• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتحاد رویت کے ایک مجہول دعوےدار کے چند سوالات اور ان کے معقول اور مدلل جوابات

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مسئلہ رویت ہلال


فیس بک پر جامعہ سلفیہ بنارس کے ہمارے سینئر تنویر ذکی مدنی حفظہ اللہ کا ایک مضمون نظر سے گذرا عنوان ہے " مسئلہ رویت ہلال افہام و تفہیم کے دائرہ میں" موصوف زمانہ طالب علمی سے اچھے قلم کار ہیں اس بنیاد پر زبان و بیان کی چاشنی اپنی جگہ برقرار ہے یا یوں کہیے اپنے بعض معروف ہم خیالوں کے مقابلے زبان شائستہ ہے شاید اس لئے بھی کہ یہ موصوف کی اس موضوع پر پہلی تحریر ہے.... ، یقیناً اختلاف دلائل کے ساتھ ہو اور اس میں انا کو دخل نا ہو تو قابل تحسین ہے اور یہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے، رویت ہلال کے دلائل کا جو خلاصہ 1،2،3 نمبر میں آپ نے پیش کیا اس پر کامل یقین کے بعد چند باتیں قابل توجہ ہیں :
میں ذاتی طور پر رویت ہلال کے سلسلے میں ان علماء کرام کے ساتھ ہوں جو رویت ہلال میں اختلاف مطالع کے قائل ہیں؛
میرے نذدیک اختلاف مطالع کی ترجیح کا سب سے بڑا سبب ایک ہی دن میں تمام دنیا میں چاند کی رویت کا متحقق نا ہونا ہے رہی بات مومنین کی شہادت کو قبول کرنے کی تو اس سے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں،
(1) رویت کے لئے شریعت کا پہلا حکم چاند کی رویت ہے اگر چاند کی رویت بظاہر نا ہو تو نمبر آتا ہے نمبر دو یا تین کا اب سوال یہ ہے کہ جس جگہ چاند کی رویت ممکن ہی نہیں وہاں ایسی جگہ کی رویت کیسے معتبر ہوگی جس کا مطلع الگ ہے؟
(2) مؤمنین کی شہادت کو قبول کرنا اور اور اس شہادت کے مطابق عمل کرنا دو الگ الگ معاملے ہیں، شہادت قبول کرنے میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے رہی دوسری بات تو وہ احوال کے اعتبار سے مختلف ہے اور شاید اس میں بھی کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے ایک مثال سے اس کو سمجھتے ہیں مان لیجئے سعودی میں کسی کا انتقال ہو جاتا ہے اور کسی مؤمن سے اس کی ہم کو اطلاع مل جاتی ہے تو ہم اس کی شہادت کو قبول کرتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر کفن دفن کا انتظام ہندوستان میں نہیں کرنے لگ جاتے محض اس بنیاد پر اس کی گواہی مؤمنین نے دی ہے؟ یہاں ایک تیسری بات اور قابل غور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے نمبر پر مطلع کے ابر آلود ہونے کی صورت میں دوسری جگہ سے رویت ہلال کی خبر منگانے کا نا تو حکم دیا اور نا ہی اس کا اہتمام کیا باوجود اس کے عموماً ہر جگہ مطلع ابر آلود نہیں ہوتا؟
مسافت کی حد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے ایک نیا اختلاف (تمام دنیا کے لئے مکہ کی رویت کافی ہے) قائم کر لینا اور اس کو اتحاد کا نام دے دینا کسی طور مناسب نہیں اور یقیناً یہ انتشار ہی کے قبیل سے ہے،
پہلے زمانہ میں مسافت کی تحدید میں جو اختلاف تھا وہ ویسا ہی اختلاف تھا جو زمین کی گولائی یا چوڑائی کو لیکر رہا لیکن آج دلائل سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ زمیں گول ہے، ایسے ہی مطلع کا اختلاف بھی بدیہی طور پر ثابت ہو چکا ہے،
اگر نصوص کو غور سے دیکھیں تو نصوص میں مسافت کی حد بندی بھی موجود ہے بس شرط انا کی عینک کو اتارنے کی ہے، ہاں یہ بات ضرور ہے اس کی حد بندی آپ کلو میٹر یا میل میں تلاش کرنا شروع کر دیں تو وہ آپ کو نہیں ملے گی، ٹیکنالوجی کی مدد سے چاند کی رویت کہاں ممکن ہے اور کہاں نہیں اس کو حل کیا جا سکتا ہے
معاشرتی طور پر کیا بات أقرب الی الصواب لگتی ہے اور واقعۃ و شرعا کیا أقرب الی الصواب ہے؟ یہ الگ الگ دو باتیں ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے بظاہر حق کچھ لگتا ہے جبکہ ہوتا کچھ اور ہے، ایسا ہی یہاں پر بھی ہے آپ کو حق یہ لگتا ہے کہ مسافت کی حد بندی نہیں ہونا چاہیے جبکہ نصوص پر غور کریں تو حد بندی نصوص سے ثابت ہے چنانچہ صوم و افطار رویت ہلال پر معلق ہیں اور یہ متعین ہے کہ رویت ہلال ایک ہی دن میں دنیا میں ہر جگہ متحقق نہیں ہوتی جس کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے رہی بات شہادت کی تو وہ بھی اپنے محل میں قابل قبول ہے اس سے کسی کو انکار نہیں،
نصف صدی سے پہلے یا اب (باستثناء بعض) تک مسافت کی حد بندی کا جو دائرہ وسیع ہوا وہ ایک حد تک تھا اور شرعی حدود میں تھا آپ ان میں سے کسی کو بھی مطلع کے باہر نہیں ثابت کر سکتے؟ علماء امت نے استقراء کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عموماً کیرلہ و مغرب میں ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر ہندوستان اور بعض دوسرے قریبی ممالک کا مطلع ایک ہے اس کی بنیاد پر ایک یا دو ہزار کلومیٹر یا اس سے کم و بیش کی دوری پر ایک ہی ساتھ صوم و افطار کا ہونا شرعی حد بندی کے نا تو خلاف ہے اور نا ہی اس میں اتحاد رویت والوں کے لئے کوئی دلیل؟
اصل مسئلہ رویت ہلال کا ہے اور اسی سے مسافت کی حد بندی ثابت ہوتی ہے اور رہی بات شہادت کی اگر شہادت اپنے دائرے میں ہے تو بر وقت یا دیر سویر سے کچھ فرق نہیں پڑتا سوائے اس کے کہ اگر إفطا کی خبر زوال سے پہلے ملی تو اسی دن عید نماز عید ہوگی اور خبر زوال کے بعد ملی تو روزہ پھر بھی نہیں رکھنا ہے البتہ نماز عید آنے والے دن پڑھی جائے گی اور اگر رمضان کی خبر ایک دن پہلے کی ملی تو بعد میں ایک روزہ پورا کرنا ہوگا بس! شہادت ایسے جگہ سے جس کا مطلع مختلف ہے بر وقت ملے یا نا ملے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا! اور اس حد تک مسافت کے دائرے کو وسیع کرنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں
فقط والسلام ورحمتہ و برکاتہ
ابو طلحہ عبد الخبیر السلفی بدایوں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
تعنت اور تعصب کا شکار میں بھی نہیں ہوں اور نا ہی جامد مقلد بلکہ ہم سب حق کے متلاشی ہیں، آپ نے دوسروں پر تنقید کئے بغیر اپنے موقف کو رکھا اس کے لئے قابل مبارک باد ہیں، بس آپ سے ایک شکایت ہے آپ نے اختلاف مطالع کے قائل حضرات کو تو تنقید کا نشانہ بنایا اور شوسل میڈیا پر لکھنے والے ایک عالم دین پر تو تنقید کی لیکن آپ نے اپنے ہم خیال معروف داعی اور عالم دین کی بد زبانی کا ذرا برابر کوئی تذکرہ نہیں کیا جبکہ آپ کے یہ معروف داعی آپ ہی کی پوسٹ پر مخالفین علماء کا نام لیکر" بد تمیز " جیسے نا زیبا الفاظ لکھ رہیں ہیں؟ ان معروف داعی صاحب نے کچھ نوازشات میرے پرسنل واٹساپ پر بھی کی ہیں جنہیں میں اللہ کے حوالے کرتا ہوں، اسی طرح آپ کے یہ معروف داعی مخالفین کو مقلد وغیرہ کے القاب سے نوازتے رہتے ہیں ان تمام چیزوں پر آپ کی خاموشی مجھے حیرت میں ڈالتی ہے! بہرحال اگر واقعی آپ کو مخالفین کی زیادتیوں کا شکوہ ہے تو اپنے گریباں میں بھی جھانکنا ہوگا.
آپ کے مطابق وحدت کی ترجیح کا سب سے بڑا سبب مؤمنین کی شہادت کو قبول کرنا ہے جبکہ آپ اس معاملے میں تو شہادت کو قبول کر لے رہے ہیں اور جو آپ کے مخالف چیزیں ہیں ان میں مؤمنین کی شہادت کو ٹھینگا دکھا دیتے ہیں بلکہ اس کو التباس کا لیبل لگا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں جبکہ اس بات سے شاید آپ کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ وقت کے اختلاف کی طرح چاند کی رویت بھی ایک ہی دن تمام دنیا میں نہیں ہوتی؟ آپ کی معلومات کے لئے عرض کروں مؤمنین کی شہادت کی تردید کوئی نہیں کرتا اور آپ کا اشاروں میں اختلاف مطالع کے قائل حضرات پر اس کی تردید کا الزام لگانا قطعی مناسب نہیں ہے آپ کو معلوم ہونا چاہیے شہادت کو ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں آپ کی پریشانی یہ کہ آپ دونوں کو ایک سمجھ رہے ہیں،
اصل اختلاف مسافت کی حد بندی کا نہیں بلکہ آپ کا اور اختلاف رویت والوں کا اصل اختلاف چاند کی رویت ہے آپ چاند کی ایک جگہ کی رویت تمام جگہ کے لئے مان رہے ہیں اگرچہ دوسری جگہ چاند کی رویت ہوئی ہی نا ہو؟ جبکہ اختلاف والوں کا کہنا یہ ہے کہ چاند کی رویت کا اعتبار وہیں تک ہے جہاں تک چاند کا دکھنا ممکن ہے، رہی بات مسافت کی حد میں اختلاف کی تو یہ اس زمانے کے وسائل کی کمی کی بنیاد پر ہوا جس نے یہ سمجھا کہ چاند کی رویت 48 میل پر مختلف ہو جاتی ہے اس نے 48 کہا اور جس نے اس سے کم و بیش سمجھا اس نے اس کے مطابق کہہ دیا اور جس نے یہ سمجھا کہ چاند کی رویت پوری روئے زمین پر ہوتی ہے اس نے اپنے علم کے رویت بلا قید زمان و مکان کے کہہ دیا، اگر آپ انصاف سے دیکھیں تو یہی معاملہ رہا لیکن آج ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے کہ چاند کی رویت ایک ہی دفع میں تمام روئے زمیں پر نہیں ہوتی تو جس جگہ رویت ہوتی ہی نہیں وہاں دوسری جگہ کی شہادت قبول کرکے اس کے مطابق عمل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اور اس کو نا سمجھ کر محض جذباتیت کا سہارا لیکر یہ کہنا کہ ہفتہ کی عید ایک ہو سکتی ہے تو سالانہ عید کیوں نہیں؟ محض جذباتیت اور غیروں سے مرعوبیت ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہی وہ طریقہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے سیکھا جس کی جھلک آپ کو حدیث کریب میں ملے گی اور محدثین امت نے اس حدیث پر ابواب قائم کرکے بات کو مزید واضح کر دیا، یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ بعض علماء کی قائم کی ہوئی مسافت کی حد بندی کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن ایک ہی دن میں بعض جگہ رویت اور عدم رویت کے معلوم ہونے کے بعد مطلقاً حد بندی کا انکار کر دینا بلا دلیل ہے صحیح یہی ہے رویت کے امکان کے ساتھ جہاں تک رویت کی خبر پہنچے قبول کرنا ضروری ہے اور اگر رویت کا امکان نا ہو پھر بھی شہادت کو قبول کر لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے، نصف صدی کیا اب تک باستثناء بعض اسی نظریہ پر شہادت کو قبول کرتے آئے ہیں اور اس میں آپ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، رہی بات بر وقت شہادت کے پہنچنے کی تو یہ صرف دل بہلانے کا اک ذریعہ ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بر وقت خبر نہیں ملی اس کے باوجود آپ نے روزے کو یہ کہہ برقرار نہیں رکھاکہ ہمیں رویت کی خبر بر وقت نہیں ملی بلکہ روزہ توڑ کر دوسرے دن عید منانے کا فیصلہ کیا آپ ایک بھی ایسی مثال نہیں دکھا سکتے جس میں رمضان کی رویت کی خبر بعد میں ملی ہو اور اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹے ہوئے روزے کی قضا نا کی ہو؟
اگر نظام شمسی اور نظام قمری آپ کی نظر میں محض التباس ہے اور یہ ایسا ہی تو پھر آپ سے إختلاف مطالع والوں کا مطالبہ جائز ہے آپ کو کہنا ہوگا دنیا میں سحر و افطار ایک ہی وقت ہونا چاہیے آپ کو معلوم ہونا چاہئے روزہ رکھنا الگ عبادت ہے اور مہینہ کی ابتداء کہاں اور کب سے ہوگی الگ مسئلہ ہے آپ کا دونوں کو ایک ساتھ لیکر چلنا یہی اصل غلطی کی وجہ ہے آپ کو معلوم ہونا چاہیے طلوع یا غروب شمس سے وقت بدلتا ہے اور طلوع قمر سے تاریخ یا مہینہ بدلتا ہے اور شمس چوبیس گھنٹے میں اپنا چکر زمین پر پورا کر لیتا ہے جبکہ چاند چکر پورا کرنے میں شمس کی طرح نہیں ہے اسی بنیاد پر تاریخوں کا فرق زمانہ قدیم سے چلا آیا ہے جس کی تبدیلی شریعت نے بھی نہیں کی ہے، اور آپ نے جو مثال بیان کی ہے کہ" مبادا شوال کی پہلی تاریخ کو إتفاق سے جمعہ کا دن ہو جائے تو ہمیں اس دن پوری دنیا میں بدلتے ہوئے ٹائمنگ کے اختلاف کے ساتھ ایک ہی دن میں جمعہ پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو پھر اسی دن بدلتے ہوئے ٹائمنگ کے اختلاف کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنے میں کیا پریشانی ہے؟ " میرے محترم شیخ آپ کی یہ خواہش شرعاً اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب چاند بھی اپنی پہلی تاریخ کی ابتداء سورج کی طرح ابعد مشرق سے ظاہر ہو کر کرے اور یہ آپ کے ہاتھ میں نہیں، محترم شیخ قیاس مع الفارق اگر کوئی چیز ہے تو یہ اس کی سب سے اعلی مثال ہے، اللہ ہمیں اختلاف و انتشار سے بچائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
فقط والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابو طلحہ عبد الخبیر السلفی بدایوں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
"إذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال" کی بیساکھی

تحریر : عبد الخبیر السلفی
روایت کریب کو رد کرنے کے لئے اتحادی لوگ اس قاعدے کو پیش کرتے ہیں جبکہ یہ قاعدہ علی الإطلاق درست نہیں، کیونکہ اس کی رو سے شاید ہی کوئی مسئلہ ہو گا جس میں احتمال پیش نا کیا جا سکے؟
جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان " والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء" یعنی مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین "قروء " روکے رکھیں
"قروء" کے معنی میں احتمال ہے اس کا معنی حیض بھی ہے اور طھر بھی ہے جو حیض کے ایک دم مقابلہ میں ہے، کیا اس قاعدے کی بنیاد پر اس آیت کے حکم کو باطل کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً ہر ذی عقل یہی کہے گا اس قاعدے کی رو سے ایسا کہنا بالکل غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ جب احتمال کسی نص میں ہو تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان میں کون سا احتمال قوی ہے اور کون سا ضعیف (مشکوک یا وہم) ؟ قوی کو لیا جائے گا ضعیف کو چھوڑ دیا جائے گا، اسی طرح راجح اور مرجوح میں راجح کو لیا جائے گا اور مرجوح کو چھوڑ دیا جائے گا ہاں اگر احتمال دونوں مساوی ہیں تو ان میں قرائن کی بنیاد پر ایک کو راجح اور دوسرے کو مرجوح مان کر مرجوح کو رد کر دیا جائے گا، اسی آیت کریمہ کو لے لیں حدیث میں وضاحت ہونے کی وجہ سے " قروء" کا معنی حیض راجح ہے
اتحادیوں کی جانب سے روایت کریب میں جو احتمال قائم کئے جاتے ہیں وہ سرے سے احتمال ہیں ہی نہیں،
اتحادیوں کی طرف سے اس میں یہ احتمال بڑی شد مد کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ روایت کریب میں ایک آدمی کی گواہی ہونے کی وجہ سے ممکن ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو نا مانا ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ احتمال کئی وجہ سے درست نہیں ہے
پہلی وجہ یہ گواہی نہیں روایت ہے
اور روایات بہت ہیں جن میں ایک آدمی ہی کی بات مانی جاتی ہے بخاری شریف کی مشہور اور پہلی ہی حدیث " إنما الأعمال بالنيات " اس میں لگاتار ایک ہی ایک راوی ہیں
دوسری وجہ یہ رمضان کے چاند کا معاملہ تھا اس میں اکیلے کی گواہی بھی کافی ہے
تیسری وجہ اس میں اکیلے کی گواہی نہیں بلکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ و اہل شام اور خود کریب رحمہ اللہ کی بھی گواہی ہے اس کو اکیلے کی گواہی کہہ کر رد کر دینا امر واقع کے خلاف ہے
پھر یہ ثابت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جو معنی سمجھا اس کی موجود کسی بھی صحابی نے مخالفت نہیں کی
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے شام کی رویت کو نہیں مانا اور یہ کہا کہ ہم یا تو چاند دیکھ لیں یا پھر تیس گنتی پوری کریں گے
یاد رہے روایت کریب اختلاف مطالع کے معتبر ہونے کی دلیل ہے مطلع کی حد بندی نہیں کرتی، اگر یہ مطلع کی حد بندی کرتی تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے کہ ہمارا اور اہل شام کا مطلع مختلف ہے اس لئے ہم وہاں کی رویت قبول نہیں کریں گے انہوں نے کہا ہم یا تو رویت کر لیں یا مہینے کی گنتی تیس پوری کریں گے یہی وجہ ہے محدثین نے اس پر جو أبواب قائم کئے ہیں وہ مطلع کے معتبر ہونے پر دلالت کرتے ہیں کسی نے یہ باب قائم نہیں کیا کہ مدینہ اور شام کا مطلع مختلف ہوتا ہے
 
Top