• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو یحیٰی نور پوری کی علمی خیانت یا لاعلمی

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
ابو یحیٰی نورپوری کی علمی خیانتیں یا لا علمی
محترم بھائیوں:
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور اشکالات پر جو مدلل کام کیا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے مگر اس حوالے سے ان کی چند ویڈیوز میں کچھ ایسی باتیں سامے آئیں ہیں جو علمی خیانت یا ان کی لاعلمی پر مبنی تھی دفاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر مسلمان کی دین حمیت میں شامل ہے اور یہ ایک انتہائی مستحسن فعل ہے مگر اس میں علمی خیانت ایک عالم دین کو زیب نہیں دیتی اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے جس کو ہم ترتیب وار پیش کر رہے ہیں
(1) محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپر (واقعہ کربلا کا حقیقی منظر72 صحیح الاسناد احادیث) کے حوالے سے اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ امام اسحاق بن راھویہ کا قول بے سند ہے اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند نقل نہیں کی مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے

(قَالَ) الْحَاكِم سمعتُ أَبَا الْعَبَّاس مُحَمَّد بْن يَعْقُوب بْن يُوسُف يَقُولُ سمعتُ أبي يَقُولُ سمعتُ إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيم الْحَنْظَلِي يَقُولُ: لَا يَصح فِي فضل مُعَاويَة حَدِيث.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة کتاب المناقب جلد1 ص 388)
ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیٰی نور پوری حفظ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا۔
(2) اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا رجوع
اس حوالے سے جس حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا وہ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث نمبر 37772ہے اور اس کی وجہ ضعف انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں اسماعیل بن ابن خالد مدلس ہے اور اس نے تدلیس کر رکھی ہے جبکہ اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں یہ دوسرے درجہ کے مدلس ہیں اور ان کا عنعن قبول ہوتا ہے۔

أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ: ادْفِنُونِي مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنِّي كُنْتُ أَحْدَثْتُ بَعْدَهُ حَدَثًا
اسماعیل بن ابی خالد دوسرے درجے کے مدلس ہیں اور اس درجے کے مدلس کا عنعنہ قبول ہوتا ہے چنانچہ مسفر الدمینی لکھتے ہیں"وحکم اہل المرتبہ کحکم اہل المرتبہ الاولی یقبل حدیثھم سواء صرحوا بالسماع او رووا بالعنعنۃ (التدلیس فی الحدیث مسفر الدمینی ص 143)
ترجمہ: اس درجے کے (رواۃ)کا حکم وہی ہے جو پہلے درجے والوں کا ہے ان کی حدیث سماع پر صراحت کے ساتھ ہوں یا عنعنہ کے ساتھ ہو قبول ہو گی۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے(فتح المبین ص36)
ان تصریحات سے ثابت ہے کہ اسماعیل بن ابی خالد کاعنعنہ بھی قبول ہوتا ہے اس بنا پر یہ روایت صحیح ہے


أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
سنن نسائی رقم 3006 کتاب الحج باب التلبیہ بعرفۃ)
اس روایت کو موصوف نے ضعیف کہا ہے اور اس پر یہ منطق پیش کی ہے کہ اگرچہ خالد بن مخلد حسن الحدیث ہے مگر جب وہ اہل کوفہ سے روایت کرے تو ضعیف ہوگا اگرچہ اہل کوفہ کتنے ہی ثقہ ہوںجیسے اس روایت میں خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے روایت کیا ہے اور ان کے بابت محدثین کیا نقل کرتے ہیں پڑھ لیں

قال العجلى : كوفى ، ثقة .
و قال عثمان الدارمى ، عن ابن معين : ثقة مأمون .
و قال ابن سعد : كان صاحب قرآن ، و كان ثقة إن شاء الله ، قليل الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 333

اوردوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مھسر سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کوفی ہیںاور ان کی بابت محدثین کہتے ہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : على بن مسهر قرشى من أنفسهم ، كان ممن جمع الحديث و الفقه ، ثقة .
و قال أبو زرعة : صدوق ، ثقة .
و قال النسائى : ثقة .
تهذيب الكمال رقم 4800
قال العجلى أيضا : صاحب سنة ، ثقة فى الحديث ، ثبت فيه ، صالح الكتاب ، كثير
الرواية عن الكوفيين .
و قال ابن سعد : كان ثقة كثير الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 384

ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے جو منطق پیش کی ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک محدثین میں سے کسی نے بیان نہیں کی ہےامام بخاری نے اس کی علی بن مھسر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے صحیح بخاری کتاب المناقب الزبیر بن العوام رقم 3717) اورابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں اس کے ترجمہ کےتحت نقل کیا ہے

"
خَالِد بن مخلد الْقَطوَانِي الْكُوفِي أَبُو الْهَيْثَم من كبار شُيُوخ البُخَارِيّ روى عَنهُ وروى عَن وَاحِد عَنهُ قَالَ الْعجلِيّ ثِقَة فِيهِ تشيع وَقَالَ بن سعد كَانَ متشيعا مفرطا وَقَالَ صَالح جزرة ثِقَة إِلَّا أَنه كَانَ مُتَّهمًا بالغلو فِي التَّشَيُّع وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل لَهُ مَنَاكِير وَقَالَ أَبُو دَاوُد صَدُوق إِلَّا أَنه يتشيع وَقَالَ أَبُو حَاتِم يكْتب حَدِيثه وَلَا يحْتَج بِهِ قلت أما التَّشَيُّع فقد قدمنَا أَنه إِذا كَانَ ثَبت الْأَخْذ وَالْأَدَاء لَا يضرّهُ لَا سِيمَا وَلم يكن دَاعِيَة إِلَى رَأْيه وَأما الْمَنَاكِير فقد تتبعها أَبُو أَحْمد بن عدي من حَدِيثه وأوردها فِي كَامِله وَلَيْسَ فِيهَا شَيْء مِمَّا أخرجه لَهُ البُخَارِيّ بل لم أر لَهُ عِنْده من أَفْرَاده سوى حَدِيث وَاحِد وَهُوَ حَدِيث أبي هُرَيْرَة من عادى لي وليا الحَدِيث وروى لَهُ الْبَاقُونَ سوى أبي دَاوُد" )ابن حجر کےمطابق اس کی تشیع ہونا اس کی روایات پر ضرر نہیں دیتا چنانچہ انہوں نے بھی یہ منطق کہیں پیش نہیں کی کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ابن عدی نے اس کی احادیث نقل کر کے یہ ضرور کہا کہ اس میں یا تو اس کو وہم ہوا ہے یا حفظ صحیح طور پر نہیں کیا ہے مگر انہوں نے بھی اس طرح کی کوئی بات نقل نہیں کی ہے یہاں تک کے صاحب تحریر تقریب نے اس کو "ضعیف یعتبر بہ"
کہا ہے مگر یہ موقف انہوں نے بھی کسی سے نقل نہیں کیا ہے امام المقدسی نے المختارہ میں علی بن مھسر کے طریق سے خالد بن مخلد کی روایت لی ہے یعنی ان کی نظر میں خالد بن مخلد کی علی بن مھسر سے روایت صحیح ہے ماسوائے ابن رجب حنبلی نے الغلابٰی کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ جمہور محدثین کے خلاف ہےاور اصول میں جمہور کی بات رائج ہوتی ہے الغرض موصوف کا یہ موقف جمہور محدثین کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي» .

اس روایت کو ابو یحییٰ نور پوری صاحب ضعیف کہہ رہے ہیں کیونکہ اس میں ابو اسحاق السیعبی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں جبکہ اس کے دیگر طرق اور شواہد بھی ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ واقعی علی رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر بھلا برا کہا جاتا تھا

حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنَابِرِ؟ قُلْتُ: وَأَنَّى ذَلِكَ؟، قَالَتْ: أَلَيْسَ يُسَبُّ عَلِيٌّ وَمَنْ يُحِبُّهُ فَأَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحِبُّهُ
مسند ابو یعلی رقم7013
اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہے اس میں ابو یحییٰ نور پوری صاحب اس کے دو رواۃ "السدی" جو کہ "
إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى" ہیں اور دوسرے "عیسیٰ بن عبدالرحمن البجلی ہیں جنہوں نے"السدی "سے روایت کیا ہے انکے درمیان نے انقطاع کا دعوی کی ہے مگر اس پر کوئی دلیل اپنی تقریر میں پیش نہیں کی ہے فقط زبیر علی زئی کے ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 کے صفحہ 21 تا 22 کا حوالہ دیا ہے اور اس میں رسالہ میں فقط اس کے انقطاع کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے مگر اگر اصول حدیث کے مطابق غور کیا جائے تو جمہور کے نذدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جبکہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ماسوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو اور شیخ البانی اس روایت کو اپنے سلسلہ احادیث الصحیحہ میں درج کرکے اسی اصول کو پیش کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں"
قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ تحت رقم 3332)


اور اس کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں


حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْمَاعِيل قَالَ حَدثنَا بن عون عَن عُمَير بْن إِسْحَاق قَالَ كَانَ مَرْوَان أَمِيرا علينا سِتّ سِنِين فَكَانَ
يسب عليا كل جُمُعَة ثمَّ عزل ثمَّ اسْتعْمل سعيد بن الْعَاصِ سنتَيْن فَكَانَ لَا يسبه ثمَّ أُعِيد مَرْوَان فَكَانَ يسبه

اسنادہ الحسن العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد رقم 4781 جلد 3 ص 176
عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں مروان ہم پر ساتھ سال امیر رہا اور وہ ہر جمعہ میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا پھر سعید بن العاص کو سات سال کے لئے امیر بنے اور وہ برا بھلا نہیں کہتے تھے پر دوبارہ جب مروان بنا اس نے دوبارہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے کیونکہ اس کے قرائن موجود ہے چند ایک پیش ہیں

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة
سنن النسائی الکبری رقم 8151)
اس روایت میں صاف الفاظ ہیں"
يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے
نوٹ:اس روایت کو بھی ضعیف کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے مگر یہ صحیح ہے اسی فورم پر میری تحقیق موجود ہے اگر بالفرض اس کو ضعیف بھی مان لیا جائے تو اس سے برا بھلا کہنے والا معنی متعین کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ بھی ابو یحییٰ صاحب کی لاعلمی ہو گی خیانت نہیں۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
سنن ابوداود رقم 4131)
اس روایت کو بقیہ بن الولید کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ مسند احمد میں اس سند میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے سند پیش ہے

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟
مسند احمد رقم 17189
اس میںبقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور محدثین کے مطابق جب بقیہ بن الولید سماع کی تصریح کر دے تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں

قال النسائى : إذا قال : " حدثنا و أخبرنا " ، فهو ثقة .
و إذا قال : " عن فلان " فلا يؤخذ عنه ، لأنه لا يدرى عمن أخذه .

تھذیب الکمال للمزی رقم 738)
امام نسائی کے مطابق بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی روایت قابل قبول ہے اوردیگر مقدمین محدثین نے بھی یہی نقل کیا ہے

قَالَ بَقِيَّة إِذا حدث عَن المعروفين مثل بحير بن سعد وَغَيره
اللعل للاحمد رقم3141)
امام احمد بن حنبل نے خاص طور پر بحیر بن سعد کا نام لیا ہے کہ جب بقیہ اس سے روایت کرے(اور سماع کی تصریح بھی ہو) تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سئل أبى عن بقية و إسماعيل بن عياش ، فقال :
بقية أحب إلى ، و إذا حدث عن قوم ليسوا بمعروفين فلا تقبلوه .

حوالہ ایضارقم4128

امام یحیٰی بن معین نے بھی یہی بات نقل کی ہے
قال أبو بكر بن أبى خيثمة : سئل يحيى بن معين عن بقية ، فقال : إذا حدث عن
الثقات مثل صفوان بن عمرو و غيره ، و أما إذا حدث عن أولئك المجهولين فلا :

تھذیب الکمال مزی رقم 728 4/198

اور ابن عبدالھادی نے بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سماع کی تصریح کے بغیرروایات کو بھی صحیح قرار دیا ہے

وَرِوَايَةُ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرٍ صَحِيحَةٌ، سَوَاءٌ صَرَّحَ بِالْتَّحْدِيثِ أَمْ لا، مَعَ أَنَّهُ قَدْ صَرَّحَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِالتَّحْدِيثِ.
تعلیقہ اللعل لابی حاتم جلد 1 ص 157
اور امام احمد بن حنبل نےبقیۃ بن الولید کی بحیر بن سعد کے طریق سے روایت کو جید قرار دیا ہے

قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، ثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي، وَفِي قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ.
قَالَ الأَثْرَمُ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: هَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.

اور آخر میں شیخ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری صاحب ضعیف فرما رہے ہیں
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات، وقال المناوي: " قال الحافظ العراقي:
وسنده جيد، وقال غيره: فيه بقية صدوق له مناكير وغرائب وعجائب ".
قلت: ولا منافاة بين القولين، فإن بقية إنما يخشى من تدليسه وهنا قد صرح
بالتحديث كما رأيت وهو في رواية أحمد.

سلسلہ احادیث الصحیحۃ 811)

ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کی ہے اور اس کی ثقات سے سماع کی تصریح والی روایات عندالمحدثین قبول ہیں اس لئے یہ روایت حسن ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ موصوف کی خطا ہو گی علمی خیانت نہیں

عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِيٌّ عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ , فَقَالَ: قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ , وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَيَّ وَإِلَى مُعَاوِيَة
مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37880)


موصوف مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اس پر موصوف کا اعتراض یہ ہے کہ یزید بن الاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ روایت نہیں کیا ہے

یزید بن الاصم:

یزید بن الاصم کی وفات ایک 103 ہجری میں ہوئی ہے اور انہوں نے 73 سال عمر پائی ہے (تھذیب التھذیب،الصحابہ فی التمیز الصحابہ)اس بنا پر وہ تقریبا 33 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور اس حساب سے علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہےابن کثیر نے اور امام ذہبی نے ان کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا انکار کیا ہے اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت میں ان کے سماع کی تصریح ہے چونکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے اس لئے امام ذہبی اور ابن کثیر نے ان کے سماع کا انکار کیا ہے مگر جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے معاصر بھی ہیں اور ایک ہی شہر سے تعلق بھی رکھتے ہیں اس لئےاس اصول حدیث پر اس روایت کو سماع پرمحمول مانا جائے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اس کو شواہد بھی موجود ہیں۔

أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال: حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال:
حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية.

بغية الطلب في تاريخ حلب جلد 1 ص297

یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت کی شاہد ہے اس میں اسی قسم کے الفاظ ہیں"
إنما الحساب علي وعلى معاوية." موجود ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کی شاہد ہیں مگر مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت ہی صحیح اور متصل ہے اس روایت کو شیخ ارشاد الحق اثری نے صحیح قرار دیا ہے (مقام صحابہ ص 167)


ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت بیان کی اور اس کو حسن کہا ہے جبکہ وہ روایت ضعیف ہے

وأنبأنا أبو طاهر الأصبهاني أنا نصر بن أحمد بن البطر قالا أنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقوية أنا علي بن محمد بن أحمد المصري نا بكر بن سهل نا عبد الله بن يوسف نا ليث نا بكير عن بسر بن سعيد
أن سعد بن أبي وقاص قال ما رأيت أحدا بعد عثمان أقصى بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية

تاریخ ابن عساکر جلد59 ص161
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے

حمل الناس عنه، وهو مقارب الحال.
قال النسائي: ضعيف.

میزان الاعتدال رقم1284)

شیخ البانی نے بھی اس کی متعدد روایات کو اس کی وجہ سے ضیف قرار دیا ہے

بكر بن سهل وهو الدمياطي قال النسائي: ضعيف

(سلسلہ الحادیث الضعیفہ رقہ 2827)

[FONT=Arial, sans-serif]آخر میں ۷۲ شہداء کربلا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کسی صحیح سند سے ثابت کریں کہ شہداء کربلا ۷۲ تھے ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے ۷۲ تو نہیں مگر تقریبا ۷۲ ضرور ہیں۔

72 shuhda karbala.png

[/FONT]



اس لئے ہم اب بھی یہی امید کرتے ہیں کہ یہ ابو یحٰیی نور پوری کی لاعلمی ہی ہوگی اور امید کرتے ہیں کہ دفاع صحابہ میں وہ وحی خفی میں لاعلمی کی بنا پرجس خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اس سے رجوع کریں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ابو یحیٰی نورپوری کی علمی خیانتیں یا لا علمی
محترم بھائیوں:
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور اشکالات پر جو مدلل کام کیا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے مگر اس حوالے سے ان کی چند ویڈیوز میں کچھ ایسی باتیں سامے آئیں ہیں جو علمی خیانت یا ان کی لاعلمی پر مبنی تھی دفاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر مسلمان کی دین حمیت میں شامل ہے اور یہ ایک انتہائی مستحسن فعل ہے مگر اس میں علمی خیانت ایک عالم دین کو زیب نہیں دیتی اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے جس کو ہم ترتیب وار پیش کر رہے ہیں
(1) محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپر (واقعہ کربلا کا حقیقی منظر72 صحیح الاسناد احادیث) کے حوالے سے اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ امام اسحاق بن راھویہ کا قول بے سند ہے اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند نقل نہیں کی مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے

(قَالَ) الْحَاكِم سمعتُ أَبَا الْعَبَّاس مُحَمَّد بْن يَعْقُوب بْن يُوسُف يَقُولُ سمعتُ أبي يَقُولُ سمعتُ إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيم الْحَنْظَلِي يَقُولُ: لَا يَصح فِي فضل مُعَاويَة حَدِيث.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة کتاب المناقب جلد1 ص 388)
ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیٰی نور پوری حفظ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا۔
(2) اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا رجوع
اس حوالے سے جس حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا وہ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث نمبر 37772ہے اور اس کی وجہ ضعف انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں اسماعیل بن ابن خالد مدلس ہے اور اس نے تدلیس کر رکھی ہے جبکہ اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں یہ دوسرے درجہ کے مدلس ہیں اور ان کا عنعن قبول ہوتا ہے۔

أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ: ادْفِنُونِي مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنِّي كُنْتُ أَحْدَثْتُ بَعْدَهُ حَدَثًا
اسماعیل بن ابی خالد دوسرے درجے کے مدلس ہیں اور اس درجے کے مدلس کا عنعنہ قبول ہوتا ہے چنانچہ مسفر الدمینی لکھتے ہیں"وحکم اہل المرتبہ کحکم اہل المرتبہ الاولی یقبل حدیثھم سواء صرحوا بالسماع او رووا بالعنعنۃ (التدلیس فی الحدیث مسفر الدمینی ص 143)
ترجمہ: اس درجے کے (رواۃ)کا حکم وہی ہے جو پہلے درجے والوں کا ہے ان کی حدیث سماع پر صراحت کے ساتھ ہوں یا عنعنہ کے ساتھ ہو قبول ہو گی۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے(فتح المبین ص36)
ان تصریحات سے ثابت ہے کہ اسماعیل بن ابی خالد کاعنعنہ بھی قبول ہوتا ہے اس بنا پر یہ روایت صحیح ہے


أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
سنن نسائی رقم 3006 کتاب الحج باب التلبیہ بعرفۃ)
اس روایت کو موصوف نے ضعیف کہا ہے اور اس پر یہ منطق پیش کی ہے کہ اگرچہ خالد بن مخلد حسن الحدیث ہے مگر جب وہ اہل کوفہ سے روایت کرے تو ضعیف ہوگا اگرچہ اہل کوفہ کتنے ہی ثقہ ہوںجیسے اس روایت میں خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے روایت کیا ہے اور ان کے بابت محدثین کیا نقل کرتے ہیں پڑھ لیں

قال العجلى : كوفى ، ثقة .
و قال عثمان الدارمى ، عن ابن معين : ثقة مأمون .
و قال ابن سعد : كان صاحب قرآن ، و كان ثقة إن شاء الله ، قليل الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 333

اوردوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مھسر سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کوفی ہیںاور ان کی بابت محدثین کہتے ہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : على بن مسهر قرشى من أنفسهم ، كان ممن جمع الحديث و الفقه ، ثقة .
و قال أبو زرعة : صدوق ، ثقة .
و قال النسائى : ثقة .
تهذيب الكمال رقم 4800
قال العجلى أيضا : صاحب سنة ، ثقة فى الحديث ، ثبت فيه ، صالح الكتاب ، كثير
الرواية عن الكوفيين .
و قال ابن سعد : كان ثقة كثير الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 384

ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے جو منطق پیش کی ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک محدثین میں سے کسی نے بیان نہیں کی ہےامام بخاری نے اس کی علی بن مھسر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے صحیح بخاری کتاب المناقب الزبیر بن العوام رقم 3717) اورابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں اس کے ترجمہ کےتحت نقل کیا ہے

"
خَالِد بن مخلد الْقَطوَانِي الْكُوفِي أَبُو الْهَيْثَم من كبار شُيُوخ البُخَارِيّ روى عَنهُ وروى عَن وَاحِد عَنهُ قَالَ الْعجلِيّ ثِقَة فِيهِ تشيع وَقَالَ بن سعد كَانَ متشيعا مفرطا وَقَالَ صَالح جزرة ثِقَة إِلَّا أَنه كَانَ مُتَّهمًا بالغلو فِي التَّشَيُّع وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل لَهُ مَنَاكِير وَقَالَ أَبُو دَاوُد صَدُوق إِلَّا أَنه يتشيع وَقَالَ أَبُو حَاتِم يكْتب حَدِيثه وَلَا يحْتَج بِهِ قلت أما التَّشَيُّع فقد قدمنَا أَنه إِذا كَانَ ثَبت الْأَخْذ وَالْأَدَاء لَا يضرّهُ لَا سِيمَا وَلم يكن دَاعِيَة إِلَى رَأْيه وَأما الْمَنَاكِير فقد تتبعها أَبُو أَحْمد بن عدي من حَدِيثه وأوردها فِي كَامِله وَلَيْسَ فِيهَا شَيْء مِمَّا أخرجه لَهُ البُخَارِيّ بل لم أر لَهُ عِنْده من أَفْرَاده سوى حَدِيث وَاحِد وَهُوَ حَدِيث أبي هُرَيْرَة من عادى لي وليا الحَدِيث وروى لَهُ الْبَاقُونَ سوى أبي دَاوُد" )ابن حجر کےمطابق اس کی تشیع ہونا اس کی روایات پر ضرر نہیں دیتا چنانچہ انہوں نے بھی یہ منطق کہیں پیش نہیں کی کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ابن عدی نے اس کی احادیث نقل کر کے یہ ضرور کہا کہ اس میں یا تو اس کو وہم ہوا ہے یا حفظ صحیح طور پر نہیں کیا ہے مگر انہوں نے بھی اس طرح کی کوئی بات نقل نہیں کی ہے یہاں تک کے صاحب تحریر تقریب نے اس کو "ضعیف یعتبر بہ"
کہا ہے مگر یہ موقف انہوں نے بھی کسی سے نقل نہیں کیا ہے امام المقدسی نے المختارہ میں علی بن مھسر کے طریق سے خالد بن مخلد کی روایت لی ہے یعنی ان کی نظر میں خالد بن مخلد کی علی بن مھسر سے روایت صحیح ہے ماسوائے ابن رجب حنبلی نے الغلابٰی کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ جمہور محدثین کے خلاف ہےاور اصول میں جمہور کی بات رائج ہوتی ہے الغرض موصوف کا یہ موقف جمہور محدثین کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي» .

اس روایت کو ابو یحییٰ نور پوری صاحب ضعیف کہہ رہے ہیں کیونکہ اس میں ابو اسحاق السیعبی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں جبکہ اس کے دیگر طرق اور شواہد بھی ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ واقعی علی رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر بھلا برا کہا جاتا تھا

حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنَابِرِ؟ قُلْتُ: وَأَنَّى ذَلِكَ؟، قَالَتْ: أَلَيْسَ يُسَبُّ عَلِيٌّ وَمَنْ يُحِبُّهُ فَأَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحِبُّهُ
مسند ابو یعلی رقم7013
اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہے اس میں ابو یحییٰ نور پوری صاحب اس کے دو رواۃ "السدی" جو کہ "
إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى" ہیں اور دوسرے "عیسیٰ بن عبدالرحمن البجلی ہیں جنہوں نے"السدی "سے روایت کیا ہے انکے درمیان نے انقطاع کا دعوی کی ہے مگر اس پر کوئی دلیل اپنی تقریر میں پیش نہیں کی ہے فقط زبیر علی زئی کے ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 کے صفحہ 21 تا 22 کا حوالہ دیا ہے اور اس میں رسالہ میں فقط اس کے انقطاع کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے مگر اگر اصول حدیث کے مطابق غور کیا جائے تو جمہور کے نذدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جبکہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ماسوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو اور شیخ البانی اس روایت کو اپنے سلسلہ احادیث الصحیحہ میں درج کرکے اسی اصول کو پیش کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں"
قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ تحت رقم 3332)


اور اس کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں


حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْمَاعِيل قَالَ حَدثنَا بن عون عَن عُمَير بْن إِسْحَاق قَالَ كَانَ مَرْوَان أَمِيرا علينا سِتّ سِنِين فَكَانَ
يسب عليا كل جُمُعَة ثمَّ عزل ثمَّ اسْتعْمل سعيد بن الْعَاصِ سنتَيْن فَكَانَ لَا يسبه ثمَّ أُعِيد مَرْوَان فَكَانَ يسبه

اسنادہ الحسن العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد رقم 4781 جلد 3 ص 176
عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں مروان ہم پر ساتھ سال امیر رہا اور وہ ہر جمعہ میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا پھر سعید بن العاص کو سات سال کے لئے امیر بنے اور وہ برا بھلا نہیں کہتے تھے پر دوبارہ جب مروان بنا اس نے دوبارہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے کیونکہ اس کے قرائن موجود ہے چند ایک پیش ہیں

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة
سنن النسائی الکبری رقم 8151)
اس روایت میں صاف الفاظ ہیں"
يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے
نوٹ:اس روایت کو بھی ضعیف کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے مگر یہ صحیح ہے اسی فورم پر میری تحقیق موجود ہے اگر بالفرض اس کو ضعیف بھی مان لیا جائے تو اس سے برا بھلا کہنے والا معنی متعین کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ بھی ابو یحییٰ صاحب کی لاعلمی ہو گی خیانت نہیں۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
سنن ابوداود رقم 4131)
اس روایت کو بقیہ بن الولید کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ مسند احمد میں اس سند میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے سند پیش ہے

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟
مسند احمد رقم 17189
اس میںبقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور محدثین کے مطابق جب بقیہ بن الولید سماع کی تصریح کر دے تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں

قال النسائى : إذا قال : " حدثنا و أخبرنا " ، فهو ثقة .
و إذا قال : " عن فلان " فلا يؤخذ عنه ، لأنه لا يدرى عمن أخذه .

تھذیب الکمال للمزی رقم 738)
امام نسائی کے مطابق بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی روایت قابل قبول ہے اوردیگر مقدمین محدثین نے بھی یہی نقل کیا ہے

قَالَ بَقِيَّة إِذا حدث عَن المعروفين مثل بحير بن سعد وَغَيره
اللعل للاحمد رقم3141)
امام احمد بن حنبل نے خاص طور پر بحیر بن سعد کا نام لیا ہے کہ جب بقیہ اس سے روایت کرے(اور سماع کی تصریح بھی ہو) تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے

قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سئل أبى عن بقية و إسماعيل بن عياش ، فقال :
بقية أحب إلى ، و إذا حدث عن قوم ليسوا بمعروفين فلا تقبلوه .

حوالہ ایضارقم4128

امام یحیٰی بن معین نے بھی یہی بات نقل کی ہے
قال أبو بكر بن أبى خيثمة : سئل يحيى بن معين عن بقية ، فقال : إذا حدث عن
الثقات مثل صفوان بن عمرو و غيره ، و أما إذا حدث عن أولئك المجهولين فلا :

تھذیب الکمال مزی رقم 728 4/198

اور ابن عبدالھادی نے بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سماع کی تصریح کے بغیرروایات کو بھی صحیح قرار دیا ہے

وَرِوَايَةُ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرٍ صَحِيحَةٌ، سَوَاءٌ صَرَّحَ بِالْتَّحْدِيثِ أَمْ لا، مَعَ أَنَّهُ قَدْ صَرَّحَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِالتَّحْدِيثِ.
تعلیقہ اللعل لابی حاتم جلد 1 ص 157
اور امام احمد بن حنبل نےبقیۃ بن الولید کی بحیر بن سعد کے طریق سے روایت کو جید قرار دیا ہے

قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، ثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي، وَفِي قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ.
قَالَ الأَثْرَمُ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: هَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.

اور آخر میں شیخ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری صاحب ضعیف فرما رہے ہیں
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات، وقال المناوي: " قال الحافظ العراقي:
وسنده جيد، وقال غيره: فيه بقية صدوق له مناكير وغرائب وعجائب ".
قلت: ولا منافاة بين القولين، فإن بقية إنما يخشى من تدليسه وهنا قد صرح
بالتحديث كما رأيت وهو في رواية أحمد.

سلسلہ احادیث الصحیحۃ 811)

ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کی ہے اور اس کی ثقات سے سماع کی تصریح والی روایات عندالمحدثین قبول ہیں اس لئے یہ روایت حسن ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ موصوف کی خطا ہو گی علمی خیانت نہیں

عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِيٌّ عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ , فَقَالَ: قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ , وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَيَّ وَإِلَى مُعَاوِيَة
مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37880)


موصوف مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اس پر موصوف کا اعتراض یہ ہے کہ یزید بن الاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ روایت نہیں کیا ہے

یزید بن الاصم:

یزید بن الاصم کی وفات ایک 103 ہجری میں ہوئی ہے اور انہوں نے 73 سال عمر پائی ہے (تھذیب التھذیب،الصحابہ فی التمیز الصحابہ)اس بنا پر وہ تقریبا 33 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور اس حساب سے علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہےابن کثیر نے اور امام ذہبی نے ان کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا انکار کیا ہے اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت میں ان کے سماع کی تصریح ہے چونکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے اس لئے امام ذہبی اور ابن کثیر نے ان کے سماع کا انکار کیا ہے مگر جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے معاصر بھی ہیں اور ایک ہی شہر سے تعلق بھی رکھتے ہیں اس لئےاس اصول حدیث پر اس روایت کو سماع پرمحمول مانا جائے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اس کو شواہد بھی موجود ہیں۔

أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال: حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال:
حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية.

بغية الطلب في تاريخ حلب جلد 1 ص297

یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت کی شاہد ہے اس میں اسی قسم کے الفاظ ہیں"
إنما الحساب علي وعلى معاوية." موجود ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کی شاہد ہیں مگر مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت ہی صحیح اور متصل ہے اس روایت کو شیخ ارشاد الحق اثری نے صحیح قرار دیا ہے (مقام صحابہ ص 167)


ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت بیان کی اور اس کو حسن کہا ہے جبکہ وہ روایت ضعیف ہے

وأنبأنا أبو طاهر الأصبهاني أنا نصر بن أحمد بن البطر قالا أنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقوية أنا علي بن محمد بن أحمد المصري نا بكر بن سهل نا عبد الله بن يوسف نا ليث نا بكير عن بسر بن سعيد
أن سعد بن أبي وقاص قال ما رأيت أحدا بعد عثمان أقصى بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية

تاریخ ابن عساکر جلد59 ص161
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے

حمل الناس عنه، وهو مقارب الحال.
قال النسائي: ضعيف.

میزان الاعتدال رقم1284)

شیخ البانی نے بھی اس کی متعدد روایات کو اس کی وجہ سے ضیف قرار دیا ہے

بكر بن سهل وهو الدمياطي قال النسائي: ضعيف

(سلسلہ الحادیث الضعیفہ رقہ 2827)

[FONT=Arial, sans-serif]آخر میں ۷۲ شہداء کربلا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کسی صحیح سند سے ثابت کریں کہ شہداء کربلا ۷۲ تھے ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے ۷۲ تو نہیں مگر تقریبا ۷۲ ضرور ہیں۔

20505 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

[/FONT]



اس لئے ہم اب بھی یہی امید کرتے ہیں کہ یہ ابو یحٰیی نور پوری کی لاعلمی ہی ہوگی اور امید کرتے ہیں کہ دفاع صحابہ میں وہ وحی خفی میں لاعلمی کی بنا پرجس خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اس سے رجوع کریں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔
میرا حسن ظن مجھ سے یہ کہتا ہے کہ اسے علمی خیانت سے موسوم نہ کیا جائے بلکہ لا علمی کہا جائے اور بہتر ہوتا کہ یہ سب کچھ آپ فورم پر دینے سے قبل خود ابو یحیی صاحب سے رابطہ کر لیتے اگر وہ اپنی بات پر مصر رہتے تو پھر آپ یہ نشر کرتے
 

abu khuzaima

رکن
شمولیت
جون 28، 2016
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
46
میرا حسن ظن مجھ سے یہ کہتا ہے کہ اسے علمی خیانت سے موسوم نہ کیا جائے بلکہ لا علمی کہا جائے اور بہتر ہوتا کہ یہ سب کچھ آپ فورم پر دینے سے قبل خود ابو یحیی صاحب سے رابطہ کر لیتے اگر وہ اپنی بات پر مصر رہتے تو پھر آپ یہ نشر کرتے
درست کہا آپ نے!

Sent from my SM-G920F using Tapatalk
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
میرا حسن ظن مجھ سے یہ کہتا ہے کہ اسے علمی خیانت سے موسوم نہ کیا جائے بلکہ لا علمی کہا جائے اور بہتر ہوتا کہ یہ سب کچھ آپ فورم پر دینے سے قبل خود ابو یحیی صاحب سے رابطہ کر لیتے اگر وہ اپنی بات پر مصر رہتے تو پھر آپ یہ نشر کرتے
متفق
 

Abdul moeez

رکن
شمولیت
اگست 29، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
33
سورج کو چراغ دکھانے کی ناکام کوشش!
تحریر : حافظ محمد بلال، اصلاح میڈیا

محدث فورم پر ایک گمنام شخص نے "دفاع حدیث" کا جھوٹا لیبل لگا کر ایک دشمن صحابہ، نیم رافضی، فرقہ واریت کے علمبردار اور دوغلی پالیسی والے محمد علی مرزا جھلمی کا دفاع کرنے اور اپنی جہالتیں استاذ محترم شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ کے ذمے لگانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس گمنام معترض کا کوئی تعارف نہیں کہ یہ کون ہے اور اس کا منھج ومسلک کیا ہے؟
موصوف اسی فورم پر اپنے غیر اہل حدیث ہونے کا تو اقرار کر ہی چکے ہیں، کم از کم ان کا نیم رافضی ہونا تو ان کی تحریر سے بھی عیاں ہے۔
مجھول معترض سے گزارش ہے کہ کھل کر اپنا مسلک بیان کردیں۔ چوری چھپے الزام تراشی کرنا کوئی علمی انداز نہیں۔ ایسا کام وہی کرتا ہے جس کو اپنی چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو یا جس کی اپنی دال کالی ہو۔
اگرچہ ایسے مجھول شخص کی جہالتوں کی طرف التفات ہی نہیں کرنا چاہیے، لیکن چونکہ ایک اوپن فورم پر یہ جہالتیں آویزاں ہیں، اس لیے خطرہ تھا کہ بعض کم علم لوگ ان جہالتوں کی وجہ سے پریشان نہ ہو جائیں۔
تو چلیے ان اعتراضات کا جائزہ لینا شروع کرتے ہیں؛
ꙮ شہدائے کربلا کی تعداد 72؟
استاذ محترم حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ کی طرف سے مرزا محمد علی انجینیئر صاحب کو بار بار یہ یاد دلایا گیا کہ وہ اپنے پمفلٹ کے سرورق پر شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہونے کے دعوے دار ہیں اور اسی سرورق پر صحیح الاسناد روایات کو لینے اور ضعیف الاسناد روایات کو ترک کرنے پر زور بھی دیتے ہیں، لیکن وہ 72 کی تعداد بھی کسی صحیح حدیث سے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یہ دوغلی پالیسی کیوں؟
مجھول معترض نے مرزا صاحب کے دفاع میں شہداء کربلا کے حوالے سے لکھا:
"ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے 72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں"۔
معترض صاحب نے مقتل الحسین بن علی نامی کتاب سے سکین پیش کیا۔
اولا : مقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنھما نامی ایک کتاب ابو مخنف رافضی کذاب کی ہے، اگر یہ کوئی اور کتاب ہے تو معترض صاحب قارئین کو اس کا تعارف کروا دیں۔
ثانیا : اس کی کوئی صحیح سند پیش فرما دیں۔ اگر کوئی سند پیش کی گئی تو تفصیلات پھر عرض کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ
ثالثا : پیش کردہ روایت میں الفاظ ہیں : " لقریب من مئۃ رجل" یعنی سو کے قریب افراد تھے، اس سے "72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں" اخذ کرنا کس اصول کے تحت ہے؟
رابعا : "لقریب من مئۃ رجل" (تقریبا 100) کے الفاظ 72 شہدائے کربلا کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ روایت تقریبا 100 کہتی ہے، مرزا صاحب اور معترض صاحب کا دعوی تقریبا 72 کا کیوں ہے؟
ꙮ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ اور فضائل معاویہ:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوئی فضیلت ثابت نہیں، استاذ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں۔ مجہول معترض صاحب نے یہ جھوٹا گمان کر لیا کہ شاید اس حوالے سے جو سند تاریخ دمشق لابن عساکر میں ہے، وہ ان کے علم میں نہیں، حالانکہ کئی سال پہلے شیخ محترم اس بات کی تصریح کر چکے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سند مع متن یہ ہے:
كتب إلي أبو نصر بن القشيري أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو عبد الله الحافظ قال سمعت أبا العباس الأصم يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في فضل معاوية بن أبي سفيان شئ ۔
مجھول معترض نے امام اسحاق رحمہ اللہ سے منسوب اس قول کے بارے لکھا :
"مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے"۔
عرض ہے کہ اس کی سند میں ابو العباس الاصم کے والد یعقوب بن یوسف کی توثیق ثابت نہیں تو سند کیسے صحیح ہو گئی ہے؟
مجھول معترض نے دُور کی ایک کتاب (اللآلى المصنوعة في الأحاديث الموضوعة : 1/388) سے اس قول کی سند (قال) الحاكم سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب بن يوسف يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول: لا يصح في فضل معاوية حديث) پیش کرکہا :
"ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا"۔
حالانکہ شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ نے (السنۃ شمارہ نمبر49 تا54، ص : 144، نومبر 2012 تا اپریل 2013ء) میں اس قول کے دو حوالے دیے ہیں ایک تاریخ دمشق لابن عساکر اور دوسرا سیراعلام النبلاء للذھبی سے جس سے بالکل واضح ہے کہ وہ اس کی سند سے واقف تھے۔ پھر مجھول معترض نے 2018میں کون سی نئی سند دریافت کر لی ہے جو شیخ محترم حفظہ اللہ کے علم میں نہیں تھی؟
جو سند علامہ سیوطی نے پیش کی ہے ان سے صدیوں پہلے حافظ ابن عساکر اور حافظ ذہبی نے اپنی کتب میں پیش کر رکھی ہے اور اس پر شیخ محترم ضعیف کا حکم بھی لگا چکے ہیں۔
ꙮ نیم روافض کی خیانت:
مرزا محمد علی انجینیئر اور گمنام معترض صاحبان نے خیانت کرتے ہوئے اس غیر ثابت قول کے بعد حافظ ابن عساکر کے کیے گئے تبصرے کو ہڑپ کر لیا۔ اس غیر ثابت قول کے بعد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کے فضلیت میں تین صحیح ترین روایت پیش کر کے امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کی نفی قطعا درست نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل ثابت ہیں۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ مذکورہ غیر ثابت کے متصل بعد فرماتے ہیں:
وأصح ما روي في فضل معاوية حديث أبي حمزة عن ابن عباس أنه كاتب النبي صلى الله عليه وسلم فقد أخرجه مسلم في صحيحه وبعده حديث العرباض اللهم علمه الكتاب وبعده حديث ابن أبي عميرة اللهم اجعله هاديا مهديا ( تاريخ دمشق لابن عساكر : 59/ 106)
ہم امید کرتے ہیں کہ مجھول معترض دوبارہ ایسی خیانت کبھی نہیں کریں گے۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حق پرستی کا انکار:
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا :
ما رأيت أحدا بعد عثمان أقضی بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية ۔
" میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔" (تاريخ دمشق لابن عساكر :59/ 161)
مجھول معترض لکھتے ہیں :
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے، اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے۔"
عرض ہے کہ شیخ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ جنوری 2010 میں شائع ہونے والے ماہنامہ السنۃ، شمارہ : 15، ص : 31، 32، 33 میں بڑی وضاحت سے بتا چکے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت ہی نہیں، اس کے برعکس بکر بن سہل جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
معترض صاحب سے درخواست ہے کہ انہیں دوسروں پر کم علمی کے جھوٹے الزامات لگانے کا شوق ہے تو وہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت کریں۔
شائقین اس لنک پر ماہنامہ السنہ کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ کر سکتے ہیں:
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/monthly-assunnah-jhelum-volume-15/
ꙮ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنگ جمل پر افسوس!
مرزا جہلمی صاحب کا دعوی ہے کہ ان کا دل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس لیے صاف ہے کہ وہ جنگ جمل پر افسوس کیا کرتی تھیں، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی رائے پر قائم رہے، اس لیے ان کے بارے میں دل مکمل صاف نہیں ہو سکتا۔
اپنی دلیل کے طور پر انہوں نے یہ روایت پیش کی؛
حدثنا أبو أسامة، قال: حدثنا إسماعيل عن قيس قال: قالت عائشة لما حضرتها الوفاة : ادفنوني مع أزواج النبي عليه السلام فإني كنت أحدثت بعده حدثا(مصنف ابن ابی شیبة، ح : 37772)
شیخ محترم نے فرمایا کہ اس کی سند میں اسماعیل بن ابی خالد مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں کی۔
مرزا صاحب کے نزدیک بھی مدلس کی عدم سماع والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا :
"اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں۔
عرض ہے کہ بخاری ومسلم میں مدلس کا عنعنہ سماع ومتابعات پر محمول ہوتا ہے جس کا محمد علی مرزا صاحب کو بھی اعتراف ہے، لیکن بخاری ومسلم کے علاوہ مدلس کی روایت اس وقت تک درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک سماع کی صراحت نہ ملے۔ اس بات کا بھی مرزا صاحب انکار نہیں کر سکتے، اگر یقین نہ آئے تو ان کا ویڈیو بیان بنام" ضعیف الاسناد احادیث کا فتنہ" سن لیں۔ بلکہ انہوں نے مدلس کی عدم سماع والی روایت کے رد پر محدثین کے اجماع کی بات کر رکھی ہے دیکھیں مرزا صاحب کا بیان ( شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حق گو عالم دین)۔۔۔
اگر مجھول معترض صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی عدم سماع والی روایات کی حجیت کے قائل ہیں تو انہیں چاہیے کہ جن کا وہ دفاع کر رہے ہیں ان (مرزا جہلمی صاحب)سے سوال کریں کہ آپ نے سفیان ثوری(امام المدلسین بقول مرزا صاحب) حسن بصری اور سفیان بن عیینہ رحمھم اللہ جن کو حافظ ابن حجر نے دوسرے طبقے میں رکھا ہے، کی روایات کو کیوں رد کیا ہے؟
اگر مرزا صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی روایات کو مردود کہتے ہیں تو ان کے وکیل صفائی صاحب کسی اور کا رد کرنے سے پہلے اپنے موکل سے معاملات طے کریں۔
ꙮ مجہول معترض صاحب کا جھوٹ اور مغالطہ بازی :
مجھول معترض اسماعیل بن ابی خالد کے بارے لکھتے ہیں:
"شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے"
تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بھی اسے دوسرے طبقے کا مدلس سمجھتے تھے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے جو نِری مغالطہ بازی پر مبنی ہے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے جب اس کا طبقہ ثانیہ سے ہونا نقل کیا تو ان کا رد کرتے ہوئے حاشیے میں اسماعیل بن ابی خالد کو تیسرے طبقے کا مدلس لکھا ہے۔ دیکھیے (الفتح المبین، ص : 52)
اس کے باوجود کہنا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسے دوسرے طبقے کا مدلس نقل کیا ہے، جھوٹ بولنے کے لیے مغالطہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تلبیہ سے روکنے کا الزام!
امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي قال : حدثنا خالد بن مخلد قال : حدثنا علي بن صالح عن ميسرة بن حبيب عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال : كنت مع ابن عباس بعرفات فقال : «ما لي لا أسمع الناس يلبون؟» قلت : يخافون من معاوية فخرج ابن عباس من فسطاطه فقال : «لبيك اللهم لبيك، لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي۔ (سنن النسائی : 3006)
شیخ محترم نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تلبیہ سے روکنے والی یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ خالد بن مخلد قطوانی اگرچہ حسن الحدیث ہیں، لیکن ان پر امام مفضل غلابی نے جرح مفسر کی تھی کہ ان کی مدنی اساتذہ کے علاوہ دیگر اساتذہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب : 2/775)
لیکن مجھول معترض صاحب نے خلط مبحث سے کام لے کر اس راوی کی توثیق کے اقوال نقل کرنے شروع کر دیے حالانکہ اقوال توثیق تو تب پیش کیے جائیں جب خالد کو مطلق طور پر ضعیف کہا گیا ہو۔ خالد کے صدوق ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ یہاں بات جرح مفسر کی ہے جو تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔
مرزا صاحب کے نزدیک ''حق گو عالم دین'' شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دس نے کہا "الف" ثقہ ہے۔ ایک نے کہا "الف " "ب" میں ضعیف ہے۔نتیجہ : "الف" ثقہ ہے اور "ب" میں ضعیف ہے۔
لہٰذا محدثین سے خالد بن مخلد کی توثیقات نقل کرنا چنداں مفید نہیں، بلکہ صرف خلط ِ مبحث ہے۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"دوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مسھر سے روایت کیا ہے۔"
عرض ہے کہ اس روایت میں خالد کا شیخ علی بن صالح ہے علی بن مسھر نہیں مستدرک حاکم کے مطبوعہ نسخے میں علی بن مسھر کا ذکر کاتب کی خطا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم سے خالد کا شیخ علی بن صالح ہی ذکر کیا ہے۔ دیکھیں : (اتحاف المھرۃ لابن حجر : 7/81) لہذا سندیں دو نہیں ایک ہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہاں علی بن مسہر ہی مان لیا جائے تو بھی یہ سند صحیح نہیں ہو گی، کیونکہ علی بن مسہر بھی مدنی نہیں، بلکہ شامی ہے۔ خالد بن مخلد کی صرف مدنی اساتذہ سے روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"امام بخاری نے اس کی علی بن مسھر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے"۔
عرض ہے کہ صحیح بخاری کا معاملہ اور ہے، اس میں مختلطین کی بعد از اختلاط اور تیسرے طبقے کی مدلسین کی بھی روایات ہیں لیکن پوری امت کی طرح مرزا صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقاء کر کے ان روایات کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
بعض لوگ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں روایت کی سند بخاری و مسلم کی سند ہے لہذا صحیح ہے حالانکہ"رجالہ رجال الصحیح" یا "رجالہ ثقات" سے سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا کیوں کہ تدلیس، اختلاط، انقطاع، شذوذ، نکارت، کسی ثقہ راوی کا کسی خاص استاذ میں ضعیف (جیسا کہ خالد بن مخلد کا معاملہ ہے) ہونے کا بھی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ الغرض صحیح بخاری میں خالد بن مخلد کی علی بن مسھر کوفی سے روایت کا امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقا کر لیا تھا لہذا مجھول معترض صاحب کا مستدرک حاکم کی روایت کو صحیحین پر قیاس کرنا ان کی جہالت ہے۔
ꙮ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاویہ کو قصور وار ٹھہرانا:
مرزا جہلمی صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں:
حدثنا عمر بن أيوب الموصلي عن جعفر بن برقان عن يزيد بن الأصم قال: سأل علي عن قتلى يوم صفين فقال: قتلانا وقتلاهم في الجنة ويصير الأمر إلي وإلى معاوية (مصنف ابن أبي شيبة، ح : 37880)
اس کے جواب میں شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
حافظ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم تصح روايته عن علي، وقد أدركه، وكان بالكوفة في خلافته ۔
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت صحیح نہیں ہے"۔ (سير أعلام النبلاء ط الرسالة :4/ 517)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ایک روایت میں علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يزيد بن الأصم لم يدرك عليا ۔
"یزید بن الاصم کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔ (البداية والنهاية ط هجر:2/ 259، قصص الانبیاء : 2/230)
ان تصریحات کے بعد اس روایت کو صحیح کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
یہ روایت منقطع ہے اور منقطع روایت مرزا صاحب کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا : " علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہے"۔
عرض ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إلا أن يكون هناك دلالة بينة أن هذا الراوي لم يلق من روى عنه، أو لم يسمع منه شيئا ۔
" مگر جب واضح دلالت ہو کہ یہ راوی مروی عنہ سے نہیں ملا یا اس سے کچھ بھی نہیں سنا (تو صرف امکان لقاء وسماع سے بات نہیں بنے گی) (صحيح مسلم :1/ 29)
لھذا یزید بن الاصم کے حوالے سے امکان والی بات کو دلیل بنانا خود امام مسلم رحمہ اللہ کے قاعدے کی رو سے ہی مردود ہے۔
خود مجھول معترض بھی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں:
" جمہور کے نزدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جب کہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا کہ یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ما سوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو۔"
لیکن زیر بحث روایت میں ائمہ دین کی طرف سے انقطاع کی صراحت کے باوجود بھی معاصرت کو دلیل بنائے ہوئے ہیں؟!
ꙮ مجہول معترض کی نری جہالت:
معترض مجھول نے لکھا:
" مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے"
عرض ہے کہ یہ مجہول معترض صاحب کی جہالتِ بینہ ہے، کیونکہ مکتبہ شاملہ میں کمپوزنگ کی غلطی سے "سال علی" لکھا گیا، جس سے معترض صاحب نے یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کر دیا۔ اگر انہیں اللہ تعالیٰ اصل کتاب کھول کر دیکھنے کی توفیق دیتا تو وہاں درست عبارت "سئل علی" مل جاتی، مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ دیگر کتب میں بھی "سئل علی" ہی لکھا ہوا ہے۔ لھذا مکتبہ شاملہ سافٹ وئیر میں کمپوزنگ کی غلطی کو دلیل بنا کر "مکھی پر مکھی مارنے" کے مصداق بن کر سماع ثابت کرنا نری جہالت ہے۔
مجھول معترض نے مذکورہ روایت کا درج ذیل شاھد پیش کیا ہے:
وأخبرنا أبو البركات الحسن بن محمد بن الحسن بن هبة الله إذنا، وقرأت عليه إسناده قال : أخبرنا عمي الحافظ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله قال : أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال : حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال : حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية (بغية الطلب فى تاريخ حلب :1/ 296)
عرض ہے کہ اس سند میں ابو مالک الاشجعی کے سالم بن عبید الاشجعی رضی اللہ عنہ سے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔لہٰذا اس شاہد کا کوئی فائدہ نہیں۔
بقیہ بن ولید کی تدلیسِ تسویہ :
مرزا جہلمی صاحب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف سنن ابی داود سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو مصیبت اور آگ کا انگارہ کہا تو انہوں نے کہنے والے کو روکا ٹوکا نہیں۔
شیخ محترم نے بتایا کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ بقیہ بن ولید مدلس ہے اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس کے خلاف مجہول معترض صاحب نے مسند احمد کی درج ذیل روایت کو دلیل بنانے کی کوشش کی:
حدثنا حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال : وفد المقدام بن معدي كرب وعمرو بن الأسود إلى معاوية فقال معاوية للمقدام : أعلمت أن الحسن بن علي توفي؟ فرجع المقدام فقال له معاوية : أتراها مصيبة؟ فقال : ولم لا أراها مصيبة وقد وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجره وقال : هذا مني وحسين من علي (مسند احمد : 17189)
حالانکہ یہ روایت بھی ضعیف ہی ہے کیوں کہ بقیہ بن الولید کی تدلیس "تدلیس تسویہ" ہے۔ تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کے لیے صرف اپنے استاذ سے ہی نہیں، بلکہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرنا ضروری ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک روایت کے بارے فرماتے ہیں :
هذا حديث منكر وبقية من المدلسين يحدث عن الضعفاء ويحذف ذكرهم في أوقات ۔
"یہ منکر حدیث ہے، بقیہ مدلسین میں سے ہے، بسا اوقات ضعیف راویوں سے روایت کر کے سند کے مختلف مقامات میں انہیں حذف کر دیتے تھے۔" (الجامع لعلوم الإمام أحمد - علل الحديث :15/ 227)
لہذا اگرچہ مسند احمد : 16817 میں بقیہ کے بعد لفظ "حدثنی" بھی موجود ہے، اس کے باوجود روایت منکر ہے کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔
بقیہ بن الولید سند میں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو حذف کر دیتے تھے تا کہ سند صحیح معلوم ہو۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ بقیہ کی تدلیس تسویہ کی دلیل دینے کے بعد فرماتے ہیں:
وكان بقية من أفعل الناس لهذا ۔
"بقیہ یہ کام (تدلیس تسویہ) سب سے زیادہ کرنے والے تھے(علل الحديث لابن أبي حاتم :1/ 115، الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي، ص : 364)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بقیہ کے تدلیس تسویہ کی مثال دی ہے کہ یہ ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دیتے تھے۔ (المجروحین : 1/200، 201)
ابن القطان فاسی رحمہ اللہ "بقیہ قال نا ابن جریج" سند کے بارے فرماتے ہیں:
فما بقي فيه إلا التسوية ۔
"اس میں صرف تدلیس تسویہ (کی علت) باقی ہے۔ (التلخيص الحبير ط قرطبة :3/ 309)
حافظ ابن الملقن فرماتے ہیں:
قلت: قد صرح بقية بالتحديث فقال: نا شعبة. لكن لا ينفعه ذلك فإنه معروف بتدليس التسوية ۔
"میں کہتا ہوں کہ بقیہ نے"نا شعبہ" کہہ کر سماع کی صراحت کی ہے لیکن یہ بات ان کو فائدہ نہیں دے گی کیوں وہ تدلیس تسویہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ (البدر المنير :5/ 102)
حافظ بوصیری لکھتے ہیں:
وبقية هو ابن الوليد يدلس بتدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔" (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه :1/ 136)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "بقية حدثني يونس بن يزيد عن الزهري" سند کے بارے فرماتے ہیں:
ففيه تدليسه التسوية لأنه عنعن لشيخه ۔
"اس میں بقیہ کی تدلیس تسویہ ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے شیخ سے آگے عن سے روایت بیان کی ہے۔ (التلخيص الحبير ط العلمية :2/ 107)
مزید لکھتے ہیں :
وبقية صدوق لكنه يدلس ويسوي وقد عنعنه عن شيخه وعن شيخ شيخه ۔
"بقیہ صدوق ہیں، لیکن تدلیس تسویہ کرتے ہیں اور انہوں نے یہ روایت اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے معنعن بیان کی ہے۔ (موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر :1/ 276)
مزید "بقية بن الوليد ثنا مسلم بن زياد قال : سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه" سند کے بارے لکھتے ہیں :
وإنما عابوا عليه التدليس والتسوية وقد صرح بتحديث شيخه له وبسماع شيخه فانتفت الريبة ۔
"محدثین نے بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام لگایا ہے (لیکن اس سند میں) انہوں نے اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے سماع کی صراحت کر رکھی، لھذا تدلیس کا شک رفع ہوا۔" (نتائج الأفكار لابن حجر :2/ 376)
اس سے معلوم ہوا کہ بقیہ کی تدلیس کا شبہ تب ہی رفع ہو گا، جب وہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرے، ورنہ نہیں۔
نیز ایک سند " بقية بن الوليد ثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان" کے بارے لکھتے ہیں:
وقد أمن تدليسه لتصريحه في هذا بالتحديث، لكن ينظر في حديث بحير عن خالد لأن بقية كان يسوي ۔
"بقیہ نے اس سند میں سماع کی صراحت کرکے اپنی تدلیس سے بے خوف کردیا ہے، لیکن "بحیرعن خالد" میں غور کیا جائے گا، کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ (إتحاف المهرة لابن حجر :13/ 233)
معترض مجہول کی ذکر کردہ روایت بھی بقیہ کی بحیرعن خالد روایت کردہ ہی ہے، لہذا اسے صحیح قرار دینا معترض صاحب کی اپنی کم علمی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ ابو اسحاق حوینی کے نزدیک بھی تدلیس تسویہ کا مرتکب ہے اور جب تک پوری سند میں سماع کی صراحت نہ کردے اس کی روایت قبول نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
بقية بن الوليد كان يدلس تدليس التسوية وهو ما يسمى عند القدماء بتدليس التجويد فنحتاج أن يصرح في كل طبقات السند وكنت أعتقد قديمًا أنه يدلسُ تدليس الإسناد كالأعمش وابن جريج وغيرهما. وقال لي شيخنا أبوعبد الرحمن الألباني رحمه الله : إنه يقع لي أن تدليس بقية هو من التدليس المعتاد. ولكن ثبت أن بقيَّة كان يدلس تدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتا ہے اور قدماء اس کو تدلیس تجوید کہتے ہیں۔ ہم محتاج ہوتے ہیں کہ یہ سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت کرئے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ بقیہ بن ولید اعمش، اور ابن جریج وغیرھما کی طرح تدلیس الاسناد کرتا ہے ہمارے شیخ ابو عبدالرحمن البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میرے مطابق بقیہ عام مدلس ہے(ان کے یہ بات صحیح نہیں) لیکن (بعد میں دلائل سے) ثابت ہوا کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتا تھا۔ (نثل النبال بمعجم الرجال :1/ 302)
اور شیخ حوینی نے بقیہ کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے کئی روایات کو ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
شیخ شعیب ارنئووط اور ان کے رفقاء نے بھی (مسند احمد : 17189) کی تحقیق میں زیر بحث روایت کی سند کو بقیہ بن ولید کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ اصول حدیث کی کتب میں تدلیس تسویہ کی مثال میں بقیہ بن ولید کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ زیر بحث روایت میں بقیہ سے روایت کرنے والے حیوۃ بن شریح حمصی ہیں اور امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ ایک روایت جو "ابو تقی قال حدثنی بقية قال : حدثني عبد العزيز بن أبي رواد عن نافع عن ابن عمر" کی سند سے مروی ہے، اس کے بارے فرماتے ہیں:
لم يسمع بقية هذا الحديث من عبد العزيز إنما هو عن أهل حمص وأهل حمص لا يميزون هذا ۔
"بقیہ نے یہ حدیث عبدالعزیز سے نہیں سنی یہ روایت اہل حمص سے ہے اور وہ اس میں تمییز نہیں کرتے تھے(عدم سماع کو صیغہ سماع سے ذکر کردیتے تھے)۔ (علل الحديث لابن أبي حاتم :6/ 271)
لہذا حیوہ بن شریح نے اگرچہ بقیہ کی تحدیث ذکر کی ہے، لیکن محدثین محققین کے نزدیک یہ حمص والوں سے قابل قبول نہیں۔
ꙮ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک منقطع روایت:
مرزا جہلمی صاحب نے درج ذیل روایت پیش کی:
حدثنا أبو خيثمة حدثنا عبيد الله بن موسى حدثنا عيسى بن عبد الرحمن البجلي عن السدي عن أبي عبد الله الجدلي قال: قالت أم سلمة: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنابر؟ قلت: وأنى ذلك؟ قالت: أليس يسب علي ومن يحبه فأشهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحبه (مسند أبي يعلى الموصلی : 7013)
شیخ محترم نے بتایا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ اس پر مجہول معترض صاحب نے اعتراض کیا کہ سوائے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے قول کے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔
تو عرض ہے کہ اس روایت پر شیخ محترم نے اپنی کوئی رائے پیش ہی نہیں کی، تو ان سے دلیل کا مطالبہ فضول ہے، چونکہ مرزا صاحب اپنے نزدیک ضعیف روایات میں بھی شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح کو اپنی دلیل بنالیتے ہیں، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں روایت تو تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے،آپ کے بقول بھی ضعیف ہی بنتی ہے، اس کے باوجود آپ نے اپنے پمفلٹ میں کیوں ذکر کی، تو وہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اسے صحیح کہا ہے، لہذا میں نے "علم "جمع کرنے کے لیے اسے صحیح روایات والے پمفلٹ میں لکھ دیا ہے، کسی محدث کے نزدیک صحیح جو ہوئی۔۔۔!
یہ مرزا جہلمی صاحب کو انہی کے بقول پھکی دی گئی ہے کہ ان کے طرز عمل کے مطابق یہ روایت ضعیف مانی جانی چاہیے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کسی روایت کو منقطع اور ضعیف کہنا بھی علم ہی ہے نا۔۔۔
اس روایت کو عرب محقق حسین سلیم اسد صاحب نے بھی ضعیف کہا ہے، جن کے حوالے جابجا مرزا صاحب اپنے پمفلٹ میں دیتے رہتے ہیںَ۔
اب مجہول معترض صاحب کو اِدھر اعتراض کی بجائے مرزا صاحب سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک صرف اپنے موافق حکم ہی "علم "ہوتے ہیں یا ان کے خلاف جانے والے علما کے حکم بھی "علم "سمجھے جا سکتے ہیں؟
ꙮ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک منقطع روایت:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خطبے میں برا بھلا کہنے پر مرزا جہلمی صاحب یہ دلیل پیش کرتے ہیں:
أخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار قالا: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم قال: خطب المغيرة بن شعبة فسب عليا فقال سعيد بن زيد: أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم لسمعته يقول: «اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» وعليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير وسعد، وعبد الرحمن بن عوف، وسعيد بن زيد هلال بن يساف لم يسمعه من عبد الله بن ظالم. (السنن الكبرى للنسائي : 8148)
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے بتایا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد خود اس کا ضعیف ہونا ثابت کردیا ہے کہ ھلال بن یساف نے اس کو عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا۔
اور یہ صرف امام نسائی رحمہ اللہ کا فیصلہ نہیں، دیگر ائمہ بھی یہی کہتے ہیں،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا فیصلہ آیندہ سطور میں ذکر ہو گا۔
ꙮ امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت کا صحیح ترجمہ :
مجہول معترض صاحب امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح مراد سمجھنے سے قاصر رہے، لکھتے ہیں :
"امام علل امام بخاری اس واسطے کا ہی انکار کرتے ہیں اور یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن طالم کے درمیان جو کوئی یہ واسطہ مانتا ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔"
آپ حیران ہوں گے کہ اہل علم ومعرفت نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح نہ ہونے سے مراد اس حدیث کا صحیح نہ ہونا بتایا ہے، نہ کہ واسطے کا صحیح نہ ہونا۔جیسا کہ:
حافظ مغلطائی امام عقیلی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال أبو جعفر العقيلي : كوفي لا يصح حديثه قاله البخاري ۔
"ابو جعفر عقیلی نے کہا : عبداللہ بن ظالم کوفی ہے اس کی حدیث صحیح نہیں اسی بات کے امام بخاری رحمہ اللہ (بھی) قائل ہیں۔" (إكمال تهذيب الكمال :7/ 416)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا الحديث هو الذي أراده البُخارِيّ ۔
"یہی وہ حدیث ہے جس(کی عدم صحت کا) امام بخاری رحمہ اللہ نے ارادہ کیا ہے۔"(الكامل في ضعفاء الرجال :5/ 371)
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس سند میں ایک رجل (مجھول) کا واسطہ ہونا ہی درست ہے، اور ھلال نے اس حدیث کو ابن ظالم سے نہیں سنا، وہ فرماتے ہیں:
والذي عندنا أن الصواب قول من رواه، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أحد الإثبات، وقد بين في روايته عن هلال أنه لم يسمعه من ابن ظالم، وأن بينهما رجلا (علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية :4/ 412)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عبد الله بن ظالم : عن سعيد بن زيد، قال البخاري: لا يصح حديثه ۔
"عبداللہ بن ظالم عن سعید والی حدیث صحیح نہیں۔"(ديوان الضعفاء، ص: 219)
مزید امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
عبد الله بن ظالم [عو] .عن سعيد بن زيد بحديث العشرة في الجنة، قال البخاري: لم يصح. رواه عنه هلال بن يساف ۔ (ميزان الاعتدال :2/ 448)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت: بل قال البخاري: لم يصح حديثه ۔
"میں(ذھبی) کہتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں ۔"(مختصر تلخيص الذهبي :4/ 1979)
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کی جو مراد مجہول معترض صاحب نے بنانے کی کوشش کی ہے، وہ باطل ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تمام محدثین کی تضعیف کے مقابلے میں شیخ البانی اور شیخ احمد شاکر رحمھما اللہ کا اس حدیث کو صحیح کہہ دینا ان کی علمی خطا اور مرجوح قول ہے۔
اس ضعیف روایت کو اپنی بنیاد بنا کر مجہول معترض صاحب لکھتے ہیں :
"ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے اس روایت میں صاف الفاظ ہیں" يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے۔"
ایک بات تو یہ کہ ایسی ناقابل قبول روایات سے کچھ ثابت کرنے کی کوشش سے دلائل کی دنیا میں ان لوگوں کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
دوسری بات کہ شیخ محترم نے لفظ ِ "سب" کے مختلف معانی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کیے تھے، نہ کہ کسی اور کے بارے میں۔جب کہ مذکورہ روایت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر "سب"کرانےکا جھوٹ مرزا جہلمی صاحب نے بولا اور اب ان کے مجہول وکیل ِ صفائی صاحب بھی اسی پر لیپا پوتی کر رہے ہیں۔اس روایت میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہے، جو مرزا جہلمی صاحب کے نزدیک بھی اللہ کی ہمیشہ کی رضامندی کے مستحق ہیں۔
ꙮ عربی ز بان سے جہالت :
مجہول معترض صاحب عربی زبان سے بالکل ناواقف ہیں، ان کی عربی دانی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کا ترجمہ بالکل ہی غلط کر دیا۔لکھتے ہیں :
''هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ (سنن الکبری للنسائی رقم8135)
ترجمہ:ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا۔"
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہلال بن یساف نے یہ روایت عبد اللہ بن ظالم سے نہیں سنی۔
امام نسائی رحمہ اللہ ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم سے سماع کو ثابت کر رہے ہیں، صرف اس خاص روایت کے نہ سننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مجہول معترض صاحب امام نسائی رحمہ اللہ پر یہ اتہام باندھ رہے ہیں کہ انہوں نے ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم کے سماع کا مطلقا انکار کیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگر ان صاحب نے دوبارہ بات چلائی تو ہم بتائیں گے کہ جہالت کی بنا پر اسی ایک غلط ترجمے کی وجہ سے انہوں نے مزید کون کون سی بونگیاں ماری ہیں۔
ایسے جاہل لوگوں کا اہل علم پر اعتراضات کرنا صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی نہ پورے ہونے والی خواہش ہے۔

پی ڈی ایف لنک یہ ہے :
https://goo.gl/YXmti4
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
چند دن پہلے ہی بندہ شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری صاحب سے ملاتھا اور اس پوسٹ کا ذکر بھی کیا تھا ۔ شیخ نے بتایا تھا کہ حافظ صاحب جواب لکھ رہے ہیں اور جلد پوسٹ کر دیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ شیخ کی عمر اور علم میں برکت عطاء فرمائے انہوں نے مرزا محمد علی کے آگے جو بند باندھا ہے اور مرزا کو یوٹیوب ،فیس بک پر بلکل عریاں کر دیا ۔
 

Abdul moeez

رکن
شمولیت
اگست 29، 2016
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
33
سورج کو چراغ دکھانے کی ناکام کوشش!
تحریر : حافظ محمد بلال، اصلاح میڈیا

محدث فورم پر ایک گمنام شخص نے "دفاع حدیث" کا جھوٹا لیبل لگا کر ایک دشمن صحابہ، نیم رافضی، فرقہ واریت کے علمبردار اور دوغلی پالیسی والے محمد علی مرزا جھلمی کا دفاع کرنے اور اپنی جہالتیں استاذ محترم شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ کے ذمے لگانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس گمنام معترض کا کوئی تعارف نہیں کہ یہ کون ہے اور اس کا منھج ومسلک کیا ہے؟
موصوف اسی فورم پر اپنے غیر اہل حدیث ہونے کا تو اقرار کر ہی چکے ہیں، کم از کم ان کا نیم رافضی ہونا تو ان کی تحریر سے بھی عیاں ہے۔
مجھول معترض سے گزارش ہے کہ کھل کر اپنا مسلک بیان کردیں۔ چوری چھپے الزام تراشی کرنا کوئی علمی انداز نہیں۔ ایسا کام وہی کرتا ہے جس کو اپنی چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو یا جس کی اپنی دال کالی ہو۔
اگرچہ ایسے مجھول شخص کی جہالتوں کی طرف التفات ہی نہیں کرنا چاہیے، لیکن چونکہ ایک اوپن فورم پر یہ جہالتیں آویزاں ہیں، اس لیے خطرہ تھا کہ بعض کم علم لوگ ان جہالتوں کی وجہ سے پریشان نہ ہو جائیں۔
تو چلیے ان اعتراضات کا جائزہ لینا شروع کرتے ہیں؛
ꙮ شہدائے کربلا کی تعداد 72؟
استاذ محترم حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ کی طرف سے مرزا محمد علی انجینیئر صاحب کو بار بار یہ یاد دلایا گیا کہ وہ اپنے پمفلٹ کے سرورق پر شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہونے کے دعوے دار ہیں اور اسی سرورق پر صحیح الاسناد روایات کو لینے اور ضعیف الاسناد روایات کو ترک کرنے پر زور بھی دیتے ہیں، لیکن وہ 72 کی تعداد بھی کسی صحیح حدیث سے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یہ دوغلی پالیسی کیوں؟
مجھول معترض نے مرزا صاحب کے دفاع میں شہداء کربلا کے حوالے سے لکھا:
"ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے 72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں"۔
معترض صاحب نے مقتل الحسین بن علی نامی کتاب سے سکین پیش کیا۔
اولا : مقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنھما نامی ایک کتاب ابو مخنف رافضی کذاب کی ہے، اگر یہ کوئی اور کتاب ہے تو معترض صاحب قارئین کو اس کا تعارف کروا دیں۔
ثانیا : اس کی کوئی صحیح سند پیش فرما دیں۔ اگر کوئی سند پیش کی گئی تو تفصیلات پھر عرض کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ
ثالثا : پیش کردہ روایت میں الفاظ ہیں : " لقریب من مئۃ رجل" یعنی سو کے قریب افراد تھے، اس سے "72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں" اخذ کرنا کس اصول کے تحت ہے؟
رابعا : "لقریب من مئۃ رجل" (تقریبا 100) کے الفاظ 72 شہدائے کربلا کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ روایت تقریبا 100 کہتی ہے، مرزا صاحب اور معترض صاحب کا دعوی تقریبا 72 کا کیوں ہے؟
ꙮ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ اور فضائل معاویہ:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوئی فضیلت ثابت نہیں، استاذ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں۔ مجہول معترض صاحب نے یہ جھوٹا گمان کر لیا کہ شاید اس حوالے سے جو سند تاریخ دمشق لابن عساکر میں ہے، وہ ان کے علم میں نہیں، حالانکہ کئی سال پہلے شیخ محترم اس بات کی تصریح کر چکے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سند مع متن یہ ہے:
كتب إلي أبو نصر بن القشيري أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو عبد الله الحافظ قال سمعت أبا العباس الأصم يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في فضل معاوية بن أبي سفيان شئ ۔
مجھول معترض نے امام اسحاق رحمہ اللہ سے منسوب اس قول کے بارے لکھا :
"مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے"۔
عرض ہے کہ اس کی سند میں ابو العباس الاصم کے والد یعقوب بن یوسف کی توثیق ثابت نہیں تو سند کیسے صحیح ہو گئی ہے؟
مجھول معترض نے دُور کی ایک کتاب (اللآلى المصنوعة في الأحاديث الموضوعة : 1/388) سے اس قول کی سند (قال) الحاكم سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب بن يوسف يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول: لا يصح في فضل معاوية حديث) پیش کرکہا :
"ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا"۔
حالانکہ شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ نے (السنۃ شمارہ نمبر49 تا54، ص : 144، نومبر 2012 تا اپریل 2013ء) میں اس قول کے دو حوالے دیے ہیں ایک تاریخ دمشق لابن عساکر اور دوسرا سیراعلام النبلاء للذھبی سے جس سے بالکل واضح ہے کہ وہ اس کی سند سے واقف تھے۔ پھر مجھول معترض نے 2018میں کون سی نئی سند دریافت کر لی ہے جو شیخ محترم حفظہ اللہ کے علم میں نہیں تھی؟
جو سند علامہ سیوطی نے پیش کی ہے ان سے صدیوں پہلے حافظ ابن عساکر اور حافظ ذہبی نے اپنی کتب میں پیش کر رکھی ہے اور اس پر شیخ محترم ضعیف کا حکم بھی لگا چکے ہیں۔
ꙮ نیم روافض کی خیانت:
مرزا محمد علی انجینیئر اور گمنام معترض صاحبان نے خیانت کرتے ہوئے اس غیر ثابت قول کے بعد حافظ ابن عساکر کے کیے گئے تبصرے کو ہڑپ کر لیا۔ اس غیر ثابت قول کے بعد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کے فضلیت میں تین صحیح ترین روایت پیش کر کے امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کی نفی قطعا درست نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل ثابت ہیں۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ مذکورہ غیر ثابت کے متصل بعد فرماتے ہیں:
وأصح ما روي في فضل معاوية حديث أبي حمزة عن ابن عباس أنه كاتب النبي صلى الله عليه وسلم فقد أخرجه مسلم في صحيحه وبعده حديث العرباض اللهم علمه الكتاب وبعده حديث ابن أبي عميرة اللهم اجعله هاديا مهديا ( تاريخ دمشق لابن عساكر : 59/ 106)
ہم امید کرتے ہیں کہ مجھول معترض دوبارہ ایسی خیانت کبھی نہیں کریں گے۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حق پرستی کا انکار:
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا :
ما رأيت أحدا بعد عثمان أقضی بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية ۔
" میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔" (تاريخ دمشق لابن عساكر :59/ 161)
مجھول معترض لکھتے ہیں :
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے، اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے۔"
عرض ہے کہ شیخ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ جنوری 2010 میں شائع ہونے والے ماہنامہ السنۃ، شمارہ : 15، ص : 31، 32، 33 میں بڑی وضاحت سے بتا چکے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت ہی نہیں، اس کے برعکس بکر بن سہل جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
معترض صاحب سے درخواست ہے کہ انہیں دوسروں پر کم علمی کے جھوٹے الزامات لگانے کا شوق ہے تو وہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت کریں۔
شائقین اس لنک پر ماہنامہ السنہ کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ کر سکتے ہیں:
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/monthly-assunnah-jhelum-volume-15/
ꙮ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنگ جمل پر افسوس!
مرزا جہلمی صاحب کا دعوی ہے کہ ان کا دل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس لیے صاف ہے کہ وہ جنگ جمل پر افسوس کیا کرتی تھیں، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی رائے پر قائم رہے، اس لیے ان کے بارے میں دل مکمل صاف نہیں ہو سکتا۔
اپنی دلیل کے طور پر انہوں نے یہ روایت پیش کی؛
حدثنا أبو أسامة، قال: حدثنا إسماعيل عن قيس قال: قالت عائشة لما حضرتها الوفاة : ادفنوني مع أزواج النبي عليه السلام فإني كنت أحدثت بعده حدثا(مصنف ابن ابی شیبة، ح : 37772)
شیخ محترم نے فرمایا کہ اس کی سند میں اسماعیل بن ابی خالد مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں کی۔
مرزا صاحب کے نزدیک بھی مدلس کی عدم سماع والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا :
"اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں۔
عرض ہے کہ بخاری ومسلم میں مدلس کا عنعنہ سماع ومتابعات پر محمول ہوتا ہے جس کا محمد علی مرزا صاحب کو بھی اعتراف ہے، لیکن بخاری ومسلم کے علاوہ مدلس کی روایت اس وقت تک درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک سماع کی صراحت نہ ملے۔ اس بات کا بھی مرزا صاحب انکار نہیں کر سکتے، اگر یقین نہ آئے تو ان کا ویڈیو بیان بنام" ضعیف الاسناد احادیث کا فتنہ" سن لیں۔ بلکہ انہوں نے مدلس کی عدم سماع والی روایت کے رد پر محدثین کے اجماع کی بات کر رکھی ہے دیکھیں مرزا صاحب کا بیان ( شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حق گو عالم دین)۔۔۔
اگر مجھول معترض صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی عدم سماع والی روایات کی حجیت کے قائل ہیں تو انہیں چاہیے کہ جن کا وہ دفاع کر رہے ہیں ان (مرزا جہلمی صاحب)سے سوال کریں کہ آپ نے سفیان ثوری(امام المدلسین بقول مرزا صاحب) حسن بصری اور سفیان بن عیینہ رحمھم اللہ جن کو حافظ ابن حجر نے دوسرے طبقے میں رکھا ہے، کی روایات کو کیوں رد کیا ہے؟
اگر مرزا صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی روایات کو مردود کہتے ہیں تو ان کے وکیل صفائی صاحب کسی اور کا رد کرنے سے پہلے اپنے موکل سے معاملات طے کریں۔
ꙮ مجہول معترض صاحب کا جھوٹ اور مغالطہ بازی :
مجھول معترض اسماعیل بن ابی خالد کے بارے لکھتے ہیں:
"شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے"
تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بھی اسے دوسرے طبقے کا مدلس سمجھتے تھے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے جو نِری مغالطہ بازی پر مبنی ہے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے جب اس کا طبقہ ثانیہ سے ہونا نقل کیا تو ان کا رد کرتے ہوئے حاشیے میں اسماعیل بن ابی خالد کو تیسرے طبقے کا مدلس لکھا ہے۔ دیکھیے (الفتح المبین، ص : 52)
اس کے باوجود کہنا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسے دوسرے طبقے کا مدلس نقل کیا ہے، جھوٹ بولنے کے لیے مغالطہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تلبیہ سے روکنے کا الزام!
امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي قال : حدثنا خالد بن مخلد قال : حدثنا علي بن صالح عن ميسرة بن حبيب عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال : كنت مع ابن عباس بعرفات فقال : «ما لي لا أسمع الناس يلبون؟» قلت : يخافون من معاوية فخرج ابن عباس من فسطاطه فقال : «لبيك اللهم لبيك، لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي۔ (سنن النسائی : 3006)
شیخ محترم نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تلبیہ سے روکنے والی یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ خالد بن مخلد قطوانی اگرچہ حسن الحدیث ہیں، لیکن ان پر امام مفضل غلابی نے جرح مفسر کی تھی کہ ان کی مدنی اساتذہ کے علاوہ دیگر اساتذہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب : 2/775)
لیکن مجھول معترض صاحب نے خلط مبحث سے کام لے کر اس راوی کی توثیق کے اقوال نقل کرنے شروع کر دیے حالانکہ اقوال توثیق تو تب پیش کیے جائیں جب خالد کو مطلق طور پر ضعیف کہا گیا ہو۔ خالد کے صدوق ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ یہاں بات جرح مفسر کی ہے جو تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔
مرزا صاحب کے نزدیک ''حق گو عالم دین'' شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دس نے کہا "الف" ثقہ ہے۔ ایک نے کہا "الف " "ب" میں ضعیف ہے۔نتیجہ : "الف" ثقہ ہے اور "ب" میں ضعیف ہے۔
لہٰذا محدثین سے خالد بن مخلد کی توثیقات نقل کرنا چنداں مفید نہیں، بلکہ صرف خلط ِ مبحث ہے۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"دوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مسھر سے روایت کیا ہے۔"
عرض ہے کہ اس روایت میں خالد کا شیخ علی بن صالح ہے علی بن مسھر نہیں مستدرک حاکم کے مطبوعہ نسخے میں علی بن مسھر کا ذکر کاتب کی خطا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم سے خالد کا شیخ علی بن صالح ہی ذکر کیا ہے۔ دیکھیں : (اتحاف المھرۃ لابن حجر : 7/81) لہذا سندیں دو نہیں ایک ہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہاں علی بن مسہر ہی مان لیا جائے تو بھی یہ سند صحیح نہیں ہو گی، کیونکہ علی بن مسہر بھی مدنی نہیں، بلکہ کوفی ہے۔ خالد بن مخلد کی صرف مدنی اساتذہ سے روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"امام بخاری نے اس کی علی بن مسھر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے"۔
عرض ہے کہ صحیح بخاری کا معاملہ اور ہے، اس میں مختلطین کی بعد از اختلاط اور تیسرے طبقے کی مدلسین کی بھی روایات ہیں لیکن پوری امت کی طرح مرزا صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقاء کر کے ان روایات کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
بعض لوگ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں روایت کی سند بخاری و مسلم کی سند ہے لہذا صحیح ہے حالانکہ"رجالہ رجال الصحیح" یا "رجالہ ثقات" سے سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا کیوں کہ تدلیس، اختلاط، انقطاع، شذوذ، نکارت، کسی ثقہ راوی کا کسی خاص استاذ میں ضعیف (جیسا کہ خالد بن مخلد کا معاملہ ہے) ہونے کا بھی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ الغرض صحیح بخاری میں خالد بن مخلد کی علی بن مسھر کوفی سے روایت کا امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقا کر لیا تھا لہذا مجھول معترض صاحب کا مستدرک حاکم کی روایت کو صحیحین پر قیاس کرنا ان کی جہالت ہے۔
ꙮ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاویہ کو قصور وار ٹھہرانا:
مرزا جہلمی صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں:
حدثنا عمر بن أيوب الموصلي عن جعفر بن برقان عن يزيد بن الأصم قال: سأل علي عن قتلى يوم صفين فقال: قتلانا وقتلاهم في الجنة ويصير الأمر إلي وإلى معاوية (مصنف ابن أبي شيبة، ح : 37880)
اس کے جواب میں شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
حافظ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم تصح روايته عن علي، وقد أدركه، وكان بالكوفة في خلافته ۔
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت صحیح نہیں ہے"۔ (سير أعلام النبلاء ط الرسالة :4/ 517)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ایک روایت میں علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يزيد بن الأصم لم يدرك عليا ۔
"یزید بن الاصم کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔ (البداية والنهاية ط هجر:2/ 259، قصص الانبیاء : 2/230)
ان تصریحات کے بعد اس روایت کو صحیح کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
یہ روایت منقطع ہے اور منقطع روایت مرزا صاحب کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا : " علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہے"۔
عرض ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إلا أن يكون هناك دلالة بينة أن هذا الراوي لم يلق من روى عنه، أو لم يسمع منه شيئا ۔
" مگر جب واضح دلالت ہو کہ یہ راوی مروی عنہ سے نہیں ملا یا اس سے کچھ بھی نہیں سنا (تو صرف امکان لقاء وسماع سے بات نہیں بنے گی) (صحيح مسلم :1/ 29)
لھذا یزید بن الاصم کے حوالے سے امکان والی بات کو دلیل بنانا خود امام مسلم رحمہ اللہ کے قاعدے کی رو سے ہی مردود ہے۔
خود مجھول معترض بھی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں:
" جمہور کے نزدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جب کہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا کہ یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ما سوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو۔"
لیکن زیر بحث روایت میں ائمہ دین کی طرف سے انقطاع کی صراحت کے باوجود بھی معاصرت کو دلیل بنائے ہوئے ہیں؟!
ꙮ مجہول معترض کی نری جہالت:
معترض مجھول نے لکھا:
" مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے"
عرض ہے کہ یہ مجہول معترض صاحب کی جہالتِ بینہ ہے، کیونکہ مکتبہ شاملہ میں کمپوزنگ کی غلطی سے "سال علی" لکھا گیا، جس سے معترض صاحب نے یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کر دیا۔ اگر انہیں اللہ تعالیٰ اصل کتاب کھول کر دیکھنے کی توفیق دیتا تو وہاں درست عبارت "سئل علی" مل جاتی، مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ دیگر کتب میں بھی "سئل علی" ہی لکھا ہوا ہے۔ لھذا مکتبہ شاملہ سافٹ وئیر میں کمپوزنگ کی غلطی کو دلیل بنا کر "مکھی پر مکھی مارنے" کے مصداق بن کر سماع ثابت کرنا نری جہالت ہے۔
مجھول معترض نے مذکورہ روایت کا درج ذیل شاھد پیش کیا ہے:
وأخبرنا أبو البركات الحسن بن محمد بن الحسن بن هبة الله إذنا، وقرأت عليه إسناده قال : أخبرنا عمي الحافظ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله قال : أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال : حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال : حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية (بغية الطلب فى تاريخ حلب :1/ 296)
عرض ہے کہ اس سند میں ابو مالک الاشجعی کے سالم بن عبید الاشجعی رضی اللہ عنہ سے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔لہٰذا اس شاہد کا کوئی فائدہ نہیں۔
بقیہ بن ولید کی تدلیسِ تسویہ :
مرزا جہلمی صاحب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف سنن ابی داود سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو مصیبت اور آگ کا انگارہ کہا تو انہوں نے کہنے والے کو روکا ٹوکا نہیں۔
شیخ محترم نے بتایا کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ بقیہ بن ولید مدلس ہے اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس کے خلاف مجہول معترض صاحب نے مسند احمد کی درج ذیل روایت کو دلیل بنانے کی کوشش کی:
حدثنا حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال : وفد المقدام بن معدي كرب وعمرو بن الأسود إلى معاوية فقال معاوية للمقدام : أعلمت أن الحسن بن علي توفي؟ فرجع المقدام فقال له معاوية : أتراها مصيبة؟ فقال : ولم لا أراها مصيبة وقد وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجره وقال : هذا مني وحسين من علي (مسند احمد : 17189)
حالانکہ یہ روایت بھی ضعیف ہی ہے کیوں کہ بقیہ بن الولید کی تدلیس "تدلیس تسویہ" ہے۔ تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کے لیے صرف اپنے استاذ سے ہی نہیں، بلکہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرنا ضروری ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک روایت کے بارے فرماتے ہیں :
هذا حديث منكر وبقية من المدلسين يحدث عن الضعفاء ويحذف ذكرهم في أوقات ۔
"یہ منکر حدیث ہے، بقیہ مدلسین میں سے ہے، بسا اوقات ضعیف راویوں سے روایت کر کے سند کے مختلف مقامات میں انہیں حذف کر دیتے تھے۔" (الجامع لعلوم الإمام أحمد - علل الحديث :15/ 227)
لہذا اگرچہ مسند احمد : 16817 میں بقیہ کے بعد لفظ "حدثنی" بھی موجود ہے، اس کے باوجود روایت منکر ہے کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔
بقیہ بن الولید سند میں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو حذف کر دیتے تھے تا کہ سند صحیح معلوم ہو۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ بقیہ کی تدلیس تسویہ کی دلیل دینے کے بعد فرماتے ہیں:
وكان بقية من أفعل الناس لهذا ۔
"بقیہ یہ کام (تدلیس تسویہ) سب سے زیادہ کرنے والے تھے(علل الحديث لابن أبي حاتم :1/ 115، الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي، ص : 364)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بقیہ کے تدلیس تسویہ کی مثال دی ہے کہ یہ ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دیتے تھے۔ (المجروحین : 1/200، 201)
ابن القطان فاسی رحمہ اللہ "بقیہ قال نا ابن جریج" سند کے بارے فرماتے ہیں:
فما بقي فيه إلا التسوية ۔
"اس میں صرف تدلیس تسویہ (کی علت) باقی ہے۔ (التلخيص الحبير ط قرطبة :3/ 309)
حافظ ابن الملقن فرماتے ہیں:
قلت: قد صرح بقية بالتحديث فقال: نا شعبة. لكن لا ينفعه ذلك فإنه معروف بتدليس التسوية ۔
"میں کہتا ہوں کہ بقیہ نے"نا شعبہ" کہہ کر سماع کی صراحت کی ہے لیکن یہ بات ان کو فائدہ نہیں دے گی کیوں وہ تدلیس تسویہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ (البدر المنير :5/ 102)
حافظ بوصیری لکھتے ہیں:
وبقية هو ابن الوليد يدلس بتدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔" (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه :1/ 136)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "بقية حدثني يونس بن يزيد عن الزهري" سند کے بارے فرماتے ہیں:
ففيه تدليسه التسوية لأنه عنعن لشيخه ۔
"اس میں بقیہ کی تدلیس تسویہ ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے شیخ سے آگے عن سے روایت بیان کی ہے۔ (التلخيص الحبير ط العلمية :2/ 107)
مزید لکھتے ہیں :
وبقية صدوق لكنه يدلس ويسوي وقد عنعنه عن شيخه وعن شيخ شيخه ۔
"بقیہ صدوق ہیں، لیکن تدلیس تسویہ کرتے ہیں اور انہوں نے یہ روایت اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے معنعن بیان کی ہے۔ (موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر :1/ 276)
مزید "بقية بن الوليد ثنا مسلم بن زياد قال : سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه" سند کے بارے لکھتے ہیں :
وإنما عابوا عليه التدليس والتسوية وقد صرح بتحديث شيخه له وبسماع شيخه فانتفت الريبة ۔
"محدثین نے بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام لگایا ہے (لیکن اس سند میں) انہوں نے اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے سماع کی صراحت کر رکھی، لھذا تدلیس کا شک رفع ہوا۔" (نتائج الأفكار لابن حجر :2/ 376)
اس سے معلوم ہوا کہ بقیہ کی تدلیس کا شبہ تب ہی رفع ہو گا، جب وہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرے، ورنہ نہیں۔
نیز ایک سند " بقية بن الوليد ثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان" کے بارے لکھتے ہیں:
وقد أمن تدليسه لتصريحه في هذا بالتحديث، لكن ينظر في حديث بحير عن خالد لأن بقية كان يسوي ۔
"بقیہ نے اس سند میں سماع کی صراحت کرکے اپنی تدلیس سے بے خوف کردیا ہے، لیکن "بحیرعن خالد" میں غور کیا جائے گا، کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ (إتحاف المهرة لابن حجر :13/ 233)
معترض مجہول کی ذکر کردہ روایت بھی بقیہ کی بحیرعن خالد روایت کردہ ہی ہے، لہذا اسے صحیح قرار دینا معترض صاحب کی اپنی کم علمی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ ابو اسحاق حوینی کے نزدیک بھی تدلیس تسویہ کا مرتکب ہے اور جب تک پوری سند میں سماع کی صراحت نہ کردے اس کی روایت قبول نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
بقية بن الوليد كان يدلس تدليس التسوية وهو ما يسمى عند القدماء بتدليس التجويد فنحتاج أن يصرح في كل طبقات السند وكنت أعتقد قديمًا أنه يدلسُ تدليس الإسناد كالأعمش وابن جريج وغيرهما. وقال لي شيخنا أبوعبد الرحمن الألباني رحمه الله : إنه يقع لي أن تدليس بقية هو من التدليس المعتاد. ولكن ثبت أن بقيَّة كان يدلس تدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتا ہے اور قدماء اس کو تدلیس تجوید کہتے ہیں۔ ہم محتاج ہوتے ہیں کہ یہ سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت کرئے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ بقیہ بن ولید اعمش، اور ابن جریج وغیرھما کی طرح تدلیس الاسناد کرتا ہے ہمارے شیخ ابو عبدالرحمن البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میرے مطابق بقیہ عام مدلس ہے(ان کے یہ بات صحیح نہیں) لیکن (بعد میں دلائل سے) ثابت ہوا کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتا تھا۔ (نثل النبال بمعجم الرجال :1/ 302)
اور شیخ حوینی نے بقیہ کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے کئی روایات کو ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
شیخ شعیب ارنئووط اور ان کے رفقاء نے بھی (مسند احمد : 17189) کی تحقیق میں زیر بحث روایت کی سند کو بقیہ بن ولید کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ اصول حدیث کی کتب میں تدلیس تسویہ کی مثال میں بقیہ بن ولید کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ زیر بحث روایت میں بقیہ سے روایت کرنے والے حیوۃ بن شریح حمصی ہیں اور امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ ایک روایت جو "ابو تقی قال حدثنی بقية قال : حدثني عبد العزيز بن أبي رواد عن نافع عن ابن عمر" کی سند سے مروی ہے، اس کے بارے فرماتے ہیں:
لم يسمع بقية هذا الحديث من عبد العزيز إنما هو عن أهل حمص وأهل حمص لا يميزون هذا ۔
"بقیہ نے یہ حدیث عبدالعزیز سے نہیں سنی یہ روایت اہل حمص سے ہے اور وہ اس میں تمییز نہیں کرتے تھے(عدم سماع کو صیغہ سماع سے ذکر کردیتے تھے)۔ (علل الحديث لابن أبي حاتم :6/ 271)
لہذا حیوہ بن شریح نے اگرچہ بقیہ کی تحدیث ذکر کی ہے، لیکن محدثین محققین کے نزدیک یہ حمص والوں سے قابل قبول نہیں۔
ꙮ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک منقطع روایت:
مرزا جہلمی صاحب نے درج ذیل روایت پیش کی:
حدثنا أبو خيثمة حدثنا عبيد الله بن موسى حدثنا عيسى بن عبد الرحمن البجلي عن السدي عن أبي عبد الله الجدلي قال: قالت أم سلمة: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنابر؟ قلت: وأنى ذلك؟ قالت: أليس يسب علي ومن يحبه فأشهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحبه (مسند أبي يعلى الموصلی : 7013)
شیخ محترم نے بتایا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ اس پر مجہول معترض صاحب نے اعتراض کیا کہ سوائے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے قول کے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔
تو عرض ہے کہ اس روایت پر شیخ محترم نے اپنی کوئی رائے پیش ہی نہیں کی، تو ان سے دلیل کا مطالبہ فضول ہے، چونکہ مرزا صاحب اپنے نزدیک ضعیف روایات میں بھی شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح کو اپنی دلیل بنالیتے ہیں، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں روایت تو تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے،آپ کے بقول بھی ضعیف ہی بنتی ہے، اس کے باوجود آپ نے اپنے پمفلٹ میں کیوں ذکر کی، تو وہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اسے صحیح کہا ہے، لہذا میں نے "علم "جمع کرنے کے لیے اسے صحیح روایات والے پمفلٹ میں لکھ دیا ہے، کسی محدث کے نزدیک صحیح جو ہوئی۔۔۔!
یہ مرزا جہلمی صاحب کو انہی کے بقول پھکی دی گئی ہے کہ ان کے طرز عمل کے مطابق یہ روایت ضعیف مانی جانی چاہیے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کسی روایت کو منقطع اور ضعیف کہنا بھی علم ہی ہے نا۔۔۔
اس روایت کو عرب محقق حسین سلیم اسد صاحب نے بھی ضعیف کہا ہے، جن کے حوالے جابجا مرزا صاحب اپنے پمفلٹ میں دیتے رہتے ہیںَ۔
اب مجہول معترض صاحب کو اِدھر اعتراض کی بجائے مرزا صاحب سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک صرف اپنے موافق حکم ہی "علم "ہوتے ہیں یا ان کے خلاف جانے والے علما کے حکم بھی "علم "سمجھے جا سکتے ہیں؟
ꙮ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک منقطع روایت:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خطبے میں برا بھلا کہنے پر مرزا جہلمی صاحب یہ دلیل پیش کرتے ہیں:
أخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار قالا: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم قال: خطب المغيرة بن شعبة فسب عليا فقال سعيد بن زيد: أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم لسمعته يقول: «اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» وعليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير وسعد، وعبد الرحمن بن عوف، وسعيد بن زيد هلال بن يساف لم يسمعه من عبد الله بن ظالم. (السنن الكبرى للنسائي : 8148)
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے بتایا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد خود اس کا ضعیف ہونا ثابت کردیا ہے کہ ھلال بن یساف نے اس کو عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا۔
اور یہ صرف امام نسائی رحمہ اللہ کا فیصلہ نہیں، دیگر ائمہ بھی یہی کہتے ہیں،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا فیصلہ آیندہ سطور میں ذکر ہو گا۔
ꙮ امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت کا صحیح ترجمہ :
مجہول معترض صاحب امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح مراد سمجھنے سے قاصر رہے، لکھتے ہیں :
"امام علل امام بخاری اس واسطے کا ہی انکار کرتے ہیں اور یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن طالم کے درمیان جو کوئی یہ واسطہ مانتا ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔"
آپ حیران ہوں گے کہ اہل علم ومعرفت نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح نہ ہونے سے مراد اس حدیث کا صحیح نہ ہونا بتایا ہے، نہ کہ واسطے کا صحیح نہ ہونا۔جیسا کہ:
حافظ مغلطائی امام عقیلی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال أبو جعفر العقيلي : كوفي لا يصح حديثه قاله البخاري ۔
"ابو جعفر عقیلی نے کہا : عبداللہ بن ظالم کوفی ہے اس کی حدیث صحیح نہیں اسی بات کے امام بخاری رحمہ اللہ (بھی) قائل ہیں۔" (إكمال تهذيب الكمال :7/ 416)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا الحديث هو الذي أراده البُخارِيّ ۔
"یہی وہ حدیث ہے جس(کی عدم صحت کا) امام بخاری رحمہ اللہ نے ارادہ کیا ہے۔"(الكامل في ضعفاء الرجال :5/ 371)
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس سند میں ایک رجل (مجھول) کا واسطہ ہونا ہی درست ہے، اور ھلال نے اس حدیث کو ابن ظالم سے نہیں سنا، وہ فرماتے ہیں:
والذي عندنا أن الصواب قول من رواه، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أحد الإثبات، وقد بين في روايته عن هلال أنه لم يسمعه من ابن ظالم، وأن بينهما رجلا (علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية :4/ 412)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عبد الله بن ظالم : عن سعيد بن زيد، قال البخاري: لا يصح حديثه ۔
"عبداللہ بن ظالم عن سعید والی حدیث صحیح نہیں۔"(ديوان الضعفاء، ص: 219)
مزید امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
عبد الله بن ظالم [عو] .عن سعيد بن زيد بحديث العشرة في الجنة، قال البخاري: لم يصح. رواه عنه هلال بن يساف ۔ (ميزان الاعتدال :2/ 448)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت: بل قال البخاري: لم يصح حديثه ۔
"میں(ذھبی) کہتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں ۔"(مختصر تلخيص الذهبي :4/ 1979)
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کی جو مراد مجہول معترض صاحب نے بنانے کی کوشش کی ہے، وہ باطل ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تمام محدثین کی تضعیف کے مقابلے میں شیخ البانی اور شیخ احمد شاکر رحمھما اللہ کا اس حدیث کو صحیح کہہ دینا ان کی علمی خطا اور مرجوح قول ہے۔
اس ضعیف روایت کو اپنی بنیاد بنا کر مجہول معترض صاحب لکھتے ہیں :
"ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے اس روایت میں صاف الفاظ ہیں" يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے۔"
ایک بات تو یہ کہ ایسی ناقابل قبول روایات سے کچھ ثابت کرنے کی کوشش سے دلائل کی دنیا میں ان لوگوں کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
دوسری بات کہ شیخ محترم نے لفظ ِ "سب" کے مختلف معانی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کیے تھے، نہ کہ کسی اور کے بارے میں۔جب کہ مذکورہ روایت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر "سب"کرانےکا جھوٹ مرزا جہلمی صاحب نے بولا اور اب ان کے مجہول وکیل ِ صفائی صاحب بھی اسی پر لیپا پوتی کر رہے ہیں۔اس روایت میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہے، جو مرزا جہلمی صاحب کے نزدیک بھی اللہ کی ہمیشہ کی رضامندی کے مستحق ہیں۔
ꙮ عربی ز بان سے جہالت :
مجہول معترض صاحب عربی زبان سے بالکل ناواقف ہیں، ان کی عربی دانی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کا ترجمہ بالکل ہی غلط کر دیا۔لکھتے ہیں :
''هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ (سنن الکبری للنسائی رقم8135)
ترجمہ:ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا۔"
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہلال بن یساف نے یہ روایت عبد اللہ بن ظالم سے نہیں سنی۔
امام نسائی رحمہ اللہ ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم سے سماع کو ثابت کر رہے ہیں، صرف اس خاص روایت کے نہ سننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مجہول معترض صاحب امام نسائی رحمہ اللہ پر یہ اتہام باندھ رہے ہیں کہ انہوں نے ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم کے سماع کا مطلقا انکار کیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگر ان صاحب نے دوبارہ بات چلائی تو ہم بتائیں گے کہ جہالت کی بنا پر اسی ایک غلط ترجمے کی وجہ سے انہوں نے مزید کون کون سی بونگیاں ماری ہیں۔
ایسے جاہل لوگوں کا اہل علم پر اعتراضات کرنا صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی نہ پورے ہونے والی خواہش ہے۔

پی ڈی ایف لنک یہ ہے :
https://goo.gl/YXmti4
 

Rahil

رکن
شمولیت
جنوری 26، 2018
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
تحریر
جزاک اللہ وخیرا
شیخ محترم
یہ پوسٹ کئ دینو سے فیسبک اور واٹس آپ پے گھوم رہی تھی اور ہم نے انکا رد بھی کر دیا تھا
لکین یہ یہاں پے بھی آگئ
دراصل جس نے یہ پوسٹ بنایا ہیے وہ اس پوسٹ کی طرح مجھول ہیے

ماشا اللہ آپ نے بہت بہترین جواب دیا
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
سورج کو چراغ دکھانے کی ناکام کوشش!
تحریر : حافظ محمد بلال، اصلاح میڈیا

محدث فورم پر ایک گمنام شخص نے "دفاع حدیث" کا جھوٹا لیبل لگا کر ایک دشمن صحابہ، نیم رافضی، فرقہ واریت کے علمبردار اور دوغلی پالیسی والے محمد علی مرزا جھلمی کا دفاع کرنے اور اپنی جہالتیں استاذ محترم شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ کے ذمے لگانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس گمنام معترض کا کوئی تعارف نہیں کہ یہ کون ہے اور اس کا منھج ومسلک کیا ہے؟
موصوف اسی فورم پر اپنے غیر اہل حدیث ہونے کا تو اقرار کر ہی چکے ہیں، کم از کم ان کا نیم رافضی ہونا تو ان کی تحریر سے بھی عیاں ہے۔
مجھول معترض سے گزارش ہے کہ کھل کر اپنا مسلک بیان کردیں۔ چوری چھپے الزام تراشی کرنا کوئی علمی انداز نہیں۔ ایسا کام وہی کرتا ہے جس کو اپنی چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو یا جس کی اپنی دال کالی ہو۔
اگرچہ ایسے مجھول شخص کی جہالتوں کی طرف التفات ہی نہیں کرنا چاہیے، لیکن چونکہ ایک اوپن فورم پر یہ جہالتیں آویزاں ہیں، اس لیے خطرہ تھا کہ بعض کم علم لوگ ان جہالتوں کی وجہ سے پریشان نہ ہو جائیں۔
تو چلیے ان اعتراضات کا جائزہ لینا شروع کرتے ہیں؛
ꙮ شہدائے کربلا کی تعداد 72؟
استاذ محترم حافظ ابو یحییٰ نورپوری حفظہ اللہ کی طرف سے مرزا محمد علی انجینیئر صاحب کو بار بار یہ یاد دلایا گیا کہ وہ اپنے پمفلٹ کے سرورق پر شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہونے کے دعوے دار ہیں اور اسی سرورق پر صحیح الاسناد روایات کو لینے اور ضعیف الاسناد روایات کو ترک کرنے پر زور بھی دیتے ہیں، لیکن وہ 72 کی تعداد بھی کسی صحیح حدیث سے ثابت کرنے سے قاصر ہیں، یہ دوغلی پالیسی کیوں؟
مجھول معترض نے مرزا صاحب کے دفاع میں شہداء کربلا کے حوالے سے لکھا:
"ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے 72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں"۔
معترض صاحب نے مقتل الحسین بن علی نامی کتاب سے سکین پیش کیا۔
اولا : مقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنھما نامی ایک کتاب ابو مخنف رافضی کذاب کی ہے، اگر یہ کوئی اور کتاب ہے تو معترض صاحب قارئین کو اس کا تعارف کروا دیں۔
ثانیا : اس کی کوئی صحیح سند پیش فرما دیں۔ اگر کوئی سند پیش کی گئی تو تفصیلات پھر عرض کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ
ثالثا : پیش کردہ روایت میں الفاظ ہیں : " لقریب من مئۃ رجل" یعنی سو کے قریب افراد تھے، اس سے "72 تو نہیں مگر تقریبا 72 ضرور ہیں" اخذ کرنا کس اصول کے تحت ہے؟
رابعا : "لقریب من مئۃ رجل" (تقریبا 100) کے الفاظ 72 شہدائے کربلا کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ روایت تقریبا 100 کہتی ہے، مرزا صاحب اور معترض صاحب کا دعوی تقریبا 72 کا کیوں ہے؟
ꙮ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ اور فضائل معاویہ:
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے کوئی فضیلت ثابت نہیں، استاذ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت نہیں۔ مجہول معترض صاحب نے یہ جھوٹا گمان کر لیا کہ شاید اس حوالے سے جو سند تاریخ دمشق لابن عساکر میں ہے، وہ ان کے علم میں نہیں، حالانکہ کئی سال پہلے شیخ محترم اس بات کی تصریح کر چکے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ کی ذکر کردہ سند مع متن یہ ہے:
كتب إلي أبو نصر بن القشيري أنا أبو بكر البيهقي أنا أبو عبد الله الحافظ قال سمعت أبا العباس الأصم يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في فضل معاوية بن أبي سفيان شئ ۔
مجھول معترض نے امام اسحاق رحمہ اللہ سے منسوب اس قول کے بارے لکھا :
"مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے"۔
عرض ہے کہ اس کی سند میں ابو العباس الاصم کے والد یعقوب بن یوسف کی توثیق ثابت نہیں تو سند کیسے صحیح ہو گئی ہے؟
مجھول معترض نے دُور کی ایک کتاب (اللآلى المصنوعة في الأحاديث الموضوعة : 1/388) سے اس قول کی سند (قال) الحاكم سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب بن يوسف يقول سمعت أبي يقول سمعت إسحاق بن إبراهيم الحنظلي يقول: لا يصح في فضل معاوية حديث) پیش کرکہا :
"ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا"۔
حالانکہ شیخ حافظ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ نے (السنۃ شمارہ نمبر49 تا54، ص : 144، نومبر 2012 تا اپریل 2013ء) میں اس قول کے دو حوالے دیے ہیں ایک تاریخ دمشق لابن عساکر اور دوسرا سیراعلام النبلاء للذھبی سے جس سے بالکل واضح ہے کہ وہ اس کی سند سے واقف تھے۔ پھر مجھول معترض نے 2018میں کون سی نئی سند دریافت کر لی ہے جو شیخ محترم حفظہ اللہ کے علم میں نہیں تھی؟
جو سند علامہ سیوطی نے پیش کی ہے ان سے صدیوں پہلے حافظ ابن عساکر اور حافظ ذہبی نے اپنی کتب میں پیش کر رکھی ہے اور اس پر شیخ محترم ضعیف کا حکم بھی لگا چکے ہیں۔
ꙮ نیم روافض کی خیانت:
مرزا محمد علی انجینیئر اور گمنام معترض صاحبان نے خیانت کرتے ہوئے اس غیر ثابت قول کے بعد حافظ ابن عساکر کے کیے گئے تبصرے کو ہڑپ کر لیا۔ اس غیر ثابت قول کے بعد سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کے فضلیت میں تین صحیح ترین روایت پیش کر کے امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کی نفی قطعا درست نہیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل ثابت ہیں۔
امام ابن عساکر رحمہ اللہ مذکورہ غیر ثابت کے متصل بعد فرماتے ہیں:
وأصح ما روي في فضل معاوية حديث أبي حمزة عن ابن عباس أنه كاتب النبي صلى الله عليه وسلم فقد أخرجه مسلم في صحيحه وبعده حديث العرباض اللهم علمه الكتاب وبعده حديث ابن أبي عميرة اللهم اجعله هاديا مهديا ( تاريخ دمشق لابن عساكر : 59/ 106)
ہم امید کرتے ہیں کہ مجھول معترض دوبارہ ایسی خیانت کبھی نہیں کریں گے۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حق پرستی کا انکار:
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا :
ما رأيت أحدا بعد عثمان أقضی بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية ۔
" میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔" (تاريخ دمشق لابن عساكر :59/ 161)
مجھول معترض لکھتے ہیں :
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے، اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے۔"
عرض ہے کہ شیخ ابو یحیی نورپوری حفظہ اللہ جنوری 2010 میں شائع ہونے والے ماہنامہ السنۃ، شمارہ : 15، ص : 31، 32، 33 میں بڑی وضاحت سے بتا چکے ہیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت ہی نہیں، اس کے برعکس بکر بن سہل جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
معترض صاحب سے درخواست ہے کہ انہیں دوسروں پر کم علمی کے جھوٹے الزامات لگانے کا شوق ہے تو وہ امام نسائی رحمہ اللہ سے یہ جرح ثابت کریں۔
شائقین اس لنک پر ماہنامہ السنہ کا متعلقہ شمارہ ملاحظہ کر سکتے ہیں:
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/monthly-assunnah-jhelum-volume-15/
ꙮ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنگ جمل پر افسوس!
مرزا جہلمی صاحب کا دعوی ہے کہ ان کا دل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس لیے صاف ہے کہ وہ جنگ جمل پر افسوس کیا کرتی تھیں، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی رائے پر قائم رہے، اس لیے ان کے بارے میں دل مکمل صاف نہیں ہو سکتا۔
اپنی دلیل کے طور پر انہوں نے یہ روایت پیش کی؛
حدثنا أبو أسامة، قال: حدثنا إسماعيل عن قيس قال: قالت عائشة لما حضرتها الوفاة : ادفنوني مع أزواج النبي عليه السلام فإني كنت أحدثت بعده حدثا(مصنف ابن ابی شیبة، ح : 37772)
شیخ محترم نے فرمایا کہ اس کی سند میں اسماعیل بن ابی خالد مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں کی۔
مرزا صاحب کے نزدیک بھی مدلس کی عدم سماع والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا :
"اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں۔
عرض ہے کہ بخاری ومسلم میں مدلس کا عنعنہ سماع ومتابعات پر محمول ہوتا ہے جس کا محمد علی مرزا صاحب کو بھی اعتراف ہے، لیکن بخاری ومسلم کے علاوہ مدلس کی روایت اس وقت تک درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتی جب تک سماع کی صراحت نہ ملے۔ اس بات کا بھی مرزا صاحب انکار نہیں کر سکتے، اگر یقین نہ آئے تو ان کا ویڈیو بیان بنام" ضعیف الاسناد احادیث کا فتنہ" سن لیں۔ بلکہ انہوں نے مدلس کی عدم سماع والی روایت کے رد پر محدثین کے اجماع کی بات کر رکھی ہے دیکھیں مرزا صاحب کا بیان ( شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک حق گو عالم دین)۔۔۔
اگر مجھول معترض صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی عدم سماع والی روایات کی حجیت کے قائل ہیں تو انہیں چاہیے کہ جن کا وہ دفاع کر رہے ہیں ان (مرزا جہلمی صاحب)سے سوال کریں کہ آپ نے سفیان ثوری(امام المدلسین بقول مرزا صاحب) حسن بصری اور سفیان بن عیینہ رحمھم اللہ جن کو حافظ ابن حجر نے دوسرے طبقے میں رکھا ہے، کی روایات کو کیوں رد کیا ہے؟
اگر مرزا صاحب طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی روایات کو مردود کہتے ہیں تو ان کے وکیل صفائی صاحب کسی اور کا رد کرنے سے پہلے اپنے موکل سے معاملات طے کریں۔
ꙮ مجہول معترض صاحب کا جھوٹ اور مغالطہ بازی :
مجھول معترض اسماعیل بن ابی خالد کے بارے لکھتے ہیں:
"شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے"
تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بھی اسے دوسرے طبقے کا مدلس سمجھتے تھے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے جو نِری مغالطہ بازی پر مبنی ہے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے جب اس کا طبقہ ثانیہ سے ہونا نقل کیا تو ان کا رد کرتے ہوئے حاشیے میں اسماعیل بن ابی خالد کو تیسرے طبقے کا مدلس لکھا ہے۔ دیکھیے (الفتح المبین، ص : 52)
اس کے باوجود کہنا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اسے دوسرے طبقے کا مدلس نقل کیا ہے، جھوٹ بولنے کے لیے مغالطہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔
ꙮ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تلبیہ سے روکنے کا الزام!
امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي قال : حدثنا خالد بن مخلد قال : حدثنا علي بن صالح عن ميسرة بن حبيب عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير قال : كنت مع ابن عباس بعرفات فقال : «ما لي لا أسمع الناس يلبون؟» قلت : يخافون من معاوية فخرج ابن عباس من فسطاطه فقال : «لبيك اللهم لبيك، لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض علي۔ (سنن النسائی : 3006)
شیخ محترم نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تلبیہ سے روکنے والی یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ خالد بن مخلد قطوانی اگرچہ حسن الحدیث ہیں، لیکن ان پر امام مفضل غلابی نے جرح مفسر کی تھی کہ ان کی مدنی اساتذہ کے علاوہ دیگر اساتذہ سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب : 2/775)
لیکن مجھول معترض صاحب نے خلط مبحث سے کام لے کر اس راوی کی توثیق کے اقوال نقل کرنے شروع کر دیے حالانکہ اقوال توثیق تو تب پیش کیے جائیں جب خالد کو مطلق طور پر ضعیف کہا گیا ہو۔ خالد کے صدوق ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔ یہاں بات جرح مفسر کی ہے جو تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔
مرزا صاحب کے نزدیک ''حق گو عالم دین'' شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دس نے کہا "الف" ثقہ ہے۔ ایک نے کہا "الف " "ب" میں ضعیف ہے۔نتیجہ : "الف" ثقہ ہے اور "ب" میں ضعیف ہے۔
لہٰذا محدثین سے خالد بن مخلد کی توثیقات نقل کرنا چنداں مفید نہیں، بلکہ صرف خلط ِ مبحث ہے۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"دوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مسھر سے روایت کیا ہے۔"
عرض ہے کہ اس روایت میں خالد کا شیخ علی بن صالح ہے علی بن مسھر نہیں مستدرک حاکم کے مطبوعہ نسخے میں علی بن مسھر کا ذکر کاتب کی خطا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم سے خالد کا شیخ علی بن صالح ہی ذکر کیا ہے۔ دیکھیں : (اتحاف المھرۃ لابن حجر : 7/81) لہذا سندیں دو نہیں ایک ہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہاں علی بن مسہر ہی مان لیا جائے تو بھی یہ سند صحیح نہیں ہو گی، کیونکہ علی بن مسہر بھی مدنی نہیں، بلکہ شامی ہے۔ خالد بن مخلد کی صرف مدنی اساتذہ سے روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔
مجھول معترض نے لکھا ہے:
"امام بخاری نے اس کی علی بن مسھر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے"۔
عرض ہے کہ صحیح بخاری کا معاملہ اور ہے، اس میں مختلطین کی بعد از اختلاط اور تیسرے طبقے کی مدلسین کی بھی روایات ہیں لیکن پوری امت کی طرح مرزا صاحب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقاء کر کے ان روایات کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔
بعض لوگ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں روایت کی سند بخاری و مسلم کی سند ہے لہذا صحیح ہے حالانکہ"رجالہ رجال الصحیح" یا "رجالہ ثقات" سے سند کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا کیوں کہ تدلیس، اختلاط، انقطاع، شذوذ، نکارت، کسی ثقہ راوی کا کسی خاص استاذ میں ضعیف (جیسا کہ خالد بن مخلد کا معاملہ ہے) ہونے کا بھی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ الغرض صحیح بخاری میں خالد بن مخلد کی علی بن مسھر کوفی سے روایت کا امام بخاری رحمہ اللہ نے انتقا کر لیا تھا لہذا مجھول معترض صاحب کا مستدرک حاکم کی روایت کو صحیحین پر قیاس کرنا ان کی جہالت ہے۔
ꙮ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاویہ کو قصور وار ٹھہرانا:
مرزا جہلمی صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں:
حدثنا عمر بن أيوب الموصلي عن جعفر بن برقان عن يزيد بن الأصم قال: سأل علي عن قتلى يوم صفين فقال: قتلانا وقتلاهم في الجنة ويصير الأمر إلي وإلى معاوية (مصنف ابن أبي شيبة، ح : 37880)
اس کے جواب میں شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
حافظ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم تصح روايته عن علي، وقد أدركه، وكان بالكوفة في خلافته ۔
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت صحیح نہیں ہے"۔ (سير أعلام النبلاء ط الرسالة :4/ 517)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ایک روایت میں علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يزيد بن الأصم لم يدرك عليا ۔
"یزید بن الاصم کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔ (البداية والنهاية ط هجر:2/ 259، قصص الانبیاء : 2/230)
ان تصریحات کے بعد اس روایت کو صحیح کہنا جہالت کی نشانی ہے۔
یہ روایت منقطع ہے اور منقطع روایت مرزا صاحب کے نزدیک بھی ضعیف ہی ہوتی ہے۔
مجھول معترض نے لکھا : " علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہے"۔
عرض ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إلا أن يكون هناك دلالة بينة أن هذا الراوي لم يلق من روى عنه، أو لم يسمع منه شيئا ۔
" مگر جب واضح دلالت ہو کہ یہ راوی مروی عنہ سے نہیں ملا یا اس سے کچھ بھی نہیں سنا (تو صرف امکان لقاء وسماع سے بات نہیں بنے گی) (صحيح مسلم :1/ 29)
لھذا یزید بن الاصم کے حوالے سے امکان والی بات کو دلیل بنانا خود امام مسلم رحمہ اللہ کے قاعدے کی رو سے ہی مردود ہے۔
خود مجھول معترض بھی ایک روایت کے تحت لکھتے ہیں:
" جمہور کے نزدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جب کہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا کہ یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ما سوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو۔"
لیکن زیر بحث روایت میں ائمہ دین کی طرف سے انقطاع کی صراحت کے باوجود بھی معاصرت کو دلیل بنائے ہوئے ہیں؟!
ꙮ مجہول معترض کی نری جہالت:
معترض مجھول نے لکھا:
" مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے"
عرض ہے کہ یہ مجہول معترض صاحب کی جہالتِ بینہ ہے، کیونکہ مکتبہ شاملہ میں کمپوزنگ کی غلطی سے "سال علی" لکھا گیا، جس سے معترض صاحب نے یزید بن الاصم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کر دیا۔ اگر انہیں اللہ تعالیٰ اصل کتاب کھول کر دیکھنے کی توفیق دیتا تو وہاں درست عبارت "سئل علی" مل جاتی، مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ دیگر کتب میں بھی "سئل علی" ہی لکھا ہوا ہے۔ لھذا مکتبہ شاملہ سافٹ وئیر میں کمپوزنگ کی غلطی کو دلیل بنا کر "مکھی پر مکھی مارنے" کے مصداق بن کر سماع ثابت کرنا نری جہالت ہے۔
مجھول معترض نے مذکورہ روایت کا درج ذیل شاھد پیش کیا ہے:
وأخبرنا أبو البركات الحسن بن محمد بن الحسن بن هبة الله إذنا، وقرأت عليه إسناده قال : أخبرنا عمي الحافظ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله قال : أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال : حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال : حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية (بغية الطلب فى تاريخ حلب :1/ 296)
عرض ہے کہ اس سند میں ابو مالک الاشجعی کے سالم بن عبید الاشجعی رضی اللہ عنہ سے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔لہٰذا اس شاہد کا کوئی فائدہ نہیں۔
بقیہ بن ولید کی تدلیسِ تسویہ :
مرزا جہلمی صاحب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف سنن ابی داود سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو مصیبت اور آگ کا انگارہ کہا تو انہوں نے کہنے والے کو روکا ٹوکا نہیں۔
شیخ محترم نے بتایا کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ بقیہ بن ولید مدلس ہے اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
اس کے خلاف مجہول معترض صاحب نے مسند احمد کی درج ذیل روایت کو دلیل بنانے کی کوشش کی:
حدثنا حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال : وفد المقدام بن معدي كرب وعمرو بن الأسود إلى معاوية فقال معاوية للمقدام : أعلمت أن الحسن بن علي توفي؟ فرجع المقدام فقال له معاوية : أتراها مصيبة؟ فقال : ولم لا أراها مصيبة وقد وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجره وقال : هذا مني وحسين من علي (مسند احمد : 17189)
حالانکہ یہ روایت بھی ضعیف ہی ہے کیوں کہ بقیہ بن الولید کی تدلیس "تدلیس تسویہ" ہے۔ تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کے لیے صرف اپنے استاذ سے ہی نہیں، بلکہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرنا ضروری ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایک روایت کے بارے فرماتے ہیں :
هذا حديث منكر وبقية من المدلسين يحدث عن الضعفاء ويحذف ذكرهم في أوقات ۔
"یہ منکر حدیث ہے، بقیہ مدلسین میں سے ہے، بسا اوقات ضعیف راویوں سے روایت کر کے سند کے مختلف مقامات میں انہیں حذف کر دیتے تھے۔" (الجامع لعلوم الإمام أحمد - علل الحديث :15/ 227)
لہذا اگرچہ مسند احمد : 16817 میں بقیہ کے بعد لفظ "حدثنی" بھی موجود ہے، اس کے باوجود روایت منکر ہے کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔
بقیہ بن الولید سند میں ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو حذف کر دیتے تھے تا کہ سند صحیح معلوم ہو۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ بقیہ کی تدلیس تسویہ کی دلیل دینے کے بعد فرماتے ہیں:
وكان بقية من أفعل الناس لهذا ۔
"بقیہ یہ کام (تدلیس تسویہ) سب سے زیادہ کرنے والے تھے(علل الحديث لابن أبي حاتم :1/ 115، الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي، ص : 364)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بقیہ کے تدلیس تسویہ کی مثال دی ہے کہ یہ ثقہ راویوں کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دیتے تھے۔ (المجروحین : 1/200، 201)
ابن القطان فاسی رحمہ اللہ "بقیہ قال نا ابن جریج" سند کے بارے فرماتے ہیں:
فما بقي فيه إلا التسوية ۔
"اس میں صرف تدلیس تسویہ (کی علت) باقی ہے۔ (التلخيص الحبير ط قرطبة :3/ 309)
حافظ ابن الملقن فرماتے ہیں:
قلت: قد صرح بقية بالتحديث فقال: نا شعبة. لكن لا ينفعه ذلك فإنه معروف بتدليس التسوية ۔
"میں کہتا ہوں کہ بقیہ نے"نا شعبہ" کہہ کر سماع کی صراحت کی ہے لیکن یہ بات ان کو فائدہ نہیں دے گی کیوں وہ تدلیس تسویہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ (البدر المنير :5/ 102)
حافظ بوصیری لکھتے ہیں:
وبقية هو ابن الوليد يدلس بتدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔" (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه :1/ 136)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "بقية حدثني يونس بن يزيد عن الزهري" سند کے بارے فرماتے ہیں:
ففيه تدليسه التسوية لأنه عنعن لشيخه ۔
"اس میں بقیہ کی تدلیس تسویہ ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے شیخ سے آگے عن سے روایت بیان کی ہے۔ (التلخيص الحبير ط العلمية :2/ 107)
مزید لکھتے ہیں :
وبقية صدوق لكنه يدلس ويسوي وقد عنعنه عن شيخه وعن شيخ شيخه ۔
"بقیہ صدوق ہیں، لیکن تدلیس تسویہ کرتے ہیں اور انہوں نے یہ روایت اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے معنعن بیان کی ہے۔ (موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر :1/ 276)
مزید "بقية بن الوليد ثنا مسلم بن زياد قال : سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه" سند کے بارے لکھتے ہیں :
وإنما عابوا عليه التدليس والتسوية وقد صرح بتحديث شيخه له وبسماع شيخه فانتفت الريبة ۔
"محدثین نے بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام لگایا ہے (لیکن اس سند میں) انہوں نے اپنے شیخ اور شیخ کے شیخ سے سماع کی صراحت کر رکھی، لھذا تدلیس کا شک رفع ہوا۔" (نتائج الأفكار لابن حجر :2/ 376)
اس سے معلوم ہوا کہ بقیہ کی تدلیس کا شبہ تب ہی رفع ہو گا، جب وہ پوری سند میں سماع کی تصریح کرے، ورنہ نہیں۔
نیز ایک سند " بقية بن الوليد ثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان" کے بارے لکھتے ہیں:
وقد أمن تدليسه لتصريحه في هذا بالتحديث، لكن ينظر في حديث بحير عن خالد لأن بقية كان يسوي ۔
"بقیہ نے اس سند میں سماع کی صراحت کرکے اپنی تدلیس سے بے خوف کردیا ہے، لیکن "بحیرعن خالد" میں غور کیا جائے گا، کیوں کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتے تھے۔ (إتحاف المهرة لابن حجر :13/ 233)
معترض مجہول کی ذکر کردہ روایت بھی بقیہ کی بحیرعن خالد روایت کردہ ہی ہے، لہذا اسے صحیح قرار دینا معترض صاحب کی اپنی کم علمی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ ابو اسحاق حوینی کے نزدیک بھی تدلیس تسویہ کا مرتکب ہے اور جب تک پوری سند میں سماع کی صراحت نہ کردے اس کی روایت قبول نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
بقية بن الوليد كان يدلس تدليس التسوية وهو ما يسمى عند القدماء بتدليس التجويد فنحتاج أن يصرح في كل طبقات السند وكنت أعتقد قديمًا أنه يدلسُ تدليس الإسناد كالأعمش وابن جريج وغيرهما. وقال لي شيخنا أبوعبد الرحمن الألباني رحمه الله : إنه يقع لي أن تدليس بقية هو من التدليس المعتاد. ولكن ثبت أن بقيَّة كان يدلس تدليس التسوية ۔
"بقیہ تدلیس تسویہ کرتا ہے اور قدماء اس کو تدلیس تجوید کہتے ہیں۔ ہم محتاج ہوتے ہیں کہ یہ سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت کرئے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ بقیہ بن ولید اعمش، اور ابن جریج وغیرھما کی طرح تدلیس الاسناد کرتا ہے ہمارے شیخ ابو عبدالرحمن البانی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ میرے مطابق بقیہ عام مدلس ہے(ان کے یہ بات صحیح نہیں) لیکن (بعد میں دلائل سے) ثابت ہوا کہ بقیہ تدلیس تسویہ کرتا تھا۔ (نثل النبال بمعجم الرجال :1/ 302)
اور شیخ حوینی نے بقیہ کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے کئی روایات کو ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
شیخ شعیب ارنئووط اور ان کے رفقاء نے بھی (مسند احمد : 17189) کی تحقیق میں زیر بحث روایت کی سند کو بقیہ بن ولید کی تدلیس تسویہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ اصول حدیث کی کتب میں تدلیس تسویہ کی مثال میں بقیہ بن ولید کو خاص طور پر پیش کیا گیا ہے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ زیر بحث روایت میں بقیہ سے روایت کرنے والے حیوۃ بن شریح حمصی ہیں اور امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ ایک روایت جو "ابو تقی قال حدثنی بقية قال : حدثني عبد العزيز بن أبي رواد عن نافع عن ابن عمر" کی سند سے مروی ہے، اس کے بارے فرماتے ہیں:
لم يسمع بقية هذا الحديث من عبد العزيز إنما هو عن أهل حمص وأهل حمص لا يميزون هذا ۔
"بقیہ نے یہ حدیث عبدالعزیز سے نہیں سنی یہ روایت اہل حمص سے ہے اور وہ اس میں تمییز نہیں کرتے تھے(عدم سماع کو صیغہ سماع سے ذکر کردیتے تھے)۔ (علل الحديث لابن أبي حاتم :6/ 271)
لہذا حیوہ بن شریح نے اگرچہ بقیہ کی تحدیث ذکر کی ہے، لیکن محدثین محققین کے نزدیک یہ حمص والوں سے قابل قبول نہیں۔
ꙮ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک منقطع روایت:
مرزا جہلمی صاحب نے درج ذیل روایت پیش کی:
حدثنا أبو خيثمة حدثنا عبيد الله بن موسى حدثنا عيسى بن عبد الرحمن البجلي عن السدي عن أبي عبد الله الجدلي قال: قالت أم سلمة: أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنابر؟ قلت: وأنى ذلك؟ قالت: أليس يسب علي ومن يحبه فأشهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحبه (مسند أبي يعلى الموصلی : 7013)
شیخ محترم نے بتایا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ اس پر مجہول معترض صاحب نے اعتراض کیا کہ سوائے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے قول کے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔
تو عرض ہے کہ اس روایت پر شیخ محترم نے اپنی کوئی رائے پیش ہی نہیں کی، تو ان سے دلیل کا مطالبہ فضول ہے، چونکہ مرزا صاحب اپنے نزدیک ضعیف روایات میں بھی شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح کو اپنی دلیل بنالیتے ہیں، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں روایت تو تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے،آپ کے بقول بھی ضعیف ہی بنتی ہے، اس کے باوجود آپ نے اپنے پمفلٹ میں کیوں ذکر کی، تو وہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے اسے صحیح کہا ہے، لہذا میں نے "علم "جمع کرنے کے لیے اسے صحیح روایات والے پمفلٹ میں لکھ دیا ہے، کسی محدث کے نزدیک صحیح جو ہوئی۔۔۔!
یہ مرزا جہلمی صاحب کو انہی کے بقول پھکی دی گئی ہے کہ ان کے طرز عمل کے مطابق یہ روایت ضعیف مانی جانی چاہیے، کیونکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا کسی روایت کو منقطع اور ضعیف کہنا بھی علم ہی ہے نا۔۔۔
اس روایت کو عرب محقق حسین سلیم اسد صاحب نے بھی ضعیف کہا ہے، جن کے حوالے جابجا مرزا صاحب اپنے پمفلٹ میں دیتے رہتے ہیںَ۔
اب مجہول معترض صاحب کو اِدھر اعتراض کی بجائے مرزا صاحب سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کے نزدیک صرف اپنے موافق حکم ہی "علم "ہوتے ہیں یا ان کے خلاف جانے والے علما کے حکم بھی "علم "سمجھے جا سکتے ہیں؟
ꙮ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک منقطع روایت:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خطبے میں برا بھلا کہنے پر مرزا جہلمی صاحب یہ دلیل پیش کرتے ہیں:
أخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار قالا: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم قال: خطب المغيرة بن شعبة فسب عليا فقال سعيد بن زيد: أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم لسمعته يقول: «اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي، أو صديق، أو شهيد» وعليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وطلحة، والزبير وسعد، وعبد الرحمن بن عوف، وسعيد بن زيد هلال بن يساف لم يسمعه من عبد الله بن ظالم. (السنن الكبرى للنسائي : 8148)
شیخ محترم حافظ ابو یحیٰی نورپوری حفظہ اللہ نے بتایا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد خود اس کا ضعیف ہونا ثابت کردیا ہے کہ ھلال بن یساف نے اس کو عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا۔
اور یہ صرف امام نسائی رحمہ اللہ کا فیصلہ نہیں، دیگر ائمہ بھی یہی کہتے ہیں،جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا فیصلہ آیندہ سطور میں ذکر ہو گا۔
ꙮ امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت کا صحیح ترجمہ :
مجہول معترض صاحب امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح مراد سمجھنے سے قاصر رہے، لکھتے ہیں :
"امام علل امام بخاری اس واسطے کا ہی انکار کرتے ہیں اور یہ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ ھلال بن یساف اور عبداللہ بن طالم کے درمیان جو کوئی یہ واسطہ مانتا ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔"
آپ حیران ہوں گے کہ اہل علم ومعرفت نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صحیح نہ ہونے سے مراد اس حدیث کا صحیح نہ ہونا بتایا ہے، نہ کہ واسطے کا صحیح نہ ہونا۔جیسا کہ:
حافظ مغلطائی امام عقیلی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقال أبو جعفر العقيلي : كوفي لا يصح حديثه قاله البخاري ۔
"ابو جعفر عقیلی نے کہا : عبداللہ بن ظالم کوفی ہے اس کی حدیث صحیح نہیں اسی بات کے امام بخاری رحمہ اللہ (بھی) قائل ہیں۔" (إكمال تهذيب الكمال :7/ 416)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا الحديث هو الذي أراده البُخارِيّ ۔
"یہی وہ حدیث ہے جس(کی عدم صحت کا) امام بخاری رحمہ اللہ نے ارادہ کیا ہے۔"(الكامل في ضعفاء الرجال :5/ 371)
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اس سند میں ایک رجل (مجھول) کا واسطہ ہونا ہی درست ہے، اور ھلال نے اس حدیث کو ابن ظالم سے نہیں سنا، وہ فرماتے ہیں:
والذي عندنا أن الصواب قول من رواه، عن الثوري، عن منصور، عن هلال، عن فلان بن حيان، أو حيان بن فلان، عن عبد الله بن ظالم، لأن منصور أحد الإثبات، وقد بين في روايته عن هلال أنه لم يسمعه من ابن ظالم، وأن بينهما رجلا (علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية :4/ 412)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عبد الله بن ظالم : عن سعيد بن زيد، قال البخاري: لا يصح حديثه ۔
"عبداللہ بن ظالم عن سعید والی حدیث صحیح نہیں۔"(ديوان الضعفاء، ص: 219)
مزید امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
عبد الله بن ظالم [عو] .عن سعيد بن زيد بحديث العشرة في الجنة، قال البخاري: لم يصح. رواه عنه هلال بن يساف ۔ (ميزان الاعتدال :2/ 448)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت: بل قال البخاري: لم يصح حديثه ۔
"میں(ذھبی) کہتا ہوں کہ امام بخاری رحمہ کہتے ہیں اس کی حدیث صحیح نہیں ۔"(مختصر تلخيص الذهبي :4/ 1979)
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کی جو مراد مجہول معترض صاحب نے بنانے کی کوشش کی ہے، وہ باطل ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان تمام محدثین کی تضعیف کے مقابلے میں شیخ البانی اور شیخ احمد شاکر رحمھما اللہ کا اس حدیث کو صحیح کہہ دینا ان کی علمی خطا اور مرجوح قول ہے۔
اس ضعیف روایت کو اپنی بنیاد بنا کر مجہول معترض صاحب لکھتے ہیں :
"ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے اس روایت میں صاف الفاظ ہیں" يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے۔"
ایک بات تو یہ کہ ایسی ناقابل قبول روایات سے کچھ ثابت کرنے کی کوشش سے دلائل کی دنیا میں ان لوگوں کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔
دوسری بات کہ شیخ محترم نے لفظ ِ "سب" کے مختلف معانی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صحیح مسلم کی روایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کیے تھے، نہ کہ کسی اور کے بارے میں۔جب کہ مذکورہ روایت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر "سب"کرانےکا جھوٹ مرزا جہلمی صاحب نے بولا اور اب ان کے مجہول وکیل ِ صفائی صاحب بھی اسی پر لیپا پوتی کر رہے ہیں۔اس روایت میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہے، جو مرزا جہلمی صاحب کے نزدیک بھی اللہ کی ہمیشہ کی رضامندی کے مستحق ہیں۔
ꙮ عربی ز بان سے جہالت :
مجہول معترض صاحب عربی زبان سے بالکل ناواقف ہیں، ان کی عربی دانی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے قول کا ترجمہ بالکل ہی غلط کر دیا۔لکھتے ہیں :
''هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ (سنن الکبری للنسائی رقم8135)
ترجمہ:ھلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے کچھ نہیں سنا۔"
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ہلال بن یساف نے یہ روایت عبد اللہ بن ظالم سے نہیں سنی۔
امام نسائی رحمہ اللہ ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم سے سماع کو ثابت کر رہے ہیں، صرف اس خاص روایت کے نہ سننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن مجہول معترض صاحب امام نسائی رحمہ اللہ پر یہ اتہام باندھ رہے ہیں کہ انہوں نے ہلال بن یساف کے عبد اللہ بن ظالم کے سماع کا مطلقا انکار کیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگر ان صاحب نے دوبارہ بات چلائی تو ہم بتائیں گے کہ جہالت کی بنا پر اسی ایک غلط ترجمے کی وجہ سے انہوں نے مزید کون کون سی بونگیاں ماری ہیں۔
ایسے جاہل لوگوں کا اہل علم پر اعتراضات کرنا صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی نہ پورے ہونے والی خواہش ہے۔

پی ڈی ایف لنک یہ ہے :
https://goo.gl/YXmti4

محترم ساتھیو۔
میری اس تحریر کے جواب میں جو اعتراضات اصول حدیث اور علم الرجال کے حوالے سے اٹھاٰئے گئے ہیں میں صرف ان کاہی جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں اور میرے خیال سے اسی کے جواب دینا مناسب ہے مجھے جو نیم رافضی، مرزا کا حمایتی اور دیگر القاب سے نوازا ہے تویہ ان کا گمان ہے شوق سے مجھے جو چاہے سمجھتے رہیں مگر یہ بھی یاد رکھیں "ان بعض الظن اثم" اور جہاں تک میرے مسلک کی بات ہے تو میرا مسلک وہی ہے جو اہل سنت والجماعۃ سلف و صالحین کا ہے اور اس میں اگر مجھ سے کوئی غلطی اور کوتاہی ہوتی ہے تو اصلاح کی کوشش کرتا ہوں اور رہی بات کہ میں کسی مرزا کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ موصوف کی خام خیالی ہے میں نے اپنی پوری تحریر میں کسی مرزا کا دفاع کرنے کا نہ حوالہ ہی دیا ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی بات لکھی ہےنہ مرزاسے کوئی تعلق ظاہر کیا ہے میں نے فقط ان احادیث پر جواب دیا ہے جس کو میں نے محدثین کرام کے اصولوں اور اقوال کی روشنی میں صحیح یا حسن پایا ہے اور یہ میں کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا اور اس فورم پر میرے زیادہ تر کمینٹس اور پوسٹ اسی حوالے سے موجود ہیں جو چاہے دیکھ سکتا ہے۔
میری تحریر پر جو اعتراضات موصوف راقم نے کیے ہیں وہ درج ذیل نقاط کی صورت میں سامنے آتے ہیں
(1) اسماعیل بن ابی خالد کی تدلیس کی وجہ سے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا رجوع ثابت نہیں ہے۔
(2) بقیۃ بن الولید پر تدلیس تسویہ کا الزام لگایا ہےجب تک وہ اپنی روایت کی پوری سند میں سماع کی تصریح نہ کر دے اس کی روایت قبول نہیں ہے۔
(3)خالد بن مخلد قطوانی اگرچہ صدوق ہے مگر وہ کوفیوں سے روایت کرے گا تو اس کی روایت ضعیف ہوگی۔
(4) ھلال بن یساف اور عبداللہ بن ظالم کے درمیان امام نسائی نے سماع کا اثبات کیا ہے فقط ایک روایت کا انکار کیا ہے۔
(5) بکر بن سھل جمہور کے نذدیک ثقہ و صدوق ہے اور امام نسائی سے اس پر جرح ثابت نہیں ہے ۔
(6) ابو مالک الاشجعی کا سالم بن عبید الاشعجی رضی اللہ عنہ سے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
موصوف کے ان جوابات کا اب ہم آئمہ محدثین کے اصول کی روشنی میں زیادہ وضاحت سے جائزہ لیتے ہیں۔

اسماعیل بن ابن خالد کےحوالے سے موصوف نے لکھا کہ زبیر علی زئی نے اس کو تیسرے طبقے میں رکھا ہے واقعی ایسی ہی بات ہے یہ میری غلطی ضرور ہے مگر جمہور نے اس کو دوسرے درجہ میں ہی نقل کیا ہےیعنی وہ جو قلیل التدلیس ہیں مسفر الدمینی کا حوالہ میں نے پہلے دیا تھا حافظ ابن حجر نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس بتایا ہے

إسماعيل بن أبي خالد المشهور الكوفي الثقة من صغار التابعين وصفه النسائي بالتدليس(طبقات المدسین ص 36)
التدلیس المدلسون کے مولف شیخ الحماد الانصاری الجزری نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے۔
إسماعيل بن أبي خالد البجلي الأحمسي أبو عبد الله الكوفي: من صغار التابعين, ومن الطبقة الثانية, وصفه بالتدليس النسائي وغيره, قال أبو نعيم: "مات 146هـ"(التدلیس و المدلسون ص 97)
اس وضاحت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی درج ذیل روایت بالکل صحیح ہے اس کو ضعیف کہنا زیادتی ہو گی کیونکہ دوسرے درجے کے مدلس کا عنعنہ قبول ہوتا ہے روایت پیش ہے
أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ: ادْفِنُونِي مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنِّي كُنْتُ أَحْدَثْتُ بَعْدَهُ حَدَثًا(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 3772)
اور رہی بات موصوف کا یہ کہنا کہ میں مرزا کا وکیل ہوں اور اس کے مطابق مدلس کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔تو آں جناب کو حق حاصل ہے بخوشی جو چاہے سمجھتے رہیں مگر یہ ضرور بتا دیں کہ آپ مرزا کے اصولوں پر احادیث کو پرکھتے ہیں یا محدثین کرام کے تو اگر محدثین کے اصول آپ کے لئے حجت ہیں تو پھریہ روایت ان کے اصولوں پر صحیح ہے۔ اور آں جناب اس کا ضعیف ہونا ثابت کریں۔

موصوف نے بقیۃ بن الولید کے تدلیس کے حوالے سے محدثین کے چند اقوال نقل کیے ہیں جن میں سب سے بنیادی قول امام ابن ابی حاتم کی العلل سے نقل کیا ہے جس کے مطابق بقیۃ بن الولید سند میں سے ضعیف و متروک راوی کو گرا دیتا ہے اور ثقہ سے روایت کر دیتا ہے۔چنانچہ امام کا قول پیش کرتے ہیں پھر اس کی غلطی واضح کریں گے
قولُ عبد الرحمن بن أبي حاتم : وسمعتُ أَبِي وذكَرَ الحديثَ الَّذِي رَوَاهُ إسحاقُ بنُ رَاهُوْيَهْ، عَنْ بَقِيَّة ؛ قَالَ: حدَّثني أَبُو وَهْب الأَسَدِي؛ قَالَ: حدَّثنا نَافِعٌ، عَنِ ابْنَ عُمَرَ؛ قَالَ: لا تَحْمَدُوا إسلامَ امْرِئٍ حَتَّى تَعْرِفُوا عُقْدَةَ رَأْيِهِ.
قَالَ أَبِي: هَذَا الحديثُ لَهُ عِلَّةٌ قَلَّ مَنْ يَفْهَمُهَا؛ روَى هذا الحديثَ عبيدُاللهِ بنُ عَمْرٍو، عَنْ إسحاقَ بنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابن عمر، عن النَّبِيِّ (ص) ، وعبيدُاللهِ بنُ عَمْرٍو كنيتُهُ: أَبُو وَهْبٍ، وَهُوَ أَسَدِيٌّ؛ فكأنَّ بَقِيَّةَ بنَ الوليد كَنَى عبيدَاللهِ بنَ عَمْرٍو، ونسَبَهُ إِلَى بَنِي أَسَد؛ لِكَيْلا يُفْطَنَ بِهِ، حَتَّى إِذَا ترَكَ إسحاقَ بنَ أَبِي فَرْوَة مِنَ الوسَطِ لا يُهْتَدَى لَهُ، وَكَانَ بَقِيَّةُ مِنْ أفعَلِ الناسِ لِهَذَا

(العلل ابن ابی حاتم1/115)
امام ابن ابی حاتم کے اس قول "
وَكَانَ بَقِيَّةُ مِنْ أفعَلِ الناسِ لِهَذَا" کی بنیادی وجہ وہ روایت ہے جو انہوں نے نقل کی ہے جس میں امام ابن ابی حاتم کے مطابق ایک متروک راوی"اسحاق بن فروۃ" کو عبیداللہ بن عمرو اور نافع کے درمیان سے ساقط کر دیا ہے اس بنا پر امام ابن ابی حاتم نے بقیۃ بن الولید کی بابت یہ قول نقل کیا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق بقیۃ بن الولید پر روای کو ساقط کرنا امام ابن ابی حاتم کا وہم ہے کیونکہ جس روایت کی بنیاد پر انہوں نے یہ بات کہی ہے اس روایت کی دوسری سند میں بقیۃ بن الولید نے اسحاق بن ابی فروۃ کو ساقط نہیں کیا ہے روایت پیش ہے۔

أخبرناه أحمد بن محمّد بن غالب، أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حدّثنا موسى بن سليمان، حدّثنا بقية، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لا تَعْجَبُوا بِإِسْلامِ امْرِئٍ حَتَّى تَعْرِفُوا عُقْدَةَ عَقْلِهِ» .

(تاریخ بغداد جلد13 ص 80 ترجمۃ 7054)
اس روایت میں واضح موجود ہے کہ بقیۃ بن الولید نے اسحاق بن ابی فروۃ کو ساقط نہیں کیا ہے بلکہ اس سے روایت کو نقل کیا ہے اگر بقیۃ بن الولید تدلیس تسویہ کا مرتکب ہوتا اور اپنی مرویات میں متروک روای کو گراتا تھا تو وہ یہاں بھی اس کو بیان نہیں کرتا چنانچہ اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ البانی نے رقمطراز ہیں۔


أن استدلال أبي حاتم برواية إسحاق بن راهويه عن بقية - إن كانت محفوظة - لا تنهض بذلك؛ لأن فيها تصريح أبي وهب - شيخ بقية - بالتحديث عن نافع، وكذلك صرح بقية بالتحديث عن أبي وهب، فهي رواية مسلسلة بالتحديث، فأين التدليس المدَّعى؟ ! والمدلس إذا أسقط من الإسناد راوياً - سواء كان شيخه أو شيخ شيخه -؛ رواه بصيغة توهم السماع؛ كأن يقيل: قال فلان، أو: عن فلان، ونحوه. فلو قال مكان ذلك: سمعت، أو: حدثني، أو نحو ذلك مما هو صريح في الاتصال؛ كان كذباً، وسقطت به عدالته ، وبقية صدولَى اتفاقاً، وقد قال أبو زمعة: " ما لبقية عيب إلا كثرة روايته عن المجهولين، فأما الصدق فلا يؤتى من الصدق، وإذا حدث عن الثقات فهو ثقة "؛ كما رواه عنه ابن أبي حاتم (1 / 1 / 435) ، وتقدم نحوه عن يعقوب الفسوي.
ولذلك؛ اضطر أبو حاتم إلى توهيم الإمام إسحاق بن راهويه في الإسناد: حدثنا نافع) ؛ لتصوره الانقطاع بين أبي وهب ونافع؛ الناتج من إسقاط بقية لابن أبي فروة من بينهما! وإذا جاز مثل هذا التوهيم منه، أفلا يجوز لغيره أن يقول:
لعل الإسقاط المذكور كان من أبي حاتم مجرد دعوى؛ فإن بقية قد ذكر ابن أبي فروة في إسناد الحديث كما تقدم في رواية موسى بن سليمان، على ما فيها من الكلام الذي سبق بيانه؟ ! وعلى افتراض سقوطه في رواية ابن راهويه عن بقية؛ فليس هناك دليل على أنه كان مقصوداً من بقية، فيمكن أن يكون وهما منه كما تقدم مثله في أول هذا التخريج من منصور بن صقير، وذلك لا يبرر اتهامه بتدليس التسوية كما لا يخفى على الناقد البصير بهذا الفن الشريف، بل ويمكن أن يكون الإسقاط المدعى من غير بقية؛ فقد أشار إلى ذلك الحافظ في " النكت على ابن الصلاح "، فقال (2 / 622) :
" تنبيه آخر: ذكر شيخنا ممن عرف بالتسوية جماعة، وفاته أن ابن حبان قال في ترجمة بقية: إن أصحابه كانوا يسوون حديثه ".

(سلسلہ احادیث الضعیفۃ تحت رقم 5557)

شیخ البانی نے یہ واضح کیا کہ اگر بقیۃ بن الولید تدلیس تسویہ کرتا تو اس نے دوسری سند سے بھی اسی راوی کو ساقط کردینا تھا امام ابن ابی حاتم نے اسحاق بن راھویہ والی روایت سے یہ تصور کر لیا جبکہ اس کا امکان ہے کہ بقیۃ کی بیان کردہ روایات میں راوی کو ساقط بقیۃ بن الولید کو کوئی اور ساقط کرتا ہو جس کا اشارہ حافظ نے النکت میں دیا ہے کہ بقیۃ کے ترجمہ میں ابن حبان نے یہ نقل کیا ہے کہ (بقیۃ) کے ساتھی راوی کو ساقط کر دیا کرتے تھے۔
شیخ البانی نے واضح دلائل کے ساتھ تدلیس تسویہ سے بری قرار دیا ہے صاحب شوق ان کا پورا تبصرہ درج بالا حوالے کے تحت پڑھ سکتے ہیں چنانچہ موصوف نے جو امام ابن حبان کے حوالے سےنقل کیا ہے کہ "بقیۃ ثقہ روای کے درمیان سے ضعیف راوی کو گرا دیتے تھے" موصوف نے صرف یہی قول نقل کر دیا اگر وہ امام ابن حبان کا پورا تبصرہ نقل کرتے تو موصوف کے اس قول کی قلعی کھل جاتی کہ ابن حبان کے پورے تبصرے سے بقیۃ بن الولید پر لگا تدلیس تسویہ کا الزام رفع ہوتا ہے چنانچہ شیخ البانی نے امام ابن حبان کا تبصرہ نقل کرکے جو لکھا ہے وہ قارئین کے لئے پڑھنے کے قابل ہے۔

قلت: ذكر ذلك ابن حبان في " الضعفاء " (1 / 200 - 201) بعد أن صرح بأن بقية كان مدلساً يسقط الضعفاء من شيوخه بينه وبين شيوخهم الثقات، فقال:
" فراْيته ثقةً مأموناً، ولكنه كان مدلساً؛ سمع من عبيد الله بن عمرو وشعبة ومالك أحاديث يسيرة مستقيمة، ثم سمع عن أقوام متروكين عن عبيد الله بن عمر وشعبة ومالك؛ مثل المجامع بن عمرو، والسري بن عبد الحميد، وعمر بن موسى المَيتمي وأشباههم، وأقوام لا يعرفون إلا بالكنى، فروى عن أولئك الثقات الذين رآهم بالتدليس ما سمع من هؤلاء الضعفاء، وكان يقول: قال عبيد الله بن عمر عن نافع، وقال مالك عن نافع، فحملوا عن بقية عن عبيد الله، وبقية عن مالك، وأسقط الواهي بينهما، فالتزق الموضوع ببقية، وتخلص الواضع من الوسط.
وإنما امتحن بقية بتلاميذ له كانوا يسقطون الضعفاء من حديثه ويسوونه، فالتزق ذلك كله به "
قلت: هذا كله كلام ابن حبان رحمه الله، وهو صريح في تبرئته من تدليس التسوية، وأن ذلك كان من بعض تلاميذه.

(حوالہ ایضا)
ابن حبان اور شیخ البانی کے تبصروں سے یہ واضح ہے کہ بقییۃ بن الولید کے بعض شاگرد رواۃ کو ساقد کرتے تھے اور بقیۃ بن الولید تدلیس تسویہ سے بری ہے اور ہماری معلومات کی حد تک جمہور آئمہ و محدثین اورمقدمین نے اس کو تدلیس تسویہ کا مرتکب نہیںپایا اوراسکی روایات کوسماع کی تصریح کےساتھ قبول کرتے تھے اقوال پیش ہیں۔

يعقوب بن سفيان الفسوی فرماتے ہیں
وقد قال أهل العلم بقية إذا لم يسم الذي يروى عنه وكناه فلا يساوي حديثه شيئا(تاریخ ابن عساکر10/342 ترجمۃ بقیۃ بن الولید)
قال النسائى : إذا قال : " حدثنا و أخبرنا " ، فهو ثقة .
و إذا قال : " عن فلان " فلا يؤخذ عنه ، لأنه لا يدرى عمن أخذه(
تہذیب الکمال للمزی4/192ترجمۃ478)
امام یحٰیی ابن معین فرماتے ہیں۔

قال أبو بكر بن أبى خيثمة : سئل يحيى بن معين عن بقية ، فقال : إذا حدث عن
الثقات مثل صفوان بن عمرو و غيره ، و أما إذا حدث عن أولئك المجهولين فلا :

تھذیب الکمال مزی رقم 728 4/198)

حدثنا عبد الله بن علي ابن المديني، قال: وسمعت أبي، يقول: بقية صالح فيما روى عن أهل الشام،
(تاریخ بغداد للبغدادی ترجمۃ 3514)
ابن المدینی نے واضح فرمایا کہ اہل شام سے روایت کرنے میں بقیۃ بن الولید ثقہ ہے اور موصوف کی بدقسمتی سے یہ روایت اہل شام(بحیر بن سعد) سے ہی ہے

موصوف نے تدلیس تسویہ کے لئے سب سے پہلے امام احمد بن حنبل کا ایک قول نقل کیا ہے جبکہ ہم نے امام احمد بن حنبل سے ہی یہ نقل کیا تھا دوبارہ پیش کر دیتے ہیں۔
قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، ثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي، وَفِي قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ.
قَالَ الأَثْرَمُ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: هَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.

اس سند کو امام احمد بن حنبل جید فرمارہے ہیں اور بقول موصوف اس روایت میں بقیہ نے مسلسل سماع کی تصریح نہیں کی ہوئی ہے مگر پھر بھی امام احمد بن حنبل اس کو جید فرما رہے ہیں اور بقیہ سے خالد بن معدان تک یہ وہی سند ہے جو مسند احمد میں نقل ہوئی ہے تو امام احمد موصوف کے خلاف اس حدیث کو جید فرمارہے ہیں
امام ابن عبدالبربقیہ سے ایک روایت نقل کرکے فرماتے ہیں:

قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَهُوَ مِنْ حَدِيثِ الشَّامِيِّينَ رُوَاتُهُ كُلُّهُمْ ثِقَاتٌ وَبَقِيَّةُ إِذَا رَوَى عَنِ الثِّقَاتِ فَلَيْسَ بِحَدِيثِهِ بَأْسٌ
اور ذیل میں وہ حدیث بھی پیش ہے۔
قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنِي بُجَيْرُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْبَوَاقِي مَنْ قَامَهُنَّ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَهِيَ لَيْلَةُ تِسْعٍ تَبْقَى أَوْ سَبْعٍ أَوْ خَمْسٍ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ
(الاستذکار 3/417)
اس روایت میں بقیہ نے تمام طبقات میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے اس کے باوجود امام ابن عبدالبر اس کی حدیث کے بابت فرما رہے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے اس میں شامیوں سے روایت کر رکھی ہے

امام ابن قیم نے بھی بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی روایت کو حجت قرار دیا ہے۔
بقية "ثقة في نفسه، صدوقٌ حافظٌ، وإِنَّمَا نُقِمَ عليه التدليس، مع كثرةِ روايته عن الضعفاء والمجهولين، وأما إذا صَرَّح بالسماع فهو حجة"
(تھذیب السنن ص 259 کتاب الطھارۃ باب تفریق الوضوء)

ابن عبدالھادی نے بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سماع کی تصریح کے بغیرروایات کو بھی صحیح قرار دیا ہے

وَرِوَايَةُ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرٍ صَحِيحَةٌ، سَوَاءٌ صَرَّحَ بِالْتَّحْدِيثِ أَمْ لا، مَعَ أَنَّهُ قَدْ صَرَّحَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِالتَّحْدِيثِ.
تعلیقہ اللعل لابی حاتم جلد 1 ص 157


حافظ زین الدین العراقی اس کی ایک روایت نقل کرکے فرماتے ہیں

فِيهِ بَقِيَّة بن الْوَلِيد وَهُوَ مُدَلّس لكنه صرح فِيهِ بِالتَّحْدِيثِ.( المغنی تخريج ما في الإحياء من الأخبار جلد 1 ص 890)

امام بوصیری اس کی روایت کو نقل کر کے لکھا ہے۔

هَذَا حَديثٌ حَسَنٌ، وَبَقيَّةُ ثِقَةٌ وَإِنْ كَانَ مُدَلِّسًا، وَرَوَاهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِالْعَنْعَنَةِ فَقَدْ صَرَّحَ بِالتَّحْدِيثِ فىِ بَعْضِ طُرُقِهِ.
كَمَا رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِي مُسْنَدِهِ: ثَنَا حَيْوَةُ وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ قَالَا: ثنا بقية، حدثني بحير بْنُ سَعْدٍ
... فَذَكَرَهُ.
(اتحاف الخیزۃ المھرۃ جلد7 ص14 رقم 6316/6317)

اور مسند احمد کی سند بھی پیش کر دیتا ہوں جس کا ذکر امام بوصیری نے کیا ہے

حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ ابْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِي
(مسند احمد رقم17648)
امام بوصیری نے بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور بقیۃ بن الولید کی یہ وہی سند ہے جو ابو داود میں نقل ہوئی ہے اور مسند احمد میں ہی اس کے سماع ک صراحت موجود ہےاور اس میں بقیۃ نے فقط اپنے شیخ سے سماع کی تصریح کی صراحت کی ہے چنانچہ امام بوصیری کے نذدیک بھی بقیۃ اپنے شیخ سے سماع کی تصریح کرنا کافی ہے

امام ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں بقیۃ بن الولید کی روایت پر جو تبصرہ کیا ہے وہ پیش ہے

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَنَا أَكْمَلُ بنُ أَبِي الأَزْهَرِ، أَنْبَأَنَا سَعِيْدُ بنُ البَنَّاءِ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدٍ الزَّيْنَبِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ بنُ زُنْبُوْرٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ بنُ أَبِي دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ كَعْبٍ، عَنْ كَعْبِ بنِ مَالِكٍ:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: (يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَأَكُوْنُ أَنَا وَأُمَّتِي عَلَى تَلٍّ، فَيَكْسُوْنِي عَزَّ وَجَلَّ حُلَّةً خَضْرَاءَ، ثُمَّ يُؤْذَنُ لِي، فَأَقُوْلُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ أَقُوْلَ، فَذَلِكَ المَقَامُ المَحْمُوْدُ (1)) .
هَذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ الإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجُوْهُ فِي الكُتُبِ السِّتَّةِ.

(سیراعلام النبلاء جلد 6ص284)

امام ہیثمی نے بھی بقیۃ بن الولید کے سماع کی صراحت والی روایت کو قبول کیا ہے،
وَإِسْنَادُهُمَا حَسَنٌ، فَقَدْ صَرَّحَ بَقِيَّةُ بِالسَّمَاع(مجمع الزوائدکتاب المناقب رقم 16633)

سنن ابوداود کی شرح میں شمس الدین مراد آبادی نے بھی اس حدیث کی شرح میں نقل کیا ہے
قلت وفی مسند احمد صرح بقیۃ بن الولید بالتحدیث(عون المعبود شرح سنن ابو داود رقم 4131)

شیخ البانی کے حوالے سے ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ وہ بقیۃ بن الولید کو تدلیس تسویہ سے بری قرار دیتے ہیں۔
لطیفہ: موصوف شیخ البانی سے تو بقیۃ بن الولید کا تدلیس تسویہ ثابت نہیں کر سکے تو ان کے شاگرد کا ذکر کر دیا حالانکہ موصوف کو شیخ البانی کے حوالے سے نقل کرنا چاہیے تھا یا اس بابت خاموشی اختیار کرتے مگر موصوف شاگرد کا ذکرکر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہے تھے جبکہ متعدد اساتذہ اور تلامذہ میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہوتا ہے جو حل بھی نہیں ہو پاتا اور وہ اپنے اپنے موقف پر قائم ہی رہتے ہیں۔
شیخ مسفر الدمینی نے بھی بقیۃ بن الولید پر تدلیس تسویہ کا کوئی الزام نہیں لگایا ہے
(التدلیس فی الحدیث ص369)

اور آخر میں ان کا حوالہ پیش کر رہا ہوں کہ جن کی تحقیق پر انحصار کر کے شیخ ابو یحیٰی نور پوری نے بکر بن سھل پر امام نسائی کی جرح کا انکار کیا ہے چنانچہ موصوف کے السنہ کے پیش کیے ہوئے لنک میں ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے کچھ یوں لکھا ہے
"دوسری بات یہ کہ امام نسائی سے یہ جرح ثابت بھی نہیں جیساکہ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی نے مجھے توجہ دلائی کہ امام موصوف سے اس بات کو بیان کرنے والے انکے بیٹے عبدالکریم کے حالات ہمیں نہ مل سکے "



baqiya bin waleed1.png


baqiya bin waleed.png


اب موصوف کیا فرمائیں گے ابو یحیی نور پوری شیخ زبیر علی زئی کی تحقیق پر بھروسہ کرکے بکر بن سھل پر امام نسائی کی جرح کو رد کر دیا، کیا اس تحقیق کو قبول کرنے کی سقت رکھتے ہیں کہ بقیۃ بن الولید تدلیس تسویہ سے بری ہے اس کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کرنے کی ان کی ناکام کاوش دھری کی دھری رہ جائے گی۔


ان دلائل سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بقیۃ بن الولید کو مقدمین اور جمہور تدلیس تسویہ کا مرتکب نہیں مانتے تھے بلکہ اس کی سماع کی تصریح والی روایات کو قبول کرتے تھے اس لئے مسند احمد کی روایت بھی حسن ہے اور موصوف کو اگر ایسے جان بوجھ کر ضعیف ثابت کرنا ہے تو کوئی اور کوڑی لے کر آئیں۔
 
Top