• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احرام والی خاتون کو نقاب پہننے سے کیوں منع کیا گیا ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
احرام والی خاتون کو نقاب پہننے سے کیوں منع کیا گیا؟

سوال:

آپکی ویب سائٹ کے سوال نمبر: (172289) کے جواب کے مطابق احرام کی حالت میں کسی عورت کیلئے نقاب اور دستانے پہننا منع ہے، جیسے کہ یہی بات حدیث مبارکہ میں بھی ہے، لیکن اس کے باجود آپ نے ذکر کیا ہے کہ عورت کیلئے چہرے کو نقاب یا برقع کے علاوہ کسی اور چیز سے ڈھانپنا ضروری ہے، اب میرا سوال یہ ہے کہ اگر چہرے کو ڈھانپنا ضروری ہے تو نقاب کو استعمال کرنے میں کیا حرج ہے؟

الحمد للہ:



"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج یا عمرہ کیلئے احرام باندھنے والی خاتون کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا " بخاری

لیکن یہ بات کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کیا ہو، اور نہ ہی کہیں یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ کھولنے کا حکم دیا ہو۔

اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین اجنبی مردوں کے پاس سے گزرتے وقت اپنے چہروں کو نقاب کے بغیر کسی اور کپڑے سے ڈھانپ لیتی تھیں۔

اس بات کا تفصیلی بیان فتوی نمبر: (172289) میں گزر چکا ہے۔

چنانچہ خواتین کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: خواتین ایسا کوئی لباس مت پہنیں جو انکے چہرے اور ہاتھوں کے مطابق سلا ہو ا ہو، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہاتھوں اور چہرے کو ڈھانپنا ہی منع ہے۔

اور یہ حکم بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ نے احرام والے مردوں کو قمیص اور شلوار پہننے سے روک دیا ؛ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام والا آدمی ننگا رہے، بلکہ تہہ بند اور چادر سے اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے۔

چنانچہ مرد کو جسم کے مطابق سلے ہوئے لباس پہننے سے منع کیا گیا، اور اسے شلوار قمیض کے علاوہ دیگر سادہ کپڑے سے جسم کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا، یہی حکم عورت کا ہے کہ اسے نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا، تاہم پھر بھی عورت اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کسی اور چیز سے ڈھانپ سکتی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو یہ اجازت نہیں دی کہ احرام یا کسی اور حالت میں چہرہ کھلا رکھے، بلکہ نقاب پہننے سے منع کیا گیا ہے، جیسے دستانے پہننے سے منع کیا گیا، ایسے ہی مرد کیلئے شلوار قمیص پہننے کی ممانعت ہے، اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ممانعت کے بعد اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بدن کے ان حصوں کو ڈھانپا ہی نہ جائے، بلکہ تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرد اپنے جسم کو تہہ بند اور چادر سے ڈھانپ کر رکھیں گے۔۔۔ اب یہاں نص کی مراد پر اضافہ کرتے ہوئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ عورت کیلئے اپنے چہرے کو سب کے سامنے کھلا رکھنا جائز ہے؟ کس نص کا یہ تقاضا ہے؟ کیا مفہومِ مخالف، عموم، قیاس، یا مصلحت کا یہ تقاضا ہے؟!


بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ عورت کا چہرہ مرد کے بدن کی طرح ہے، لہذا عورت کے چہرے کو ایسے لباس سے ڈھانپنا حرام ہے جو چہرے کیلئے مخصوص انداز سے تیار شدہ ہو، جیسے نقاب اور برقع وغیرہ ہیں، بلکہ اسکے ہاتھ کا بھی یہی حال ہے، کہ ہاتھوں کو ہاتھ کے مطابق بنے ہوئے دستانوں سے ڈھانپنا حرام ہے، جبکہ آستین سے ہاتھوں کو ڈھانپنا، اور سر کو اوڑھنی ، دوپٹے، اور کسی کپڑے سے ڈھانپنا کہیں بھی منع نہیں ہے" انتہی
" بدائع الفوائد " (2/664-665)

اور " فتاوى اللجنة الدائمة " (11/192-193) میں ہے کہ:

"حج یا عمرے کے لئے احرام باندهی ہوئی عورت کا نقاب یا دستانہ پہننا اس وقت تک جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ تحلل اول حاصل نہ کر لے، البتہ وہ اپنے سر پر ڈالے ہوئے ڈوپٹے سے اپنا چہرہ صرف اس وقت ڈهانکے گی، جب کہ اس کو کسی غیر محرم کی اس پر نظر پڑنے کا اندیشہ ہے، اور یہ اندیشہ ہمیشہ نہیں رہتا ہے، اس لئے کہ بعض عورتیں غیر محرم سے دور صرف اپنے محرموں کے ساتھ ہوتی ہیں، اور جو عورت غیر محرم سے دور نہیں ہو سکتی وہ اپنے چہرہ پر اوڑھنی ڈالے رکهے گی، اور اس طرح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی طرح وہ اپنے ہاتهوں کو بهی دستانہ پہننے كے بغیر عبایا وغیرہ کے آستین کے ذریعہ چھپائے گی۔


اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے، صلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم"

شیخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ، شيخ عبد الرزاق عفیفی، شيخ عبد الله بن غديان ، شيخ عبد الله بن قعود " انتہی


شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"حدیث: (عورت نقاب اور دستانے مت پہنے) کا مطلب یہ ہے کہ: ایسا کپڑاچہرے پر مت پہنے جسے خصوصی طور پر کاٹ کر چہرے کے مطابق سلائی کیا گیا ہو، یا ہاتھوں کیلئے تیار کیا گیا ہو، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ عورت اپنا چہرہ ، اور ہاتھ ڈھانپے ہی نہ ، کچھ لوگوں کی غلط فہمی ہے جو یہ مطلب بیان کرتے ہیں، ہاتھوں اور چہرے کو ڈھانپنا لازمی ہے، لیکن نقاب اور دستانوں کے بغیر" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (5/223)

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (7/165) میں کہتے ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کیا ہو، بلکہ وارد شدہ ممانعت نقاب سے متعلق ہے، اور چہرے کوکسی بھی شے سے ڈھانپنے کی نسبت نقاب سے ڈھانپناایک خاص امر ہے کیونکہ نقاب چہرے کا مخصوص لباس ہے ، تو گویا عورت کو چہرے کا مخصوص لباس استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسے مرد کو پورے جسم کا مخصوص لباس پہننے سے منع کیا گیاہے" انتہی

یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احرام والی عورت کو نقاب پہننے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ یہ چہرے کے مطابق تیار کیا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ عورت کے چہرے کو احرام کی حالت میں علمائے کرام مرد کے بدن کی طرح کہتے ہیں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/223954
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایسا کپڑاچہرے پر مت پہنے جسے خصوصی طور پر کاٹ کر چہرے کے مطابق سلائی کیا گیا ہو، یا ہاتھوں کیلئے تیار کیا گیا ہو
عورت کے لئے احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہننا منع تو نہیں ہے۔ پھر (سلے ہوئے) نقاب اور دستانے سے چہرے اور ہاتھوں کو نہ ڈھانکے لیکن بغیر سلے ہوئے کپڑوں سے چہرے اور ہاتھوں کا ”پردہ“ کرے ۔ بات کچھ سمجھ سے بالا تر ہے۔

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج یا عمرہ کیلئے احرام باندھنے والی خاتون کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا " بخاری
جو بات شریعت کا واضح حکم ہے، وہ بات اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تب بھی اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا لازمی ہے۔

لیکن یہ بات کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ ڈھانپنے سے منع کیا ہو، اور نہ ہی کہیں یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو چہرہ کھولنے کا حکم دیا ہو۔
نقاب اور دستانے کس لئے ہوتے ہیں؟ چہرہ اور ہاتھ کا پردہ کرنے کے لئے ہی تو استعمال ہوتے ہیں۔ جب احرام کی حالت میں ان کی ممانعت کردی گئی تو اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہی نا کہ احرام کے دوران چہرہ اور ہاتھ کا پردہ فرض اور لازمی نہیں ہے۔
اب اگر کوئی احرام والی خاتون مردوں کا سامنا ہونے پر کسی اوٹ سے اپنے چہرے کو مردوں کی نگاہوں سے دور کر لے تو یہ اس کا اپنا ذاتی اور محستحسن فعل ہوگا نہ کہ ایسا کرنا شریعت کا تقاضہ اور اس کے لئے لازمی ہوگا۔
پس تحریر: اس تحریر کا مقصد بحث برائے بحث کا آغاز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ امت میں پہلے سے موجود ایک نکتہ نگاہ کو واضح کرنا ہے۔ اسے سے متضاد رائے اوپر کے فتویٰ میں پہلے ہی بیان کردی گئی ہے، جس کے تجزیے اور جواب میں یہ دوسرا پوائنٹ آف ویو پیش کیا جارہا ہے۔ لہٰذا بحث برائے بحث سے گریز کیا جائے۔ شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
@یوسف ثانی بھائی آپ کے شبہات جو آپ نے پیش کئے ہیں جب تک اہل علم اس مسلے کی وضاحت نہ کر دے کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی کنفیوز ہو سکتا ہے لہذا اس مسلے کی وضاحت اہل علم سے کرتے ہیں -

@انس بھائی
@خضر حیات بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
خواتین کیلئے احرام کی حالت میں افغانی نقاب پہننے کا حکم ؟؟؟

خواتین کیلئے احرام کی حالت میں افغانی نقاب پہننے کا کیا حکم ہے؟ یہ نقاب مکمل طور پر چہرے کو ڈھک دیتا ہے، اس میں صرف آنکھوں کی طرف باریک کپڑے کا استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ باریک کپڑا مستقل طور پر لگا رہتا ہے جسے کھولا نہیں جاسکتا ۔

الحمد للہ:

خواتین کو احرام کی حالت میں نقاب یا برقعہ پہننے سے منع کیا گیا ہے؛ جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے (1741) ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(احرام کی حالت میں عورت نقاب مت پہنے اور نہ ہی دستانے زیب تن کرے)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابن منذر نے کہا: سعد، ابن عمر، ابن عباس، اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے برقعہ کے بارے میں کراہت ثابت ہے، اور ہم کسی ایسے اہل علم کو نہیں جانتے جنہوں نے انکی مخالفت کی ہو۔۔۔۔۔ لیکن اگر قریب سے مردوں کے گزرنے کی وجہ سے چہرہ ڈھانپنے کی ضرورت پڑے تو اپنے سر کی جانب سے اپنے چہرے پر کپڑا لٹکا لے، یہ بات عثمان اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، اور اس بات کے قائلین میں عطاء، مالک، ثوری، شافعی، اسحاق، محمد بن الحسن، شامل ہیں، اور ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے، اس لئے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "قافلے ہمارے قریب سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام میں تھیں، چنانچہ جب وہ ہمارے قریب آتے تو ہم اپنی چادروں کو سر سے چہرے پر لٹکا لیتی تھیں، اور جب وہ گزر جاتے تو پھر سے ہم چہرہ کھول دیتی تھیں"اسے ابو داود نے روایت کیا ہے"

"المغني" (3/154)

عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "حجاب المرأة المسلمة" میں صحیح قرار دیا ہے۔

مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر احرام والی خواتین اپنے چہرے کو ڈھکنے کیلئے سر سے کپڑا لٹکائیں گیں، اور نقاب یا برقعہ کا استعمال نہیں کریں گی، اور نہ ہی افغانی نقاب استعمال کریں گی، اس لئے کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ بھی برقع کی طرح ہوتا ہے، اس لئے خوتین کیلئے احرام کی حالت میں اسے پہننا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/97204
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دوران حج نقاب کیے رکھا تو کیا اس پرکچھ لازم آتا ہے !!!

دوبرس قبل میں حج پرگئي تومیں نے نقاب کیے رکھا ، پھرمجھے علم ہوا کہ دوران حج چہرہ ڈھانپنا جائز نہيں ، لیکن جب میں نے نقاب کیا تومجھے باوثوق ذرا‏ئع سے کہا گيا تھا کہ چہرہ ڈھانپنا جائز ہے ؟

الحمد للہ

1 - عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا اوراسے چھپانا اخلاق حسنہ میں شامل ہوتا ہے اللہ تعالی پردہ کرنے والیوں پربہت زيادہ رحم کرے ، میری دینی بہن شائد آپ کا سوال صرف دین کی حرص کی بنا پرہی ہے – اللہ تعالی آپ کی حرص اورزيادہ فرمائے – لیکن سب سے بڑی حرص یہ ہے کہ ہم ان دینی احکامات کی پابندی کریں جوعورت کو نماز ، اورحج میں نقاب اتارنے کا کہتے ہیں ۔

اورخاص کرنماز میں توکسی بھی حالت میں چہرہ ڈھانپنا حلال نہيں صرف اس صورت میں کہ اگرکوئي غیرمحرم مرد موجود ہوتو ، اورحج میں عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے چہرہ کوچادر سے چھپائے لیکن اس کے لیے نقاب پہننا جائزنہيں نقاب جسے برقع کہا جاتا ہے ( یعنی چہرے کے ساتھ چمٹ والے نقاب جودونوں طرف سے باندھا جاتا ہے ) عورت کےلیے احرام کی حالت میں اسے باندھنا جائز نہيں ۔

لیکن اس کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ اپنے چہرہ کواپنی اوڑھنی کے ذریعہ یعنی سرسے کپڑا نیچے ڈال کرچہرہ چھپائے ( یعنی جب غیرمحرم مرد سامنے آئيں تواسے چہرہ چھپانا ہوگا ) لیکن اگر نقاب کے علاوہ اورکچھ ملنا مشکل ہواوراس کے سامنے غیرمحرم مرد آجائيں تواس حالت میں وہ نقاب کے ذریعہ ہی اپنا چہرہ چھپا لے وگرنہ نہيں ۔

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص کھڑے ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں آپ ہمیں کیا پہننے کا حکم دیتے ہيں ؟

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم نہ توقمیص پہنو اورنہ ہی سلوار اورپاجامے ، اورنہ ہی پگڑی باندھو اورنہ ٹوپی پہنو ، لیکن اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تووہ موزے ٹخنوں سے نیچے کاٹ کرپہن لے ، اورتم زعفران اور ورس لگی ہوئي کوئي چيز نہ پہنو ، اوراحرام والی عورت نقاب نہ کرے اورنہ ہی دستانے پہنے )

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1468 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1177 ) ۔

2 - اوراجنبی اورغیرمحرم مردوں کے ڈر سے نقاب کے علاوہ کوئي کپڑا وغیرہ لٹکا کرچہرہ چھپانے کے جواز کے بارہ میں کئی ایک صحابیات سے ثابت ہے کہ وہ ایسا کیا کرتی تھیں :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں توہم احرام کی حالت میں تھیں ، جب ہم سے کوئي قافلہ ملتا توہم اپنے چہرے پرکپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1833 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2935 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وارد نہيں کہ آپ نے احرام والی عورت پرچہرہ ڈھانپنا حرام کیا ہو ، بلکہ آپ نے اس پرصرف نقاب کرنا حرام کیا ہے کیونکہ چہرے کا لباس ہے ، اورنقاب اورچہرہ ڈھانپنے میں فرق ہے ، لھذا اس بنا پر اگراحرام والی عورت سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا توہم کہيں گے :

اس میں کوئي حرج نہيں لیکن افضل یہ ہے کہ جب اس کے ارد گرد غیرمحرم مرد نہ ہوں تووہ چہرہ ننگا رکھے ، اس کے لیے ان غیرمحرم مردوں سے چہرا چھپانا واجب ہے ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 7 / 153 ) ۔

3 - جوکچھ آپ کے ساتھ حج میں گزرا اورجوصورت آپ نے ذکر کی ہے اس کی نسبت ہم یہ کہیں گے کہ جہالت کی بنا پرآپ کے معذور ہونے کی وجہ سے آپ کے ذمہ کچھ لازم نہيں آتا ، اوراحرام کی حالت میں جتنی بھی محظورات جہالت یا بھول کرکی جائيں اس پرکوئي گناہ نہيں ہوتا اورنہ ہی فدیہ لازم آتا ہے

یعلی بن امیۃ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جعرانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا اوراس کی داڑھی اورسر پرزرد رنگ کی خوشبو لگي ہوئي اوراس پرایک جبہ تھا وہ کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میں عمرے کا احرام باندھا ہے اوراس حالت میں ہوں جسے آپ دیکھ رہے ہيں :

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :


اپنے اوپرسے جبہ اتار دو اوریہ زرد رنگ ( کی خوشبو) دھو ڈالو ، اورجو کچھ تم اپنے حج میں کرنےوالے تھے وہی اپنے عمرہ میں کرو ۔

دیکھیں : صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1697 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1180 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اورنسیان وبھول کی طرح ہی جہالت اوراکراہ یعنی جبر بھی ہے : یعنی اگرکسی انسان نے احرام کی حالت میں بھول کرکپڑے پہن لیے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا ، لیکن صرف اتنا ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے تووہ فورا کپڑے اتارے اوراوپرنیچے دوچادریں پہن لے ۔

اور اسی طرح خوشبو بھی ہے کہ اگر اس نے بھول کر احرام کی حالت میں خوشبو استعمال کرلی تواس پرکچھ بھی لازم نہيں آتا ،لیکن یہ ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اسے دھونے میں جلدی کرے ۔

دیکھیں : الشرح الممتع لابن ‏عثیمین ( 7 / 222 ) ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/4182
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اللہ اور اللہ کے رسول صلی الہ علیہ وسلم کا ہر حکم قیامت تک کے لئے ہے۔ آج سے صرف ساٹھ ستر سال پہلے حج و عمرہ میں لوگوں کے رش کی صورتحال ایسی نہ تھی جو آج ہے۔ تب تک ہر مرد و خواتین انتہائی آرام و سکون کے ساتھ مناسک حج ادا کیا کرتے تھے۔ تب خواتین کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ نقاب اور دستانہ استعمال کئے بغیر بھی مناسک حج و عمرہ کے دوران سامنے سے آنے والے نامحرم مردوں سے اپنے چہرہ اور ہاتھوں کا ”پردہ“ کر سکے۔ کیا عملاً آج یہ ممکن ہے ؟ اور اگر ممکن ہے بھی تو کتنی فیصد خواتین کے لئے ایسا ممکن ہے۔ جب دین میں آسانی موجود ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اسے مشکل تر بناکر پیش کریں تاکہ کوئی اس پر عمل ہی نہ کرسکے۔
گزشتہ دوتین دہائیوں کے دوران حج کرنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایام حج میں، عرفات سے مزدلفہ روانگی ہو یا مزدلفہ سے منیٰ واپسی، طواف کعبہ ہو یا صفا و مرویٰ کی سعی، کسی خاتون کے لئے یہ عملاً یہ ”ممکن“ ہی نہیں (الا ماشاء اللہ) کہ وہ نقاب اور دستانہ استعمال کئے بغیر (جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی لگائی ہے) اپنے چہرہ اور ہاتھوں کو مردانہ نگاہوں سے پردہ کراسکے۔ بلکہ اکثر اوقات تو وہ دھکم پیل ہوتی ہے کہ مرد و زن ایک دوسرے سے ٹکراتے بھی رہتے ہیں۔ صرف وہ خواتین اس دھکم پیل میں مردوں سے ٹکرانے سے محفوظ رہ پاتی ہیں جن کے ساتھ بہت سارے مرد محرم حج کر رہے ہوں اور وہ مل جل کر انہیں اپنے گھیرے مین مناسک حج کروا رہے ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اس امر میں شریعت کا حکم واضح ہے ، اور مسئلہ خواتین اور مسلمان گھرانوں میں شعور اجاگر کرنے کا زیادہ ہے۔ہماری معلمات بھی باقاعدہ خواتین کو بغیر نقاب اور دستانے کے پردہ کرنے سے آگاہ کرتیں ہیں۔زیادہ تفصیل سے خواتین دیکھ کر ہی سمجھ سکتیں ہیں ، لیکن مختصر یہ کہ سر پر اوڑھنے والا دوپٹہ اس انداز سے لیا جاتا ہے کہ اوڑھنی میں بھی آ جائے، اور دوران رش یہ اتنی مشکل کا باعث نہیں ، جتنا کہ لوگ مشکل سمجھتے ہیں ، بد قسمتی سے دین کے احکامات میں ہمارا مسئلہ "پریکٹس" نہ ہونا ہے ، اس لیے عملی طور پر مشکلات لگتی ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حج میں چہرے کا پردہ
قرآن حکیم میں عورت پر باہر نکلتے وقت جلباب (ایسا کپڑا جو اس کے جسم ،سر پاؤں اور زینت کوڈھانپ لے ) کو اوڑھنا فرض قرار دیا گیا ہے ۔ لہذا عورت جب احرام کی حالت میں باہرنکلتی ہے تو بھی اس جلباب سے جسم اور چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں دورانِ حج جلباب نہ اوڑہنے کا کوئی حکم نہیں ملتا۔دوران ِ احرام عورت پر نقاب(سلا ہوا وہ مخصوص کپڑا جوصرف چہرے کوچھپانے کے کام آتاہے ) باندھنا اسی طرح ممنوع ہے جس طرح دستانے یا زغفران سےرنگے ہوئے کپڑے پہننا ممنوع ہے یاجس طرح مرد پر دوران ِ احرام سر ڈھانپنایا سلے ہوئے کپڑے پہننا یا ٹخنے ڈھانپ لینے والے جوتے پہننا ممنوع ہے۔ نقاب ایک مخصوص کپڑے کا نام ہے حجاب کا نام نہیں۔ دورانِ احرام عورت پر نقاب باندھنا ممنوع ہے لیکن حجاب دورانِ حج ہو یا اس کے علاوہ ہر حالت میں اس پر فرض ہے۔ لہذا وہ دورانِ احرام بھی حجاب (چہرے کاپردہ) کرنے کی پابند ہے۔ جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوران ِحج اپنی جلباب(بڑی چادر) کو مردوں کےسامنے پر چہرے پر ڈال لیتی تھیں۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے اسی مذکورہ مسئلہ کو قرآن واحادیث اور علمائے اسلام کے فتاویٰ کی روشنی میں اختصار کےساتھ عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی اسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے۔آمین۔
http://kitabosunnat.com/kutub-library/haj-mein-chehrey-ka-parda.html
 
  • پسند
Reactions: Dua
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر احرام والی عورت اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھے تو چہرے اور پردے کے درمیان فاصلہ رکھنا ضروری ہے؟

سوال: میں نے سنا ہے کہ : احرام کی حالت میں خواتین کے چہرے کو ڈھانپنے کیلئے استعمال ہونے والا کپڑا لازمی طور پر ناک سے دور رہے، کیا یہ بات درست ہے؟

الحمد للہ:

ہر مسلمان عورت پر اجنبی مردوں سے چہرہ چھپا کر رکھنا ضروری ہے، اور اگر خاتون حالت احرام میں ہو تو نقاب کے بغیر کسی اور کپڑے سے چہرہ چھپائے گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام والی خواتین کو نقاب پہننے سے منع کیا ہے۔

یہ مسئلہ تفصیلی دلائل کے ساتھ فتوی نمبر: (172289) میں پہلے گزر چکا ہے۔

اور اگر احرام والی خاتون اپنے چہرے کو دوپٹے یا اوڑھنی وغیرہ سے چھپائے تو اس کیلئے چہرے اور کپڑے کے درمیان فاصلہ رکھنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی کوئی بات منقول ہے جس سے چہرے اور پردے کے درمیان فاصلہ رکھنا لازمی قرار پاتا ہو، بلکہ عہد نبوی میں خواتین کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔

چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:

"حجاج کےقافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ احرام کی حالت میں تھیں، چنانچہ جیسے ہی قافلہ ہمارے قریب ہوتا تو ہر خاتون اپنی اوڑھنی کو سر کی جانب سے چہرے کے آگے لٹکا لیتی، اور جب قافلہ گزر جاتا تو ہم چہرہ کھول لیا کرتی تھیں" احمد، ابو داود، ابن ماجہ

اور یہ بات عیاں ہے کہ جس اوڑھنی کو سر کی جانب سے چہرے پر لٹکایا جائے تو وہ لازمی طور پر چہرے کو چھوئے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (26/112-113) میں کہتے ہیں:

"اور اگر کوئی خاتون اپنے چہرے کو ایسی چیز [کپڑے وغیرہ]سے ڈھانپے جو چہرے کو نہ چھوئے تو یہ بالاتفاق جائز ہے، اور اگر یہ چیز چہرے کو چھو بھی جائے تو تب بھی صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے، لہذا کسی عورت کو اپنا پردہ چہرے سے دور رکھنے کیلئے لکڑی یا ہاتھ وغیرہ استعمال کرتے ہوئے تکلّف کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے چہرے اور دونوں ہاتھوں کے بارے میں یکساں حکم دیا ہے، اور یہ دونوں مرد کے بدن کے حکم میں ہیں، سر کے حکم میں نہیں ہیں، ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے چہروں کے سامنے پردے کیلئے کپڑا لٹکا لیتی تھیں، اور کپڑے کو چہرے سے دور رکھنے کیلئے کوئی اہتمام نہیں کرتی تھیں۔" انتہی

احرام کی حالت میں مرد کے بدن اور سر میں یہ فرق ہے کہ : مرد کیلئے احرام کی حالت میں ایسی چیز کیساتھ سر ڈھانپنا منع ہے جو سر کیساتھ متصل ہو، چاہے یہ چیز عادتًہ سر پر لی جاتی ہو یا نا لی جاتی ہو، جبکہ بدن کو ڈھانپنے سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ ایسے لباس سے منع کیا گیا ہے جو جسم کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "جب ہمارے قریب سے قافلے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنے چہرے پر اپنی اوڑھنی لٹکا لیتی تھی" [ام المؤمنین کے قافلے میں] کوئی بھی خاتون اوڑھنی کو اپنے چہرے سے دور رکھنے کیلئے کسی لکڑی وغیرہ کا استعمال نہیں کرتی تھی، جبکہ کچھ فقہائے کرام [لکڑی وغیر استعمال کرنےکے] قائل بھی ہیں، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام کی ازواج اور امہات المؤمنین سے عملاً یا قولاً یکسر ثابت نہیں ہے، چنانچہ ایسی چیزوں کا استعمال احرام کا بنیادی حصہ اور شعار نہیں ہوسکتا جس کا جاننا ہر عام و خاص پر لازمی ہو۔"انتہی
" بدائع الفوائد " (2/664-665)

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"احرام والی خواتین کیلئے اپنے دوپٹے وغیرہ کو چہرے کے آگے ڈالنا جائز ہے، اس کیلئے کسی ایسی چیز کو استعمال ضروری نہیں ہے جو کپڑے کو چہرے سے الگ رکھے، اور اگر یہ کپڑا چہرے کو لگ بھی جائے تو عورت پر کچھ لازم نہیں ہوگا؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے وہ کہتی ہیں: " قافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم ۔۔۔" اور گذشتہ مکمل حدیث ذکر کی" انتہی
" مجموع فتاوى شیخ ابن باز " (16/54-55)

ابن باز رحمہ اللہ اسی طرح (16/56) میں کہتے ہیں:

"بہت سی خواتین کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے پردے کے نیچے کسی ایسی چیز کا استعمال کرتی ہیں جو کپڑے کو چہرے سے دور رکھے، ہمارے علم کے مطابق شریعت میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اگر یہ کام شرعی ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ضرور بتلاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس مسئلے کیلئے خاموشی اختیار کرنا آپ کے لئے جائز نہیں تھا" انتہی

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر خاتون کا حجاب احرام کی حالت میں چہرے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بر خلاف ان اہل علم کے ، کہ جن کا کہنا ہے کہ : "احرام کی حالت میں چہرے سے پردے کو دور رکھنا لازمی ہے" کیونکہ انکی بات کتاب و سنت کے دلائل سے بالکل عاری ہے" انتہی
" مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" (22/184)

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/227097
 
Top