کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
خامساً :
شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع قمع کرتے ہیں۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی ؍ ہدایت پر ہی موقوف ہیں، اب کسی کے لیے نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسولﷺ سے ہمیں ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اب جس نے بھی رسول اللہﷺ کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک رات کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسولﷺ میں مشہور و معروف ہیں، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے لئے دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع قمع کرتے ہیں۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی ؍ ہدایت پر ہی موقوف ہیں، اب کسی کے لیے نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسولﷺ سے ہمیں ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
نیز شریعت کا یہ ثابت شدہ و مسلمہ قاعدہ ہے کہ باہم متنازع فیہ اُمور میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم نے اس بابت جب دونوں مآخذ کی طرف رجوع کیا تو یہی معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعمال سے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔’’ أَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲُ…‘‘ (الشوریٰ:۲۱)
’’کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں شریعت مقرر کی ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
یہ معاملہ یہیں پر آکر نہیں رُک جاتا بلکہ ان محفلوں میں منکرات تک کا ارتکاب ہوتا ہے اور شرک باللہ سے بڑھ کر اور کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں رسول اللہﷺ سے دعائیں مانگی جاتیں اور ان سے حاجت روائی کی جاتی ہے۔نیز سدّ ذرائع اور ازالۂ ضررکا مسلمہ قاعدہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے، اور ضرر فی الدین سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوسکتا ہے؟
الغرض ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو ان محفلوں اور مجالس کے لئے مخصوص کرنا، کوتاہ اندیشی اور مؤرخین کے مختلف فیہ اقوال کے ہوتے ہوئے ہویٰ پرستی کے مترادف ہے۔مشکل کشائی کی دہائی دی جاتی ہے اور آپﷺ کی شانِ عقیدت میں ایسے نعتیہ مدحیہ قصائد پیش کئے جاتے ہیں جن کے ڈنڈے شرک و غلو سے جاملتے ہیں۔ ان میں اختلاط کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے، مال و دولت کا بے جا اسراف ہوتا ہے، ایک ہنگامہ شوروغوغا برپا ہوتا ہے اور جھوٹے راگ الاپے جاتے ہیں۔باوجود یہ کہ ربیع الاوّل کے جس مہینے میں سرورِ کائنات ﷺ ولادتِ باسعادت سے سرفراز ہوئے، بعینہٖ اسی مہینے میں آپﷺ کی وفات بھی ہوئی تو پھر حزن و ملال کو بالائے طاق رکھ کر مسرت وشادمانیوں کے نغمے الاپنا کہاں سے افضل و اولیٰ قرار پاگئے؟
اب جس نے بھی رسول اللہﷺ کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک رات کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسولﷺ میں مشہور و معروف ہیں، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے لئے دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
نیز فرماتے ہیں:’’کسی بھی ایسے تہوار کو اپنانا جو شریعت کے مقرر کردہ اعیاد و مراسم کے علاوہ ہے، جیسے ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو اس غرض کے لئے مخصوص کرلینا کہ یہی میلاد النبیﷺ کی رات ہے تو یہ بدعت ہے، جسے سلف صالحین نے پسند نہیں فرمایا، نہ ہی عملاً کبھی برتا۔ ‘‘
آگے چل کر فرماتے ہیں:’’میلاد النبیﷺ کو جشن و خوشی کے طور پر منانے کا رواج سلف صالحین میں مقتضائے حال اور عدمِ مانع کے باوجود نہیں رہا۔ اگر یہ خیر محض ہوتا یا راجح مسئلہ ہی ہوتاتو وہ ہم سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہتے، کیونکہ وہ محبت ِرسولﷺ میں ہم سے کہیں زیادہ پیش پیش اور آپﷺ کی تعظیم و احترام کے ہم سے کہیں زیادہ دل دادہ اور خیرو بھلائی کے کاموں میں ہم سے کہیں زیادہ خواہش مند تھے۔‘‘
’’رہا مسئلہ میلاد النبیﷺ کی محافل، اس کی نشستوں اور کارروائیوں میں شرکت، اور رقص وسرود، گانے بجانے کی مجلسوں میں شمولیت اور عبادات کی طرح دلچسپی سے ان کو اختیار کرنے کا تو ان کے منکرات ہونے میں صاحب ِعلم و ایمان کو قطعاً شک و شبہ نہ ہوگا۔ یہ تو وہ منکرات وبدعات ہیں جن سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کوئی جاہل مطلق اور زندیق و فاسق ہی اُنہیں خیر کی نگاہ سے دیکھے گا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۱۰؍۳۷۰،۳۷۱)