• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتنی کرپشن‘ اتنی چوری ؟؟؟

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
اتنی کرپشن‘ اتنی چوری ؟؟؟

یہ اسامہ بن زیدؓ ہیں نبی کریم ﷺ کو صحابہ کرام میں سب سے پیارے جیسا کہ آپ ﷺ نے کہا ہے: ’’ اے میرے صحابہ ! اسامہ مجھے تم سب سے زیادہ پیارا ہے‘ اس سے اچھا سلوک کرنا ‘‘۔

حضرت اسامہؓ شاہ امم سلطانہ مدینہ ﷺکی خدمت اقدس میں سفارش لے کر آئے ہیں کہ قبیلہ بنو مخزوم کی جس عورت نے چوری کی ہے اور جس پر اللہ کےقانون کے مطابق شرعی حد نافذ ہو چکا ہے ’’ اسکا ہاتھ نہ کاٹا جائے‘‘۔

شفارش سنتے ہی آپ ﷺکے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺنے فرمایا : ’’ تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔‘‘

نبی کریم ﷺکو غضبناک دیکھ کرحضرت اسامہؓ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو آپؓ صرف اتنا کہہ سکے: ’’ یا رسول اللہ ! میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے -‘‘

پھر دوپہر کے بعد نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’ تم میں سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہو گئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺکی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرلے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا‘‘۔

لہذا آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور اس کی شادی بھی ہوگئی۔
بعد میں وہ عورت جب بھی آپ ﷺ کے پاس آتی تو آپ ﷺ اس کی مدد کرتے۔ (صحیح البخاری و مسلم)

چوری کرنا اتنا بڑا جرم ہے اور ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کی سزا اللہ تعالیٰ کے طرف سے’ ہاتھ کاٹنا ‘ مقرر ہے:

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (سورة المائدة: آیت نمبر۳۸)
’’ اور چور، خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ ان کے کر توتوں کے عوض میں اللہ کی طرف سے بطور عبرتناک سزا کے ۔ اللہ زبردست ہے، بڑا حکمت والا ہے‘‘۔

اور اس سزا کو ’ نَكَالًا مِّنَ اللّٰه ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’عبرت ناک سزا ‘ کہا گیا ہے۔ یعنی چوری کرنے والے شخص کو معاشرے میں عبرت کا نمونہ بنا کر چھوڑ دیا جائے تاکہ کوئی اور چوری کرنے کی جراٴت نہ کر سکے۔ لیکن عبرت کا نمونہ نہ بننے کی وجہ سے آج پاکستانی معاشرے کو اس سے بڑی بڑی اور ایسی ایسی سنگین کرپشن نے گھیر لیا ہے کہ چوری کرنا تو کوئی جرم ہی نہیں رہا اور خاص و عام ‘ ہر کوئی چوری کرنے کے گھناوٴنے جرم میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

لہذا آج
کوئی سرکاری خزانے چراتا ہے تو کوئی چائنا کٹنگ کرتا ہے۔
کوئی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر لوٹتا ہے تو کوئی پارلیمنٹ سے باہر بھتہ وصول کرتا ہے۔
کوئی پارلیمنٹ ‘ دفتروں اور بازاروں میں چوری کرتا ہے تو کوئی کارخانوں اور کھَلْیانوں میں -
کوئی سرکاری اداروں میں رہ کر چوری کرتا ہے تو کوئی پرائیویٹ اداروں میں رہ کر-
کوئی آفس اسٹیشنری چراتا ہے تو کوئی آفس دیر سے آکر وقت کی چوری کرتا ہے-
کوئی بنک سے قرض لے کر معاف کراتا ہے تو کوئی آف شور کمپنیاں بناتا ہے۔
کوئی بنک میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو کوئی دوکان و مکان کا صفایا کرتا ہے-
کوئی ٹیکس چوری کرتا ہے تو کوئی اکاوٴنٹ میں خرد برد کرتا ہے-
کوئی ریوالور دکھا کر چھینتا ہے تو کوئی اپنے عہدے کا دھونس جما کر-
کوئی بازار میں لوٹتا ہے تو کوئی محلے کے نکڑ اور گھر کی دہلیز پر-
کوئی تھا نہ میں چوری کرتا ہے تو کوئی کوٹ و کچہری میں-
کوئی پرس و موبائل چھینتا ہے تو کوئی کار چوری کرتا ہے-
کوئی بجلی چور ہے تو کوئی گیس چور اور کوئی پانی چور-
کوئی مال و دولت کا چور ہے تو کوئی عزت و آبرو کا چور-
کوئی غریب کا بچہ چرا کر بیچ ڈالتا ہے تو کوئی امیر کا بچہ چرا کر تاوان مانگتا ہے-
کوئی غربت مٹانے کے لئے چوری کرتا ہے تو کوئی امارت بڑھانے کے لئے-
یہاں غریب اپنے بچے کو روٹی کپڑا دینے کے لئے چراتا ہے تو امیر اپنے بچے کو ٹھاٹ باٹ کرانے کے لئے-
یہاں چور بھی چور ہیں اور محافظ و پہرے دار بھی چور-
یہاں کے منصب بھی چور ہیں اور حکمراں بھی چور-
یہاں غریب بھی چور ہیں اور امیر بھی چور-
یہاں چھوٹے چور بھی ہیں اور بڑے چور بھی ہیں۔
یہاں جو جتنا بڑا ہے اُتنا بڑا چور ہے-​

۔۔۔ لیکن تمام تر چوری کرنے کے باوجود ۔۔۔ سب مسلمان ہیں ۔۔۔ سب ہی مومن ہیں ۔۔۔

جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :’’چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ‘‘۔۔۔ یعنی بندہ چوری کرنے کے عمل کے دوران ’ مومن ‘ نہیں رہتا۔(صحیح بخاری : حدیث نمبر 5578 ، 2475)

اب اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں وطنِ عزیز میں ہر عام و خاص جو اُوپر بیان کئے گئے چوری کے گھناوٴنے جرم میں ملوث ہیں ‘ آج خود ہی اپنا محاسبہ کرلیں اور دیکھے کہ وہ کتنے وقت کیلئے ’’ مومن ‘‘ ہے اور کتنے وقت کیلئے ’’ مومن ‘‘ نہیں ہے؟
  • 24 گھنٹے چوری کرنے کی عمل سے گزرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی بجلی سے 24 گھنٹے آرام دہ زندگی گزارنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی تھنڈی تھنڈی پانی 24 گھنٹے استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی گیس سے 24 گھنٹے مزے مزے کی کھانے پکا کر کھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی دولت سے غربت مٹانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی دولت سے امارت بڑھانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی دولت سے آف شور کمپنیاں بنانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
  • چوری کی دولت سے اپنے بچوں کو ٹھاٹ باٹ کرانے والے ۔۔۔۔۔ کیا مومن ہیں؟
24 گھنٹے چوری کرنے کے عمل میں ملوث رہنے والے 24 گھنٹے ہی مومن نہیں رہتے‘ ان پر 24 گھنٹے اللہ کی ’’ لعنت ‘‘ پڑ رہی ہے کیوں کہ اللہ چور پر لعنت کرتا ہے ۔ ( صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح: 6783)

لعنت کا مطلب ہے اللہ کی رحمت سے دوری اور جسے اللہ اپنی رحمت سے دور کر دے اس کا ٹھکانا کہاں ہوسکتا ہے۔ تو اللہ کے بندوں! اگرچہ چوری کرنے پر آج چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا دینے والا کوئی نہیں لیکن اللہ کی لعنت تو ہر چور پر ہر آن برس رہی ہے۔

اسی لئے دنیا کی مال اسباب اور ہر آشائش ہونے کے باوجود آج ہر فرد کی زندگی میں بے سکونی ہے جس کی وجہ اللہ کی لعنت اور اللہ کی رحمت سے دوری ہے۔

ہم سبھوں کو غور کرنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی تو کسی چوری میں ملوث نہیں؟

صرف حکمران کو قصور وار ٹھہرانے کے بجائے ہم سبھوں کو اپنا اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا۔ قوم کے ایک ایک فرد کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ۔ ہم سب جن چھوٹے بڑے کرپشن میں ملوث ہیں ان سے توبہ کرنا ہوگا۔ پھر جا کر ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن ہوگا۔ پھر کوئی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹنا بھی ممکن ہوگا۔

آئیے ایک صالح معاشرے کیلے جدوجہد کریں‘ اپنا محاسبہ کریں‘ ہر چھوٹی بڑی کرپشن سے توبہ کریں ‘ زندگی کتنے دنوں کی ہے جس کیلئے اتنی کرپشن‘ اتنی چوری ؟؟؟

تحریر: محمد اجمل خان
 
Top