• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباعِ سنت کی اہمیت اور جشن میلاد ؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خامساً :
شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع قمع کرتے ہیں۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی ؍ ہدایت پر ہی موقوف ہیں، اب کسی کے لیے نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسولﷺ سے ہمیں ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ أَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲُ…‘‘ (الشوریٰ:۲۱)
’’کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں شریعت مقرر کی ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
نیز شریعت کا یہ ثابت شدہ و مسلمہ قاعدہ ہے کہ باہم متنازع فیہ اُمور میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم نے اس بابت جب دونوں مآخذ کی طرف رجوع کیا تو یہی معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعمال سے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔
نیز سدّ ذرائع اور ازالۂ ضررکا مسلمہ قاعدہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے، اور ضرر فی الدین سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوسکتا ہے؟
یہ معاملہ یہیں پر آکر نہیں رُک جاتا بلکہ ان محفلوں میں منکرات تک کا ارتکاب ہوتا ہے اور شرک باللہ سے بڑھ کر اور کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں رسول اللہﷺ سے دعائیں مانگی جاتیں اور ان سے حاجت روائی کی جاتی ہے۔
مشکل کشائی کی دہائی دی جاتی ہے اور آپﷺ کی شانِ عقیدت میں ایسے نعتیہ مدحیہ قصائد پیش کئے جاتے ہیں جن کے ڈنڈے شرک و غلو سے جاملتے ہیں۔ ان میں اختلاط کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے، مال و دولت کا بے جا اسراف ہوتا ہے، ایک ہنگامہ شوروغوغا برپا ہوتا ہے اور جھوٹے راگ الاپے جاتے ہیں۔باوجود یہ کہ ربیع الاوّل کے جس مہینے میں سرورِ کائنات ﷺ ولادتِ باسعادت سے سرفراز ہوئے، بعینہٖ اسی مہینے میں آپﷺ کی وفات بھی ہوئی تو پھر حزن و ملال کو بالائے طاق رکھ کر مسرت وشادمانیوں کے نغمے الاپنا کہاں سے افضل و اولیٰ قرار پاگئے؟
الغرض ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو ان محفلوں اور مجالس کے لئے مخصوص کرنا، کوتاہ اندیشی اور مؤرخین کے مختلف فیہ اقوال کے ہوتے ہوئے ہویٰ پرستی کے مترادف ہے۔
اب جس نے بھی رسول اللہﷺ کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک رات کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسولﷺ میں مشہور و معروف ہیں، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے لئے دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’کسی بھی ایسے تہوار کو اپنانا جو شریعت کے مقرر کردہ اعیاد و مراسم کے علاوہ ہے، جیسے ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو اس غرض کے لئے مخصوص کرلینا کہ یہی میلاد النبیﷺ کی رات ہے تو یہ بدعت ہے، جسے سلف صالحین نے پسند نہیں فرمایا، نہ ہی عملاً کبھی برتا۔ ‘‘
نیز فرماتے ہیں:
’’میلاد النبیﷺ کو جشن و خوشی کے طور پر منانے کا رواج سلف صالحین میں مقتضائے حال اور عدمِ مانع کے باوجود نہیں رہا۔ اگر یہ خیر محض ہوتا یا راجح مسئلہ ہی ہوتاتو وہ ہم سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہتے، کیونکہ وہ محبت ِرسولﷺ میں ہم سے کہیں زیادہ پیش پیش اور آپﷺ کی تعظیم و احترام کے ہم سے کہیں زیادہ دل دادہ اور خیرو بھلائی کے کاموں میں ہم سے کہیں زیادہ خواہش مند تھے۔‘‘
آگے چل کر فرماتے ہیں:
’’رہا مسئلہ میلاد النبیﷺ کی محافل، اس کی نشستوں اور کارروائیوں میں شرکت، اور رقص وسرود، گانے بجانے کی مجلسوں میں شمولیت اور عبادات کی طرح دلچسپی سے ان کو اختیار کرنے کا تو ان کے منکرات ہونے میں صاحب ِعلم و ایمان کو قطعاً شک و شبہ نہ ہوگا۔ یہ تو وہ منکرات وبدعات ہیں جن سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کوئی جاہل مطلق اور زندیق و فاسق ہی اُنہیں خیر کی نگاہ سے دیکھے گا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۱۰؍۳۷۰،۳۷۱)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
برادرانِ اسلام!
تین قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کے گمراہ کن اعمال میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں:
1۔جاہل و ناداں اور تقلید کے متوالے جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی ان کے نقش ِ پا کے راہی ہیں۔ ان کی مثال اس فرمانِ الٰہی کے موجب ہے
’’ إنَّا وَجَدْنَا اٰبٰائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ فَاِنَّا عَلیٰ اٰ ثارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ ‘‘ (الزخرف:۲۲)
’’ہم نے اپنے آبا کو اسی طریقہ پر پایا لہٰذا ہم ان ہی کے نقوش کے پیروکار ہیں۔‘‘
2۔زر خرید، گھروں کے خادم، اور فساق و فجار جو ان جشنوں کے پس پردہ اکل و شرب، لہو ولعب اور اختلاط و اجتماع کے ذریعے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔
3۔ضلالت و گمراہی کے پرستاران مبلغین اور کینہ پرور دشمنانِ اسلام جو دین کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مشغول ہیں اور لو گوں کو جادۂ سنت سے ہٹا کر بدعات و خرافات کی راہ پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ بدعت کے ان بہی خواہوں کے ذہنوں میں شیطان نے کچھ شبہات پیدا کردیے ہیں۔ اس نے بدعات کو آراستہ و پیراستہ کرکے انکے سامنے پیش کیا، اب وہ اِتراتے پھرتے ہیں کہ اس لبادہ کو عوام پر ڈال دیں۔ حالانکہ یہ شبہات مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ نازک و کمزور ہیں کیونکہ یہ سراسر قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہیں۔
ان کی کم عقلی و خام خیالی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ جشن محبت ’ عقیدتِ رسولﷺ‘ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ میلاد النبی کی یاد مسرتوں کی سوغات ہے اور جو اس سے گریزاں ہے وہ محبت ِرسول کا پاسدار نہیں، حالانکہ یہ دیوانگی اور بے بنیاد دلیل ہے۔ اس طرح کے دعویدار ظن و تخمین کے پرستار اور نفس کے غلام ہیں، اس لئے کہ رسول اللہﷺ سے ہماری محبت کا معیار آپﷺ کی شریعت کی اتباع اور آپﷺ کی سنت کی پابندی میں ہے، نہ کہ گمراہ کن محفلوں کے سجانے اور روشنیوں کی دنیا بسا کر نئے تماشے دکھانے میں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ قُلْ إنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ‘‘(آلِ عمران :۳۱)
’’آپ کہئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
ان کا ایک باطل خیال یہ بھی ہے کہ یہ مجالس و محافل بدعت ِحسنہ ہیں اور ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔لیکن قرآن و سنت میں ایسی دلیل کہاں ہے جس سے اسلام میں بدعت ِحسنہ کی تقسیم نکلتی ہو؟ ان کی خام خیالی یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں : لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آئے ہیں اور ایسی محفلوں کو بغیر کسی اعتراض و نکیر کے بجا لاتے آئے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال و کردار کی پرستش نہیں کرتے، ہم تو صرف قرآن و سنت سے ثابت شدہ حقیقت کو اٹل سمجھ کر مانتے ہیں۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ شیطان نے منکرات کو ان کے سامنے مزین کرکے پیش کیا، اب وہ اُلجھ گئے ہیں اور اس میں بے جا دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ایسی محفلوں میں شرکت کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں، ان پر گرے بلکہ مرے پڑتے ہیں، عصبیت کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں، ان کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے شرعی فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال رکھا ہوا ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے پامال کیا ہے۔ اس راہ میں ان کی زبان نہیں کھلتی، ان کا سر نہیں اُٹھتا، بلا شبہ ان کا یہ رویہ دین میں بصیرت و فراست کی کمی اور واضح جہالت کا نتیجہ ہے۔
بعض لوگ اس خیال و فریب کے شکار ہیں کہ رسول اللہﷺ ان کی ان محفل بدعات وخرافات میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ،آپﷺ کو خوش آمدید کہتے ہیں حالانکہ یہ باطل و جہالت آمیز خیال ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مسلمانانِ گرامی!
ان روشن دلائل و کھلے حقائق اور ان واضح تردیدات کی روشنی میں بدعات کی بے حقیقت پسندیاں کھل کر سامنے آگئیں۔ ان کی قلعی کھل گئی، ان کے دعوؤں کی بنیادیں زمین بوس ہوگئیں، ان کی غلطیاں فاش ہوگئیں۔ محبت ِرسول اللہﷺ اور حق پرستی کا جھوٹا دعویٰ ظاہر ہوگیا۔ اب ہم مسلمانوں اور خصوصاً بدعات میں ملوث ان لوگوں کو بڑے درد و کسک کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ وہ عذابِ آخرت کا خیال کریں، جب وہ بارگاہِ ربّ العالمین کے حضور تہی داماں کھڑے ہوں گے۔
ہم اُنہیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بدعات و خرافات کی جڑیں اُکھاڑ پھینکیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے دوری پیدا کرنے والی چیزیں ہیں اور رسول اللہﷺ کی سنت سے اعراض وگریز کا انداز سکھاتی ہیں۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوجائیں اور ان محافل ومظاہر سے اجتناب کریں کہ ان سے اسلام کے رُخِ زیبا کی شکل بگڑ رہی ہے، اس کے جمالِ جہاں آرا کو نظر لگ رہی ہے، ا س کے حسن و جلال و کمال، اس کی قوت و شوکت اور اس کی ہمہ گیر اسپرٹ پر آنچ آرہی ہے۔ اگر یہ اب بھی اس دعوت و پکار پر لبیک نہیں کہتے تو یہ سمجھ لیجئے کہ یہ خواہشاتِ نفس کے بندے اور ہوس کے مارے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ وَمَنْ أضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہٗ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اﷲِ إنَّ اﷲَ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ‘‘ (القصص:۵۰)
’’اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو، بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
فرزندانِ اسلام!
کب تک ان باطل پرستوں اور اندھیروں میں بھٹکتے پھرو گے؟
کب تک ان خرافات کے جال میں پھنسے رہو گے؟
عقیدہ توحید پہ تمہاری غیرتوں کو کیا ہوگیا ہے؟
کیا رسول اللہﷺ کی سنت سے عملی وابستگی کی تمہاری خواہش و تڑپ ختم ہوگئی ہے؟
انا ﷲ وانا الیہ راجعون
صحیح فرمایا جناب محمد رسول اللہﷺنے :
’’ بدأ الإسلام غریبا وسیعود کما بدأ غریبا فطوبی للغربائ ‘‘
’’اسلام اجنبیت کی حالت میں اُبھرا، پھر وہ اجنبیت کی راہ پر واپس آجائے گا تو مبارک ہیں اجنبی لوگ۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۳۲)
اے مولاے کریم! ہم مسلمانوں کے احوال کی درستگی فرما، ہمیں معاصی اور دین میں بدعات پیدا کرنے سے دور رکھ اور ہمیں سنت سید المرسلینﷺ پر چلنے کی توفیق نصیب فرما۔ آمین یاربّ العالمین!
 
Top