منافق تھا اور یہودی اور منافق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
(3) اردو میں جو واقعہ گردش کر رہا ہے ، اُس میں کئی جملے ایسی ہیں جن کا ذکر مذکورہ دونوں عربی کتابوں میں نہیں ہے۔
بطور مثال صرف دو (2) جملے پیش خدمت ہیں :
[پہلا جملہ] میں تو لمحہ بھر بھی اللہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔۔۔ رسول اللہﷺ فرمانے لگے: تب پھر آپ ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے اور اللہ سے اپنی حاجات کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے۔۔۔
[دوسرا جملہ] چند دنوں بعد جب یہودی کو اِس سارے ماجرے کاپتہ چلا تو اُس نے اپنے تمام اہل خانہ کو جمع کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔۔۔ الحمدللہ على نعمة الإسلام .
قارئین ! آپ غور کریں کہ جب یہ جملے عربی کتابوں میں بھی نہیں ہیں تو پھر یہ جملے آئے کہاں سے ؟ اِن کی عربی عبارتیں کہاں ہیں؟
واضح بات ہے کہ یہ سب جملے من گھڑت ہیں ۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔آمین۔
[نوٹ]اِس قصہ میں اور بھی کئی چیزیں قابل گرفت ہیں لیکن اُنہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ مذکورہ چیزیں اِس قصے کو باطل اور من گھڑت قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔
[خلاصۃ التحقیق] زیر بحث روایت بے اصل اور موضوع ہے لہذا اِسے سرخی بدل بدل کر نہ پھیلایا جائے۔ واللہ ولی التوفیق.
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین .
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
17-ربیع الآخر-1441ھ
2019-دسمبر-15
 
Top