• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو طالب کا نام؟

شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
36
ابو طالب کا نام
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کا نام عبد مناف بن عبد المطلب تھا۔ شیعہ کہتے ہیںکہ آپ کا نام عمران تھا۔ یہ دنیا کی بے حقیقت بات ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:
وَاسْمُہ، عِنْدَ الْجَمِیعِ عَبْدُ مَنَافٍ وَّشَذَّ مَنْ قَالَ : عِمْرَانُ، بَلْ ہُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ نَقَلَہُ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ فِي کِتَابِ الرَّدِّ عَلَی الرَّافِضِيِّ أَنَّ بَعْضَ الرَّوَافِضِ زَعَمَ أَنَّ قَوْلَہ، تَعَالٰی : (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران : ٣٣)، أَنَّ آلَ عِمْرَانَ ہُمْ آلُ أَبِي طَالِبٍ وَأَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَاشْتُہِرَ بِکُنْیَتِہٖ .
''اتفاق ہے کہ ابو طالب کا نام عبد منا ف ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ان کا نام عمرا ن ہے، ان کی بات شاذ بلکہ باطل ہے۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(منہاج السنۃ)، جو روافض کے رد میں ہے، میں لکھا ہے:
بعض روافض اللہ کے فرمان ــ: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران : ٣٣) 'اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب فر ما لیا ہے۔' میں آل عمران سے مراد آل ابو طالب ہیں اور ابو طالب کا نام عمران تھا، اپنے کنیت سے مشہور ہوئے۔'' (فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٧/١٩٤)
شیخ الاسلا م ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
مِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ : کَانَ اسْمُہ، عِمْرَانَ، وَہُوَ الْمَذْکُورُ فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ : ٣٣)، وَہٰذَا الَّذِي فَعَلُوہُ مَعَ مَا فِیہِ مِنَ الِْافْتِرَاءِ وَالْبُہْتَانِ فَفِیہِ مِنَ التَّنَاقُضِ وَعَدَمِ حُصُولِ مَقْصُودِہِمْ مَا لَا یَخْفٰی .
''بعض روافض کہتے ہیں : ابو طالب کا نام عمران تھا۔ اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے : ((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ : ٣٣)، 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو جہان والوں سے چن لیاہے۔' یہ اللہ پر افترا اور بہتان تو ہے ہی، اس استدلال میں بھی واضح تناقض ہے ، یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس من چاہی تفسیر سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوسکتا۔'' (منھاج السّنّۃ : ٤/٣٥٠)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَأَنَّہُ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی : (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران : ٣٣)، وَقَدْ أَخْطَأُوا فِي ذٰلِکَ خَطَأً کَثِیرًا وَّلَمْ یَتَأَمَّلُوا الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ یَّقُولُوا ہٰذَا الْبُہْتَانَ مِنَ الْقَوْلِ فِي تَفْسِیرِہِمْ لَہ، عَلٰی غَیْرِ مُرَادِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، قَدْ ذُکِرَ بَعْدَ ہٰذِہٖ قَوْلُہ، تَعَالٰی : (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا) (آل عمران : ٣٥)، فَذَکَرَ مِیلَادَ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ عَلَیْہَا السَّلَامُ وَہٰذَا ظَاہِرٌ وَّلِلّٰہِ الْحَمْدُ، وَقَدْ کَانَ أَبُو طَالِبٍ کَثِیرَ الْمَحَبَّۃِ الطَّبِیعِیَّۃِ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِہٖ إِلٰی أَنْ مَّاتَ عَلٰی دِینِہٖ کَمَا ثَبَتَ ذَالِکَ فِي صَحِیحِ الْبُخَارِيِّ .
''روافض کہتے ہیں کہ ابو طالب کا نام عمران تھا اور اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران : ٣٣) 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو لوگوں سے پسند فرما لیا ہے۔' یہ ان کی فحش غلطی ہے۔ یہ لوگ بے فکر ہو کر تفسیر میں ایسی بہتان طرازیاں کرتے ہیں کہ اللہ کی مراد ہی بدل دیتے ہیں، کیا انہوں نے تدبر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ (آیت نمبر : ٣٣) کے بعد یہ فرمایا ہے : (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّراً) (آل عمران : ٣٥) 'جب عمران کی اہلیہ نے کہا : میرے رب! میں نذر مانتی ہوں کہ اپنے ہونے والے بیٹے کو تیرے لیے وقف کر دوں گی۔' گو ابو طالب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طبعی طور پر بہت لگاؤ تھا، لیکن آپ نے کلمہ نہیں پڑھا، کفر پر ہی فوت ہو ئے، جیسا کہ صحیح بخاری :(:: ١٣٦٠، ٢٣٧٥، ٣٨٨٤، ٤٧٧٢) میں ہے۔'' (البدایۃ والنّھایۃ : ١١/٣٠)
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
ابو طالب کا نام
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کا نام عبد مناف بن عبد المطلب تھا۔ شیعہ کہتے ہیںکہ آپ کا نام عمران تھا۔ یہ دنیا کی بے حقیقت بات ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:
وَاسْمُہ، عِنْدَ الْجَمِیعِ عَبْدُ مَنَافٍ وَّشَذَّ مَنْ قَالَ: عِمْرَانُ، بَلْ ہُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ نَقَلَہُ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ فِي کِتَابِ الرَّدِّ عَلَی الرَّافِضِيِّ أَنَّ بَعْضَ الرَّوَافِضِ زَعَمَ أَنَّ قَوْلَہ، تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران: ٣٣)، أَنَّ آلَ عِمْرَانَ ہُمْ آلُ أَبِي طَالِبٍ وَأَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَاشْتُہِرَ بِکُنْیَتِہٖ .
''اتفاق ہے کہ ابو طالب کا نام عبد منا ف ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ان کا نام عمرا ن ہے، ان کی بات شاذ بلکہ باطل ہے۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(منہاج السنۃ)، جو روافض کے رد میں ہے، میں لکھا ہے: بعض روافض اللہ کے فرمان ــ: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران: ٣٣) 'اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب فر ما لیا ہے۔' میں آل عمران سے مراد آل ابو طالب ہیں اور ابو طالب کا نام عمران تھا، اپنے کنیت سے مشہور ہوئے۔'' (فتح الباري شرح صحیح البخاري: ٧/١٩٤)
شیخ الاسلا م ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
مِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: کَانَ اسْمُہ، عِمْرَانَ، وَہُوَ الْمَذْکُورُ فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ: ٣٣)، وَہٰذَا الَّذِي فَعَلُوہُ مَعَ مَا فِیہِ مِنَ الِْافْتِرَاءِ وَالْبُہْتَانِ فَفِیہِ مِنَ التَّنَاقُضِ وَعَدَمِ حُصُولِ مَقْصُودِہِمْ مَا لَا یَخْفٰی . ''بعض روافض کہتے ہیں: ابو طالب کا نام عمران تھا۔ اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: ((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ: ٣٣)، 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو جہان والوں سے چن لیاہے۔' یہ اللہ پر افترا اور بہتان تو ہے ہی، اس استدلال میں بھی واضح تناقض ہے ، یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس من چاہی تفسیر سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوسکتا۔'' (منھاج السّنّۃ: ٤/٣٥٠)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَأَنَّہُ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران: ٣٣)، وَقَدْ أَخْطَأُوا فِي ذٰلِکَ خَطَأً کَثِیرًا وَّلَمْ یَتَأَمَّلُوا الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ یَّقُولُوا ہٰذَا الْبُہْتَانَ مِنَ الْقَوْلِ فِي تَفْسِیرِہِمْ لَہ، عَلٰی غَیْرِ مُرَادِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، قَدْ ذُکِرَ بَعْدَ ہٰذِہٖ قَوْلُہ، تَعَالٰی: (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا) (آل عمران: ٣٥)، فَذَکَرَ مِیلَادَ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ عَلَیْہَا السَّلَامُ وَہٰذَا ظَاہِرٌ وَّلِلّٰہِ الْحَمْدُ، وَقَدْ کَانَ أَبُو طَالِبٍ کَثِیرَ الْمَحَبَّۃِ الطَّبِیعِیَّۃِ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِہٖ إِلٰی أَنْ مَّاتَ عَلٰی دِینِہٖ کَمَا ثَبَتَ ذَالِکَ فِي صَحِیحِ الْبُخَارِيِّ .
''روافض کہتے ہیں کہ ابو طالب کا نام عمران تھا اور اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران: ٣٣) 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو لوگوں سے پسند فرما لیا ہے۔' یہ ان کی فحش غلطی ہے۔ یہ لوگ بے فکر ہو کر تفسیر میں ایسی بہتان طرازیاں کرتے ہیں کہ اللہ کی مراد ہی بدل دیتے ہیں، کیا انہوں نے تدبر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ (آیت نمبر: ٣٣) کے بعد یہ فرمایا ہے: (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّراً) (آل عمران: ٣٥) 'جب عمران کی اہلیہ نے کہا: میرے رب! میں نذر مانتی ہوں کہ اپنے ہونے والے بیٹے کو تیرے لیے وقف کر دوں گی۔' گو ابو طالب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طبعی طور پر بہت لگاؤ تھا، لیکن آپ نے کلمہ نہیں پڑھا، کفر پر ہی فوت ہو ئے، جیسا کہ صحیح بخاری:(:: ١٣٦٠، ٢٣٧٥، ٣٨٨٤، ٤٧٧٢) میں ہے۔'' (البدایۃ والنّھایۃ: ١١/٣٠)

 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
ابو طالب کا نام
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کا نام عبد مناف بن عبد المطلب تھا۔ شیعہ کہتے ہیںکہ آپ کا نام عمران تھا۔ یہ دنیا کی بے حقیقت بات ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:
وَاسْمُہ، عِنْدَ الْجَمِیعِ عَبْدُ مَنَافٍ وَّشَذَّ مَنْ قَالَ: عِمْرَانُ، بَلْ ہُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ نَقَلَہُ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ فِي کِتَابِ الرَّدِّ عَلَی الرَّافِضِيِّ أَنَّ بَعْضَ الرَّوَافِضِ زَعَمَ أَنَّ قَوْلَہ، تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران: ٣٣)، أَنَّ آلَ عِمْرَانَ ہُمْ آلُ أَبِي طَالِبٍ وَأَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَاشْتُہِرَ بِکُنْیَتِہٖ .
''اتفاق ہے کہ ابو طالب کا نام عبد منا ف ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ان کا نام عمرا ن ہے، ان کی بات شاذ بلکہ باطل ہے۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(منہاج السنۃ)، جو روافض کے رد میں ہے، میں لکھا ہے: بعض روافض اللہ کے فرمان ــ: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ) (آل عمران: ٣٣) 'اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب فر ما لیا ہے۔' میں آل عمران سے مراد آل ابو طالب ہیں اور ابو طالب کا نام عمران تھا، اپنے کنیت سے مشہور ہوئے۔'' (فتح الباري شرح صحیح البخاري: ٧/١٩٤)
شیخ الاسلا م ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
مِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: کَانَ اسْمُہ، عِمْرَانَ، وَہُوَ الْمَذْکُورُ فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ: ٣٣)، وَہٰذَا الَّذِي فَعَلُوہُ مَعَ مَا فِیہِ مِنَ الِْافْتِرَاءِ وَالْبُہْتَانِ فَفِیہِ مِنَ التَّنَاقُضِ وَعَدَمِ حُصُولِ مَقْصُودِہِمْ مَا لَا یَخْفٰی . ''بعض روافض کہتے ہیں: ابو طالب کا نام عمران تھا۔ اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: ((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ) (سُورَۃُ آلِ عِمْرَانَ: ٣٣)، 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو جہان والوں سے چن لیاہے۔' یہ اللہ پر افترا اور بہتان تو ہے ہی، اس استدلال میں بھی واضح تناقض ہے ، یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس من چاہی تفسیر سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہوسکتا۔'' (منھاج السّنّۃ: ٤/٣٥٠)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
زَعَمَتِ الرَّوَافِضُ أَنَّ اسْمَ أَبِي طَالِبٍ عِمْرَانُ وَأَنَّہُ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران: ٣٣)، وَقَدْ أَخْطَأُوا فِي ذٰلِکَ خَطَأً کَثِیرًا وَّلَمْ یَتَأَمَّلُوا الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ یَّقُولُوا ہٰذَا الْبُہْتَانَ مِنَ الْقَوْلِ فِي تَفْسِیرِہِمْ لَہ، عَلٰی غَیْرِ مُرَادِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، قَدْ ذُکِرَ بَعْدَ ہٰذِہٖ قَوْلُہ، تَعَالٰی: (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا) (آل عمران: ٣٥)، فَذَکَرَ مِیلَادَ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ عَلَیْہَا السَّلَامُ وَہٰذَا ظَاہِرٌ وَّلِلّٰہِ الْحَمْدُ، وَقَدْ کَانَ أَبُو طَالِبٍ کَثِیرَ الْمَحَبَّۃِ الطَّبِیعِیَّۃِ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِہٖ إِلٰی أَنْ مَّاتَ عَلٰی دِینِہٖ کَمَا ثَبَتَ ذَالِکَ فِي صَحِیحِ الْبُخَارِيِّ .
''روافض کہتے ہیں کہ ابو طالب کا نام عمران تھا اور اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْراہِیمَ وَآلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ) (آل عمران: ٣٣) 'اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو لوگوں سے پسند فرما لیا ہے۔' یہ ان کی فحش غلطی ہے۔ یہ لوگ بے فکر ہو کر تفسیر میں ایسی بہتان طرازیاں کرتے ہیں کہ اللہ کی مراد ہی بدل دیتے ہیں، کیا انہوں نے تدبر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ (آیت نمبر: ٣٣) کے بعد یہ فرمایا ہے: (إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَکَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّراً) (آل عمران: ٣٥) 'جب عمران کی اہلیہ نے کہا: میرے رب! میں نذر مانتی ہوں کہ اپنے ہونے والے بیٹے کو تیرے لیے وقف کر دوں گی۔' گو ابو طالب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طبعی طور پر بہت لگاؤ تھا، لیکن آپ نے کلمہ نہیں پڑھا، کفر پر ہی فوت ہو ئے، جیسا کہ صحیح بخاری:(:: ١٣٦٠، ٢٣٧٥، ٣٨٨٤، ٤٧٧٢) میں ہے۔'' (البدایۃ والنّھایۃ: ١١/٣٠)

جزاك الله خير بھائی
 
Top