- شمولیت
- جنوری 23، 2015
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 31
- پوائنٹ
- 79
احادیث فضائل قربانی جرح و تعدیل کے میزان پر.
تحریر: عبداللہ عبدالرشید ،کولکاتا.
نظر ثانی : شیخ مقبول احمد سلفی،سعودی عرب.
الحمدلله رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسول الله ، اما بعد.
یقینا اللہ رب العالمین کے نزدیک ماہ ذی الحجہ میں قربانی کا عمل بہت محبوب ہے، چنانچہ فرمان عالی شان ہے " فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ " (الکوثر:۲) یعنی اپنے رب کےلئے نماز پڑھ اور قربانی کر. اور اسکی عظمت کیلئے یہی کافی ہے یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنتوں میں سے ہے اور آپ نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ خود بھی انجام دیا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اسکی تاکیدی تلقین فرمائی ہے، نیز ارشاد فرمایا : إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ.( رواه أبوداؤد في سننه و غيره وصححه الألباني و شعيب الأرنؤوط و غيرهما) . ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے.
لیکن ہمارے درمیان قربانی کی فضیلت کے سلسلے میں ثابت شدہ احادیث کے ساتھ ساتھ چند ایسی احادیث بھی مشہور ہوگئیں ہیں جو اصول حدیث کی رُو سے ثابت ہی نہیں. اور افسوس تو تب ہوتا ہے جب عوام تو عوام ، علماء و مبلغین حضرات بھی ان روایات کو ، عمداً یا سہواً ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے نظر آتے ہیں.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے مجھ سے ( منسوب کرکے) کوئی ایسی بات بیان کہی جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے.(صحیح مسلم). امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس حدیث کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جسے اس بات میں ذرا بھی شک ہو کہ وہ جس بات کو بیان کر رہا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ( یعنی قطعی طور پر بات کے جھوٹ ہونے کا یقین نہ ہو)، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ جسے یقین ہو کہ بات جھوٹ ہی ہے (تب ہی وہ جھوٹا قرار پائیگا) بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جس کا صرف یہ خیال ہی ہو ( کہ بات جھوٹ بھی ہوسکتی ہے تو وہ بھی جھوٹا قرار پاجائیگا) (الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبد الھادی، المتوفی ۷۴۴ھ : ج.۱، ص.۷۷).
اور جو یقینی طور پر جھوٹی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرے اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت کلمات یہ ہیں : مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ( صحیح البخاری : ۱۰۹ ) . ترجمہ : جس نے مجھ سے منسوب کرکے کوئی ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر لے ( یعنی اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے).
لہذا اس تمہید سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ غیر ثابت شدہ روایات کا بیان کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ( حتی کہ فضائل میں بھی نہیں، یہی محتاط موقف ہے. واللہ اعلم) الا یہ کہ تنبیہھاً ہو. اب آئیے ذرا ذیل میں ہم ان مشہور روایات کی مختصر تحقیق پیش کریں جو جرح و تعدیل کے میزان پر کھری نہیں اترتیں.
پہلی حدیث :
قال الإمام إبن ماجة : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِقُرُونِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ، لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا»
(أخرجه الترمذي وإبن ماجة واللفظ له و الحاكم وغيرهم)
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے دن ابن آدم کا کوئی عمل ایسا نہیں ہوتا جو اللہ کو خون بہانے (جانور کی قربانی )سے زیادہ محبوب ہو. وہ (جانور) قیامت کے دن اپنے سینگھوں ، کُھروں اور بالوں سمیت آئےگا(یعنی نیکی کے پلڑے مین رکھا جائے گا) . جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں (قبولیت) کا مقام حاصل کرلیتا ہے.، لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو.
تحقیق : یہ حدیث انقطاع اور ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے. چنانچہ :
۱. امام الترمذی رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے امام البخاری رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۵٦ھ) سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث مرسل ہے اور( سند میں موجود راوی ) " ابو المثنی " نے " ھشام بن عروۃ " سے یہ( حدیث ) نہین سنی. ( العلل الکبیر للترمذی: ج.۱ ، ص.٢٤٤، رقم الحديث.٤٤١)
۲. امام ابن حبان رحمہ اللہ ( المتوفی ۳٤٥ھ) نے اس روایت کو " کتاب المجروحین " میں ذکر کیا ہے جس میں وہ مجروح روایات ہی ذکر کرتے ہیں ، جیسا کہ کتاب کے نام سے ہی واضح ہے، مزید یہ کہ امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۰۷ھ) اسی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اور " ابو المثنی " روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کیا کرتا ہے، لہذا اس کو حجت بنانا جائز نہیں. ( تذکرۃ الحفاظ لابن القیسرانی : ج.۱، ص.۲۸۵، رقم الحدیث.۷۱۰)
۳. امام البغوی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۱٦ھ ) نے اس حدیث کو ذکر کرکے کہا : امام ابو حاتم نے " ابو المثنی" کو سخت ضعیف قرار دیا ہے. ( شرح السنۃ للبغوی : ج.٤، ص.٣٤٣)
٤. امام ابن الجوزی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۹۷ھ) اس حدیث کو " ھذا حدیث لا یصح " ( یعنی یہ حدیث صحیح نہیں) قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : امام یحیی نے " عبد اللہ بن نافع "( اسکی سند میں موجود) کے بارے میں کہا : ھو لیس بشیئ، امام النسائی نے کیا : متروک، امام البخاری نے کہا : منکر الحدیث اور امام ابن حبان نےکہا کہ اسکی روایات قابل حجت نہیں ہیں. ( العلل المنتاھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ بتحقیق ارشاد الحق الاثری : ج.۲، ص ۷۹، رقم الحدیث. ٥٢٦) .
٥. محدث العصر علامہ الالبانی رحمہ اللہ ( المتوفی ١٤٢٠ھ ) نے بھی اس حدیث کو "ضعیف" قرار دیا ہے.( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث.۵۲٦)
دوسری حدیث :
قال الامام إبن ماجة : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَائِذُ اللَّهِ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: «سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ» قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ، حَسَنَةٌ» قَالُوا: " فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ، حَسَنَةٌ»
( أخرجه إبن ماجة في سننه واللفظ له و الحاكم في المستدرك)
ترجمہ : زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ نے پوچھا کہ اس میں ہمارے لئے کیا( اجر وثواب ) ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے، لوگوں نے کہا اور اون (کے بدلے ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اون کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی.
تحقیق : یہ حدیث سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الذھبی رحمہ اللہ ( المتوفی ٧٤٨ھ ) کہتے ہیں. " عائذ اللہ" ( سند میں موجود راوی ) کو امام ابو حاتم نے منکر الحدیث قرار دیا ہے. ( تعلیق الذھبی علی المستدرک للحاکم : رقم الحدیث.٣٤٦٧ )
۲. امام المنذری رحمہ اللہ ( المتوفی ٦٥٦) نے حافظ ابن حجر کے حوالے اس سند کو "واهية" (واہیات) قرار دیا ہے. ( دیکھئے : ضعیف الترغیب والترھیب للمنذری بتحقیق الالبانی : رقم الحدیث.٦٧٢)
۳. امام البوصیری رحمہ اللہ ( المتوفی ٨٤٠ھ ) نے "ابو داؤد السبیعی" ( سند میں موجود راوی ) کو "متروک" کہا ، نیز امام البخاری کے حوالے سے "عائذ الله" کی حدیث کو غیر صحیح قرار دیا ہے.( مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجۃ : ج.۳، ص.۳۲۲،رقم الحدیث.۱۰۹۱)
٤. اسکے علاوہ امام القیسرانی رحمہ اللہ نے "تذکرۃ الحفاظ" ( ج.۲،ص.۲۲۹، رقم الحدیث .۵۵٤) میں امام یحیی ابن معین کے حوالے سے "ابو داؤد السبیعی" کو غیر ثقہ قرار دیا ہے ، نیز امام ابن حبان نے "کتاب المجروحین " (ج.۳،ص.۵، رقم ۱۱۱۸) میں اسے ثقہ راویوں سے وہم کی وجہ سے جھوٹی چیزیں بیان کرنے والا گردانا ہے اور اس سے حجت پکڑنا ناجائز قرار دیا ہے. ( مزید دیکھئے : البدر المنیرلابن الملقن : ج.۹، ص۲۷٦ ) . اسی طرح امام النسائی ( المتوفی ۳۰۳ھ) نے اسے "متروک" کہا ، امام الدارقطنی (المتوفی ۳۸۵ھ) نے "متروک الحدیث" کہا اور امام ابوزرعہ ( المتوفی ٢٦٤ھ ) نے اسے "لم یکن بشئ" قرار دیا ہے. ( دیکھئے : میزان الاعتدال للذھبی : ج.٤،ص.٢٧٢،رقم٩١١٥) .
۵. انہی وجوہات کی بنا پر علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث.۵۲۷).
تیسری حدیث :
قال الامام الحاکم : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبَجَلِيُّ، ثَنَا أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا فَاطِمَةُ قَوْمِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهُ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ " قَالَ عِمْرَانُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكِ خَاصَّةً فَأَهَلَّ ذَاكَ أَنْتُمْ أَمْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: «لَا بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً»
(أخرجه الحاكم في المستدرك واللفظ له و الطبراني في الأوسط و الكبير وغيرهما بالالفاظ المختلفة)
ترجمہ : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ائے فاطمہ ! اپنی قربانی ( کے جانور) کی طرف کھڑی ہوجا اور اسکی طرف متوجہ ہوجا، بیشک اس کے خون کے ہر قطرے کے بدلے تیرے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے. انہوں نے کہا ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ( فضیلت) صرف ہم اہل بیت کے لئے ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ فضیلت ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے.
تحقیق : یہ حدیث سخت ضعیف اور منکر ( جو ضعیف کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کے خلاف بھی ہو) ہے. چنانچہ :
۱. امام العقیلی رحمہ اللہ ( المتوفی ۳۲۲ھ) نےا س روایت کو اپنی سند سے کتاب الضعفاء ( ج.۲،ص ۳۷) میں ذکر کیا ہے اور ( اُسی سند میں موجود راوی) "داؤد بن عبد الحمید الکوفی" کی روایات کو "غیر متابَع" ( جس کی کسی نے متابعت نہیں کی) قرار دیا ہے.
۲. امام ابن أبی حاتم ( المتوفی ۳۲۷ ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : "ھو حدیث منکر" یعنی یہ تو منکر حدیث ہے. ( علل الحدیث لابن ابی حاتم : ج ٤،ص.٤٩٦، رقم.١٥٩٧)
۳. امام الذھبی رحمہ اللہ نے اسکے ایک راوی "ابو حمزۃ الثمالی" کو "ضعیف جدا" اور امام الہیثمی ( المتوفی ۸۰۷ھ) نے "ضعیف" قرار دیا ہے.( تعلیق الذھبی علی المستدرک للحاکم : رقم الحدیث .٧٥٢٤، مجمع الزوائد: ج.٤، ص.١٧، رقم الحديث.٥٩٣٣).
٤. اور اسی بنیاد پر شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو"منکر" لکھا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث ۵۲۸).
چوتھی حدیث:
قال الامام الطبرانی : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّخَعِيُّ الْقَاضِي الْكُوفِيُّ، ثنا عَمَّارُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ الْجَنْبِيُّ، ثنا أَبُو دَاوُدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَحَّى طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، مُحْتَسِبًا لِأُضْحِيَّتِهِ؛ كَانَتْ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ»
(أخرجه الطبراني في الكبير)
ترجمہ: حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خوش دلی اور اپنی قربانی پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کی تو وہ اسکے لئے جہنم کی آگ سے حجاب بن جائے گا.
تحقیق: یہ روایت موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الہیثمی رحمہ اللہ اور علامہ الشوکانی رحمہ.اللہ ( المتوفی ۱۲۵۰ھ) نے "ابوداؤد سلیمان بن عمرو النخعی" ( سند میں موجود راوی) کو "کذاب" قرار دیا ہے.( مجمع الزوائد : ج.٤، ص.۱۷، رقم الحدیث .۵۹۳۷ ، نیل الأوطار : ج.۵، ص.۱۲۹ ).
۲. امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "ابوداؤد سلیمان بن عمرو النخعی" کے بارے میں کہا "کان یضع الحدیث" یعنی وہ حدیث گڑھا کرتا تھا.( المجروحین لابن حبان : ج.۱،ص.۳۳۳، رقم الحدیث .٤١٦)
۳. لہذا علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث۵۲۹).
پانچویں حدیث :
قال الامام الطبرانی : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ زَكَرِيَّا، نا عَمْرُو بْنُ الْحُصَيْنِ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلَكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ضَحُّوا وَاحْتَسِبُوا بِدِمَائِهَا، فَإِنَّ الدَّمَ وَإِنْ وَقَعَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ يَقَعُ فِي حِرْزِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ»
(أخرجه الطبراني في الأوسط)
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ائے لوگو ! قربانی کرو اور اسکے خون سے ثواب کی امید رکھو، بیشک خون زمین پر گرنے سے قبل ( اسکا ثواب ) اللہ کی حفاظت میں ہوجاتا ہے.
تحقیق : یہ روایت بھی موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الذھبی رحمہ اللہ نے کہا کہ "عمرو بن حصین العقیلی"( سند میں موجود راوی) کو امام ابو حاتم نے "ذاھب الحدیث" ، ابوزرعہ نے "واہ"( واہیات) اور الدارقطنی نے "متروک" قرار دیا ہے. ( میزان الاعتدال للذھبی : ج.۳ ، ص.۲۵۳، رقم.٦٣٥١) اور امام الہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے "متروک الحدیث" قرار دیا ہے. ( مجمع الزوائد : ج.٤،ص.١٧، رقم الحديث.٥٩٣٦).
۲. اور شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اسے"موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث۵۳۰).
چھٹی حدیث :
قال الامام أحمد بن محمد بن حجر العسقلانی : وَرَدَ أَنَّ اللَّهَ يُعْتِقُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْ الضَّحِيَّةِ عُضْوًا مِنْ الْمُضَحِّي.
( أورده إبن حجر في التلخيص)
ترجمہ : روایت ہے کہ بیشک اللہ تعالی قربانی کےجانور کے ہر عضوکےعوض قربانی کرنے والے کے ایک عضو کو جہنم سے آزاد کرتا ہے.
تحقیق : یہ روایت بھی ثابت نہیں. چنانچہ :
۱. ابن حجر رحمہ اللہ ( المتوفی ۸۵۲ھ ) نے اس روایت کو غیر ثابت قرار دیتے ہوئے ابن الصلاح رحمہ اللہ ( المتوفی ٦٤٣ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ "ھذا حدیث غیر معروف، ولم نجد له سندا يثبت به " یعنی یہ حدیث غیر معروف ہے اور ہمیں اسکی کوئی ایسی سند نہیں ملی جس کے ذریعہ یہ ثابت ہوسکے. ( التخیص : ج.۳، ص.٣٤٣، رقم. ١٩٥٤ ، مزید دیکھئے : البدر المنیر لابن الملقن : ج.۹، ص.۲۷٦).
ساتویں حدیث :
نقله إبن الملقن : عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه قَالَ: «عظموا أضحياكم فَإِنَّهَا عَلَى الصِّرَاط مَطَايَاكُمْ»
( البدر المنیر)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی قربانی ( کے جانوروں ) کی تعظیم کرو کیونکہ یہ پل صراط پر تمہاری سواری ہوں گی.
تحقیق : یہ روایت سخت ضعیف ہے. چنانچہ :
۱. امام العجلونی رحمہ اللہ ( المتوفی ۱۱٦٢ھ) نے "کشف الخفاء" ( ج.۱، ص.۱۳۸) میں اس روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے اور کہا کہ مجھے شدید تلاش کے باوجود یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کس نے اسکی تخریج کی ہے، بلکہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے غیر معروف اور غیر ثابت قرار دیا ہے ( البدر المنیر : ج.۹، ص. ۲۷۳).
۲. نیز محدث العصر علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اسکی ایک دوسری سند ذکر کرکے اس پر بھی "ضعیف جدا" کا حکم لگایا ہے. ( دیکھئے : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث ١٢٥٥،٧٤).
۳. اور اسی بنیاد پر ابن العربی رحمہ اللہ نے کہا تھا : قربانی کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے اور مذکورہ روایت بھی انہیں غیر ثابت روایات میں سے ہے.( یعنی مروجہ روایات ثابت نہیں ، ورنہ فضیلت کے لئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور ثابت روایات ہی کافی ہیں)
(بحواله كشف الخفاء : ج.۱ ، ص.۱۳۸).
قارئین کرام ! اس مختصر تحقیق سے اب ان روایات کے باطل ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا. البتہ یہ بات مُسَلّم و یقینی ہے کہ قربانی کا عمل اسلام کے عظیم شعائر و عبادات میں سے ہے جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے نماز جیسی عبادت کے ساتھ کیا، جیسا کہ ابتداء میں ہی میں میں نے ذکر کیا( سورة الکوثر) ، نیز اسکی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : ۳۷) .ترجمہ : اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں .نیز اسکی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر غصے کا اظہار فرمایا جو اسکی عظمت کو نظر انداز کرتا ہو. چنانچہ فرمایا : مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ يُضَحِّيَ فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَحْضُرْ مُصَلَّانَا ( رواہ الحاکم و حسنه الألباني في صحيح الترغيب برقم : ١٠٨٧) . یعنی جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے ، وہ ہمارے عیدگاہ نہ آئے.
لہذا لازم ہے کہ ہم ثابت شدہ روایات کو ہی قربانی کی اہمیت و فضیلت میں بیان کریں اور ضعیف و باطل باتوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرنے سے بچیں کیونکہ اسکا انجام نہایت دردناک ہے. رب العالمین ہمیں اسکی توفیق عطا کرے.آمین
تحریر: عبداللہ عبدالرشید ،کولکاتا.
نظر ثانی : شیخ مقبول احمد سلفی،سعودی عرب.
الحمدلله رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسول الله ، اما بعد.
یقینا اللہ رب العالمین کے نزدیک ماہ ذی الحجہ میں قربانی کا عمل بہت محبوب ہے، چنانچہ فرمان عالی شان ہے " فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ " (الکوثر:۲) یعنی اپنے رب کےلئے نماز پڑھ اور قربانی کر. اور اسکی عظمت کیلئے یہی کافی ہے یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنتوں میں سے ہے اور آپ نے اسے بڑے اہتمام کے ساتھ خود بھی انجام دیا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اسکی تاکیدی تلقین فرمائی ہے، نیز ارشاد فرمایا : إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ.( رواه أبوداؤد في سننه و غيره وصححه الألباني و شعيب الأرنؤوط و غيرهما) . ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے.
لیکن ہمارے درمیان قربانی کی فضیلت کے سلسلے میں ثابت شدہ احادیث کے ساتھ ساتھ چند ایسی احادیث بھی مشہور ہوگئیں ہیں جو اصول حدیث کی رُو سے ثابت ہی نہیں. اور افسوس تو تب ہوتا ہے جب عوام تو عوام ، علماء و مبلغین حضرات بھی ان روایات کو ، عمداً یا سہواً ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے نظر آتے ہیں.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے مجھ سے ( منسوب کرکے) کوئی ایسی بات بیان کہی جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے.(صحیح مسلم). امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اس حدیث کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جسے اس بات میں ذرا بھی شک ہو کہ وہ جس بات کو بیان کر رہا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں ( یعنی قطعی طور پر بات کے جھوٹ ہونے کا یقین نہ ہو)، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ جسے یقین ہو کہ بات جھوٹ ہی ہے (تب ہی وہ جھوٹا قرار پائیگا) بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جس کا صرف یہ خیال ہی ہو ( کہ بات جھوٹ بھی ہوسکتی ہے تو وہ بھی جھوٹا قرار پاجائیگا) (الصارم المنکی فی الرد علی السبکی لابن عبد الھادی، المتوفی ۷۴۴ھ : ج.۱، ص.۷۷).
اور جو یقینی طور پر جھوٹی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرے اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت کلمات یہ ہیں : مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ( صحیح البخاری : ۱۰۹ ) . ترجمہ : جس نے مجھ سے منسوب کرکے کوئی ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر لے ( یعنی اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے).
لہذا اس تمہید سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ غیر ثابت شدہ روایات کا بیان کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ( حتی کہ فضائل میں بھی نہیں، یہی محتاط موقف ہے. واللہ اعلم) الا یہ کہ تنبیہھاً ہو. اب آئیے ذرا ذیل میں ہم ان مشہور روایات کی مختصر تحقیق پیش کریں جو جرح و تعدیل کے میزان پر کھری نہیں اترتیں.
پہلی حدیث :
قال الإمام إبن ماجة : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِقُرُونِهَا، وَأَظْلَافِهَا، وَأَشْعَارِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ، لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا»
(أخرجه الترمذي وإبن ماجة واللفظ له و الحاكم وغيرهم)
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قربانی کے دن ابن آدم کا کوئی عمل ایسا نہیں ہوتا جو اللہ کو خون بہانے (جانور کی قربانی )سے زیادہ محبوب ہو. وہ (جانور) قیامت کے دن اپنے سینگھوں ، کُھروں اور بالوں سمیت آئےگا(یعنی نیکی کے پلڑے مین رکھا جائے گا) . جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں (قبولیت) کا مقام حاصل کرلیتا ہے.، لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو.
تحقیق : یہ حدیث انقطاع اور ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے. چنانچہ :
۱. امام الترمذی رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے امام البخاری رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۵٦ھ) سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث مرسل ہے اور( سند میں موجود راوی ) " ابو المثنی " نے " ھشام بن عروۃ " سے یہ( حدیث ) نہین سنی. ( العلل الکبیر للترمذی: ج.۱ ، ص.٢٤٤، رقم الحديث.٤٤١)
۲. امام ابن حبان رحمہ اللہ ( المتوفی ۳٤٥ھ) نے اس روایت کو " کتاب المجروحین " میں ذکر کیا ہے جس میں وہ مجروح روایات ہی ذکر کرتے ہیں ، جیسا کہ کتاب کے نام سے ہی واضح ہے، مزید یہ کہ امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۰۷ھ) اسی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اور " ابو المثنی " روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کیا کرتا ہے، لہذا اس کو حجت بنانا جائز نہیں. ( تذکرۃ الحفاظ لابن القیسرانی : ج.۱، ص.۲۸۵، رقم الحدیث.۷۱۰)
۳. امام البغوی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۱٦ھ ) نے اس حدیث کو ذکر کرکے کہا : امام ابو حاتم نے " ابو المثنی" کو سخت ضعیف قرار دیا ہے. ( شرح السنۃ للبغوی : ج.٤، ص.٣٤٣)
٤. امام ابن الجوزی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۹۷ھ) اس حدیث کو " ھذا حدیث لا یصح " ( یعنی یہ حدیث صحیح نہیں) قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : امام یحیی نے " عبد اللہ بن نافع "( اسکی سند میں موجود) کے بارے میں کہا : ھو لیس بشیئ، امام النسائی نے کیا : متروک، امام البخاری نے کہا : منکر الحدیث اور امام ابن حبان نےکہا کہ اسکی روایات قابل حجت نہیں ہیں. ( العلل المنتاھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ بتحقیق ارشاد الحق الاثری : ج.۲، ص ۷۹، رقم الحدیث. ٥٢٦) .
٥. محدث العصر علامہ الالبانی رحمہ اللہ ( المتوفی ١٤٢٠ھ ) نے بھی اس حدیث کو "ضعیف" قرار دیا ہے.( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث.۵۲٦)
دوسری حدیث :
قال الامام إبن ماجة : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَائِذُ اللَّهِ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: «سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ» قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ، حَسَنَةٌ» قَالُوا: " فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ، حَسَنَةٌ»
( أخرجه إبن ماجة في سننه واللفظ له و الحاكم في المستدرك)
ترجمہ : زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے، صحابہ نے پوچھا کہ اس میں ہمارے لئے کیا( اجر وثواب ) ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے، لوگوں نے کہا اور اون (کے بدلے ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اون کے بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی.
تحقیق : یہ حدیث سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الذھبی رحمہ اللہ ( المتوفی ٧٤٨ھ ) کہتے ہیں. " عائذ اللہ" ( سند میں موجود راوی ) کو امام ابو حاتم نے منکر الحدیث قرار دیا ہے. ( تعلیق الذھبی علی المستدرک للحاکم : رقم الحدیث.٣٤٦٧ )
۲. امام المنذری رحمہ اللہ ( المتوفی ٦٥٦) نے حافظ ابن حجر کے حوالے اس سند کو "واهية" (واہیات) قرار دیا ہے. ( دیکھئے : ضعیف الترغیب والترھیب للمنذری بتحقیق الالبانی : رقم الحدیث.٦٧٢)
۳. امام البوصیری رحمہ اللہ ( المتوفی ٨٤٠ھ ) نے "ابو داؤد السبیعی" ( سند میں موجود راوی ) کو "متروک" کہا ، نیز امام البخاری کے حوالے سے "عائذ الله" کی حدیث کو غیر صحیح قرار دیا ہے.( مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجۃ : ج.۳، ص.۳۲۲،رقم الحدیث.۱۰۹۱)
٤. اسکے علاوہ امام القیسرانی رحمہ اللہ نے "تذکرۃ الحفاظ" ( ج.۲،ص.۲۲۹، رقم الحدیث .۵۵٤) میں امام یحیی ابن معین کے حوالے سے "ابو داؤد السبیعی" کو غیر ثقہ قرار دیا ہے ، نیز امام ابن حبان نے "کتاب المجروحین " (ج.۳،ص.۵، رقم ۱۱۱۸) میں اسے ثقہ راویوں سے وہم کی وجہ سے جھوٹی چیزیں بیان کرنے والا گردانا ہے اور اس سے حجت پکڑنا ناجائز قرار دیا ہے. ( مزید دیکھئے : البدر المنیرلابن الملقن : ج.۹، ص۲۷٦ ) . اسی طرح امام النسائی ( المتوفی ۳۰۳ھ) نے اسے "متروک" کہا ، امام الدارقطنی (المتوفی ۳۸۵ھ) نے "متروک الحدیث" کہا اور امام ابوزرعہ ( المتوفی ٢٦٤ھ ) نے اسے "لم یکن بشئ" قرار دیا ہے. ( دیکھئے : میزان الاعتدال للذھبی : ج.٤،ص.٢٧٢،رقم٩١١٥) .
۵. انہی وجوہات کی بنا پر علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث.۵۲۷).
تیسری حدیث :
قال الامام الحاکم : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبَجَلِيُّ، ثَنَا أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا فَاطِمَةُ قَوْمِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهُ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ " قَالَ عِمْرَانُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكِ خَاصَّةً فَأَهَلَّ ذَاكَ أَنْتُمْ أَمْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: «لَا بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً»
(أخرجه الحاكم في المستدرك واللفظ له و الطبراني في الأوسط و الكبير وغيرهما بالالفاظ المختلفة)
ترجمہ : عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ائے فاطمہ ! اپنی قربانی ( کے جانور) کی طرف کھڑی ہوجا اور اسکی طرف متوجہ ہوجا، بیشک اس کے خون کے ہر قطرے کے بدلے تیرے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے. انہوں نے کہا ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ( فضیلت) صرف ہم اہل بیت کے لئے ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ فضیلت ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے.
تحقیق : یہ حدیث سخت ضعیف اور منکر ( جو ضعیف کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کے خلاف بھی ہو) ہے. چنانچہ :
۱. امام العقیلی رحمہ اللہ ( المتوفی ۳۲۲ھ) نےا س روایت کو اپنی سند سے کتاب الضعفاء ( ج.۲،ص ۳۷) میں ذکر کیا ہے اور ( اُسی سند میں موجود راوی) "داؤد بن عبد الحمید الکوفی" کی روایات کو "غیر متابَع" ( جس کی کسی نے متابعت نہیں کی) قرار دیا ہے.
۲. امام ابن أبی حاتم ( المتوفی ۳۲۷ ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا : "ھو حدیث منکر" یعنی یہ تو منکر حدیث ہے. ( علل الحدیث لابن ابی حاتم : ج ٤،ص.٤٩٦، رقم.١٥٩٧)
۳. امام الذھبی رحمہ اللہ نے اسکے ایک راوی "ابو حمزۃ الثمالی" کو "ضعیف جدا" اور امام الہیثمی ( المتوفی ۸۰۷ھ) نے "ضعیف" قرار دیا ہے.( تعلیق الذھبی علی المستدرک للحاکم : رقم الحدیث .٧٥٢٤، مجمع الزوائد: ج.٤، ص.١٧، رقم الحديث.٥٩٣٣).
٤. اور اسی بنیاد پر شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو"منکر" لکھا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث ۵۲۸).
چوتھی حدیث:
قال الامام الطبرانی : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّخَعِيُّ الْقَاضِي الْكُوفِيُّ، ثنا عَمَّارُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ الْجَنْبِيُّ، ثنا أَبُو دَاوُدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ ضَحَّى طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، مُحْتَسِبًا لِأُضْحِيَّتِهِ؛ كَانَتْ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ»
(أخرجه الطبراني في الكبير)
ترجمہ: حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خوش دلی اور اپنی قربانی پر ثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کی تو وہ اسکے لئے جہنم کی آگ سے حجاب بن جائے گا.
تحقیق: یہ روایت موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الہیثمی رحمہ اللہ اور علامہ الشوکانی رحمہ.اللہ ( المتوفی ۱۲۵۰ھ) نے "ابوداؤد سلیمان بن عمرو النخعی" ( سند میں موجود راوی) کو "کذاب" قرار دیا ہے.( مجمع الزوائد : ج.٤، ص.۱۷، رقم الحدیث .۵۹۳۷ ، نیل الأوطار : ج.۵، ص.۱۲۹ ).
۲. امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "ابوداؤد سلیمان بن عمرو النخعی" کے بارے میں کہا "کان یضع الحدیث" یعنی وہ حدیث گڑھا کرتا تھا.( المجروحین لابن حبان : ج.۱،ص.۳۳۳، رقم الحدیث .٤١٦)
۳. لہذا علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث۵۲۹).
پانچویں حدیث :
قال الامام الطبرانی : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ زَكَرِيَّا، نا عَمْرُو بْنُ الْحُصَيْنِ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلَكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ضَحُّوا وَاحْتَسِبُوا بِدِمَائِهَا، فَإِنَّ الدَّمَ وَإِنْ وَقَعَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ يَقَعُ فِي حِرْزِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ»
(أخرجه الطبراني في الأوسط)
ترجمہ : علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ائے لوگو ! قربانی کرو اور اسکے خون سے ثواب کی امید رکھو، بیشک خون زمین پر گرنے سے قبل ( اسکا ثواب ) اللہ کی حفاظت میں ہوجاتا ہے.
تحقیق : یہ روایت بھی موضوع ہے. چنانچہ :
۱. امام الذھبی رحمہ اللہ نے کہا کہ "عمرو بن حصین العقیلی"( سند میں موجود راوی) کو امام ابو حاتم نے "ذاھب الحدیث" ، ابوزرعہ نے "واہ"( واہیات) اور الدارقطنی نے "متروک" قرار دیا ہے. ( میزان الاعتدال للذھبی : ج.۳ ، ص.۲۵۳، رقم.٦٣٥١) اور امام الہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے "متروک الحدیث" قرار دیا ہے. ( مجمع الزوائد : ج.٤،ص.١٧، رقم الحديث.٥٩٣٦).
۲. اور شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے اسے"موضوع" قرار دیا ہے. ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث۵۳۰).
چھٹی حدیث :
قال الامام أحمد بن محمد بن حجر العسقلانی : وَرَدَ أَنَّ اللَّهَ يُعْتِقُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْ الضَّحِيَّةِ عُضْوًا مِنْ الْمُضَحِّي.
( أورده إبن حجر في التلخيص)
ترجمہ : روایت ہے کہ بیشک اللہ تعالی قربانی کےجانور کے ہر عضوکےعوض قربانی کرنے والے کے ایک عضو کو جہنم سے آزاد کرتا ہے.
تحقیق : یہ روایت بھی ثابت نہیں. چنانچہ :
۱. ابن حجر رحمہ اللہ ( المتوفی ۸۵۲ھ ) نے اس روایت کو غیر ثابت قرار دیتے ہوئے ابن الصلاح رحمہ اللہ ( المتوفی ٦٤٣ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ "ھذا حدیث غیر معروف، ولم نجد له سندا يثبت به " یعنی یہ حدیث غیر معروف ہے اور ہمیں اسکی کوئی ایسی سند نہیں ملی جس کے ذریعہ یہ ثابت ہوسکے. ( التخیص : ج.۳، ص.٣٤٣، رقم. ١٩٥٤ ، مزید دیکھئے : البدر المنیر لابن الملقن : ج.۹، ص.۲۷٦).
ساتویں حدیث :
نقله إبن الملقن : عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه قَالَ: «عظموا أضحياكم فَإِنَّهَا عَلَى الصِّرَاط مَطَايَاكُمْ»
( البدر المنیر)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی قربانی ( کے جانوروں ) کی تعظیم کرو کیونکہ یہ پل صراط پر تمہاری سواری ہوں گی.
تحقیق : یہ روایت سخت ضعیف ہے. چنانچہ :
۱. امام العجلونی رحمہ اللہ ( المتوفی ۱۱٦٢ھ) نے "کشف الخفاء" ( ج.۱، ص.۱۳۸) میں اس روایت کو "ضعیف" قرار دیا ہے اور کہا کہ مجھے شدید تلاش کے باوجود یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کس نے اسکی تخریج کی ہے، بلکہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے غیر معروف اور غیر ثابت قرار دیا ہے ( البدر المنیر : ج.۹، ص. ۲۷۳).
۲. نیز محدث العصر علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے اسکی ایک دوسری سند ذکر کرکے اس پر بھی "ضعیف جدا" کا حکم لگایا ہے. ( دیکھئے : سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : رقم الحدیث ١٢٥٥،٧٤).
۳. اور اسی بنیاد پر ابن العربی رحمہ اللہ نے کہا تھا : قربانی کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے اور مذکورہ روایت بھی انہیں غیر ثابت روایات میں سے ہے.( یعنی مروجہ روایات ثابت نہیں ، ورنہ فضیلت کے لئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور ثابت روایات ہی کافی ہیں)
(بحواله كشف الخفاء : ج.۱ ، ص.۱۳۸).
قارئین کرام ! اس مختصر تحقیق سے اب ان روایات کے باطل ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا. البتہ یہ بات مُسَلّم و یقینی ہے کہ قربانی کا عمل اسلام کے عظیم شعائر و عبادات میں سے ہے جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے نماز جیسی عبادت کے ساتھ کیا، جیسا کہ ابتداء میں ہی میں میں نے ذکر کیا( سورة الکوثر) ، نیز اسکی تاریخ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : ۳۷) .ترجمہ : اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں .نیز اسکی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر غصے کا اظہار فرمایا جو اسکی عظمت کو نظر انداز کرتا ہو. چنانچہ فرمایا : مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ يُضَحِّيَ فَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَحْضُرْ مُصَلَّانَا ( رواہ الحاکم و حسنه الألباني في صحيح الترغيب برقم : ١٠٨٧) . یعنی جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے ، وہ ہمارے عیدگاہ نہ آئے.
لہذا لازم ہے کہ ہم ثابت شدہ روایات کو ہی قربانی کی اہمیت و فضیلت میں بیان کریں اور ضعیف و باطل باتوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرنے سے بچیں کیونکہ اسکا انجام نہایت دردناک ہے. رب العالمین ہمیں اسکی توفیق عطا کرے.آمین