شیخ
@خضر حیات محترم، انکا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کا عزاب یا قتال اتمام حجت کے بعد ہوتا ہے، اور اللہ اس وقت تک عزاب نہیں بھیجتا جب تک کوئی رسول مبعوث نہ فرما دے، اور رسول کو اللہ بزریعہ وحی اطلاع دیتا ہے کہ اس قوم نے "جانتے بوجھتے" اپکا انکار کیا، اس لیئے ان پر عذاب نازل ہوگا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ عذاب کفار کے خلاف قتال کر کے نازل کیا گیا اور صحابہ نے بھی انہی لوگوں سے قتال کیا جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ اسلم نے اپنی حیات میں حکم دیا تھا۔ اگرچہ اکثر جنگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ہوئیں، مگر ان جنگوں کا حکم بھی اللہ کے نبی نے اپنی زندگی میں دے دیا تھا۔ اس لیئے نبی ہی جانتا ہے کہ اتمام حجت ہوا کہ نہیں، اگر نہیں ہوا تو قتال نہیں شروع ہو سکتا، اور اتمام حجت کی خبر نبی کو اللہ ہی دیتا ہے، اس لیئے آج نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، وحی بند ہے، اس لیئے اتمام حجت ممکن نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ہے کہ اتمام حجت کا صحیح مفہوم کیا ہے، اور کیا یہ بات با دلائل درست ہے کہ نبی کے علاوہ کوئی اتمام حجت نہیں کر سکتا۔
اس بات کو غامدی صاحب یوں بیان کرتے ہیں:
"
قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:
اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔'' (میزان، ص ٤٨، ٤٩)
غامدی کے نزدیک یہ اقدامات (قتال و جہاد) چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
''اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
اور لکھتے ہیں:
یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ (میزان، ص ٦٠١)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"قرآن کا ارشاد ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بغیر یہ عذاب کسی قوم پر کبھی نہیں آیا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً‘* (ہم کبھی سزا نہیں دیتے، جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں)۔ اِس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ اتمام حجت کس طرح ہوتا ہے؟ قرآن کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
اولاً، خدا کا رسول دنیا میں موجود ہو اور وہ کسی قوم کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے۔
ثانیاً، قوم کو اتنی مہلت دی جائے کہ اُس کے لوگ اگر چاہیں تو رسول کو آ کر دیکھیں اور اُس کی زبان سے براہ راست خدا کاپیغام سنیں، اِس لیے کہ روے و آواز پیمبر معجزہ ست۔
ثالثاً، رسول اور اُس کے ساتھیوں کے ساتھ خدا کی معیت کا ظہور اُن کی آنکھوں کے سامنے اور اِس شان کے ساتھ ہو جائے کہ اُس کے بارے میں کوئی دوسری راے قائم کرنا ممکن نہ ہو۔"
اس سب بحث کا حاصل یہ ہے کہ اتمام حجت کا قائم ہونا نبی کے ساتھ خاص ہے، نبی موجود نہیں تو اتمام حجت ہونا نا ممکن، اس لیئے مشرکین کے خلاف اقدامی جہاد منسوخ۔
یہ وہ بحث ہے جو آجکل، جب کے عالمی میڈیا اور لوکل این جی اوز اسلام کے خلاف اور خصوصاَ فلسفہ جہاد کے خلاف ایک محاز کھڑا کر رہی ہیں، ٹی پر غامدی صاحب، اور سوشل میڈیا اور رسائل میں ان کے حامی بہت زور و شور سے پہیلا رہے ہیں۔ محدث کے کسی شمارے میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیئے۔ جزاک اللہ۔
@ابوالحسن علوی ، @کفایت اللہ ، @انس ، @اسحاق سلفی ، @محمد آصف مغل ، @محمد ارسلان ، @محمد زاہد بن فیض ، و دیگر برادران اسلامی۔۔۔
شکریہ عثمان بھائی آپ نے مجھے ٹیگ کیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ میں نے پاکستان نیوی میں کم و بیش 22 سال گزارے ہیں۔
لہٰذا
پاکستان میں جہاد،
پاکستانی تنظیموں کا جہاد،
پاکستان کے لئے جہاد،
پاکستانی عوام کے لئے جہاد،
وغیرہ وغیرہ
ان چیزوں پر میرا نکتہ نظر وہ سمجھ سکتا ہے
جس نےپاکستانی فورسز میں قید بامشقت کاٹی ہو۔
آپ نے میری عزت افزائی فرمائی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
اپنا نکتہ نظر بیان کروں گا تو لوگ مجھ سے دُور بھاگیں گے۔ اس لئے، احتیاط کے پیش نظر خاموشی میں ہی بہتری سمجھ آتی ہے۔
میری پوسٹیں اپیئر نہیں ہو رہی تھیں اس لئے لکھ نہیں رہا تھا۔ شاید یہ پوسٹ بھی تبدیل کر دی جائے یا روک دی جائے۔ اللہ اعلم بالصواب۔
آپ کا بہت بہت شکریہ
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ