مسئلہ رویت ہلال
فیس بک پر جامعہ سلفیہ بنارس کے ہمارے سینئر تنویر ذکی مدنی حفظہ اللہ کا ایک مضمون نظر سے گذرا عنوان ہے " مسئلہ رویت ہلال افہام و تفہیم کے دائرہ میں" موصوف زمانہ طالب علمی سے اچھے قلم کار ہیں اس بنیاد پر زبان و بیان کی چاشنی اپنی جگہ برقرار ہے یا یوں کہیے اپنے بعض معروف ہم خیالوں کے مقابلے زبان شائستہ ہے شاید اس لئے بھی کہ یہ موصوف کی اس موضوع پر پہلی تحریر ہے.... ، یقیناً اختلاف دلائل کے ساتھ ہو اور اس میں انا کو دخل نا ہو تو قابل تحسین ہے اور یہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے، رویت ہلال کے دلائل کا جو خلاصہ 1،2،3 نمبر میں آپ نے پیش کیا اس پر کامل یقین کے بعد چند باتیں قابل توجہ ہیں :
میں ذاتی طور پر رویت ہلال کے سلسلے میں ان علماء کرام کے ساتھ ہوں جو رویت ہلال میں اختلاف مطالع کے قائل ہیں؛
میرے نذدیک اختلاف مطالع کی ترجیح کا سب سے بڑا سبب ایک ہی دن میں تمام دنیا میں چاند کی رویت کا متحقق نا ہونا ہے رہی بات مومنین کی شہادت کو قبول کرنے کی تو اس سے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں،
(1) رویت کے لئے شریعت کا پہلا حکم چاند کی رویت ہے اگر چاند کی رویت بظاہر نا ہو تو نمبر آتا ہے نمبر دو یا تین کا اب سوال یہ ہے کہ جس جگہ چاند کی رویت ممکن ہی نہیں وہاں ایسی جگہ کی رویت کیسے معتبر ہوگی جس کا مطلع الگ ہے؟
(2) مؤمنین کی شہادت کو قبول کرنا اور اور اس شہادت کے مطابق عمل کرنا دو الگ الگ معاملے ہیں، شہادت قبول کرنے میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے رہی دوسری بات تو وہ احوال کے اعتبار سے مختلف ہے اور شاید اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے ایک مثال سے اس کو سمجھتے ہیں مان لیجئے سعودی میں کسی کا انتقال ہو جاتا ہے اور کسی مؤمن سے اس کی ہم کو اطلاع مل جاتی ہے تو ہم اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر کفن دفن کا انتظام ہندوستان میں نہیں کرنے لگ جاتے محض اس بنیاد پر اس کی گواہی مؤمنین نے دی ہے؟ یہاں ایک تیسری بات اور قابل غور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے نمبر پر مطلع کے ابر آلود ہونے کی صورت میں دوسری جگہ سے رویت ہلال کی خبر منگانے کا نا تو حکم دیا اور نا ہی اس کا اہتمام کیا باوجود اس کے عموماً ہر جگہ مطلع ابر آلود نہیں ہوتا؟
مسافت کی حد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے ایک نیا اختلاف (تمام دنیا کے لئے مکہ کی رویت کافی ہے) قائم کر لینا اور اس کو اتحاد کا نام دے دینا کسی طور مناسب نہیں اور یقیناً یہ انتشار ہی کے قبیل سے ہے،
پہلے زمانہ میں مسافت کی تحدید میں جو اختلاف تھا وہ ویسا ہی اختلاف تھا جو زمین کی گولائی یا چوڑائی کو لیکر رہا لیکن آج دلائل سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ زمیں گول ہے، ایسے ہی مطلع کا اختلاف بھی بدیہی طور پر ثابت ہو چکا ہے،
اگر نصوص کو غور سے دیکھیں تو نصوص میں مسافت کی حد بندی بھی موجود ہے بس شرط انا کی عینک کو اتارنے کی ہے، ہاں یہ بات ضرور ہے اس کی حد بندی آپ کلو میٹر یا میل میں تلاش کرنا شروع کر دیں تو وہ آپ کو نہیں ملے گی، ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند کی رویت کہاں ممکن ہے اور کہاں نہیں اس کو حل کیا جا سکتا ہے
معاشرتی طور پر کیا بات أقرب الی الصواب لگتی ہے اور واقعۃ و شرعا کیا أقرب الی الصواب ہے؟ یہ الگ الگ دو باتیں ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے بظاہر حق کچھ لگتا ہے جبکہ ہوتا کچھ اور ہے، ایسا ہی یہاں پر بھی ہے آپ کو حق یہ لگتا ہے کہ مسافت کی حد بندی نہیں ہونا چاہیے جبکہ نصوص پر غور کریں تو حد بندی نصوص سے ثابت ہے چنانچہ صوم و افطار رویت ہلال پر معلق ہیں اور یہ متعین ہے کہ رویت ہلال ایک ہی دن میں دنیا میں ہر جگہ متحقق نہیں ہوتی جس کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے رہی بات شہادت کی تو وہ بھی اپنے محل میں قابل قبول ہے اس سے کسی کو انکار نہیں،
نصف صدی سے پہلے یا اب (باستثناء بعض) تک مسافت کی حد بندی کا جو دائرہ وسیع ہوا وہ ایک حد تک تھا اور شرعی حدود میں تھا آپ ان میں سے کسی کو بھی مطلع کے باہر نہیں ثابت کر سکتے؟ علماء امت نے استقراء کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عموماً کیرلہ و مغرب میں ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر ہندوستان اور بعض دوسرے قریبی ممالک کا مطلع ایک ہے اس کی بنیاد پر ایک یا دو ہزار کلومیٹر یا اس سے کم و بیش کی دوری پر ایک ہی ساتھ صوم و افطار کا ہونا شرعی حد بندی کے نا تو خلاف ہے اور نا ہی اس میں اتحاد رویت والوں کے لئے کوئی دلیل؟
اصل مسئلہ رویت ہلال کا ہے اور اسی سے مسافت کی حد بندی ثابت ہوتی ہے اور رہی بات شہادت کی اگر شہادت اپنے دائرے میں ہے تو بر وقت یا دیر سویر سے کچھ فرق نہیں پڑتا سوائے اس کے کہ اگر إفطا کی خبر زوال سے پہلے ملی تو اسی دن عید نماز عید ہوگی اور خبر زوال کے بعد ملی تو روزہ پھر بھی نہیں رکھنا ہے البتہ نماز عید آنے والے دن پڑھی جائے گی اور اگر رمضان کی خبر ایک دن پہلے کی ملی تو بعد میں ایک روزہ پورا کرنا ہوگا بس! شہادت ایسے جگہ سے جس کا مطلع مختلف ہے بر وقت ملے یا نا ملے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا! اور اس حد تک مسافت کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں
فقط والسلام ورحمتہ و برکاتہ
ابو طلحہ عبد الخبیر السلفی بدایوں