difa-e- hadis
رکن
- شمولیت
- جنوری 20، 2017
- پیغامات
- 294
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 71
ابو یحیٰی نورپوری کی علمی خیانتیں یا لا علمی
محترم بھائیوں:
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور اشکالات پر جو مدلل کام کیا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے مگر اس حوالے سے ان کی چند ویڈیوز میں کچھ ایسی باتیں سامے آئیں ہیں جو علمی خیانت یا ان کی لاعلمی پر مبنی تھی دفاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر مسلمان کی دین حمیت میں شامل ہے اور یہ ایک انتہائی مستحسن فعل ہے مگر اس میں علمی خیانت ایک عالم دین کو زیب نہیں دیتی اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے جس کو ہم ترتیب وار پیش کر رہے ہیں
(1) محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپر (واقعہ کربلا کا حقیقی منظر72 صحیح الاسناد احادیث) کے حوالے سے اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ امام اسحاق بن راھویہ کا قول بے سند ہے اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند نقل نہیں کی مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے
(قَالَ) الْحَاكِم سمعتُ أَبَا الْعَبَّاس مُحَمَّد بْن يَعْقُوب بْن يُوسُف يَقُولُ سمعتُ أبي يَقُولُ سمعتُ إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيم الْحَنْظَلِي يَقُولُ: لَا يَصح فِي فضل مُعَاويَة حَدِيث.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة کتاب المناقب جلد1 ص 388)
ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیٰی نور پوری حفظ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا۔
(2) اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا رجوع
اس حوالے سے جس حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا وہ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث نمبر 37772ہے اور اس کی وجہ ضعف انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں اسماعیل بن ابن خالد مدلس ہے اور اس نے تدلیس کر رکھی ہے جبکہ اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں یہ دوسرے درجہ کے مدلس ہیں اور ان کا عنعن قبول ہوتا ہے۔
أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ: ادْفِنُونِي مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنِّي كُنْتُ أَحْدَثْتُ بَعْدَهُ حَدَثًا
اسماعیل بن ابی خالد دوسرے درجے کے مدلس ہیں اور اس درجے کے مدلس کا عنعنہ قبول ہوتا ہے چنانچہ مسفر الدمینی لکھتے ہیں"وحکم اہل المرتبہ کحکم اہل المرتبہ الاولی یقبل حدیثھم سواء صرحوا بالسماع او رووا بالعنعنۃ (التدلیس فی الحدیث مسفر الدمینی ص 143)
ترجمہ: اس درجے کے (رواۃ)کا حکم وہی ہے جو پہلے درجے والوں کا ہے ان کی حدیث سماع پر صراحت کے ساتھ ہوں یا عنعنہ کے ساتھ ہو قبول ہو گی۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے(فتح المبین ص36)
ان تصریحات سے ثابت ہے کہ اسماعیل بن ابی خالد کاعنعنہ بھی قبول ہوتا ہے اس بنا پر یہ روایت صحیح ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
سنن نسائی رقم 3006 کتاب الحج باب التلبیہ بعرفۃ)
اس روایت کو موصوف نے ضعیف کہا ہے اور اس پر یہ منطق پیش کی ہے کہ اگرچہ خالد بن مخلد حسن الحدیث ہے مگر جب وہ اہل کوفہ سے روایت کرے تو ضعیف ہوگا اگرچہ اہل کوفہ کتنے ہی ثقہ ہوںجیسے اس روایت میں خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے روایت کیا ہے اور ان کے بابت محدثین کیا نقل کرتے ہیں پڑھ لیں
قال العجلى : كوفى ، ثقة .
و قال عثمان الدارمى ، عن ابن معين : ثقة مأمون .
و قال ابن سعد : كان صاحب قرآن ، و كان ثقة إن شاء الله ، قليل الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 333
اوردوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مھسر سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کوفی ہیںاور ان کی بابت محدثین کہتے ہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : على بن مسهر قرشى من أنفسهم ، كان ممن جمع الحديث و الفقه ، ثقة .
و قال أبو زرعة : صدوق ، ثقة .
و قال النسائى : ثقة .
تهذيب الكمال رقم 4800
قال العجلى أيضا : صاحب سنة ، ثقة فى الحديث ، ثبت فيه ، صالح الكتاب ، كثير
الرواية عن الكوفيين .
و قال ابن سعد : كان ثقة كثير الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 384
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے جو منطق پیش کی ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک محدثین میں سے کسی نے بیان نہیں کی ہےامام بخاری نے اس کی علی بن مھسر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے صحیح بخاری کتاب المناقب الزبیر بن العوام رقم 3717) اورابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں اس کے ترجمہ کےتحت نقل کیا ہے
" خَالِد بن مخلد الْقَطوَانِي الْكُوفِي أَبُو الْهَيْثَم من كبار شُيُوخ البُخَارِيّ روى عَنهُ وروى عَن وَاحِد عَنهُ قَالَ الْعجلِيّ ثِقَة فِيهِ تشيع وَقَالَ بن سعد كَانَ متشيعا مفرطا وَقَالَ صَالح جزرة ثِقَة إِلَّا أَنه كَانَ مُتَّهمًا بالغلو فِي التَّشَيُّع وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل لَهُ مَنَاكِير وَقَالَ أَبُو دَاوُد صَدُوق إِلَّا أَنه يتشيع وَقَالَ أَبُو حَاتِم يكْتب حَدِيثه وَلَا يحْتَج بِهِ قلت أما التَّشَيُّع فقد قدمنَا أَنه إِذا كَانَ ثَبت الْأَخْذ وَالْأَدَاء لَا يضرّهُ لَا سِيمَا وَلم يكن دَاعِيَة إِلَى رَأْيه وَأما الْمَنَاكِير فقد تتبعها أَبُو أَحْمد بن عدي من حَدِيثه وأوردها فِي كَامِله وَلَيْسَ فِيهَا شَيْء مِمَّا أخرجه لَهُ البُخَارِيّ بل لم أر لَهُ عِنْده من أَفْرَاده سوى حَدِيث وَاحِد وَهُوَ حَدِيث أبي هُرَيْرَة من عادى لي وليا الحَدِيث وروى لَهُ الْبَاقُونَ سوى أبي دَاوُد" )ابن حجر کےمطابق اس کی تشیع ہونا اس کی روایات پر ضرر نہیں دیتا چنانچہ انہوں نے بھی یہ منطق کہیں پیش نہیں کی کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ابن عدی نے اس کی احادیث نقل کر کے یہ ضرور کہا کہ اس میں یا تو اس کو وہم ہوا ہے یا حفظ صحیح طور پر نہیں کیا ہے مگر انہوں نے بھی اس طرح کی کوئی بات نقل نہیں کی ہے یہاں تک کے صاحب تحریر تقریب نے اس کو "ضعیف یعتبر بہ"
کہا ہے مگر یہ موقف انہوں نے بھی کسی سے نقل نہیں کیا ہے امام المقدسی نے المختارہ میں علی بن مھسر کے طریق سے خالد بن مخلد کی روایت لی ہے یعنی ان کی نظر میں خالد بن مخلد کی علی بن مھسر سے روایت صحیح ہے ماسوائے ابن رجب حنبلی نے الغلابٰی کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ جمہور محدثین کے خلاف ہےاور اصول میں جمہور کی بات رائج ہوتی ہے الغرض موصوف کا یہ موقف جمہور محدثین کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي» .
اس روایت کو ابو یحییٰ نور پوری صاحب ضعیف کہہ رہے ہیں کیونکہ اس میں ابو اسحاق السیعبی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں جبکہ اس کے دیگر طرق اور شواہد بھی ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ واقعی علی رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر بھلا برا کہا جاتا تھا
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنَابِرِ؟ قُلْتُ: وَأَنَّى ذَلِكَ؟، قَالَتْ: أَلَيْسَ يُسَبُّ عَلِيٌّ وَمَنْ يُحِبُّهُ فَأَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحِبُّهُ
مسند ابو یعلی رقم7013
اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہے اس میں ابو یحییٰ نور پوری صاحب اس کے دو رواۃ "السدی" جو کہ "إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى" ہیں اور دوسرے "عیسیٰ بن عبدالرحمن البجلی ہیں جنہوں نے"السدی "سے روایت کیا ہے انکے درمیان نے انقطاع کا دعوی کی ہے مگر اس پر کوئی دلیل اپنی تقریر میں پیش نہیں کی ہے فقط زبیر علی زئی کے ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 کے صفحہ 21 تا 22 کا حوالہ دیا ہے اور اس میں رسالہ میں فقط اس کے انقطاع کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے مگر اگر اصول حدیث کے مطابق غور کیا جائے تو جمہور کے نذدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جبکہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ماسوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو اور شیخ البانی اس روایت کو اپنے سلسلہ احادیث الصحیحہ میں درج کرکے اسی اصول کو پیش کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں"
قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ تحت رقم 3332)
اور اس کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں
حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْمَاعِيل قَالَ حَدثنَا بن عون عَن عُمَير بْن إِسْحَاق قَالَ كَانَ مَرْوَان أَمِيرا علينا سِتّ سِنِين فَكَانَ يسب عليا كل جُمُعَة ثمَّ عزل ثمَّ اسْتعْمل سعيد بن الْعَاصِ سنتَيْن فَكَانَ لَا يسبه ثمَّ أُعِيد مَرْوَان فَكَانَ يسبه
اسنادہ الحسن العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد رقم 4781 جلد 3 ص 176
عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں مروان ہم پر ساتھ سال امیر رہا اور وہ ہر جمعہ میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا پھر سعید بن العاص کو سات سال کے لئے امیر بنے اور وہ برا بھلا نہیں کہتے تھے پر دوبارہ جب مروان بنا اس نے دوبارہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے کیونکہ اس کے قرائن موجود ہے چند ایک پیش ہیں
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة
سنن النسائی الکبری رقم 8151)
اس روایت میں صاف الفاظ ہیں" يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے
نوٹ:اس روایت کو بھی ضعیف کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے مگر یہ صحیح ہے اسی فورم پر میری تحقیق موجود ہے اگر بالفرض اس کو ضعیف بھی مان لیا جائے تو اس سے برا بھلا کہنے والا معنی متعین کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ بھی ابو یحییٰ صاحب کی لاعلمی ہو گی خیانت نہیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
سنن ابوداود رقم 4131)
اس روایت کو بقیہ بن الولید کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ مسند احمد میں اس سند میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے سند پیش ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟
مسند احمد رقم 17189
اس میںبقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور محدثین کے مطابق جب بقیہ بن الولید سماع کی تصریح کر دے تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں
قال النسائى : إذا قال : " حدثنا و أخبرنا " ، فهو ثقة .
و إذا قال : " عن فلان " فلا يؤخذ عنه ، لأنه لا يدرى عمن أخذه .
تھذیب الکمال للمزی رقم 738)
امام نسائی کے مطابق بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی روایت قابل قبول ہے اوردیگر مقدمین محدثین نے بھی یہی نقل کیا ہے
قَالَ بَقِيَّة إِذا حدث عَن المعروفين مثل بحير بن سعد وَغَيره
اللعل للاحمد رقم3141)
امام احمد بن حنبل نے خاص طور پر بحیر بن سعد کا نام لیا ہے کہ جب بقیہ اس سے روایت کرے(اور سماع کی تصریح بھی ہو) تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سئل أبى عن بقية و إسماعيل بن عياش ، فقال :
بقية أحب إلى ، و إذا حدث عن قوم ليسوا بمعروفين فلا تقبلوه .
حوالہ ایضارقم4128
امام یحیٰی بن معین نے بھی یہی بات نقل کی ہے
قال أبو بكر بن أبى خيثمة : سئل يحيى بن معين عن بقية ، فقال : إذا حدث عن
الثقات مثل صفوان بن عمرو و غيره ، و أما إذا حدث عن أولئك المجهولين فلا :
تھذیب الکمال مزی رقم 728 4/198
اور ابن عبدالھادی نے بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سماع کی تصریح کے بغیرروایات کو بھی صحیح قرار دیا ہے
وَرِوَايَةُ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرٍ صَحِيحَةٌ، سَوَاءٌ صَرَّحَ بِالْتَّحْدِيثِ أَمْ لا، مَعَ أَنَّهُ قَدْ صَرَّحَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِالتَّحْدِيثِ.
تعلیقہ اللعل لابی حاتم جلد 1 ص 157
اور امام احمد بن حنبل نےبقیۃ بن الولید کی بحیر بن سعد کے طریق سے روایت کو جید قرار دیا ہے
قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، ثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي، وَفِي قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ.
قَالَ الأَثْرَمُ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: هَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.
اور آخر میں شیخ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری صاحب ضعیف فرما رہے ہیں
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات، وقال المناوي: " قال الحافظ العراقي:
وسنده جيد، وقال غيره: فيه بقية صدوق له مناكير وغرائب وعجائب ".
قلت: ولا منافاة بين القولين، فإن بقية إنما يخشى من تدليسه وهنا قد صرح
بالتحديث كما رأيت وهو في رواية أحمد.
سلسلہ احادیث الصحیحۃ 811)
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کی ہے اور اس کی ثقات سے سماع کی تصریح والی روایات عندالمحدثین قبول ہیں اس لئے یہ روایت حسن ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ موصوف کی خطا ہو گی علمی خیانت نہیں
عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِيٌّ عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ , فَقَالَ: قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ , وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَيَّ وَإِلَى مُعَاوِيَة
مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37880)
موصوف مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اس پر موصوف کا اعتراض یہ ہے کہ یزید بن الاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ روایت نہیں کیا ہے
یزید بن الاصم:
یزید بن الاصم کی وفات ایک 103 ہجری میں ہوئی ہے اور انہوں نے 73 سال عمر پائی ہے (تھذیب التھذیب،الصحابہ فی التمیز الصحابہ)اس بنا پر وہ تقریبا 33 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور اس حساب سے علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہےابن کثیر نے اور امام ذہبی نے ان کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا انکار کیا ہے اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت میں ان کے سماع کی تصریح ہے چونکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے اس لئے امام ذہبی اور ابن کثیر نے ان کے سماع کا انکار کیا ہے مگر جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے معاصر بھی ہیں اور ایک ہی شہر سے تعلق بھی رکھتے ہیں اس لئےاس اصول حدیث پر اس روایت کو سماع پرمحمول مانا جائے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اس کو شواہد بھی موجود ہیں۔
أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال: حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال:
حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية.
بغية الطلب في تاريخ حلب جلد 1 ص297
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت کی شاہد ہے اس میں اسی قسم کے الفاظ ہیں" إنما الحساب علي وعلى معاوية." موجود ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کی شاہد ہیں مگر مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت ہی صحیح اور متصل ہے اس روایت کو شیخ ارشاد الحق اثری نے صحیح قرار دیا ہے (مقام صحابہ ص 167)
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت بیان کی اور اس کو حسن کہا ہے جبکہ وہ روایت ضعیف ہے
وأنبأنا أبو طاهر الأصبهاني أنا نصر بن أحمد بن البطر قالا أنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقوية أنا علي بن محمد بن أحمد المصري نا بكر بن سهل نا عبد الله بن يوسف نا ليث نا بكير عن بسر بن سعيد
أن سعد بن أبي وقاص قال ما رأيت أحدا بعد عثمان أقصى بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية
تاریخ ابن عساکر جلد59 ص161
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے
حمل الناس عنه، وهو مقارب الحال.
قال النسائي: ضعيف.
میزان الاعتدال رقم1284)
شیخ البانی نے بھی اس کی متعدد روایات کو اس کی وجہ سے ضیف قرار دیا ہے
بكر بن سهل وهو الدمياطي قال النسائي: ضعيف
(سلسلہ الحادیث الضعیفہ رقہ 2827)
[FONT=Arial, sans-serif]آخر میں ۷۲ شہداء کربلا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کسی صحیح سند سے ثابت کریں کہ شہداء کربلا ۷۲ تھے ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے ۷۲ تو نہیں مگر تقریبا ۷۲ ضرور ہیں۔
[/FONT]
اس لئے ہم اب بھی یہی امید کرتے ہیں کہ یہ ابو یحٰیی نور پوری کی لاعلمی ہی ہوگی اور امید کرتے ہیں کہ دفاع صحابہ میں وہ وحی خفی میں لاعلمی کی بنا پرجس خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اس سے رجوع کریں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور اشکالات پر جو مدلل کام کیا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے مگر اس حوالے سے ان کی چند ویڈیوز میں کچھ ایسی باتیں سامے آئیں ہیں جو علمی خیانت یا ان کی لاعلمی پر مبنی تھی دفاع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر مسلمان کی دین حمیت میں شامل ہے اور یہ ایک انتہائی مستحسن فعل ہے مگر اس میں علمی خیانت ایک عالم دین کو زیب نہیں دیتی اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے جس کو ہم ترتیب وار پیش کر رہے ہیں
(1) محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپر (واقعہ کربلا کا حقیقی منظر72 صحیح الاسناد احادیث) کے حوالے سے اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ امام اسحاق بن راھویہ کا قول بے سند ہے اگرچہ امام ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند نقل نہیں کی مگر یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے
(قَالَ) الْحَاكِم سمعتُ أَبَا الْعَبَّاس مُحَمَّد بْن يَعْقُوب بْن يُوسُف يَقُولُ سمعتُ أبي يَقُولُ سمعتُ إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيم الْحَنْظَلِي يَقُولُ: لَا يَصح فِي فضل مُعَاويَة حَدِيث.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة کتاب المناقب جلد1 ص 388)
ہم امید کرتے ہیں کہ ابو یحیٰی نور پوری حفظ اللہ کو اس سند کا علم نہیں ہوگا۔
(2) اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا رجوع
اس حوالے سے جس حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا وہ مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث نمبر 37772ہے اور اس کی وجہ ضعف انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں اسماعیل بن ابن خالد مدلس ہے اور اس نے تدلیس کر رکھی ہے جبکہ اسماعیل بن ابی خالد بخاری اور مسلم کے راوی ہیں اور بخاری اور مسلم میں ان کی روایات "عنعنہ" کے ساتھ موجود ہیں یہ دوسرے درجہ کے مدلس ہیں اور ان کا عنعن قبول ہوتا ہے۔
أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ لَمَّا حَضَرَتْهَا الْوَفَاةُ: ادْفِنُونِي مَعَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنِّي كُنْتُ أَحْدَثْتُ بَعْدَهُ حَدَثًا
اسماعیل بن ابی خالد دوسرے درجے کے مدلس ہیں اور اس درجے کے مدلس کا عنعنہ قبول ہوتا ہے چنانچہ مسفر الدمینی لکھتے ہیں"وحکم اہل المرتبہ کحکم اہل المرتبہ الاولی یقبل حدیثھم سواء صرحوا بالسماع او رووا بالعنعنۃ (التدلیس فی الحدیث مسفر الدمینی ص 143)
ترجمہ: اس درجے کے (رواۃ)کا حکم وہی ہے جو پہلے درجے والوں کا ہے ان کی حدیث سماع پر صراحت کے ساتھ ہوں یا عنعنہ کے ساتھ ہو قبول ہو گی۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی اس کو دوسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے(فتح المبین ص36)
ان تصریحات سے ثابت ہے کہ اسماعیل بن ابی خالد کاعنعنہ بھی قبول ہوتا ہے اس بنا پر یہ روایت صحیح ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
سنن نسائی رقم 3006 کتاب الحج باب التلبیہ بعرفۃ)
اس روایت کو موصوف نے ضعیف کہا ہے اور اس پر یہ منطق پیش کی ہے کہ اگرچہ خالد بن مخلد حسن الحدیث ہے مگر جب وہ اہل کوفہ سے روایت کرے تو ضعیف ہوگا اگرچہ اہل کوفہ کتنے ہی ثقہ ہوںجیسے اس روایت میں خالد بن مخلد نے علی بن صالح سے روایت کیا ہے اور ان کے بابت محدثین کیا نقل کرتے ہیں پڑھ لیں
قال العجلى : كوفى ، ثقة .
و قال عثمان الدارمى ، عن ابن معين : ثقة مأمون .
و قال ابن سعد : كان صاحب قرآن ، و كان ثقة إن شاء الله ، قليل الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 333
اوردوسری سند جس کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اس کی سند میں خالد بن مخلد نے علی بن مھسر سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کوفی ہیںاور ان کی بابت محدثین کہتے ہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : على بن مسهر قرشى من أنفسهم ، كان ممن جمع الحديث و الفقه ، ثقة .
و قال أبو زرعة : صدوق ، ثقة .
و قال النسائى : ثقة .
تهذيب الكمال رقم 4800
قال العجلى أيضا : صاحب سنة ، ثقة فى الحديث ، ثبت فيه ، صالح الكتاب ، كثير
الرواية عن الكوفيين .
و قال ابن سعد : كان ثقة كثير الحديث .
تهذيب التهذيب 7 / 384
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے جو منطق پیش کی ہے وہ ہماری معلومات کی حد تک محدثین میں سے کسی نے بیان نہیں کی ہےامام بخاری نے اس کی علی بن مھسر کی سند سے روایت اپنی بخاری میں درج کی ہے صحیح بخاری کتاب المناقب الزبیر بن العوام رقم 3717) اورابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں اس کے ترجمہ کےتحت نقل کیا ہے
" خَالِد بن مخلد الْقَطوَانِي الْكُوفِي أَبُو الْهَيْثَم من كبار شُيُوخ البُخَارِيّ روى عَنهُ وروى عَن وَاحِد عَنهُ قَالَ الْعجلِيّ ثِقَة فِيهِ تشيع وَقَالَ بن سعد كَانَ متشيعا مفرطا وَقَالَ صَالح جزرة ثِقَة إِلَّا أَنه كَانَ مُتَّهمًا بالغلو فِي التَّشَيُّع وَقَالَ أَحْمد بن حَنْبَل لَهُ مَنَاكِير وَقَالَ أَبُو دَاوُد صَدُوق إِلَّا أَنه يتشيع وَقَالَ أَبُو حَاتِم يكْتب حَدِيثه وَلَا يحْتَج بِهِ قلت أما التَّشَيُّع فقد قدمنَا أَنه إِذا كَانَ ثَبت الْأَخْذ وَالْأَدَاء لَا يضرّهُ لَا سِيمَا وَلم يكن دَاعِيَة إِلَى رَأْيه وَأما الْمَنَاكِير فقد تتبعها أَبُو أَحْمد بن عدي من حَدِيثه وأوردها فِي كَامِله وَلَيْسَ فِيهَا شَيْء مِمَّا أخرجه لَهُ البُخَارِيّ بل لم أر لَهُ عِنْده من أَفْرَاده سوى حَدِيث وَاحِد وَهُوَ حَدِيث أبي هُرَيْرَة من عادى لي وليا الحَدِيث وروى لَهُ الْبَاقُونَ سوى أبي دَاوُد" )ابن حجر کےمطابق اس کی تشیع ہونا اس کی روایات پر ضرر نہیں دیتا چنانچہ انہوں نے بھی یہ منطق کہیں پیش نہیں کی کہ خالد بن مخلد کوفیوں سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ابن عدی نے اس کی احادیث نقل کر کے یہ ضرور کہا کہ اس میں یا تو اس کو وہم ہوا ہے یا حفظ صحیح طور پر نہیں کیا ہے مگر انہوں نے بھی اس طرح کی کوئی بات نقل نہیں کی ہے یہاں تک کے صاحب تحریر تقریب نے اس کو "ضعیف یعتبر بہ"
کہا ہے مگر یہ موقف انہوں نے بھی کسی سے نقل نہیں کیا ہے امام المقدسی نے المختارہ میں علی بن مھسر کے طریق سے خالد بن مخلد کی روایت لی ہے یعنی ان کی نظر میں خالد بن مخلد کی علی بن مھسر سے روایت صحیح ہے ماسوائے ابن رجب حنبلی نے الغلابٰی کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ جمہور محدثین کے خلاف ہےاور اصول میں جمہور کی بات رائج ہوتی ہے الغرض موصوف کا یہ موقف جمہور محدثین کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، نا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي» .
اس روایت کو ابو یحییٰ نور پوری صاحب ضعیف کہہ رہے ہیں کیونکہ اس میں ابو اسحاق السیعبی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں جبکہ اس کے دیگر طرق اور شواہد بھی ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ واقعی علی رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر بھلا برا کہا جاتا تھا
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَجَلِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنَابِرِ؟ قُلْتُ: وَأَنَّى ذَلِكَ؟، قَالَتْ: أَلَيْسَ يُسَبُّ عَلِيٌّ وَمَنْ يُحِبُّهُ فَأَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُحِبُّهُ
مسند ابو یعلی رقم7013
اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہے اس میں ابو یحییٰ نور پوری صاحب اس کے دو رواۃ "السدی" جو کہ "إسماعيل بن عبد الرحمن بن أبى كريمة السدى" ہیں اور دوسرے "عیسیٰ بن عبدالرحمن البجلی ہیں جنہوں نے"السدی "سے روایت کیا ہے انکے درمیان نے انقطاع کا دعوی کی ہے مگر اس پر کوئی دلیل اپنی تقریر میں پیش نہیں کی ہے فقط زبیر علی زئی کے ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 کے صفحہ 21 تا 22 کا حوالہ دیا ہے اور اس میں رسالہ میں فقط اس کے انقطاع کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے مگر اگر اصول حدیث کے مطابق غور کیا جائے تو جمہور کے نذدیک ثقہ معاصرین کی روایت صحیح مانی جاتی ہے جبکہ وہ ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں جیسا یہ دونوں رواۃ کوفی ہیں ماسوائے وہ مدلس ہو یا انقطاع کی کوئی صریح دلیل موجود ہو اور شیخ البانی اس روایت کو اپنے سلسلہ احادیث الصحیحہ میں درج کرکے اسی اصول کو پیش کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں"
قلت: وهذا من أسمج ما رأيت من كلامه؛ فإن السدي تابعي روى عن أنس في "صحيح مسلم "، ورأى جماعة من الصحابة مثل الحسن بن علي، وعبد الله بن عمر، وأبي سعيد، وأبي هريرة كما في "تهذيب المزي "، يضاف إلى ذلك أن السدي لم يرم بتدليس، فيُكتفى في مثله المعاصرة، كما هو مذهب جمهور الحفاظ الأئمة۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ تحت رقم 3332)
اور اس کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں
حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا إِسْمَاعِيل قَالَ حَدثنَا بن عون عَن عُمَير بْن إِسْحَاق قَالَ كَانَ مَرْوَان أَمِيرا علينا سِتّ سِنِين فَكَانَ يسب عليا كل جُمُعَة ثمَّ عزل ثمَّ اسْتعْمل سعيد بن الْعَاصِ سنتَيْن فَكَانَ لَا يسبه ثمَّ أُعِيد مَرْوَان فَكَانَ يسبه
اسنادہ الحسن العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد رقم 4781 جلد 3 ص 176
عمیر بن اسحاق فرماتے ہیں مروان ہم پر ساتھ سال امیر رہا اور وہ ہر جمعہ میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا تھا پھر سعید بن العاص کو سات سال کے لئے امیر بنے اور وہ برا بھلا نہیں کہتے تھے پر دوبارہ جب مروان بنا اس نے دوبارہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
ابو یحییٰ نور پوری صاحب نے" سب "کے مختلف معنی احادیث سے ثابت کیے جن سے انکار نہیں مگر یہاں سب سے مراد برا بھلا ہی کہنا ہے کیونکہ اس کے قرائن موجود ہے چند ایک پیش ہیں
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة
سنن النسائی الکبری رقم 8151)
اس روایت میں صاف الفاظ ہیں" يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة" ایک جنتی کو لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں سب کا مفہوم سے مراد برا بھلا کہنا ہی ہے۔ وگرنہ لعنت کا کیا معنی کریں گے
نوٹ:اس روایت کو بھی ضعیف کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے مگر یہ صحیح ہے اسی فورم پر میری تحقیق موجود ہے اگر بالفرض اس کو ضعیف بھی مان لیا جائے تو اس سے برا بھلا کہنے والا معنی متعین کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ امید کرتے ہیں کہ یہ بھی ابو یحییٰ صاحب کی لاعلمی ہو گی خیانت نہیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
سنن ابوداود رقم 4131)
اس روایت کو بقیہ بن الولید کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ مسند احمد میں اس سند میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے سند پیش ہے
حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟
مسند احمد رقم 17189
اس میںبقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور محدثین کے مطابق جب بقیہ بن الولید سماع کی تصریح کر دے تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
چنانچہ امام نسائی فرماتے ہیں
قال النسائى : إذا قال : " حدثنا و أخبرنا " ، فهو ثقة .
و إذا قال : " عن فلان " فلا يؤخذ عنه ، لأنه لا يدرى عمن أخذه .
تھذیب الکمال للمزی رقم 738)
امام نسائی کے مطابق بقیۃ بن الولید کی سماع کی تصریح والی روایت قابل قبول ہے اوردیگر مقدمین محدثین نے بھی یہی نقل کیا ہے
قَالَ بَقِيَّة إِذا حدث عَن المعروفين مثل بحير بن سعد وَغَيره
اللعل للاحمد رقم3141)
امام احمد بن حنبل نے خاص طور پر بحیر بن سعد کا نام لیا ہے کہ جب بقیہ اس سے روایت کرے(اور سماع کی تصریح بھی ہو) تو اس کی روایت قبول ہوتی ہے
قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سئل أبى عن بقية و إسماعيل بن عياش ، فقال :
بقية أحب إلى ، و إذا حدث عن قوم ليسوا بمعروفين فلا تقبلوه .
حوالہ ایضارقم4128
امام یحیٰی بن معین نے بھی یہی بات نقل کی ہے
قال أبو بكر بن أبى خيثمة : سئل يحيى بن معين عن بقية ، فقال : إذا حدث عن
الثقات مثل صفوان بن عمرو و غيره ، و أما إذا حدث عن أولئك المجهولين فلا :
تھذیب الکمال مزی رقم 728 4/198
اور ابن عبدالھادی نے بقیہ بن الولید کی بحیر بن سعد سماع کی تصریح کے بغیرروایات کو بھی صحیح قرار دیا ہے
وَرِوَايَةُ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرٍ صَحِيحَةٌ، سَوَاءٌ صَرَّحَ بِالْتَّحْدِيثِ أَمْ لا، مَعَ أَنَّهُ قَدْ صَرَّحَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ بِالتَّحْدِيثِ.
تعلیقہ اللعل لابی حاتم جلد 1 ص 157
اور امام احمد بن حنبل نےبقیۃ بن الولید کی بحیر بن سعد کے طریق سے روایت کو جید قرار دیا ہے
قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، ثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلا يُصَلِّي، وَفِي قَدَمِهِ لُمْعَةٌ قَدْرُ الدِّرْهَمِ لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ.
قَالَ الأَثْرَمُ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: هَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ.
اور آخر میں شیخ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے جس کو ابو یحیٰی نور پوری صاحب ضعیف فرما رہے ہیں
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات، وقال المناوي: " قال الحافظ العراقي:
وسنده جيد، وقال غيره: فيه بقية صدوق له مناكير وغرائب وعجائب ".
قلت: ولا منافاة بين القولين، فإن بقية إنما يخشى من تدليسه وهنا قد صرح
بالتحديث كما رأيت وهو في رواية أحمد.
سلسلہ احادیث الصحیحۃ 811)
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت میں بقیہ بن الولید نے سماع کی تصریح کی ہے اور اس کی ثقات سے سماع کی تصریح والی روایات عندالمحدثین قبول ہیں اس لئے یہ روایت حسن ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ موصوف کی خطا ہو گی علمی خیانت نہیں
عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِيٌّ عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ , فَقَالَ: قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ , وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَيَّ وَإِلَى مُعَاوِيَة
مصنف ابن ابی شیبہ رقم 37880)
موصوف مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو ضعیف فرما رہے ہیں جبکہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اس پر موصوف کا اعتراض یہ ہے کہ یزید بن الاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے کچھ روایت نہیں کیا ہے
یزید بن الاصم:
یزید بن الاصم کی وفات ایک 103 ہجری میں ہوئی ہے اور انہوں نے 73 سال عمر پائی ہے (تھذیب التھذیب،الصحابہ فی التمیز الصحابہ)اس بنا پر وہ تقریبا 33 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں اور اس حساب سے علی رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ممکن ہےابن کثیر نے اور امام ذہبی نے ان کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا انکار کیا ہے اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ایک ضعیف روایت میں ان کے سماع کی تصریح ہے چونکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے اس لئے امام ذہبی اور ابن کثیر نے ان کے سماع کا انکار کیا ہے مگر جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے تمام رجال ثقہ ہیں تو اس روایت میں ان کے سماع کی تصریح موجود ہے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے معاصر بھی ہیں اور ایک ہی شہر سے تعلق بھی رکھتے ہیں اس لئےاس اصول حدیث پر اس روایت کو سماع پرمحمول مانا جائے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اس کو شواہد بھی موجود ہیں۔
أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن محمد بن خسرو البلخي قال: أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسين بن أيوب حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن الحسين بن علي الكسائي الهمذاني قال: حدثنا يحيى بن سليمان أبو سعيد الجعفي قال:
حدثنا عبد الله بن إدريس قال: سمعت أبا مالك الأشجعي ذكر عن رجل من أشجع يقال له سالم بن عبيد الأشجعي قال: رأيت عليا بعد صفين وهو آخذ بيدي ونحن نمشي في القتلى فجعل علي يستغفر لهم حتى بلغ قتلى أهل الشام، فقلت له: يا أمير المؤمنين إنا في أصحاب معاوية، فقال علي إنما الحساب علي وعلى معاوية.
بغية الطلب في تاريخ حلب جلد 1 ص297
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت کی شاہد ہے اس میں اسی قسم کے الفاظ ہیں" إنما الحساب علي وعلى معاوية." موجود ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کی شاہد ہیں مگر مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت ہی صحیح اور متصل ہے اس روایت کو شیخ ارشاد الحق اثری نے صحیح قرار دیا ہے (مقام صحابہ ص 167)
ابو یحیٰی نور پوری صاحب نے تاریخ ابن عساکر سے ایک روایت بیان کی اور اس کو حسن کہا ہے جبکہ وہ روایت ضعیف ہے
وأنبأنا أبو طاهر الأصبهاني أنا نصر بن أحمد بن البطر قالا أنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقوية أنا علي بن محمد بن أحمد المصري نا بكر بن سهل نا عبد الله بن يوسف نا ليث نا بكير عن بسر بن سعيد
أن سعد بن أبي وقاص قال ما رأيت أحدا بعد عثمان أقصى بحق من صاحب هذا الباب يعني معاوية
تاریخ ابن عساکر جلد59 ص161
اس میں ایک راوی بکر بن سھل ضعیف ہے اس کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے
حمل الناس عنه، وهو مقارب الحال.
قال النسائي: ضعيف.
میزان الاعتدال رقم1284)
شیخ البانی نے بھی اس کی متعدد روایات کو اس کی وجہ سے ضیف قرار دیا ہے
بكر بن سهل وهو الدمياطي قال النسائي: ضعيف
(سلسلہ الحادیث الضعیفہ رقہ 2827)
[FONT=Arial, sans-serif]آخر میں ۷۲ شہداء کربلا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کسی صحیح سند سے ثابت کریں کہ شہداء کربلا ۷۲ تھے ہم صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں پورے ۷۲ تو نہیں مگر تقریبا ۷۲ ضرور ہیں۔
[/FONT]
اس لئے ہم اب بھی یہی امید کرتے ہیں کہ یہ ابو یحٰیی نور پوری کی لاعلمی ہی ہوگی اور امید کرتے ہیں کہ دفاع صحابہ میں وہ وحی خفی میں لاعلمی کی بنا پرجس خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اس سے رجوع کریں گے۔واللہ اعلم بالصواب۔