- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
اتحاد کے شرعی مفہوم سے ماخوذ نکات
اتحاد کے شرعی مفہوم کے تحت حسبِ ذیل نکات آتے ہیں:
1. مذکورہ آیات میں الّف کے الفاظ ہیں۔ یہ لفظ 'تالیف'سے ہے جس کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں۔جب اس کے ساتھ 'قلوب' کا لفظ آ ئے گا تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ دل باہم جڑے ہوئے ہوں۔ دلوں میں نفرت نام کی چیز نہ ہو، اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی ہو۔گویا وہ اتحاد اتحاد نہیں ہے جس میں دل جدا جدا ہوں کیونکہ جب دیواروں میں دراڑیں پڑ جائیں تو دیواریں گر جاتی ہیں اور دلوں میں دراڑیں آ جائیں تو دیواریں بن جاتی ہیں۔
2. 'اعتصموا' کا قرآنی لفظ بھی اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ کی رسّی کو ایسی مضبوطی سے تھام لیا جائے کہ گرنے کا یا راہ سے ہٹنے کا خدشہ نہ رہے کیونکہ اعتصام کے حقیقی معنیٰ رُک جانے اور بچ جانے کے ہیں۔
آپ اگر اپنے بچاؤ کےلیے کسی رسّی کو تھامتے ہیں تو اسے کس قدر مضبوطی سے پکڑیں گے!! آپ کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ یہ رسی چھوٹی نہیں اور میں گرا نہیں۔ ایسے حالات میں لمحہ بھر کے لیے بھی آپ اس رسی کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح فرقہ بندی کے گڑھے میں انسان اسی وقت گر سکتا ہے جب اس نے اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھاما ہو۔ انسان کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے صرف ایک ہی رسی ہے اور وہ 'حبل اللّٰہ' ہے۔
اسے تھامنے کے لیے اپنے ہاتھ بالکل خالی کرنے پڑتے ہیں۔ اگر پہلے سے ہاتھ میں کچھ ہو گا تو اس رسّی پر گرفت اسی قدر کمزور ہوتی چلی جائے گی اور اس رسی کے چھوٹنے کا خدشہ بڑھ جائے گا اور اتحاد اسی صورت میں ممکن ہے جب سب لوگ اپنی اپنی رسیاں اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیزیں چھوڑ کر، انہیں توڑ کر صرف اس رسّی کو تھام لیں گے۔ جو اس رسی سے منسلک ہو گیا وہ اتحاد کا داعی ہے اور امن کا خوگر ہے، جو اس سے وابستہ نہیں ہوا وہ لاکھ کہے مگر وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں قرآنِ مجید کو واضح طور پر اللّٰہ کی رسی قرار دیا گیا ہے۔9
جو مسلمان اسے تھامے ہوئے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اور کسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں وہ متحد سمجھے جائیں گے، خواہ ان پر کوئی لیبل نہ بھی لگا ہو، اس کے برعکس ظاہری طور پر ایک ہی جماعت سے منسلک لوگ اگر 'حبل اللّٰہ ' کو نہیں تھامتے تو قرآن کی رو سے وہ متحد نہیں ہیں بلکہ 'مفترق' (بکھرے ہوئے) ہیں۔
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اتحاد برائے اتحاد کوئی شرعی تقاضا نہیں، کہ کسی بھی نظریاتی وحدت کے بغیر برائے نام اتحاد کرلیا جائے، بلکہ اس اتحاد کا ایک مرکزومحور ہے جو قرآن وسنت ، اللّٰہ کی شریعت، اور حبل اللّٰہ یعنی اللّٰہ کی رسی ہے۔اور یہی بات قرآن مجید اور نبی کریمﷺ نے فرمائی ہے جیسا کہ ﴿وَاعْتَصِمُوْا بحَبْلِ اللهِ﴾ سے واضح ہے۔
اتحاد کے شرعی مفہوم کے تحت حسبِ ذیل نکات آتے ہیں:
1. مذکورہ آیات میں الّف کے الفاظ ہیں۔ یہ لفظ 'تالیف'سے ہے جس کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں۔جب اس کے ساتھ 'قلوب' کا لفظ آ ئے گا تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ دل باہم جڑے ہوئے ہوں۔ دلوں میں نفرت نام کی چیز نہ ہو، اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی ہو۔گویا وہ اتحاد اتحاد نہیں ہے جس میں دل جدا جدا ہوں کیونکہ جب دیواروں میں دراڑیں پڑ جائیں تو دیواریں گر جاتی ہیں اور دلوں میں دراڑیں آ جائیں تو دیواریں بن جاتی ہیں۔
2. 'اعتصموا' کا قرآنی لفظ بھی اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللّٰہ کی رسّی کو ایسی مضبوطی سے تھام لیا جائے کہ گرنے کا یا راہ سے ہٹنے کا خدشہ نہ رہے کیونکہ اعتصام کے حقیقی معنیٰ رُک جانے اور بچ جانے کے ہیں۔
آپ اگر اپنے بچاؤ کےلیے کسی رسّی کو تھامتے ہیں تو اسے کس قدر مضبوطی سے پکڑیں گے!! آپ کے سر پر خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ یہ رسی چھوٹی نہیں اور میں گرا نہیں۔ ایسے حالات میں لمحہ بھر کے لیے بھی آپ اس رسی کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح فرقہ بندی کے گڑھے میں انسان اسی وقت گر سکتا ہے جب اس نے اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھاما ہو۔ انسان کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے صرف ایک ہی رسی ہے اور وہ 'حبل اللّٰہ' ہے۔
اسے تھامنے کے لیے اپنے ہاتھ بالکل خالی کرنے پڑتے ہیں۔ اگر پہلے سے ہاتھ میں کچھ ہو گا تو اس رسّی پر گرفت اسی قدر کمزور ہوتی چلی جائے گی اور اس رسی کے چھوٹنے کا خدشہ بڑھ جائے گا اور اتحاد اسی صورت میں ممکن ہے جب سب لوگ اپنی اپنی رسیاں اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیزیں چھوڑ کر، انہیں توڑ کر صرف اس رسّی کو تھام لیں گے۔ جو اس رسی سے منسلک ہو گیا وہ اتحاد کا داعی ہے اور امن کا خوگر ہے، جو اس سے وابستہ نہیں ہوا وہ لاکھ کہے مگر وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہو گا۔ حدیث مبارکہ میں قرآنِ مجید کو واضح طور پر اللّٰہ کی رسی قرار دیا گیا ہے۔9
جو مسلمان اسے تھامے ہوئے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں اور کسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں وہ متحد سمجھے جائیں گے، خواہ ان پر کوئی لیبل نہ بھی لگا ہو، اس کے برعکس ظاہری طور پر ایک ہی جماعت سے منسلک لوگ اگر 'حبل اللّٰہ ' کو نہیں تھامتے تو قرآن کی رو سے وہ متحد نہیں ہیں بلکہ 'مفترق' (بکھرے ہوئے) ہیں۔
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اتحاد برائے اتحاد کوئی شرعی تقاضا نہیں، کہ کسی بھی نظریاتی وحدت کے بغیر برائے نام اتحاد کرلیا جائے، بلکہ اس اتحاد کا ایک مرکزومحور ہے جو قرآن وسنت ، اللّٰہ کی شریعت، اور حبل اللّٰہ یعنی اللّٰہ کی رسی ہے۔اور یہی بات قرآن مجید اور نبی کریمﷺ نے فرمائی ہے جیسا کہ ﴿وَاعْتَصِمُوْا بحَبْلِ اللهِ﴾ سے واضح ہے۔