• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احسان کیا ہے ؟

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

احسان کیا ہے ؟

حدیث جبرائیلؑ کا ایک حصہ

..........قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ ……….

……….اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول احسان کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے……….
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 100

یہ حدیثِ جبریلؑ کا ایک حصہ ہےاس میں '' احسان '' کا تذکرہ ہو رہا ہے ، عبد کا معبود کو دیکھنے کا نہیں۔ عبادت صرف نماز ہی تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ عبادت کا مطلب ہے ہر لمحہ زندگی کا اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گزارنا۔ احسان کا مطلب ہے کسی کام کو بہترین انداز میں ادا کرنا۔ لہذا یہاں سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا کہ ہمیں اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گزارنی چاہیے اور یہاں اسی مفہوم میں عبادت اور احسان کا ذکر ہوا ہے۔ اور کامل اطاعت اسی وقت ممکن ہے جب اس میں '' رضا '' کا عنصر شامل ہو۔ حدیث کے اس حصے میں تھوڑا سا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ احسان کی کیفیت کو پانے کےلیے نبیﷺ نے احسان کے متعلق دو باتیں ارشاد فرمائیں ہیں ۔ پہلی کیفیت کے بارے میں فرمایا کہ '' گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے'' جبکہ پہلی کیفیت نہ ہونے کی صورت میں دوسری کیفیت کے متعلق فرمایا کہ ''پس بےشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے'' اب ہم احسان کی ان دونوں کیفیتوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے کہ ان کا قرآن وسنت کی روشنی میں کیا مطلب ہے اور ان دو کیفیتوں میں کیا فرق ہے چناچہ ہم احسان کی دونوں کیفیتوں کو دو درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

پہلا درجہ ( مقربینِ الٰہی)

کانک تراہ (گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے)

اس حدیث میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہےکہ جس طرح ایک شخص اپنے محبوب کو سامنے دیکھتا ہے اوراس سے ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہونا چاہتا اور اس کیفیت کو برقرار رکھنے کے لیے محبوب اپنے چاہنے والے سے کامل اطاعت کی شرط لگاتا ہے تو وہ شخص اپنے آپ کو اپنے محبوب کے ہر حکم کے آگے بلا چون و چرا جھکا دیتا ہے کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ معصیتوں اور گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جائےاور اپنے آپ کو اپنے محبوب کے رخِ انور کے دیدار سے محروم کر لے۔ اس بات کی وضاحت ان آیات سے بھی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَهُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ ٢٠٧؁
اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 207

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢؀ۙ
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔
قرآن ، سورت الانعام ، آیت نمبر 162

وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗٓ اِلَى اللّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۭ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ 22؀
جو شخص اپنا رخِ اطاعت اللہ کی طرف جھکا دے اور وہ (اپنے عَمل اور حال میں) صاحب احسان بھی ہو تو اس نے مضبوط حلقہ کو پختگی سے تھام لیا، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔
قرآن ، سورت لقمٰن ، آیت نمبر 22

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ 32؀ۭ
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں پسند فرمایا۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں یہ بڑا فضل ہے۔
قرآن ، سورت فاطر ، آیت نمبر 32

اوپر بیان کردہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے درجے والے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں دے دیتے ہیں چونکہ ایسے لوگوں میں قربانی اور جانثاری کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے اس لیے وہ اپنی جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتے گویا کہ وہ اپنی '' رضا '' کو فقط اللہ تعالیٰ کی '' رضا و قضا '' کی خاطر بیچ دیتے ہیں۔ وہ نیکوکاری میں دوسروں سے بازی لے جاتے ہیں اور دوسروں کے لیے قابلِ اتباع بن جاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل کے صحیح حقدار ٹھہرتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقت میں '' سمعنا و اطعنا '' اور '' اشد حب للہ '' کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔ یہی '' سابقون '' یعنی '' مقربینِ الٰہی '' کا معزز خطاب پاتے ہیں۔

دوسرا درجہ ( اصحاب الیمین)

فانہ یراک ( پس بیشک وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے)

ہم نے پہلے حصے میں بتایا کہ عبادت کا سب سے اونچا معیار اور مقام تو یہی ہے کہ اپنے آپ کو ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو اور اسی مقام کو حاصل کرنے کی تمہیں جدو جہد اور محنت کرنی چاہیے تاہم اگر تم اس معیار پر پورا نہیں اترتے اور دین کے ہر پہلو پر اگر عمل کرنا تم کو دشوار نظر آتا ہے اور طبیعت میں '' رضا '' کے عنصر کے ساتھ ساتھ '' جبر '' کی بھی آمیزش ہے تو فرائض کی پابندی اور محرمات کے ارتکاب سے اجتناب کرتے ہوئے کم از کم اس بات سے تو بے خبر اور بے نیاز نہ رہو کہ ایک باطن ہستی تم کو ہر آن اور ہر وقت تم پر نظر رکھے ہوئے ہے جس سے تمہاری کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔

اس دوسرے پہلو کی وضاحت ان آیات سے بھی ہوتی ہے:-
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا 31؀
اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 31

وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ 37؀ۚ
اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں۔
قرآن ، سورت الشورٰی ، آیت نمبر 37

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ١٣٥؁
اور جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔
قرآن ، سورت آل عمران ، آیت نمبر 135- 134

وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۙ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَاۗءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى 31؀ۚاَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ۭ
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے اور ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بےحیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے گناہ کے ۔
قرآن ، سورت النجم ، آیت نمبر 31-30

ان آیات سے اس بات پر روشنی پڑتی ہےکہ اس مقام اور درجہ میں ایسے لوگوں کا رویہ پہلے درجے کے لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی کرتے ہیں اور اس ہی کے حکم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کبھی شیطان یا اپنے نفس کے نرغے میں آ کر بسا اوقات معصیت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ تو کبائر کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں مگر ان کی یہ کیفیت محض تھوڑی دیر تک ہی رہتی ہے اور وہ جلد ہی اپنے پروردگار کے حضور توبہ و استغفار کر کے اپنی اصلاح کر لیتے ہیں۔ وہ معصیت میں مبتلا رہنے کی کیفیت کو اپنا شعار نہیں بناتے بلکہ ہروقت اپنے خالق و مالک کی بندگی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔چناچہ اگروہ نیکی کا رویہ اپنائیں رکھیں اور برائیوں میں اتنے نہ پھنسیں کہ کبائر تک نوبت آئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی محدودنہیں کہ انہیں صرف صغائر کے ارتکاب پر عذاب دے بلکہ وہ انکی چھوٹی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور انہیں عزت کا مقام و مرتبہ بھی عطاء فرمائےگا۔

ایک حدیث کی روشنی میں وضاحت اور درجوں کا فرق

……….وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّهُ……….
……….اور میرا بندہ میری فرض کی ہوئی چیزوں کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں……….
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1449

حدیث کا یہ حصہ بھی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ دوسرے درجے والوں کا رجحان زیادہ تر فرائض کی ادائیگی کی طرف ہوتا ہے جبکہ پہلے درجے والے فرائض کے علاوہ نوافل کو بھی ادا کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔

لہذااس توضیح و تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں رہتی کہ '' احسان '' کا پہلا درجہ (مقربینِ الٰہی) ''کانک تراہ '' اور دوسرا درجہ (اصحاب الیمین) '' فانہ یراک '' کا کیا مطلب اور فرق ہے۔

مزید یہ کہ حدیثِ جبریلؑ کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ '' احسان یہ ہے کہ گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو '' بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ '' احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے '' تو پتہ چلا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر احسان کے ساتھ ہو رہا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا۔

نوٹ:-
پی-ڈی-ایف مارمٹ میں یہ مضمون ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے فائل ساتھ منسلک ہے۔
 

اٹیچمنٹس

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
اسی طرح قرآن و حدیث دونوں بیان کرنا چاہئے۔
 
Top